ملک میں دہشت گردی کا اصل ذمہ دار کون؟

تاریخ گواہ ہے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں 70ءکی دہائی تک خود کش دھماکے اور دہشت گردی تصور کی بات تھی دوسری جنگ عظیم کے بعد سامراجی اور نوآبادیاتی طاقتوں کےخلاف ہونے والی چھوٹی جنگوں میں بھی حریت پسند جنگجوﺅں نے کبھی اپنے ہی بے گناہ عوام کو نشانہ نہیں بنایا تھا بلکہ ان کی ہٹ لسٹ پر ہمیشہ قابض حکمران اور انکی فورسز ہوا کرتی تھیں جبکہ عوام ان جنگجوﺅں کے ہمدرد ہوا کرتے تھے ۔اسی وجہ سے قومی آزادی کی بہت سی خونریز تحریکیں بھی کامیابی سے ہمکنار ہوئیں ۔ تاریخ اس بات کی بھی گواہ ہے کہ قوموں کے درمیان جنگیں صرف اور صرف معاشی مفادات اور قومی سلامتی کے جذبے کے تحت لڑی جاتی رہی ہیں جبکہ مذہب، زبان، فرقہ واریت، علاقائیت، اور قومیت وغیرہ کو صرف ایک اضافی طاقت یا بلیک میلنگ کےلئے استعمال کیا جاتا رہا ہے کیونکہ دنیا کی اکثر بڑی بڑی جنگوں میں ایک ہی مذہب کو ماننے والے مد مقابل تھے ۔ پہلی اور دوسری جنگ عظیم میں متحارب قوموں میں سے اکثر عیسائی ممالک کی تھیں ۔ اسی طرح ایران، عراق اور کویت کی جنگوں کے دوران بھی متحارب قوتیں مسلمان ہی تھیں ۔عیسائیوں اور مسلمانوں کے درمیان دو سو سال سے زائد عرصہتک جاری رہنے والی صلیبی جنگیں بھی عیسائیوں نے معاشی وجوہات کی بنا پر شروع کی تھیں اور مذہبی جنگ کا نام دیا گیا تھا۔امریکہ نے 70 ءکی دہائی کے آخر میں سویت یونین کی پیش قدمی کو روکنے اور معاشی اور قومی بالا دستی کے مقاصد حاصل کرنے کےلئے صلیبی جنگوں کے دور کے فارمولے کو چند تبدیلیوں کیساتھ افغانستان میں استعمال کرنے کا فیصلہ کیا جسے ’ ریگن ڈاکٹرائن‘ کا نام دیا گیا جس کے تحت امریکہ نے خطے میں اپنے سب سے اہم حلیف پاکستان کے آمر حکمران ضیاءالحق کے ذریعے افغان مزاحمت کاروں کو ”قومی مزاحمتی جنگ“ کی بجائے ”عالمی اسلامی جہاد“ کے بینر تلے جمع کیا ۔ جنگ افغانستان میں سویت یونین کی شکست کے بعد دنیا میں طاقت کا توازن خطرناک حد تک بگڑ گیا اور پوری دنیا امریکہ کے یک طاقتی (Unipolar System) نظام کے شکنجے میں آگئی ۔ چنانچہ ہر فاتح کی طرح امریکہ نے ایک نیو ورلڈآرڈر کا اعلان کردیا جس کا مقصد دنیا کو امریکی مفادات کے تحت نئے سرے سے تقسیم کرنا تھا ۔ فاتحین افغانستان صرف اسی بات پر جشن مناتے رہے کہ انہوں نے دنیا کی ایک بڑی سپر پاور کو ختم کرنے میں ہراول دستے کا کام کیا ہے ۔ لیکن کیا سویت یونین کے خاتمے کے بعد انہوں نے اُس کی جگہ لے لی تھی یا اسلام کا بول بالا ہوگیا تھا؟ در حقیقت اس واقعے کے بعد سب سے زیادہ نقصان پاکستان اور مسلم ممالک کا ہوا جہاں امریکی سامراج نے بڑی تیزی سے اپنے پنجے گاڑنے شروع کردئیے ۔ تیل کے چشموں پر قبضہ دونوں بڑی طاقتوں کا خواب تھا ۔ جہاں سویت یونین کے خاتمے کیساتھ ہی امریکی پالیسی سازوں نے اگست1990 ءمیں صدام حسین کو پہلے تھپکی دیکر کویت پر قبضہ کروایا اور پھر اس کےخلاف ایک خونریز فوجی تصادم کے ذریعے خود کویت پر قابض ہوگئے یوں امریکہ کا تیل کی دولت سے مالا مال مسلم ممالک پر قبضہ کرنے کا نصف صدی پرانا خواب پورا ہوگیا ۔ ادھر افغانستان میں جنگ کے دوران ہمارے حکمرانوں نے امریکہ کیساتھ ملکر ”قومی آزادی“کی جس تحریک کو مذہبی جنگ میں تبدیل کردیا تھا اس میں شامل مجاہدین سویت یونین کے منظر سے ہٹتے ہی پہلے ڈاکٹر نجیب کی حکومت کیساتھ اور پھر آپس میں دست و گریباں ہوگئے یوں اسلام کی خاطر لڑنے والے ایک دوسرے کے جانی دشمن بن گئے ان مجاہدین کو بندوق کے زور پر مخالفین کو قتل کرنے کا کھلا لائسنس مل گیا ۔ جب تک یہ مجاہدین سویت یونین اور ایسی دیگر طاقتوں کےخلاف لڑتے رہے حکمران خوش رہے لیکن جب امریکہ نے 9/11 والے ڈھونگ کے ذریعے افغانستان پر یلغار کردی تو راتوں رات ہمارے آمر حکمران نے امریکہ کے کہنے پر مجاہدین کو دہشت گرد کا خطاب دے دیا ۔ وہ مجاہدین جو اب حقیقت میں دہشت گردوں کا روپ اختیار کرچکے ہیں ہماری قوم کے ساتھ ایسا غیرانسانی اور بہیمانہ سلوک کرنا شروع کردیا جو شاید ہلاکو خاں اور چنگیز خاںنے بھی نہیں کیا تھا۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ امریکہ کے تعاون سے لگنے والی دہشت گردی کی اس فیکٹری کو جس میں خود کش بمبار تیار کیے جاتے ہیں کون مالی امداد اور لاجسٹک سپورٹ کررہا ہے ؟ اس کا نقصان تو ہم بھگت رہے ہیں تو فائدہ کس کو ہورہا ہے ؟ ان سوالوں کا جواب ایک ہی ہے کہ آج بھی ان کے پیچھے وہی طاقتیں ہیں جنہوں نے انہیں تشکیل دیا تھا کیونکہ وہ اس کی آڑ میں اس علاقے میں اپنی موجودگی کو برقراراور مستحکم رکھنا چاہتی ہیں ۔ ہم جب تک اس کی اندرونی اور بیرونی وجوہات کا حقائق کی روشنی میں تجزیہ نہیں کرتے اور ایک موثر لائحہ عمل مرتب نہیں کرتے یہ جنگ ہمارے قومی وجود کےلئے ایک جان لیوا خطرہ بنی رہے گی۔
Sohail Ahmad Mughal
About the Author: Sohail Ahmad Mughal Read More Articles by Sohail Ahmad Mughal: 19 Articles with 11288 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.