بلوچستان میں بدعنوانی کی بہتی گنگا

پاکستان میں روز بدعنوانی کی کوئی نئی داستان سامنے آتی ہے۔ گزشتہ کئی روز سے پاکستانی میڈیا پر پاناما لیکس کی خبریں زینت بن رہی ہیں، لیکن ابھی تک پاکستان میں اس معاملے میں شور شرابے اور ایک دوسرے پر الزامات کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوا، جبکہ گزشتہ روز پاناما لیکس کے ذریعے ٹیکس چوری اور بدعنوانی کرنے والے مزید کئی چہرے بے نقاب ہوگئے ہیں۔ پاناما لیکس تو آف شور کمپنیز کے ذریعے بدعنوانی کی داستان ہے، جبکہ گزشتہ دنوں بلوچستان میں سامنے آنے والی کرپشن کی عجب کہانی نے سب کو ششدر کردیا ہے، کیونکہ بلوچستان میں قومی خزانے کی حفاظت پر مامور آفیسر نے ہی خزانے کو لوٹ کر گھر میں دولت کے انبار لگا رکھے تھے۔ نیشنل اکاﺅنٹیبلٹی بیورو (نیب) نے چھاپہ مار کر بلوچستان کے سیکرٹری خزانہ مشتاق رئیسانی کے گھر سے 70 کروڑ روپے کی نقدی اور کروڑوں روپے مالیت کے زیورات اور پرائز بانڈز برآمد کیے۔ مشتاق رئیسانی کے گھر سے برآمد ہونے والی رقم میں غیرملکی کرنسی بھی شامل ہے۔ ان کے گھر سے کرنسی سے بھرے 14 بیگ برآمد کیے گئے، جبکہ کرنسی اور بانڈز گننے میں نیب حکام کو 12 گھنٹے لگے۔ نیب نے کرنسی گننے کے لیے تین مشینیں منگوائیں۔ مشتاق رئیسانی پر ایک ارب روپے کی بدعنوانی کا الزام ہے۔ بلوچستان کے سیکرٹری خزانہ مشتاق رئیسانی نے نیب کی تفتیش کے دوران اعتراف کیا ہے کہ برآمد ہونے والی رقم کرپشن سے حاصل کی گئی۔ مشتاق رئیسانی نے کرپشن سے حاصل کردہ رقم کا اعتراف کرتے ہوئے کرپشن میں مدد کرنے والے 11 افسران کے نام بھی بتا دیے ہیں، جن میں لوکل گورنمنٹ کے متعدد ملازمین اور دیگر افراد شامل ہیں۔ ذرایع کے مطابق گرفتار سیکرٹری خزانہ مشتاق رئیسانی کو گرفتار کرکے رقم برآمد نہ کی جاتی تو ملزم نے یہ ساری رقم ہنڈی کے ذریعے ہفتہ کو دوبئی منتقل کرنے کا بندوبست کر رکھا تھا۔ ڈائریکٹر جنرل نیب بلوچستان طارق محمود کا کہنا تھا کہ مشتاق رئیسانی کا کیس پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا کیس ہے، جس میں ان سے 65 کروڑ 18 لاکھ روپے، 15 ہزار پاؤنڈ اور ہزاروں ڈالرز سمیت 5 کروڑ کے بانڈ بھی پکڑے گئے ہیں، جو ہنڈی کے ذریعے باہر بھجوائے جانے تھے۔

بلوچستان کے سیکرٹری خزانہ کی کرپشن کا منظر عام پر آنا تو صرف ایک واقعہ ہے، ورنہ ملک کے سب سے بڑے اور پسیماندہ صوبے بلوچستان میں تو لوٹ سیل لگی ہوئی ہے۔سیکرٹری خزانہ کی گرفتاری کے علاوہ گزشتہ روز نیب بلوچستان نے بلوچستان پبلک سروس کمشن کے سابق چیئرمین اشرف مگسی اور 2 ڈائریکٹرز کو بھی کرپشن کے جرم میں گرفتار کیا ہے۔ اشرف مگسی پر کروڑوں کی کرپشن اور مختلف تعیناتیوں میں بے قاعدگیوں کے الزامات ہیں۔ اشرف مگسی 2011ءسے 2014ءتک بلوچستان پبلک سروس کمشن کے چیئرمین کے عہدے پر تعینات رہے۔ 2014ءمیں کیس سامنے آیا تھا کہ اشرف مگسی نے محکمہ تعلیم میں بھریتوں میں بے قاعدگیاں بھی کی ہیں۔ جبکہ بلوچستان کے ضلع کوہلو میں لیویز کے پانچ سو گھوسٹ ملازمین کی موجودگی کا بھی انکشاف ہوا ہے، جنہیں تنخواہوں کی مد میں لاکھوں روے ماہانہ ادا کیے جاتے ہیں۔ نیب بلوچستان گزشتہ سات سالوں کے درمیان ہونے والے 315 ارب روپے سے زاید کرپشن کے 150 میگا کیسز کی تحقیقات کر رہا ہے۔ کرپشن کیسسز میں 13 صوبائی وزرا سمیت سابق وزیراعلیٰ بلوچستان اسلم رئیسانی کے نام بھی شامل ہیں۔ اسلم رئیسانی کے خلاف نیب میں کرپشن کی تین انکوائریاں ہورہی ہیں، جن میں سے ایک انکوائری خزانے کو دس کروڑ روپے کا نقصان پہنچانے کی ہے۔ اس کے علاوہ نیب کنٹونمنٹ بورڈ کوئٹہ کے ایگزیکٹوڈائریکٹر کے خلاف 40 کروڑ روپے کرپشن کیس کی بھی انکوائری کر رہا ہے۔ اس کے علاوہ بھی بلوچستان میں سرکاری ملازمین کے خلاف کروڑوں روپے کی کرپشن کی تحقیقات ہورہی ہےں۔ ملک میں کرپشن کی ایسی داستانوں پر مشتمل فائلوں سے سرکاری دفاتر کی الماریاں بھری پڑی ہیں، مگر کرپشن کی ان غضب کہانیوں کے کسی بھی کردار کو آج تک احتساب کے سخت شکنجے میں نہیں جکڑا جاسکا اور ہر دور میں باختیار لوگ اپنے محکموں کے متعلقہ افسران کے ساتھ ملی بھگت کرکے کروڑوں اربوں روپے کی کرپشن کر تے ہیں، قومی خزانے کی حفاظت پر مامور افسران اور مختلف محکموں کے سربراہان بھی کرپشن کے اس تالاب میں ڈبکیاں لگاتے اپنی سات نسلوں تک کامستقبل سنوارتے رہے ہیں، جبکہ غریب عوام کی فلاح کے کسی منصوبے کے لیے رقم جاری کرتے وقت انہیں سانپ سونگھ جاتا ہے۔ قومی خزانے پر مامور لوگوں کی لوٹ مار کی ایسی کہانیاں سن سن کر عوام کا سسٹم سے اعتماد اٹھتا جا رہا ہے۔

المیہ یہ ہے کہ کرپشن کی ہر کہانی کے منظر عام پر آنے کے بعد منتخب ایوانوں اور اقتدار کی راہداریوں میں کرپشن کی داستانوں کا حصہ بنے حکمران اشرافیہ طبقات سسٹم کو بچانے کے نام پر ایکا کیے کھڑے نظر آتے ہیں، جبکہ لوٹ مار کے اس عمل سے ہی قومی خزانہ خالی ہوتا ہے، بجٹ خسارہ بڑھتا ہے اور عوام کی ترقی و فلاح کے منصوبے دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں۔ بلوچستان میں ہونے والی کرپشن کو سامنے رکھتے ہوئے اس حقیقت کو سمجھنا مشکل نہیں ہے کہ بلوچستان ترقی کیوں نہیں کر رہا؟ بلوچستان ملک کا پسماندہ ترین صوبہ ہے، یہاں غربت کی وجہ سے لوگوں کا معیار زندگی بہتر نہیں ہے۔ عوام ضروریات زندگی تک سے محروم ہیں۔ قدرتی وسائل سے مالا مال ہونے کے باوجود بلوچستان کے عوام غربت، جہالت، بے روزگاری اور بدعنوانیوں و لاقانونیت کی لعنتوں کی وجہ سے شدید بے چینی کا شکار ہیں۔ بلوچستان ترقی سے کوسوں دور ہے، جس کی اس کے سوا اور کیا وجہ ہے کہ باختیار طبقہ نہ صرف بلوچستان کو ترقی کرتا دیکھنا نہیں چاہتا،بلکہ قومی خزانے سے لوٹ مار کر کے خود ترقی کی راہ میں رکاوٹ بن رہا ہے۔ بلوچستان میں سیکرٹری خزانہ اور دیگر افراد کی کرپشن کے میگا سکینڈلز سامنے آنے کے بعد بلوچستان کی پسماندگی کی وجہ صاف طور پر سامنے آجاتی ہیں، کیونکہ جب صوبے کی ترقی کے لیے استعمال کیا جانے والا پیسہ سیف ہاﺅسز میں جائے گا اور کرپشن کی نذر ہو گا تو صوبہ کس طرح ترقی کر سکتا ہے؟اگر ملک و قوم کا یہی پیسہ بلوچستان کی تعمیرو ترقی پر خرچ کیا جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ صوبہ ترقی نہ کرے، لیکن یہاں جس کا جتنا بس چلتا ہے، وہ اتنی ہی کرپشن کرتا ہے۔

اس حقیقت سے انکار کی گنجائش نہیں ہے کہ ہمارے معاشرے میں وبا کی طرح پھیلے کرپشن کلچر نے ہی معاشرے کا توازن بگاڑا ہوا ہے۔ ملکی معیشت کی بنیادیں کمزور کی ہیں۔ انصاف اور میرٹ کا جنازہ نکالا ہے اور بے وسیلہ عام انسانوں کو عملاً زندہ درگور کیا ہے۔ اس سے زیادہ افسوسناک بات کیا ہوگی کہ لوٹ مار کے لیے قومی خزانے تک رسائی دینے والے اعلیٰ مناصب پر تعیناتیاں بھی کروڑوں روپے کی کرپشن کے صدقے کی جاتی ہیں، جس کے بعد کروڑوں روپے رشوت دے کر اعلیٰ مناصب حاصل کرنے والے اربوں روپے کی کرپشن کرنے کو اپنا حق سمجھتے ہیں، جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ بلوچستان کے سیکرٹری خزانہ 20 یا 21 گریڈ کے افسر ہوں گے، جن کی تنخواہ کسی صورت بھی اتنی نہیں ہوسکتی کہ ان کے گھر سے 70 کروڑ روپے کی کرنسی اور کروڑوں کے طلائی زیورات اور بانڈز پر مشتمل 14 بیگ ، گھر کی پانی کی ٹنکی، الماریوں، بیڈ کے نیچے اور گاڑی کی ڈگی میں دولت ٹھونس ٹھونس کر رکھی جائے۔ یہ تو ایک کیس ہے، ورنہ یہاں تو آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے اور کروڑوں، اربوں اور کھربوں کی کرپشن کے تمام تر ثبوتوں کے باوجود نہ تو کسی کو سزا ہوتی ہے اور نہ ہی کسی کا احتساب ہوتا ہے۔ ہمیشہ احتساب احتساب کا شور مچایا جاتا ہے، لیکن بعد میں سب ملکی و قومی مفادات کو پس پشت ڈال کر اپنے مفادات کی خاطر خاموشی اختیار کر لیتے ہیں اور کچھ روز کے بعد احتساب احتساب کی آواز مدھم ہوتی ہوتی ختم ہوجاتی ہے۔ ملک میں کئی دنوں سے پاناما لیکس کے معاملے میں ہونے والے شور شرابے سے اس کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ابھی تک بات صرف الزامات تک محدود ہے، نہ تو کسی کا احتساب شروع ہوا ہے اور نہ ہی کسی کو سزا ہوئی ہے اور یہ حقیقت ہے کہ کچھ روز کے بعد یہ سارا معاملہ خود ہی ختم ہوجائے گا۔
عابد محمود عزام
About the Author: عابد محمود عزام Read More Articles by عابد محمود عزام: 869 Articles with 633972 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.