سیکرٹری خزانہ بلوچستان کی لوٹ مار ‘ دراصل کمزور نظام کا نتیجہ ہے

پاکستان میں عجب کرپشن کی یہ پہلی غضب کہانی نہیں‘ ایسی داستانوں پر مشتمل فائلوں سے سرکاری دفاتر کی الماریاں بھری پڑی ہیں مگر کرپشن کی ان غضب کہانیوں کے کسی بھی کردار کو آج تک احتساب کے سخت شکنجے میں نہیں جکڑا جاسکا اور یہ طرفہ تماشا ہے کہ احتساب کے ادارے کو بھی کرپٹ مافیا کو ”پلی بارگیننگ“ کے نام پر تحفظ فراہم کرنے کیلئے استعمال کیا جاتا رہا ہے جس کے ذریعہ قومی خزانہ میں کروڑوں‘ اربوں روپے کی لوٹ مار کرنیوالوں سے چند کروڑ یا کچھ لاکھ روپے وصول کرکے انکی لوٹ مار کو جائز قرار دیا جاتا رہا ہے۔ یہ لوٹ مار یقیناً ہر دور حکومت کے بااختیار لوگ (منتخب یا غیرمنتخب) اپنے محکموں کے متعلقہ افسران کے ساتھ ملی بھگت کرکے ہی کرتے رہے ہیں چنانچہ قومی خزاننے کی حفاظت پر مامور افسران اور مختلف محکموں کے سربراہان بھی کرپشن کے اس تالاب میں ڈبکیاں لگاتے اپنی سات نسلوں تک کامستقبل سنوارتے رہے ہیں جبکہ غریب عوام کی فلاح کے کسی منصوبے کیلئے رقم جاری کرتے وقت انہیں سانپ سونگھا ہوا نظر آتا ہے۔
نیشنل اکاﺅنٹیبلٹی بیورو (نیب) نے محکمہ فنانس کے دفتر پر چھاپہ مار کر گزشتہ روز بلوچستان کے سیکرٹری خزانہ مشتاق رئیسانی کو گرفتار کرلیا اور انکے گھر پر چھاپہ مار کر 70 کروڑ روپے کی نقدی اور کروڑوں روپے مالیت کے زیورات اور پرائز بانڈز بھی برآمد کرلئے۔ پاکستان میں عجب کرپشن کی یہ پہلی غضب کہانی نہیں‘ ایسی داستانوں پر مشتمل فائلوں سے سرکاری دفاتر کی الماریاں بھری پڑی ہیں مگر کرپشن کی ان غضب کہانیوں کے کسی بھی کردار کو آج تک احتساب کے سخت شکنجے میں نہیں جکڑا جاسکا اور یہ طرفہ تماشا ہے کہ احتساب کے ادارے کو بھی کرپٹ مافیا کو ”پلی بارگیننگ“ کے نام پر تحفظ فراہم کرنے کیلئے استعمال کیا جاتا رہا ہے جس کے ذریعہ قومی خزانہ میں کروڑوں‘ اربوں روپے کی لوٹ مار کرنیوالوں سے چند کروڑ یا کچھ لاکھ روپے وصول کرکے انکی لوٹ مار کو جائز قرار دیا جاتا رہا ہے۔ یہ لوٹ مار یقیناً ہر دور حکومت کے بااختیار لوگ (منتخب یا غیرمنتخب) اپنے محکموں کے متعلقہ افسران کے ساتھ ملی بھگت کرکے ہی کرتے رہے ہیں چنانچہ قومی خزاننے کی حفاظت پر مامور افسران اور مختلف محکموں کے سربراہان بھی کرپشن کے اس تالاب میں ڈبکیاں لگاتے اپنی سات نسلوں تک کامستقبل سنوارتے رہے ہیں جبکہ غریب عوام کی فلاح کے کسی منصوبے کیلئے رقم جاری کرتے وقت انہیں سانپ سونگھا ہوا نظر آتا ہے۔ قومی خزانے اور وسائل کی لوٹ مار کی یہی وہ غضب کہانیاں ہیں جنہیں سن سن کر عوام کا سسٹم پر اعتماد اٹھتا جا رہا ہے۔ ترجمان نیب کے مطابق سیکرٹری خزانہ کو اختیارات کے ناجائز استعمال پر حراست میں لیا گیا۔ چھاپے کے دوران محکمہ فنانس کا ریکارڈ بھی قبضے میں لے لیا گیا اور ڈیپارٹمنٹ کے تمام کمرے سربمہر کردیئے گئے ہیں۔ مشتاق رئیسانی کے گھر سے برآمد ہونیوالی رقم میں غیرملکی کرنسی بھی شامل ہے۔ انکے گھر سے کرنسی سے بھرے 14 بیگ برآمد کئے گئے جبکہ کرنسی اور بانڈز گننے میں نیب حکام کو 12 گھنٹے لگے۔ نیب نے کرنسی گننے کیلئے تین مشینیں بھی منگوائیں۔ نیب نے انکے گھر سے اہم دستاویزات بھی برآمد کی ہیں۔ مشتاق رئیسانی پر ایک ارب روپے کی بدعنوانی کا الزام ہے۔ گزشتہ روز انہیں احتساب عدالت میں پیش کردیا گیا۔ چیف سیکرٹری بلوچستان نے انہیں معطل کرنے کے احکام جاری کئے ہیں جبکہ سیکرٹری خزانہ کی گرفتاری پر مشیر خزانہ بلوچستان میرخالد لانگو نے مستعفی ہونے کا اعلان کر دیا ہے اور سیکرٹری خزانہ کے کرپشن کیس کی شفاف تحقیقات کا تقاضا کیا ہے۔ دوسری جانب بلوچستان کے وزیر مال جعفر مندوخیل نے سیکرٹری خزانہ کیخلاف نیب کی کارروائی پر سخت برہمی کا اظہار کیا ہے اور کہا ہے کہ نیب کا طریقہ¿ کار غلط ہے‘ نیب اس طرح کیسے چھاپہ مار سکتا ہے۔ ڈائریکٹر جنرل نیب بلوچستان میجر (ر) طارق محمود نے کہا ہے کہ مشتاق رئیسانی کے گھر سے برآمد ہونیوالے پیسے عوام کے ہیں جو ہم انہیں واپس دلائیں گے۔ رپشن کی ہر کہانی کے منظر عام پر آنے کے بعد منتخب ایوانوں اور اقتدار کی راہداریوں میں کرپشن کی داستانوں کا حصہ بنے تمام حکمران اشرافیہ طبقات سسٹم کو بچانے کے نام پر ایکا کئے کھڑے نظر آتے ہیں اور ہر دور حکومت میں ایک دوسرے کی کرپشنوں کو قانونی اور آئینی تحفظ فراہم کرنے کے جتن کئے جاتے رہے ہیں جبکہ لوٹ مار کے اس عمل سے ہی قومی خزانہ خالی ہوتا ہے‘ بجٹ خسارہ بڑھتا ہے اور عوام کی ترقی و فلاح کے منصوبے دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں۔ اس پر مستزاد یہ کہ طاقت و اختیار کے ناجائز استعمال سے قومی خزانے سے لوٹی گئی رقوم ملک کے اندر بروئے کار لانے کے بجائے سوئس اکاﺅنٹس اور دوسرے ممالک میں قائم کی گئی آف شور کمپنیوں کو منتقل کی جاتی رہی ہیں۔ پیپلزپارٹی کے دور کے مشیر پٹرولیم ڈاکٹر عاصم حسین اور انکے تین دیگر ساتھیوں پر گزشتہ روز ہی احتساب عدالت کی جانب سے قومی خزانے سے 462 ارب روپے کے غبن کے کیس میں فرد جرم عائد کی گئی ہے۔ اسی طرح پیپکو کے سابق ایم ڈی طاہر بشارت چیمہ کو گزشتہ روز احتساب عدالت نے اختیارات کے ناجائز استعمال کے کیس میں 14 روزہ جسمانی ریمانڈ پر نیب کے حوالے کیا ہے جبکہ جعلی دستاویزات کے ذریعہ 265 کنٹینر چوری کرنے کے مقدمہ میں ملوث کسٹمز کے چار افسران کے کیس کی بھی طویل التواءکے بعد گزشتہ روز سپریم کورٹ میں سماعت ہوئی ہے اور دوران سماعت ایف بی آر کی جانب سے فاضل عدالت عظمیٰ کے روبرو پیش کی گئی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ گریڈ20 کے ان چار کسٹمز افسران نے 2007ءمیں کنٹینر غائب کرکے اڑھائی ارب روپے کی کرپشن کی مگر آج تک ان افسران کو سزا نہیں مل سکی۔ یہ ملزمان اب ریٹائر بھی ہوچکے ہیں اور اپنی لوٹ مار پر کسی سزا کے خوف سے آزاد ہیں۔ رپورٹ میں کسٹمز کلیئرنس سسٹم کو ناکارہ قرار دیا گیا ہے جس کے باعث ایف بی آر کے بقول فراڈکرنا نہایت آسان کام ہے اور اس کمزور نظام کے باعث ہی اتنی بڑی کرپشن کی گئی۔ اربوں روپے کی کرپشن میں ملوث ان افسران کو قانون کے شکنجے میں لانے کا معاملہ تو اپنی جگہ مگر کیا اب تک کسٹمز کلیئرنس کے ناکارہ سسٹم کو تبدیل کرنے کی طرف بھی کوئی توجہ دی گئی؟ اس بارے میں بھی متعلقہ محکموں کی فائلیں خاموش ہیں کیونکہ کرپشن میں لتھڑے عناصر کی ایک دوسرے کے ساتھ ہتھ جوڑی ہوتی ہے چنانچہ وہ کرپشن کا کھلا کوئی دروازہ یا کھڑکی بند کرنے کی دانستاً کوشش نہیں کرتے تاکہ قومی خزانے کو نقب لگانے میں آئندہ بھی کسی دقت یا رکاوٹ کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ پیپلزپارٹی کے دور میں پیپلزپارٹی کے اس وقت کے سیکرٹری جنرل سینیٹر جہانگیربدر کے برادر نسبتی توقیرصادق نے اوگرا کے چیئرمین کی حیثیت سے قومی خزانے کو اربوں کا چونا لگایا اور آسودہ زندگی کے مزے لوٹنے دبئی منتقل ہو گئے۔ ان کیخلاف مقدمہ درج ہونے کے بعد انہیں انٹرپول کے ذریعے ملک واپس لایا گیا مگر وہ بھی اپنے خلاف اب تک فیصلہ نہ ہونے کے باعث قانون کی نگاہ میں بے گناہ تصور ہوتے ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ یہ سارے مبینہ لٹیرے عدالتوں میں پیشی کے وقت یوں وکٹری کا نشان بنا کر جاتے ہیں جیسے کرپشن ان کا جرم نہ ہو بلکہ ان کا اعزاز ہو۔ ہمارے معاشرے میں وباءکی طرح پھیلتے اس کرپشن کلچر نے ہی معاشرے کا توازن بگاڑا ہے‘ ملکی معیشت کی بنیادیں کمزور کی ہیں‘ انصاف اور میرٹ کا جنازہ نکالا ہے اور بے وسیلہ عام انسانوں کو عملاً زندہ درگور کیا ہے۔ حد تو یہ ہے کہ لوٹ مار کیلئے قومی خزانے تک رسائی دینے والے اعلیٰ مناصب پر تعیناتیاں بھی کروڑوںروپے کی کرپشن کے صدقے کی جاتی ہیں چنانچہ کروڑوں روپے دینے والے خود کو اربوں روپے کی کرپشن کیلئے حق بجانب سمجھتے ہیں۔ بلوچستان کے سیکرٹری خزانہ 20 یا 21 گریڈ کے افسر ہونگے‘ کیا تصور کیا جا سکتا ہے کہ وہ اپنی محض تنخواہ سے 70 کروڑ روپے کی کرنسی اور کروڑوں کے طلائی زیورات اور بانڈز پر مشتمل اپنے 14 بیگ بھر کر اپنے گھر کی پانی کی ٹنکی‘ الماریوں‘ بیڈ کے نیچے اور گاڑی کی ڈگی میں رکھ سکتے ہیں۔ یہ تو ایک کیس سامنے آیا ہے جبکہ یہاں تو آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے جس میں ہر چور ڈاکو دوسرے چور ڈاکو کا محافظ بنا نظر آتا ہے۔ کیا یہ ہمارے معاشرے کا المیہ نہیں کہ ایک محکمے کے سربراہ کی کرپشن منظر عام پر آنے کے بعد اس پر اطمینان کے اظہار کے بجائے اس محکمے کے ملازمین حتیٰ کہ متعلقہ وزیر بھی احتجاج کرتے نظر آتے ہیں۔
Mian Khalid Jamil {Official}
About the Author: Mian Khalid Jamil {Official} Read More Articles by Mian Khalid Jamil {Official}: 361 Articles with 299937 views Professional columnist/ Political & Defence analyst / Researcher/ Script writer/ Economy expert/ Pak Army & ISI defender/ Electronic, Print, Social me.. View More