انتخابی نتائج: ہار کو جیت کے امکان سے باندھے ہوئے رکھ

اولمپک مقابلوں میں چونکہ کئی کھیل ہوتے ہیں اس لئے مختلف ممالک کو کسی نہ کسی میدان میں کوئی نہ کوئی تمغہ مل ہی جاتا ہے ایسا ہی کچھ حالیہ اسمبلی انتخاب میں بھی ہوا سبھی جماعتوں کے حصے میں کچھ نہ کچھ آہی گیا ۔ سیاست میں چونکہ خوشی کا تعلق اپنی فتح سے زیادہ حریف کی شکست سےہوتا ہے اس لئے ہر کوئی اپنی کسی کسی نہ کامیابی یا دشمن کی کسی نہ کسی ناکامی پر بغلیں بجا رہا ہے مثلاً بی جے پی بہت خوش ہے کہ آسام میں کامیابی مل گئی اسے اس بات کی بھی خوشی ہے کہ کانگریس کو آسام کے ساتھ ساتھ کیرالہ میں بھی اقتدار سے محروم ہونا پڑا۔ کانگریس کو اس بات کی خوشی ہے کہ وہ پدوچیری میں کامیاب ہوگئی اورپارلیمانی انتخاب کے مقابلے بی جے پی کے رائے دہندگان کے تناسب میں ہر جگہ کمی واقع ہوئی۔ سی پی ایم کو خوشی ہے کہ بنگا ل میں ہزیمت اٹھانے کے باوجود اسے کیرالہ میں اسے اقتدار حاصل ہوگیا ۔

یہ انتخابات مشرقی اور جنوبی ہند میں ہوئے تھے ۔ مشرق میں ایک بی جے پی اور ایک علاقائی جماعت نے کامیابی درج کرائی جبکہ جنوب میں کانگریس ، کمیونسٹ اور ایک علاقائی جماعت نے کامیابی درج کرائی اس طرح علاقائی جماعتواں کے علاوہ کسی کو دوہری کامیابی نہیں ملی۔ جئے للیتا اس بات سے پر مسرت ہیں کہ ماضی کی بہ نسبت نشستوں میں کمی کے باوجود وہ دوبارہ کسی طرح اکثریت میں آ ہی گئیں اور ممتا کے کیا ک کہنے کہ انہوں نے نہ صرف اپنے رائے دہندگان اورووٹ تناسب دونوں میں بھی اضافہ کرکے زبردست کامیابی درج کروائی ۔اس بار مسلمانوں کو نہ صرف آسام کے باہر بی جے پی کی ناکامی کی خوشی ہے بلکہ وہ اس بات سے خوش ہیں کہ منتخب شدہ مسلم امیدواروں کی تعداد بی جے پی کے منتخب ارکان اسمبلی سے تقریباً دوگنا ہے حالانکہ مولانا بدرالدین اجمل خود انتخاب ہار گئے۔

آسام میں بی جے پی کی کامیابی کی اہم ترین وجوہات میں سے ایک اس کے حلیف ہیں بلکہ دوسری اہم وجہ ایک نہایت تیز طرار سابق کانگریسی وزیر ہیمنتا بسوا سرما کی پارٹی میں شمولیت بھی ہے۔ بی جے پی نے اپنے حلیفوں کو بہت کم نشستوں پر لڑنے کا موقع دیا اس کے باوجود اے جی پی اور بوڈو فرنٹ نے مجموعی طور پر ۲۶ نشستوں پر کامیابی حاصل کرکے دکھا دیا کہ علاقائی جماعتوں میں کتنا دم خم ہے۔ بی جے پی خود ۱۲۶ میں ۶۰ نشستوں پر تاریخی کامیابی درج کرائی جبکہ اس کے ووٹ کاتناسب کانگریس سے ڈیڑھ فیصد کم ہے۔ کانگریس زیادہ ووٹ کے باوجود بی جے پی کے مقابلے نصف امیدوار بھی کامیاب نہ کرسکی ۔ اس کے معنیٰ ہیں کہ بی جے پی کی حامی جماعتوں کا اس کو فائدہ ملا اور وہ مشرق ہند میں اپنے قدم جمانے میں کامیاب ہوگئی ۔ کانگریس کی اس ناکامی میں اس کیلئے عبرت کا بہت بڑا سامان ہے ۔ اول تو یہ ہے کہ سب سے زیادہ ووٹ حاصل کرلینا کافی نہیں ہے بلکہ انتخاب میں کامیابی کیلئے علاقائی جماعتوں سے تال میل بہت ضروری ہے۔ کانگریس اگر اے جی پی یا بوڈوفرنٹ کو اپنے ساتھ لینے میں کامیاب ہوجاتی تو اس کی حالت ایسی خستہ نہیں ہوتی جیسی کہ اب ہے۔

کانگریس کی دوسری غلطی ۸۱ سالہ ترون گوگوئی کو تبدیل نہیں کرنا تھا ۔ کانگریس کی قومی لیڈرشپ توعملاً راہل گاندھی کے ہاتھ میں ہے لیکن ریاست کے عوام جانتے ہیں وہ وزیراعلیٰ نہیں بنیں گے اس لئے ایک موثر علاقائی رہنما کے بغیر صوبائی انتخاب میں کامیابی ناممکن ہے۔ بی جے پی کا سابق کانگریسی وزیر سرما کو اپنے ساتھ لے لینا بہت بڑے فائدے کا سودہ تھا ۔ سرما ایک زمانے تک ترون گوگوئی کے دست راست رہے ہیں لیکن جب سے ترون گوگوئی نے اپنے بیٹے گورو گوگوئی کو سیاست میں آگے بڑھایا ہیمنتا سرما بددل ہوگئے اور بالآخر بی جے پی کا رخ کیا۔ اگر کانگریس ایک سال قبل سرما یا ان جیسے کسی نوجوان کو وزیراعلیٰ کے عہدے پر فائز کردیتی تب بھی عوام کو بے وقوف بنایا جاسکتا تھا لیکن کانگریسی لیڈر شپ کے اندر پائی جانے والی خوداعتمادی کی کمی اس کے قوت فیصلہ پر اثر انداز ہورہی ہے۔

اس انتخاب میں کانگریس ہی کی مانند دوسرا بڑا نقصان مولانا بدرالدین اجمل کی اے یو ڈی ایف کا ہوا۔ ان کے ارکان اسمبلی کی تعداد ۱۸ سے گھٹ کر ۱۵ پر آگئی اور وہ خود بھی الیکشن ہار گئے اس طرح کنگ میکر کا خواب دیکھنے والا بے تاج بادشاہ دوٹکے کا فقیر ہوگیا ۔ آسام جیسی ریاست میں جہاں مسلم رائے دہندگان کی ۳۰ فیصد ہے اگر ان کی سیاسی جماعت کا یہ حال ہے تو جہاں وہ ۱۰ یا ۱۵ فیصد ہیں ان کی اپنی سیاسی جماعت کا مستقبل کیا ہوگا؟ بی جے پی کو حاصل ہونے والی واضح اکثریت اے یو ڈی ایف کیلئے نعمت غیر مرتقبہ ہے ۔ ایسی علاقائی جماعتیں جو کسی فرد واحد کے نام پر چلتی ہیں اس کے رہنما کا انتخاب ہار جانا بہت اہمیت کا حامل ہوتا ہے ۔ اسی لئے یوپی میں اگر سماجوادی پارٹی کا صفایہ ہوجائےتب بھی ملائم سنگھ یادو اور ان کا خاندان کسی طرح اپنے آپ کو کامیاب کرلیتا ہے۔ وہ تو اچھا ہوا کہ کانگریس بھی ہار گئی ورنہ اے یو ڈی ایف کے ارکان کی بڑی تعدادمولانااجمل کی شکست کے بعد کانگریس میں کی جانب نکل جاتی بلکہ اگر بی جے پی کو حکومت سازی میں ان کی ضرورت ہوتی تو اس کے ساتھ ہوجاتی۔ دراصل یہ مفاد پرست سیاستداں مولانا اجمل کے ساتھ آئے ہی اس لئے ہیں کہ ان کی مدد سے اپنی سیاست چمکائیں جب انہیں محسوس ہوگا کہ مولانا کی اپنی نیاّ ڈوب رہی ہے تو وہ سب سے پہلے کشتی سے باہر چھلانگ لگائیں گے اور ان ڈوبتے تنکے کا سہارہ زعفرانی ہو یا سبز، سرخ ہو زرد اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اس کاہدف تو کسی طرح تیر کر اقتدار کے ساحل پر آنا ہوتا ہے۔

مغربی بنگال میں اس بار کانگریس پارٹی نے دائیں بازو کی جماعتوں کے ساتھ الحاق کرکے انتخاب لڑا ۔ کانگریس کو اس کا دوہرا فائدہ ہوا یعنی نہ صرف اس کے ووٹ کا تناسب بڑھا بلکہ اس کے ارکان اسمبلی کی تعداد میں بھی اضافہ ہوااور اب وہ مغربی بنگال کی سب سے بڑی حزب اختلاف ہے ۔ کمیونسٹ بیچارے خسارے میں رہے اس لئے کہ ان کے نظم و ضبط کے پابند رائے دہندگان نے تو کانگریس کو ووٹ دے دیا مگر کانگریس کے شتر بے مہار ممتا بنرجی کی جانب مڑ گئے ۔ ممتا بنرجی نے مغربی بنگال کے سب سے بڑے اخبار آنند بازار پتریکا، ٹیلیگراف اور اے بی پی چینل کی رائےکو غلط ثابت کرتے ہوئے غیر معمولی کامیابی درج کرائی ۔ ان نتائج کا موازنہ اگر ۲۰۱۱؁ کے اسمبلی انتخاب سے کیا جائے تو بی جے پی ہر دو طرح سے بہتر حالت میں ہے۔ اس کے ووٹ کا تناسب ۴ سے ۱۰ فیصد تک پہنچ گیااور ارکان کی تعداد بھی ایک سے ۳ تک جاپہنچی مگر۲۰۱۴؁ کے قومی انتخاب کے مقابلےاس کا نہ صرف ووٹ تناسب کم ہوا بلکہ متوقع ارکان کی تعداد میں بھی زبردست کمی واقع ہوئی ۔ اس لئے یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ بنگال میں جہاں دونوں کانگریس پارٹیاں ترقی کی جانب مائل ہیں وہیں بی جے پی اور کمیونسٹ تنزل کا شکار ہیں ۔
ممتا بنرجی کا یکے بعد دیگرے بدعنوانی میں ملوث ہونے کے الزامات اور ویڈیو کے ذرائع ابلاغ میں آنے کے باوجود اس قدر زبردست طریقے پر کامیاب ہوجانا اس بات کی دلیل ہے کہ عوام بدعنوانی کو کوئی خاص اہمیت نہیں دیتے ۔ اس انتخاب سے یہ بھی ثابت ہو گیا کہ اگر مرکزی حکومت کسی علاقائی جماعت کا کان مروڈنے کی کوشش کرے جیسا کہ بی جے پی نے ترنمول کےساتھ کیا تھا تو عوام کی ہمدردیاں علاقائی جماعت کو حاصل ہوجاتی ہیں ۔ اس لئے بی جے پی کو آئندہ اس بات کا خیال رکھنا ہوگا کہ اس طرح کا مصنوعی دباو فائدے کے بجائے نقصان کا سبب بنتا ہے۔ بنگال میںبی جے پی کی ناکامی کے دو اسباب ہیں ایک تو مودی جی کے طلسم کا ٹوٹ کر پاش پاش ہوچکا ہے اور دوسرے بنگال میں بی جے پی کوآسام جیسے حلیف میسر نہیں آئے ۔ اگر ترنمل بی جے پی کے ساتھ جانے کی غلطی کرتی تو کانگریس کی مانند بی جے پی کا تو زبردست فائدہ ہوجاتا لیکن کمیونسٹوں کی طرح وہ بڑے خسارے میں رہتی ۔ جس طرح کمیونسٹوں کی قربت کا کانگریس کو فائدہ ملا اسی طرح بی جے پی سے دوری ترنمل کیلئے مفید ثابت ہوئی۔
مغربی بنگال کی طرح تمل ناڈو میں کانگریس نے ڈی ایم کے کے ساتھ الحاق کیا ۔ یہاں پر اتحاد کا فائدہ دونوں کو ملا اور ماضی کےقومی و ریاستی انتخابات کے مقابلے ان کی حالت بہتر ہوئی لیکن یہ بڑھوتری اس قدر نہیں تھی کہ جئے للیتا کو اقتدار سے بے دخل کرسکے۔ تمل ناڈو میں ڈی ایم کے سے وہی غلطی سرزد ہوئی جو کانگریس نے آسام میں کی ۔ آج بھی ڈی ایم کے کا چہرہ ضعیف ونحیف کرونا ندھی ہیں۔ ان کی جگہ عملی کام کرنے کیلئے اسٹلن کو آگے بڑھایا گیا جو کروناندھی کے چشم و چراغ ہیں اس لئے غالباً عوام نے اپنی روایت کے خلاف پھر ایک بار جئے للیتا کے گلے میں جئے مالا ڈال دی ۔ جئے للیتا کی بھی صحت اچھی نہیں ہے لیکن کروناندھی کے مقابلے وہ اب بھی جوان ہیں ۔ بی جے پی کے ووٹ شئیر میں گوکہ معمولی یعنی عشاریہ ۶ فیصد اضافہ ہوا ہے لیکن تمام کی تمام ۱۳۴ نشستوں پر ناکامی ایک شرمناک شکست ہے ۔ بی جے پی کی یہ حالت اس لئے بھی ہوئی کہ آسام کے برخلاف تمل ناڈو میں اس کے سارے اتحادی بھاگ کھڑے ہوئے اور وہ بنگال کی مانند بالکل اچھوت بن کر رہ گئی۔

کیرالہ سےاس بار بی جے پی کو بڑی امیدیں تھیں اس لئے وہاں کا انتخاب بڑے زور و شور سے لڑا گیا۔ اس دوران بدقسمتی ایک مندر میں آگ لگ گئی ۔ مودی جی اس سے پریشان ہوکر بذات خود دورہ کیا اس کے بعد مرکز کی جانب سے ایسی گر جوشی کا مظاہرہ ہوا گویا سارا کام دہلی کی بی جے پی سرکار کررہی ہے۔ ہندوستان کی ۱۰ ریاستیں قحط سالی کا شکار ہیں ۔ کئی مقامات پر لگاتار دوسرے اور تیسرے سال یہ صورتحال ہے ۔ وزیراعظم کو ان میں سے کسی علاقہ میں جانے کی توفیق نہیں ہوئی اس لئے کہ وہاں نہ انتخاب ہورہے ہیں اور نہ وہ سرحد پار ہیں لیکن کیرالہ کے انتخابات نے وہاں کی آگ کو اہم بنا دیا۔ اس کے بعد بی جے پی نے کانگریس پر بدعنوانی کا الزام لگاتے ہوئے سری سنت نامی کھلاڑی کو اپنا امیدوار بنادیا جس پر جوئے میں ملوث ہونے کے سبب آئی پی ایل میں پابندی لگا دی گئی ۔جب اس سے بھی کام نہیں چلا تو مودی جی نے کیرالہ جیسی ترقی یافتہ ریاست کو صومالیہ سے بدتر قرار دے دیا۔د لیکن انتخابی نتائج نے ثابت کردیا کہ بی جے پی کیلئے کیرالہ صومالیہ سے بدتر ہے ۔ اس لئے کہ ساری مشقت کے باوجود اسے صرف ایک رکن اسمبلی کی کامیابی پر صبر کرنا پڑاجبکہ مسلم لیگ کو ۱۸ نشستوں پر کامیابی ملی ۔مرکز میں برسرِ اقتدار جماعت کی یہ کارکردگی باعثِ شرم ہے ۔

کیرالہ کے نتائج حسب توقع آئے وہاں ہر پانچ سال بعدبیزار عوام نئےحکمرانوں کوسبق سکھا کر پرانی جماعت کو لے آتے ہیں۔ اس طرح انتخابی عمل گویا پریشان حال لوگوں کی وقتی تسکین کا سامان بن گیا ہے۔کمیونسٹ بے چارے گزشتہ قومی انتخاب کے بعد راندۂ درگاہ بنے ہوئے ہیں ۔ ان کا سب سے مضبوط قلعہ مغربی بنگال کب کا مسمار ہوچکا ہے ۔ اس کو بچانے کیلئے کانگریس کا ہاتھ بھی ان کا ساتھ نہیں دے سکا لیکن کم ازکم کیرالہ میں انہوں نے کامیابی درج کروا کر اپنے وجود کا احساس دلا دیا۔ اس بار اگر سرخ ستارہ کیرالہ میں بھی غروب ہوجاتا تو پھر اس سیاسی جماعت کی تقریباً موت ہوجاتی لیکن مشیت نے ہندوستانی سیاست کی قوس و قزح میں اسے کچھ اور دن پنپنے کا موقع عنایت کردیاجس سے کمیونسٹ رہنماوں کے چہرے پر عرصۂ دراز کے بعد مسکراہٹ اور امید کی ایک مدھم کرن نظر آئی۔

اس انتخاب کے بعد جس طرح مسلمان اس بات سے خوش ہورہے ہیں کہ بی جے پی کی بہ نسبت نو منتخب شدہ مسلم ارکان اسمبلی تعداد بہت زیادہ ہے اسی طرح کانگریسی بھی اپنی ہار کے باوجود اپنےکامیاب ارکان کی تعدادپر بغلیں بجا رہے ہیں جو بی جے پی کے مقابلے دوگنی ہے۔ کانگریس کیلئے ایک خوشخبری دہلی کے بلدیاتی ضمنی انتخاب کےنتائج سے بھی آئی ۔ دہلی کی میونسپلٹی میں بی جے پی کو اکثریت حاصل ہے ۔ اس بار اورند کیجریوال کی عآپ نے پہلی مرتبہ ان انتخابات میں حصہ لیا تھا اور ابتدائی رائے شماری میں ایسا لگ رہا تھا کہ پھر ایک جھاڑو سارا سپڑا صاٖ ف کرجائیگا اس لئے کہ ۱۳ میں سے ۱۲ پر وہ آگے چل رہی تھی لیکن شام تک منظر بدل گیا ۔ عآپ کو صرف ۵ پر کامیابی ملی اور ۴ کانگریس کی جھولی میں چلی گئی جبکہ ایک آزاد امیدوار تومر بھی کانگریس کا باغی تھا اور اس کی گھر واپسی سے کانگریس اور عآپ برابر ہوگئے۔

بی جے پی کو دہلی میں صرف ۳ پر اکتفاء کرنا پڑا جو شرمناک ہے لیکن ایسا تو مختلف بلدیاتی اور پنچایت انتخابات میں ہوتا رہا ہے ۔ اس سال ضمنی انتخابات میں بی جے پی کی کارکردگی مایوس کن رہی ہے۔ تلنگانہ میں ایک نشست پر انتخاب ہوا جس پر ٹی آر ایس کامیاب رہی اس پر دوسرے نمبر پر کانگریس تھی بی جے پی کوانتخاب کا بائیکاٹ کرنے والے ۶ء۱ فیصد ووٹ بھی نہیں ملے ۔ اتر پردیش میں دونوں نشستیں سماجوادی نے جیت لیں جبکہ آئندہ انتخابی مہابھارت کا کروکشیتر وہی ہے۔ جھارکھنڈ میں دو میں سے ایک پر کانگریس اور ایک پر بی جے پی کامیاب ہوئی ۔ گجرات میں بی جے پی کامیاب ضرور ہوئی لیکن کانگریس اور اس کے ووٹ کا فرق ۲ فیصد سے کم تھا۔ اس کے باوجود اگر بی جے پی کانگریس مکت بھارت کا خواب دیکھ رہی ہے توکسی کو خیالی احمقوں کی جنت میں رہنے سے کون روک سکتا ہے؟ اس انتخاب کے نتائج ساری سیاسی جماعتوں سے یہی کہتے ہیں کہ ؎
ہار کو جیت کے امکان سے باندھے ہوئے رکھ
خواب کو دیدۂ حیران سے باندھے ہوئے رکھ (ازلان شاہ)
 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2045 Articles with 1226732 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.