بس ایک یہی حل ہے

کراچی میں رینجرز کا حالیہ آپریشن شروع ہوا تو اس شہر کے باسیوں کی آنکھوں میں خوف اور دلوں میں خدشے تھے، کیوں کہ ان کے ذہنوں میں 1992کے آپریشن کی یادیں تازہ تھیں۔ ماورائے عدالت قتل، چھاپے، ہر علاقے میں بلاامتیاز لوگوں کو میدانوں پر اور سڑکوں پر بٹھادینے کا ظالمانہ عمل، معصوم شہریوں خاص طور پر نوجوانوں کی بڑے پیمانے پر گرفتاریاں․․․․اور پھر یوم سوگ، یوم سیاہ، ہڑتالیں اور تشدد کے ہر روز ہونے والے واقعات۔ امن دینے کے لیے شروع کیا جانے والا یہ آپریشن شہریوں کو کارے زخم لگا گیا۔ چناں چہ جب حالیہ آپریشن کا آغاز ہوا تو اس شہر کے رہنے والوں کے دلوں میں اندیشوں کا ابھرنا فطری امر تھا۔ لیکن یہ اندیشے غلط ثابت ہوئے۔ اس آپریشن کے نتیجے میں شہر میں امن وامان کی صورت حال خاصی حد تک بہتر ہوئی ہے اور ٹارگیٹ کلنگ، دہشت گردی، ڈکیتی اور راہ زنی کی وارداتوں اور بھتاخوری سے تنگ آئے ہوئے شہریوں نے سکون کا سانس لیا ہے۔ لیکن حال ہی میں ہونے والے ایک افسوس ناک واقعے نے شہریوں کو پھر خوف اور اندیشوں کا شکار کردیا ہے۔

متحدہ قومی موومنٹ کے کارکن اور اس جماعت کے اہم راہ نما ڈاکٹرفاروق ستار کے کوآرڈینیٹر آفتاب احمد کی رینجرز کی حراست میں جان سے جانا ایک انسانی جان کے ضیاع کے ساتھ اس لحاظ سے مزید افسوس ناک ہے کہ اسے تشدد کا نتیجہ اور ماورائے عدالت قتل قرار دیا جارہا ہے اور مرحوم کے جسم کی تصاویر اس دعوے کی بڑی حد تک تصدیق کر رہی ہیں۔ پاک فوج کے سربراہ راحیل شریف نے اس واقعے کی جامع تفتیش کا حکم دیا ہے۔ اس حوالے سے سامنے آنے والے پاک فوج کے بیان میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ تحقیقات سے اِس واقعے کی حقیقت واضح ہو جائے گی اور انصاف کے تمام تقاضے پورے کیے جائیں گے۔ اسی طرح کراچی میں تعینات رینجرز کے سربراہ میجر جنرل بلال اکبر نے بھی ایک اعلیٰ سطحی تفتیشی کمیٹی مقرر کر دی ہے۔ رینجرز کی جانب سے تفتیش کے اعلان میں یہ بھی واضح کیا گیا ہے کہ اِس واقعے میں ملوث افراد کو فوری طور پر معطل کر دیا گیا ہے۔

دوسری طرف متحدہ قومی موومنٹ کی جانب سے اس واقعے کے خلاف احتجاج کا سلسلہ جاری ہے۔ ایم کیوایم کی مجبوری کہیں یا اس کی دانش مندانہ پالیسی کے یہ اور اس نوعیت کے واقعات پر اب ہڑتال کا اعلان نہیں کیا جاتا، یوں شہری ماضی کی طرح پریشانی کا شکار ہونے سے محفوظ رہتے ہیں۔

کوئی فرد ہو یا جماعت، اس پر کسی بھی طرح کے الزامات ہوں، اس سے لاکھ اختلاف کیا جائے، لیکن اس کے کسی جرم کی سزا قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے ہی دی جانی چاہیے۔ ریاست کا فرض اپنے تمام شہریوں کو قانون کے مطابق حقوق دینا اور تحفظ فراہم کرنا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ خوف ناک جرائم کرنے والے اور انسانیت کی ہر قدر کو پامال کردینے والے مجرموں کا بھی یہ حق تسلیم شدہ ہوتا ہے کہ انھیں انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے اور اپنی بات کہنے کا پورا موقع فراہم کیا جائے۔ اس کے ساتھ قاتلوں، دہشت گردوں اور عورتوں سے درندگی جیسے بھیانک جرائم کرنے والے قیدیوں کے قانون میں متعین کردہ حقوق کی فراہمی اور تحفظ بھی ریاست اور ریاستی اداروں کی ذمے داری ہے۔ قانون، قواعد و ضوابط․․․․اسی کا نام تو ریاست ہے، یہی تو معاشرہ کہلاتا ہے۔ اگر ریاست اپنی اس حیثیت کو فراموش کردے گی تو ملک جنگل بن جائے گا جہاں صرف جنگل کا قانون راج کرے گا۔

اس میں کیا شک ہوسکتا ہے کہ امن معاشرے کی بنیادی ضرورت ہے، لیکن جس طرح شہریوں کے لیے امن ضروری ہے اسی طرح ملزمان کا بھی شفاف ٹرائل ہونا ضروری ہے۔

بہ صورت دیگر ریاستی اداروں پر لوگوں کا اعتماد مجروح ہوگا، جو ہر لحاظ سے نہایت نقصان دہ ہے۔ اسی لیے کہا جاتا ہے کہ انصاف نہ صرف ہو بل کہ ہوتا نظر بھی آئے۔ ہر شہری کا اس امر پر یقین ضروری ہے کہ اس کے طبقے اور جماعت کے ساتھ قانون کے مطابق سلوک اور انصاف کیا جارہا ہے، اور یہ یقین ریاستی ادارے ہی فراہم کرسکتے ہیں۔ اس کے برعکس، زیرحراست افراد کی پُراسرار ہلاکتیں، ماورائے عدالت قتل اور حراست میں لیے جانے والے افراد سے غیرانسانی سلوک احساس محرومی اور منفی ردعمل ہی کو جنم دیتے ہیں، دوسری طرف ایسے واقعات سے اصل مجرموں کو فائدہ پہنچتا ہے اور انھیں مظلومیت کا ڈھونگ رچانے کا موقع میسر آتا ہے۔

اس واقعے کے بعد پاک فوج کے سربراہ راحیل شریف اور ڈی جی رینجرز سندھ میجرجنرل بلاک اکبر کی جانب سے کیے جانے والے اقدامات قابل ستائش اور امید افزاء ہیں، لیکن ضرورت اس بات کی ہے کہ اس واقعے کی تحقیقات فوری پر کی جائے اور اگر یہ موت تشدد کا نتیجہ قرار پاتی ہے تو ملزمان کو سزا دی جائے۔ ایسا نہ کرنا کراچی آپریشن، متعلقہ اداروں اور شہر کے امن کے لیے نہایت نقصان دہ ثابت ہوگا۔

اس طرح کے واقعات کی روک تھام کے لیے مستقبل بنیادوں پر اقدامات کی ضرورت ہے۔ ضروری ہے کہ انسانی حقوق کی پاس داری کے حامل ایسے قوانین بنائے جائیں جن سے لوگوں کا عدالتی نظام اور سزاؤں پر اعتماد قائم اور بحال ہو۔ اس نوعیت کے موجود قوانین میں کوئی جھول ہے تو اسے دور کیا جائے۔ متعلقہ اہل کاروں کو تشدد کے بغیر ملزمان سے حقائق اگلوانے کی تربیت دی جائے۔ اس سلسلے میں ماہرین نفسیات کی خدمات حاصل کی جاسکتی ہیں۔

ہمیں یہ بات یاد رکھنی چاہیے اور ماضی میں ہونے والے تجربات بھی اس حقیقت کے گواہ ہیں کہ ماورائے عدالت قتل، تشدد اور لاپتا کردینے جیسے اقدامات سے دہشت گردی، بدامنی اور جرم کا خاتمہ نہیں کیا جاسکتا، بل کہ ایسے اقدامات کے نتیجے میں ہر طرح کے جرائم کو فروغ حاصل ہوتا ہے اور صورت حال مزید خراب ہوتی ہے۔ مسائل کا حل صرف انصاف میں ہے۔ کراچی سمیت ملک کا کوئی بھی علاقہ یا شہر جہاں بدامنی اور دہشت نے پاؤں پھیلائے وہاں اس صورت حال کا بنیادی سبب انصاف سے روگردانی اور ریاست کی جانب سے اپنی ذمے داریوں سے چشم پوشی تھی۔ ریاست اپنی ذمے داریاں پوری کرے اور ملک میں قانون وانصافی کی حکم رانی قائم ہوجائے تو اس دیس کی ہر درودیوار پر امن کی صبح طلوع ہوگی۔ ہمارے مسائل کا بس ایک یہی حل ہے۔
Sana Ghori
About the Author: Sana Ghori Read More Articles by Sana Ghori: 317 Articles with 283141 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.