عالمی جنگ سے لے کر نفسیاتی جنگ تک۔۔

اقوام عالم میں بڑی طاقتوں نے ہمیشہ چھوٹی ریاستوں کو اپنے تابع رکھنے کی ہرطرح کی کامیاب کوشش کی ہے ۔یہ سب منصوبہ بندی کے تحت ہی کیا گیا ہے۔بیسویں صدی میں ہی دوعالمی جنگیں ہوئیں اور دونوں جنگوں کا مرکز ریاست برطانیہ ہی تھی جس نے اپنے مفادات کے تحفظ کے لئے اور دنیا پر قبضہ جمانے کے لئے یہ سب کچھ کیا۔ ہندوستان پر برطانوی قبضے کی ناکامی یہ دونوں عالمی جنگیں ہی رہیں جن کی وجہ سے برطانیہ کا کافی مالی دفاعی نقصان ہوا اور ہندوستان میں آزادی کی تحریکیں ختم ہونے کی بجائے زیادی بڑھ رہی تھیں۔سائنس وٹیکنالوجی کی ترقی بھی بیسویں صدی میں شروع ہوچکی تھی مواصلاتی نظام پرنٹ میڈیا یا الیکٹرانک میڈیا بھی کسی نہ کسی حالت میں ترقی کی راہ میں شامل ہوچکا تھا۔ حالانکہ ذرائع ابلاغ کی اگر تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو ہندوستان میں اخبارات کا آغاز انیسویں صدی میں ہوچکا تھا جب ایسٹ انڈیا کمپنی کی حکومت ہندوستان پر قابض تھی لیکن اس وقت اخبارات کی زبان انگریزی تھی اور وہ صرف حکومت کی تعریفات میں شائع ہوتے تھے۔ انیسویں صدی میں ہی سرسید احمد خان نے رسالہ شائع کیا لیکن وہ عوام کی اصلاح وفلاح پر مشتمل تھا سیاست وحکومت کو اس رسالے میں حصہ نہیں بنایا گیا۔ خیر بیسویں صدی میں بہت ساری تبدیلی آچکی تھی اخبارات ورسائل عوام کے شعور پر مبنی تھے اورحکومت وریاست پر تنقید شامل کرلی گء تھی چاہے اس کے لئے اخبارات شائع کرنے والوں کو جیل بھی جانا پڑا لیکن ان لوگوں نے عوام میں سیاسی شعور اجاگر کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ ہندوستانی عوام کا برطانوی سامراج سے چھٹکارا اور مسلمانوں کا ہندوؤں سے چھٹکارا بھی ان ذرائع ابلاغ کی تھوڑی بہت آزادی سے ممکن ہوا۔

برطانوی سامراج ہمیشہ سے ہی اپنی سوچ کی بدولت دنیا پر اپنا اثرورسوخ رکھنے میں کامیاب رہا ہے۔ان کی کامیاب ذہنیت نے یہودیوں کو یروشلم کی جانب بستیاں آباد کرانے میں ساتھ دیا۔ اسلامی خلافت کی آخری نشانی ترکی کو پہلی عالمی جنگ میں جرمنی کے ساتھ کھڑا کرکے حصے بخرے کردیا پھر دنیا میں امن قائم کرنے کے لئے اقوام عالم 'لیگ آف نیشن' قائم کی اور چند اپنے تابعداروں کو اس میں شامل کیا اور خود اس تنظیم کی سربراہی حاصل کی پھر دوسری عالمی جنگ میں اس تنظیم سے کوء خاطرخواہ نتیجہ نہ نکلنے پر تنظیم ختم کرڈالی لیکن چند سالوں بعد 1945 میں دوبارہ اقوام متحدہ یعنی 'یونائیٹڈ نیشن' قائم کی جس کا اجارہداری آج تک دنیا پر قائم ہے۔ بڑی طاقتوں کی پالیسیوں پر فوری عمل اور چھوٹی ریاستوں کو زیرکرنے کی پالیسی تاحال جاری ہے۔ انڈونیشیا کے مرحوم صدر ڈاکٹر احمد سوئیکارنو کا اقوام متحدہ کے بارے ایکجملہ انتہاء تاریخی ہے ''اقوام متحدہ بدمعاشوں کا ایک اڈہ ہے''۔ آج بھی کشمیر، فلسطین،برما، افریقی ریاستیں آج بھی غلام ریاستیں ہیں یہ کہنا بھی بجا ہوگا کہ یہ اقوام متحدہ کی بدمعاشی کے کنٹرول ہیں بلکہ چند سالوں سے یہ کنٹرول پوری دنیا تک پھیلا دیا گیا ہے۔دنیا میں کہیں بھی معدنی وسائل ہوں تو وہ ان کے ذریعے ہی چلائے جاتے ہیں عرب کا سارا تیل اقوام متحدہ کی بدولت امریکہ ہی خریدتا اور بیچتا ہے۔یہ کنٹرول سرمایہ دارانہ جمہوری نظام کے تحت ہی حاصل ہے۔ ہمیشہ ان طاقتوں نے آپس میں اتفاق کرکے اپنی پگڑی اونچی رکھنے کی کوشش کی۔ روس سپرپاور ہونے کے ساتھ ساتھ اپنا سیاسی نظام سے بھی ہاتھ دھوبیٹھا ہے۔سوویت یونین اور افغانستان کی جنگ ہی میں روسی کمیونزم کو شکست ایسی ہوء کہ وہ کء ریاستوں میں بکھر گیا۔ چین نے تاحال اپنی سمجھداری سے خود کو پروٹیکشن دی ہوء ہے۔ ماؤزے تنگ کی انقلابی فکر آج بھی چینیوں میں ویسے ہی زندہ ہے جیسے پہلے تھی۔ چین والوں کے معاشی انقلاب کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ چین نے کسی دوسری امپورٹڈ سوچ،کسی دوسری زبان کو اپنی نسلوں سے دوررکھا۔ یہاں اگر ہم اپنی ناکامیوں کا رونا روتے ہیں تو یہی وہ بنیادی چیزیں ہیں جن کی وجہ سے ہمارے ملک کا کوء نظام تبدیل نہیں ہوسکا۔ اربوں روپے کی روزانہ کرپشن نے ہمارے ملک کی رگوں سے خون نچوڑ کررکھ دیا ہے۔

اب ذکر کرتے ہیں ایک نفسیاتی تبدیلی کا جس کی وجہ سے ہم گوناگوں کیفیت کا شکار ہیں۔ اب کی ہماری نفسیاتی حالت یہ ہے کہنہ امریکہ ہمیں قبول ہے اور نہ سعودی عرب کی امداد کے علاوہ کچھ قبول ہے،نہ بھارت سے ہمارا امن قائم ہوسکتا ہے اور نہ افغانستان سے ہم خوش ہیں نہ اسلام کا نظام قبول ہے اور نہ کفر کی باقیات۔ یہاں تک کہ نہ اردو کو اپنی زبان سمجھتے ہیں نہ ہی انگریزی فرفر بول سکتے ہیں۔ یہ سب کچھ ایک پلاننگ ایک مخصوص ایجنڈے کے تحت ہمارے ساتھ کیا گیا ہے۔ سب سے بڑی تبدیلی ہماری نفسیات سوچ میں آء یہ سب نائن الیون کے بعد ہی متوقع ہوا۔ جب یکے بعد دیگرے دواسلامی ریاستوں افغانستان وعراق پر حملہ کیا گیا۔نائن الیون کے حملے کا ملبہ القاعدہ نامی عسکری تنظیم پر ڈالا گیا اورامریکی فوج اسامہ بن لادن کی تلاش میں نکل پڑی پہلے افغانستان اور پھرعراق کا رخ اختیار کیا لیکن وہ جنگ آج امریکہ کے گلے کی ہڈی بن چکی ہیں۔ افغانستان جنگ کے لئے سہولت کار پاکستان کو بننا پڑا جبکہ عراق جنگ میں خفیہ طور پر ایران نے امریکہ کو خوش آمدید کہا۔ افغانستان جنگ کا خمیازہ پاکستان کو بھگتنا پڑرہا ہے ابھی تک اور اس دہشت گرد کی آگ میں لپیٹ دیا گیا۔ امریکہ کی مدد کرنے والے پاکستانی صدر مشرف آج بیماری کی حالت میں غیرملک فرار ہیں اور پاکستان کو دہشت گردی کی بیماری ابھی تک لاحق ہے۔ چندروز پہلے طالبان کے موجودہ امیر ملا اختر منصور کو پاک ایران سرحد کے قریب ایک ڈرون حملے میں ماردیا گیا جس کی وجہ سے امریکہ وطالبان کے درمیان ہونے والے مذاکرات کا دور فی الحال رک چکا ہے۔ اب پاکستان کو فیصلہ کرنا ہوگا کہ ملک عزیز میں مستقل امن کے لئے کیا اور کیسے سمجھوتہ کرنا ہے۔ دوسری طرف اگر مشرق وسطیٰ کے حالات کو دیکھا جائے تو وہاں بھی دہشت گردی کی نا ختم ہونے والی لہر نے ان ریاستوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے داعش کا وجود مشرق وسطیٰ کے لئے کافی خوفناک ہے اور یورپ کے لئے بھی داعش ایک بہت بڑے خطرے کی گھنٹی بن چکی ہے جس کی تازہ مثال حالیہ ہونے والے دھماکیہیں جو فرانس ودیگر یورپی ممالک میں ہوئے ہیں۔

قارئین اس ساری حالات کی تبدیلی نے نفسیاتی تبدیلی میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ ایک طرف دہشت گردی نے مسلم ممالک کو اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے اور دوسری طرف تمام دہشت گردی کے واقعات میں بھی مسلمانوں کو مجرم تصور کیا جانے لگا ہے۔ ایک مائنڈ سیٹ بنادیا گیا ہے۔ مسلمانوں کو پہلے امریکہ کے میڈیا سے یہ شکایت رہی ہے کہ آپ کے میڈیا نے مسلمانوں کا ایک امیج دہشت گرد کے طور پر متعارف کرادیا ہے حالانکہ ایسا نہیں ہے تو امریکی میڈیا کا یہ جواب تھا کہ کیاکریں ''ہم سمجھتے ہیں کہ تمام مسلمان دہشت گرد نہیں ہیں لیکن تمام دہشتگرد مسلمان ہی ہیں'' یہ وہ مائنڈ سیٹ تھا جس کی شکایت مسلمانوں کو امریکہ ویورپ سے تھی لیکن ابھی یہ شکایت نہیں رہی ابھی خود مسلمانوں کا مائنڈ سیٹ ویسا ہی ہوچکا ہے۔ ایک اچھے بھلے لکھاری نے بھی چندروز پہلے یہی جملے اپنی فیس بک وال پر لکھے تو کافی لوگوں نے اس جملے کی حمایت کی۔ یہ وہ نفسیاتی تبدیلی ہے جس کی وجہ سے مسلمان خود کشمکش کا شکار ہوچلے ہیں لیکن اس کے پیچھے ایک سوچا سمجھا منصوبہ ہے یہ تبدیلی ایسے نہیں آء گء بلکہ اس میں عالمی میڈیا اور وہ عالمی امداد استعمال ہوء جو این جی اوز کے ذریعے فلاحی کاموں کے لئے استعمال ہوتی ہے۔1955سے شروع ہونے والی ویتنام،امریکہ جنگ کا اختتام 1975میں امریکہ کی شکست کے ساتھ ہوا تھا۔ امریکہ کے محکمہ دفاع پینٹاگون نے اس جنگ کی شکست پر پبلک ریسرچ کی تھی جس کا نتیجہ یہ نکالا تھا کہ امریکی شکست کی کافی وجوہات ہیں لیکن سب سے بڑی وجہ میڈیا کی وہ آزادی جو ہم نے اپنے میڈیا کو دی ٹی وی ریڈیو نے براہ راست کوریج دی جس میں مرنے والے فوجی دکھائے جاتے رہے ہماری اپنی عوام ہی ہمارے خلاف ہوگء جس کی وجہ سے پالیسی تبدیل کرنی پڑی اور اس کے تحت ہمیں شکست ہوء''۔اب امریکہ بے جہان بھی جنگ کا آغاز کیا ہے سب کچھ سنبھل کرکیا ہے۔ اس وقت جو جنگیں بھی جاری ہیں اس میں نفسیاتی طور پر امریکہ آگے جارہا ہے۔ مسلمانوں کا خون بالکل سستا ہوکے بہہ رہا ہے اور سوائے چند مسلمانوں کے ان پر احتجاج کرنا بھی گوارا نہیں کرتا۔ پاکستان سے لے کر شام تک مسلمان ہی آپس میں دست وگریباں ہیں جب باقی بیٹھنے والے صرف تماشا دیکھ رہے ہیں۔ اب ہر کامیابی کے لئے نفسیاتی طورپر تیار کیا جاتا ہے اس کے لئے میڈیا کو تیارکیا جاتاہے اور امداد کی آڑ میں اپنا جاسوسی نیٹ ورک منظم کیا جاتا ہے جو لوگوں کو نفسیاتی طور پرتبدیل کرے اس میں امریکہ ویورپ بہت حد تک کامیاب ہوچکے ہیں جبکہ مسلمان خود اس بیماری کا شکار ہیں۔
Muhammad Shahid Yousuf Khan
About the Author: Muhammad Shahid Yousuf Khan Read More Articles by Muhammad Shahid Yousuf Khan: 49 Articles with 40739 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.