یہ وقتِ مسلم ہے ، یہ دور مطیع الرحمان کا ہے

بنگلہ دیش میں جماعت اسلامی کے امیر مطیع الرحمان نظامی کو پھانسی دے دی گئی۔حصول ِ پاکستان کے لیے قربانیاں دینے والوں ، اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرنے والوں ، اپنے سامنے اپنے جواں سال بیٹوں کے گلے کٹتے دیکھنے والوں نے کبھی سوچا بھی نہ ہوگا کہ جس ملک کے لیے وہ اس قدر قربانیاں دے رہے ہیں کل اسی ملک میں نظریۂ پاکستان کے پاسبانوں کو پھانسی چڑھایا جائے گا ۔اسلام کے نام پر بننے والے اس ملک پر ایسے حالات بھی آئیں گے ۔وہ بنگال جس نے مسلم لیگ کی بنیاد رکھ کر نظریہ ٔ پاکستان کو عملی تعبیر بخشی اُسی بنگال نے نظریہ پاکستان کو سمندر برد کیا اور آج اسی بنگال میں پاکستان کے نظریاتی حمایتیوں کو چن چن کر ختم کیا جارہا ہے ۔دوسری طرف باقی ماندہ پاکستان میں بھی نظریہ ٔ پاکستان کو سیکولر ازم کے تابوت میں بند کردیا گیا ہے، جس کی بنیاد ، اوڑھنا بچھونااسلام بتایا گیا تھا آج اس پاکستان کو لبرل ازم کا کفن پہنا کر رخصت کیا جا رہا ہے اور اسلام مخالف قانون سازیوں کے ذریعے آخری رسومات ادا کرنے کی تیاریاں ہیں۔ اس کی جگہ جو نیا پاکستان وجود میں آرہا ہے اس میں اسلام نام کی کسی شے کی گنجائش نہیں ہے۔اسلام کے نام لیوا بنیاد پرست اور انتہا پسند کہلائیں گے ۔نفاذ اسلام کی کوشش ریاست کے خلاف بغاوت اور اس کے مرتکب ریاست کے باغی اور غدارقرار پائیں گے ۔ نسل نو کی نظریہ ٔ پاکستان کے مطابق تربیت اور ذہن سازی کا بنیادی ذریعہ نصاب تعلیم تھا جس میں سے اسلام کو پہلے ہی نکال دیا گیا ہے چنانچہ اب کالجوں اور یونیورسٹیوں سے اسلام مخالف آوازیں اٹھنا شروع ہو چکی ہیں۔ ہولی اور دیوالی قومی تہوار بنتے جارہے ہیں حتیٰ کہ اسرائیل کی حمایت میں بھی ثقافتی میلے اور سیمینارز منعقد کرنے کی خبریں ہیں ۔حکمران اور سیاست دان’’بھارت ماتا کی مالا جپ رہے ہیں ‘‘اور ہولی و دیوالی کی رسموں میں شریک ہوکر اﷲ کے باغی اوراس کے دین کے دشمن مشرک بنئے سے وفاداری کا ثبوت دے رہے ہیں ۔ وہ مودی جو اپنی پیشانی پر مسلمانوں کے خون کا ٹیکا سجاکر وزیر اعظم بن گیا ، جس نے مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلی اور اس کے دور حکومت میں ’’ گھر واپسی ‘‘ جیسے دجالی حربوں کے ذریعے مسلمانوں کو زبردستی ہندو بنایا جارہا ہے ،مسلمانوں کو زندہ جلایا جارہا ہے اور ان کی املاک پر قبضہ کیا جارہا ہے ، کشمیر میں مسلمان بیٹیوں کی عصمتیں پامال ہورہی ہیں ، اس مودی کو ہمارے حکمرانوں کی طرف سے تحفے جارہے ہیں اور اسی مودی کو سعودی حکومت کی جانب سے سعودیہ کے سب سے بڑے سول ایوارڈ سے نوازا گیا ۔ وہ مسلمان جن کے بارے میں اقبال نے کہا تھا ؂
کس کی ہیبت سے صنم سہمے ہوئے رہتے تھے
منہ کے بل گرکے ھواﷲ احد کہتے تھے

آج ان کے جانشین مودی کو عرب کی سرزمین پر مندر کے لیے جگہ دے رہے ہیں ۔اقبالؔ کا شکوہ بھی یہی تھا ؂
بت صنم خانوں میں کہتے ہیں کہ مسلمان گئے
ہے خوشی ان کو کہ کعبہ کے نگہبان گئے

نہ جانے دنیا بھر میں مسلمانوں کی ایسی کیا مجبوریاں بن گئیں ہیں ۔لندن میں ایک پاکستانی نژادمسلمان صادق خان کے میئر بن جانے پر مسلمان خوشی کے شادیانے بجارہے ہیں لیکن دوسری طرف وہی’’ صادق‘‘ خان لندن میں واقع سوامی نارائن مندر میں جاکر ، ماتھے پر سرخ ٹیکا لگا کر ،ہاتھ جوڑ کر بت کے سامنے کھڑے ہوتے ہیں ،مندر کے مجاور ( پجاری) سے ہاتھ پر سرخ دھاگہ بندھوانے سمیت پوجا پاٹ کی دوسری رسمیں ادا کرتے ہیں اور پھر سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر اس مندر کو اپنی پسندیدہ جگہ قرار دیتے ہیں ۔کیا ایک مسلمان کے لیے دنیوی عہدے اتنا ہی ضروری ہیں کہ جس کے لیے ایمان بھی بیچنا پڑے ۔ کاش !آج کے مسلمان نے اقبال کا یہ دعویٰ بھی غلط ثابت کر دیا ۔
قوم اپنی جو زرو مال ِ جہاں پر مرتی
بت فروشی کے عوض بت شکنی کیوں کرتی !
ایک وہ مسلمان تھے جو
تجھ سے سرکش ہوا کوئی تو بگڑ جاتے تھے
تیغ کیا چیز ہے ؟ ہم توپ سے لڑ جاتے تھے

اور ایک آج کے مسلمان ہیں کہ چند عہدوں کی خاطر اپنا ایمان بیچ رہے ہیں ، چند ڈالرز کی خاطر ملت کا مفادبیچ رہے ہیں ۔ہر طرف مسلمانوں کے حالات ایسے ہیں کہ سن کر کلیجہ منہ کو آتا ہے ۔اگر کہیں ’’ بگڑنے ‘‘ اور ’’ توپ سے لڑنے ‘‘ کا ذوق ہے بھی تو صیہونی ایجنسیاں وہاں اپناجال بچھا رہی ہیں اور اسی ’’ بگڑنے ‘‘ کو لندن ، پیرس ، بلجیئم حملوں اور نائن الیون جیسے واقعات کی آڑ میں اسلام کا بگاڑ ثابت کرنے کی کوشش کر رہی ہیں ۔کہیں داعش جیسی نام نہاد اسلامی جماعتوں کے ذریعے لفظ ِخلافت کو بدنام کر رہی ہیں اور’’ اسی انجینئرنگ بگاڑ ‘‘اور بدنامی کو باعث بنا کر اگر کہیں نفاذ اسلام کی حقیقی جدو جہد نظر آتی بھی ہے تو اسے اتحادی کچلنے کے لیے سرجوڑے بیٹھے ہیں ۔افغانستان اور مصر میں بگڑنے والے ہر توپ و تفنگ سے لڑچکے ۔ الاخوان ٹینکوں تلے روندے جاچکے اورافغانی طالبان ڈیزی کٹر بموں اور ڈرون حملوں میں اپنے جسموں کے پرخچے اُڑا چکے ۔ مگر ہر طرف طاغوت خندہ زن ہے ۔ کہیں السیسی اور کہیں اشرف غنی جیسوں کے ذریعے طاغوت اسلام کا راستہ روکے ہوئے ہے۔ایسے میں ایک لبرل مسلمان سوچ سکتا ہے کہ اگر اﷲ کو خلافت ہی منظور ہوتی تووہ الاخوان اورافغانی طالبان کو مزید موقع نہ دیتا؟

گلوبل سطح پر جس طرح سرمایہ دارانہ نظام کا شکنجہ مزید کسا جارہاہے اور اسلام کو ہر ملک و معاشرے سے نکالا جارہا ہے ۔ حتیٰ کہ پاکستان سمیت اسلامی ممالک میں بھی مختلف قانون سازیوں کے ذریعے اسلام کا صفایا کیا جارہا ہے اور اس کی جگہ لبرل ازم سرکاری مذہب قرار پارہاہے ۔ اسلام پسندوں کے خلاف کارپوریٹ سیکٹر ہر محاذ پر سرگرم ہے ۔علاوہ ازیں برما ، شام، فلسطین سے لے کر کشمیر تک مسلمان گاجر مولی کی طرح کٹ رہے ہیں ۔ ان کا جرم صرف مسلمان ہونا ہے ۔ ان تمام حالات کو دیکھتے سنتے ہوئے ایک عام مسلمان بھی اور شاید ایک تحریکی مسلمان بھی شکوہ کناں ہو۔
طعن اغیار ہے ، رسوائی ہے ، ناداری ہے
کیا تیرے نام پہ مرنے کا عوض خواری ہے ؟

بظاہر نظر بھی یہی آرہا ہے کہ ہر توپ و تفنگ سے لڑنے ، بگڑنے اور کٹ مرنے کے باوجود جماعت اسلامی بنگلہ دیش ، الاخوان ، طالبان افغانستان ، عافیہ صدیقی اور دنیا بھر کے تحریکی مسلمانوں کے لیے دھرتی تنگ ہو چکی ہے ۔ دنیا کے کسی بھی خطہ میں نفاذ دین کی کوئی صورت نظر نہیں آتی ۔ ہر طرف مایوسی ہے ۔ ہر مخلص مسلمان کا دل اُداس ہے ۔ جبکہ حسینہ واجد ، صادق خان ، ملالہ یوسفزئی اور طاغوتی طاقتوں سے مل جانے والے مسلمان حکمرانوں پر دنیاوی اقتدار و مال زر کی بارشیں ہیں اور اسلام دشمن طاقتوں کا تو پوری دنیا کے وسائل پر قبضہ ہے ۔
رحمتیں ہیں تیری اغیار کے کاشانوں پر
برق گرتی ہے تو بیچارے مسلمانوں پر !

لیکن یہ سارا ہولناک منظر دنیا کی نظر سے دیکھنے کا کرشمے کا ہے ۔ دنیوی چشمے اُتار کر حقیقت کی نظر سے دیکھا جائے تو تصویر کچھ اور بنتی ہے اور وہ سچے مسلمانوں کے لیے انتہائی حوصلہ افزا اور پُر کیف ہے ۔ اﷲ کے نبی ﷺ کی ایک متفق علیہ حدیث کا مفہوم ہے کہ یوم حساب ایک شخص کو پیش کیا جائے گا جس کا جسم تکا بوٹی ہو ا ہوگا ۔ پوچھا جائے گا یہ سب کیسے ہوا ۔ وہ کہے گا ۔ اے میرے رب دھرتی پر تیرے دین کی جدوجہد میں یہ حال ہوا ۔ اﷲ کی طرف سے اس شخص وہ مقام و مرتبہ اور درجات اور انعامات ملیں گے کہ دنیا میں مصلحتوں کا شکار رہنے والے ، وقت اور سماج کے ساتھ ساتھ لحظہ لحظہ بدلنے والے اور دنیوی مفادات، عہدوں اور وزارتوں کی خاطر دین کو پس پشت ڈالنے والے اور طاغوتی طاقتوں کے ساتھ مل جانے والے انتہائی حسرت کے ساتھ کہیں گے ۔ کاش ہمیں بھی چھریوں سے کاٹا گیا ہوتا ۔

لیکن وقت گزر گیا ہوگا ۔ دنیا میں لبرل سوچ یہی ہے کہ وقت اور سماج کے ساتھ چلنے والے ہی کامیاب ہیں ۔ لیکن حقیقت میں یہ وقت مطیع الرحمان نظامی جیسے ہر اس مخلص مسلمان کا ہے جس نے اپنی ذات پر ، اپنے گھر پر اور پھر اس معاشرے پر اﷲ کے دین کو غالب کرنے کی جدوجہد کی ۔ اسی جدوجہد میں دنیا میں مسائل اور مصائب کا شکار ہوا۔ جو رب پوری کائنات کو تخلیق کر سکتا ہے ، سورج ، چاند ، ستارے ، ہوا اور بادل ہر چیز کو ایک نظام کے تحت چلا رہا ہے ( جس کا انسان تصور بھی نہیں کر سکتا ) اس کے لیے اس دھرتی پر اپنا دین قائم کرنا ہر گز مشکل نہیں ہے ۔وہ توصرف مسلمانوں کی آزمائش کر رہا ہے کہ انہیں دنیا میں خلیفہ بنا دیا ، قرآن دے دیا ، منہج اقامت دین کا پورا نمونہ عملی طور پر فراہم کر دیا ۔ اب یہ مسلمان کی آزمائش ہے کہ وہ اقامت دین کے لیے کوشش کرتا ہے یا پھر دنیوی مصلحتوں کا شکار ہوکر طاغوتی طاقتوں سے دب جاتا ہے ۔ قرآن و حدیث کی رو سے پوری روئے زمین پر ایک بار اﷲ کا دین قائم ہوگا ، ہر گھر میں اسلام داخل ہوگا ۔ چاہے عزت کے ساتھ یا چاہے ذلت کے ساتھ ۔ لیکن اس کے بعد صرف قیامت کامرحلہ باقی رہ جائے گا کیونکہ دین قائم ہوجانے کے بعد مسلمانوں کی آزمائش ختم ہوجائے گی اور اس طرح اس دنیا کے باقی رہنے کا جواز بھی ختم ہوجائے گا۔ یہ دنیا اور اس کی ساری آزمائشیں صرف مسلمان کے لیے ہیں ۔اقامت دین کی جدوجہد ہی ایک مسلمان کاحقیقی منصب ہے ۔ جس دن اس کی یہ ذمہ داری ختم ہوگئی اس دن یہ دنیا بھی ختم ہوجائے گی ۔لہٰذا وقت جتنا مشکل ہے اتنا ہی ایک تحریکی مسلمان کے لیے اہم ہے ۔
Rafiq Chodury
About the Author: Rafiq Chodury Read More Articles by Rafiq Chodury: 38 Articles with 47290 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.