بےحسی

کیا مصیبت ہے ! آج ماسی کیوں نہیں آئ آخر؟
ماہا بڑ بڑاتے ہوئے کھانے کے برتن ڈائننگ ٹیبل سے لے جاکر کچن کی سلیب پر تقریبا پٹخ رہی تھی .
ایک ہی تو چھٹی کا دن ملتا ہے اور وہ بھی گھر کے کاموں کی نذر کردو ، اونہہ!
اس کی بیزاری اپنے عروج پر تھی ،
دراصل بات صرف اتنی تھی کہ مسز ملک کی کل وقتی ماسی نے آج خلاف توقع چھٹی کرلی تھی بنا اطلاع کیے !ورنہ وہ متبادل بندوبست کر لیا کرتی تھیں .
ان کی بیٹی ماہا بہت نازوں پلی ہونے کی وجہ سے قدرے نخریلی بھی تھی . وہ بی ایس آنرز کی طالبہ تھی اور حال ہی میں اس کا نکاح اس کے چچا زاد کاشف سے ہوا تھا جو کینیڈا میں مقیم تھا . چھٹی کے دن دونوں ویڈیو کالنگ کرتے اور مستقبل کے سہانے سپنے بنا کرتے !
مسز ملک گنٹھیا کی مریضہ تھی ان کے لئیے تو چلنا پھرنا ہی محال تھا سو آج کے دن ماسی کے حصے کا کام ماہا ہی کو کرنا تھا اور کاشف سے بات نہ کرنے کا تصور ہی اس کے لیئے سوہان روح تھا .
کہتے ہیں کہ ضرورت ایجاد کی ماں ہے سو آخر کافی سوچ بچار کے بعد اس کے زرخیز ذہن کو ایک آئیڈیا سوجھ ہی گیا ،
اس نے ماما سے ضروری کام کے بہانے سے اجازت لی اور اپنی لین کے کونے والے گھر میں چلی آئ . یہ آنٹی فاخرہ کا گھر تھا جن کے گھرانے سے ان کے گہرے مراسم تھے ، ان کے چھوٹے بیٹے علی کو اس نے دو تین گھروں میں بھیج کر ماسی کے گھر کا ایڈریس معلوم کیا جہاں وہ پہلے کام کرتی رہی تھی . ایڈریس پتہ چل جانے کے بعد وہ علی کے ہمراہ روانہ ہوئ .
پوچھتے پوچھتے وہ ایک پسماندہ سے ایریا میں پہنچ گئے،جا بجا گندے پانی کے جوہڑ تھے. جن کے قریب بہت سے ننگ دھڑنگ بچے کھیل رہے تھے ، علی نے ان سے ماسی فاطمہ کے گھر کے متعلق پوچھا تو ایک بچہ انہیں بھول بھلیوں جیسی گلیوں سے گزارتا ہوا ایک بوسیدہ سے مکان میں لے گیا.

اندر داخل ہوتے ہی اسے شدید گھٹن کا احساس ہوا ، کمرے میں نیم تاریکی تھی ، کچھ دیر بعد اس کی آنکھیں کچھ دیکھنے کے قابل ہوئیں تو دیکھا کہ ماسی بستر پر بے سدھ پڑی تھی جیسے غنودگی کے عالم میں ہو ، اس کی بیٹی کونے میں رکھی کرسی پرانے کپڑے سے جھاڑ کر لے آئ ، اس کے اصرار پر بادل نخواستہ اسے بیٹھنا ہی پڑا .
علی اس دوران باہر ہی کھڑا رہا ، ماسی کی بیٹی اسے بتانے لگی کہ ماں رات سے اسی طرح پڑی ہے.دوا لانے کے پیسے بھی نہیں ہیں کہ ڈاکٹر کو ہی دکھا لیتے !
ماہا اس کی بپتا سن رہی تھی مگر نظریں اس تنگ سی کوٹھڑی کا جائزہ لینے میں مصروف تھیں ،
ٹوٹا پھوٹا فرش،سیلن زدہ چھت اور دیواروں سے جھڑتا چونا ... اس پر مستزاد یہ کہ میگھ گھام (بادلوں کے باعث حبس )کی وجہ سے سانس لینا مشکل معلوم ہورہا تھا.

ماسی کی بیٹی نہ جانے کیا کیا کہہ رہی تھی مگر وہ تو جیسے گنگ سی بیٹھی تھی .حواس کچھ بحال ہوئے تو وہ اٹھ کر یوں باہر کی طرف بھاگی کہ اگر مڑ کر دیکھا تو پتھر کی ہوجائے گی.
باہر علی اس کا منتظر تھا .اس نے اس کے بیٹھتے ہی بائیک سٹارٹ کردی اور وہ واپس روانہ ہوگئے:
اس کی غیر معمولی خاموشی محسوس کرکے علی نے اس سے باتیں کرنے کی کوشش کی مگر جواب ندارد ! وہ محض شانے اچکا کر رہ گیا !
ادھر اس کے ذہن کے پردے پر ایک فلم سی چلنے لگی تھی .
ماما جب بھی ماسی کو کوئ اضافی چیز دینے لگتیں یا کچھ امداد کرنا چاہتیں تو وہی سب سے زیادہ احتجاج کیا کرتی ...
اس کا ہمیشہ یہی نقطہ نظر رہا کہ یہ کمی کمین لوگ اچھے بھلے ہوتے ہیں صرف دکھلاوے کے غریب بنتے ہیں . ان کو ان کی اوقات تک ہی رکھنا چاہئیے .
اسے یاد آیا کہ اس کے کچھ دینے سے روکنے پر ماما کئ بار رک جاتیں تو ماسی کی آنکھوں کے جلتے دیپ بجھ سے جاتے جو اس کے لئیے عجیب تسکین کا باعث بنتے ....
اس کی اترن لے کر ماسی کی خوشی کی انتہاء نہ رہتی اور وہ شکریہ ادا کرتے نہ تھکتی
تھی. بچا کھچا کھانا اسے دیا جاتا تو کسی متاع کی طرح سمیٹ کر ساتھ لے جاتی کہ بچوں کے بغیر نوالہ حلق سے اتارنا اسے دوبھر لگتا تھا.
ماہا سے چھوٹے اسد کے بےکار کھلونے بڑے شوق سے لے جاتی کہ بچے کھیل کر خوش ہونگے .
مگر......
آج وہ ، جو اپنے تئیں اسے رنگے ہاتھوں پکڑنے آئ تھی یہ سوچ کر کہ ماسی نے بہانے سے چھٹی کی ہے، خود اپنے ہی ضمیر کی عدالت میں مجرم بنی کھڑی تھی.

ماسی کی بری حالت اور اس کا ابتر گھر دیکھ کر اسے اس کا ضمیر اتنی لعنت ملامت کررہا تھا کہ اس لمحے اس کا چی چاہا،زمین پھٹے اور وہ اس میں سما جائے !
وہ سوچ رہی تھی کہ میرے رب کا تو میرے ساتھ ایسا معاملہ نہیں ، وہ تو مجھے بے حد و حساب دیتا ہے ، میری اوقات سے بھی بڑھ کر !
پھر ہم دوسروں کےلئیے کیوں حساب کتاب میں پڑ جاتے ہیں ، حالانکہ ہمارے مال میں اپنے بندوں کا حصہ رکھ کر وہ ہمیں آزما رہا ہوتا ہے اور بعض مرتبہ ہم خود اپنے ہی بنائے ہوئے اصولوں کی زد میں آجاتے ہیں. مگر اس وقت پانی سر سے گزر چکا ہوتا ہے .
دولت کی یہ تقسیم تو قسام ازل نے اپنے ہاتھ میں رکھی ہے. اگر ماسی میری جگہ ہوتی اور میں اس کی جگہ تو.....
یہ سوچ کر ہی وہ تھرا اٹھی ، اس کے بہتے آنسو اپنے رب سے معافی کے خواستگار تھے اور شکر گزار بھی کہ اس نے اسے گمراہی کی دلدل میں مزید دھنسنے سے بچا لیا تھا !
من یحرم الرفق،یحرم الخیر کلہ
جو نرمی (نرم دلی )سے محروم ہے گویا وہ ہر بھلائ سے محروم ہے !
اسی لیئے کہا گیا ہے:
کرو مہربانی تم اہل زمیں پر
خدا مہرباں ہوگا عرش بریں پر
تحریر : بنت میر

 
Sadia Javed
About the Author: Sadia Javed Read More Articles by Sadia Javed: 24 Articles with 18657 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.