تحفظ حقوقِ نسواں ماڈل بل ؟

اسلامی نظریاتی کونسل نے پنجاب حکومت کے لال بجھکڑوں کے تیارکردہ بل کو رد کرتے ہوئے قرآن و سنت کی روشنی اسلامی معاشرے کی تشکیل کے مدنظربل تو تیار کردیا اگرچہ یہ بل تشنۂ تکمیل ہے لیکن کوشش قابلِ تحسین ہے۔ اسلامی نظریاتی کونسل اپنی جگہ دیکھنا یہ ہے کہ یہ تیارشدہ بل صوبائی اور قومی اسمبلی کے اراکین کے پاس جائے گا تو وہ کس زاویہ فکر سے اس کو دیکھیں گے۔ ریت یہی رہی ہے کہ آج تک اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات کو عوام کے منتخب اراکین نے کبھی احترام کی نگاہ سے نہ دیکھا ۔ ایک مسلمان کی حیثیت سے اراکین کو اپنے دین سے وفا کرنی لازم ہے کیونکہ اس ملک کا آئین اسلامی ، قرآن و سنت سپریم لا اور ملک اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے۔ صرف قراردادِ پاکستان پاس کرنے والوں نے کردی لیکن انکے بعد اسمبلیوں میں جانے والے ملک و قوم اور دین اسلام کی خدمت کے نظریات سے خالی صرف حصول ِ دولت ان کی منزل ہے۔ اس منزل کے حصول میں اراکین اسمبلی نے شاندار کامیابیاں حاصل کیں جن کے ثمرات سے پاکستان کے عوام ہرلحظہ مستفیذ ہورہے ہیں۔ عوام کی فلاح کے لیئے حاصل کردہ بیرونی قرضوں سے حکمرانوں اور افسران نے گھروں کے واٹر ٹینک بھی نوٹوں سے بھر دیئے۔ بھوکے افلاس زدہ یورپ کے خزانے بھی بھر دیئے کہیں سوئیٹزر لینڈ کے بینک تو کہیں پانامہ کی آفشور کمپنیاں شور مچاتی نظر آئیں۔حکمرانوں نے اسلامی معاشرہ کے خدوخال بگاڑنے کے لیئے عوام کو اخلاقی اور مذہبی تعلیم سے دور کردیا۔ عورت کو سرعام مردوں کی نفسانی تسکین کا کھلونہ بنادیا۔ خوبصورت جاذبِ نظر خواتین کو بدمعاش سیاسی گروہوں نے سبز باغ دکھا کر شرم و حیا کی چادر اتروادی۔ مہنگائی کے عفریت نے جلتی پر تیل ڈالا کہ گھروں میں بیٹھی خواتین بھی مجبورا باہر نکل آئیں اور کچھ دنوں بعد انہوں نے بھی بے حیائی کے ہوائی رخ کا ساتھ دیا۔وہ اسلامی معاشرہ جو عورت کی عظمت، تقدس اور تحفظ میں پوری دنیا میں اپنی مثال آپ تھا، پاکستان میں اس کے خدوخال ایسے بگڑے کہ اب شائید ہی دوبارہ یہ اپنا مقام اصل کرے۔ جہاں رشتوں کی طلب میں لڑکے کے والدین لڑکی والوں کے ہاں سالوں جاتے جب کہیں مشکل سے رشتہ ملتا تو پھر نازوں کی پلی لڑکیاں بسا اوقات سسرال میں نانِ جویں پر گذارا کرتیں، اپنے میکے کے ناموس کا تحفظ کرتیں اور باپ کی نصیحت پر اختتام ہوتا کہ بیٹی اس گھر میں تجھے دیا اب اس گھر سے تیرا جنازہ نکلے۔ طلاق کی نوبت تو شاذونادر ہی سننے میں آتی تھی۔ ناچاقی ہوجاتی مگر طلاق کا مطالبہ نہ ہوتا پھر کئی کئی سال بعد بڑوں کی کوششوں سے عورتیں اپنے گھروں میں آباد ہوجاتیں۔ بچے پیدا کرنا، نمازیں پڑھنا، بچوں کو دین سکھانا، گھر کے کام کرنا ، زیادہ تر اپنے مال مویشی اور کھیتوں میں مشترکہ خاندانی کام سرانجام دینا۔ خاوند کی امانت اپنی عصمت کی پاسبان ہوتیں۔ عورت پر تشدد نام کو نہ تھا، جب مغربیت اور حکمرانوں کی عیاشیاں سامنے آئیں ان کی دیکھا دیکھی عورتوں نے اپنا مقام چھوڑ دیااور غیر محرموں کی طرف مائل ہوئیں اسی طرح مرد بھی غیرمحرم عورتوں کی طرف مائل ہوئے تو اس جھوٹے پیار بندھن نے گھر تباہ کردیئے ۔ عورتوں نے اور مرد منتخب کرلیئے مردوں نے اور عورتیں۔ بچوں کی زندگی تباہ کردی۔ اخلاقیات کا جنازہ نکل گیا۔ عورت ہی عورت کی تباہی کا سبب ہے۔ بدکاری کرنے والی نوجوان لڑکیوں کو مختلف جھانسے دے کر ، اچھی ملازمت، اچھے رشتے یا پیسے کا لالچ دے کر ہوس کے پجاریوں کے سامنے لاڈالتی ہے۔ پھر دیکھا دیکھی متعدی مرض کی طرح یہ سلسلہ پھیل گیا۔ لڑکیاں آزاد ہوگئیں جنہیں اوائل عمر میں ناتجربہ کاری نے برباد کرڈالا۔ اگر لڑکیوں کو یہ یقین ہوکہ ہمارے ماں باپ جنہوں نے کن کن مشکلات کا سامنا کرکے ہمیں بڑا کیاوہی ہمارے مستقبل کا بہتر فیصلہ کریں گے۔ تو بہت حد تک عورت تباہی سے بچ جاتی ہے۔ کئی لڑکیاں لڑکوں کے چکر میں پھنس کر اپنی عزت لٹابیٹھی ہیں۔ اپنی ہوس پوری کرنے کے بعد لڑکا شادی تو کرتا نہیں۔ مشکلات لڑکی کے لیئے پیدا ہوتی ہیں۔ کونسل کی تجاویز قابلِ قدر ہیں لیکن ضرورت اس امر کی ہے کہ نصابِ تعلیم کو مذہبی و اخلاقی بنایا جائے۔

ہمیں ہر کام میں قدامت پسندی سے کام لینا ہے۔ آج سے چالیس ،پچاس سال پہلے والے معاشرے کو دیکھنا ہوگا۔ کوئی اپنی بیوی پر تشدد کیوں کرے گا؟ اگر وہ بدکردار ہوگی تو اس کو گھر میں پابند کیا جائے گا یا ہلکی سزا دی جائے گی۔ جب تمام کوششیں بے سود ہوجائیں تو طلاق ہوگی اور وہ بھی ہر طہر پر ایک کہ ممکن ہے عورت کا دماغ ٹھیک ہوجائے۔ کیونکہ نیاسے ینا مرد دیکھنا ہر عورت پسند نہیں کرتی۔ کیونکہ شرم و حیا کا وصف عورت میں زیادہ ہے۔ کونسل نے تین طلاق دینے والے پر تعزیر کی تجویز تو دی لیکن طلاق کے بارے فیصلہ نہیں دیا کہ کیا طلاق واقع ہوگئی یا نہیں؟ یہ بھی دیکھ لیں کہ اسلاف میں کہیں ایسی کوئی مثال موجود ہے کہ تین طلاق دینے پر مرد پر تعزیر نافذ کی گئی ہو۔ غیر محرموں کا اختلاط ہی بدکاری کی بنیاد ہے۔ قانون موجود بھی ہیں اور نئے بھی بنائے جائیں لیکن عمل کرانے کے لیئے فرض شناس اور خداترس قوت نافذہ کی ضرورت ہے۔ عورت کے بہت سارے مسائل مقامی سطح پرحل ہوسکتے ہیں مثلا محلے کی مسجد کے امام کی سربراہی میں معززین کی مصالحتی کونسل قانونی تحفظ کے ساتھ قائم کی جائے اور معاشرتی مسائل کو محلہ مسجد کونسل کے حوالے کریں اور اس قانونی تحفظ حاصل ہو۔ تھانے اور کچہریوں کے چکر وقت کا ضیاع اور عزت نفس مجروح بھی مجروح ہوتی ہے۔ اﷲ تعالیٰ کا شکر ہے کہ عوام کی اکثریت کو اپنی بگڑتی صور حال کا احساس ہے۔ مصنوعات کی تشہیر کے لیئے خوبصورت لڑکیا ں ہی کیوں ضروری؟ بسکٹ، چائے یا دودھ کی تشہیر مردزیادہ اچھی طرح کرسکتے ہیں۔ اخلاق باختہ سلائیڈیں چلاناکیا ایک مسلمان کے لائق ہیں؟ پیمرا اپنا قبلہ درست کرے ،کیبلز اور الیکٹرانک میڈیا کے لیئے اپنے مذہب کے مطابق ضابطہ اخلاق بنا کر دے۔ قوم کی اخلاقی اور مذہبی سوچ کو بلند کریں۔ اب رمضان المبارک آیا چاہتا ہے۔ تاجر سے لے کر ریڑھی والے تک کہہ رہے ہیں یہی تو ہماری کمائی کا مہینہ ہے۔ اس میں ناجائز منافع خور ٰی حرام خور ی ہے۔پاکستانی مسلمانوں کو شرم آنی چاہیئے کہ غیر مسلم بھی رمضان میں ارزانی پیدا کرتے ہیں اور مسلم ممالک میں تو بہت کچھ ایثار ہوتا ہے۔ کاش پاکستان کا امیر ترین وزیراعظم ڈی چوک اسلام آباد میں افطاری اور سحری کے لنگر جاری کرتا۔ چلیں یہ عمران خان یا طاھرالقادری کے سپرد کرتے ہیں۔ شائید وہ جنت خرید لیں۔
AKBAR HUSAIN HASHMI
About the Author: AKBAR HUSAIN HASHMI Read More Articles by AKBAR HUSAIN HASHMI: 146 Articles with 127883 views BELONG TO HASHMI FAMILY.. View More