چچا برساتی قسط٦

آج وہ وقت سے ذرا پہلے دکان پہ آگیا تھا نظام دین (چچا برساتی) رات حفاظت کی خاطر دکان پہ رہا کرتا تھا پچھلے دروازے کا تالا بہر سے لگایا جاتا تھا کیونکہ صبح حسان جسے اکبر نے سعودیہ جانے سے پہلے دکان پر رکھا ہوا تھا وہ آکر دکان کھولا کرتا تھا عمومأ تب تک نظام دین ناشتا کرنے گھر جا چکا ہوتا تھا اکبر تالا کھول کر دکان کے اندر آ گیا چچا برساتی اوپر بنے سٹور میں سو رہا تھا دروازہ کھولتے ہی اکبر کو دکان کے اندر ناگوار سی بد بو محسوس ہوئی مگر اس نے حبس جان کر نظر انداز کر دیا اور صفائی شروع کر دی مگر جیسے ہی وہ کیشیئر کاؤنٹر کی طرف جھکا اسے شراب کی خالی بوتل دکھائی دی اس کا دل دھک سے رہ گیا اسنے اسے اٹھالیا اور غصے سے تنتناتا سٹور کی سیڑھیاں چڑھنے لگا اس نے تقریبأ جھنجھوڑتے ہوئے نظام دین کو جگایا اور کچھ بھی کہے بغیر دو زناٹے دار تھپڑ اسے رسید کردیے وہ فی الفور صورت حال نہ سمجھتے ہوئے ششدر سا اٹھ بیٹھا غصے اور ذلت کا تیز احساس اس پر سوار تھا اس سے پہلے کہ وہ کچھ کہتا اکبرنے شراب کی خالی بوتل دیوار پہ دے ماری کانچ کے ٹکڑے ناگوار بو چھوڑتے اک چھناکے کے ساتھ یہاں وہاں بکھر گئے "دفعہ ہو جاؤ یہاں سے" اکبردھاڑا - وہ بنا کچھ کہے بستر سے اٹھا اور بہر نکل گیا مگر سارا دن سڑکوں کی خاک چھانتے وہ اسی اضطراب میں تھا کہیں اکبر گھر والوں کو نہ بتا دے مگر جب وہ شام کو گھر میں داخل ہوا تو اسے احساس ہوا کہ اکبر نے کسی کو کچھ نہیں بتایا اکبر اسے غلط راستے پہ جانے نہیں دینا چہتا تھا وہ جانتا تھا اگر اس نے ماں باپ کو بتایا تو وہ پہلے کی طرح اسے گھر سے نکال دیں گے اور وہ اپنی گندی صحبت میں مزید خراب ہو جائے گا- سو وہ اسے صرف ماں باپ کو بتانے کی دھمکی دے کر اسے باز رہنے کی تلقین کرتا اپنے کمرے میں چلا گیا اور وہ معمول کے مطابق کھانا کھا کر دکان پر چلا گیا- اب اس کا دماغ مسلسل کشمکش کا شکار تھا وہ کیا کرے کہ اکبر اگر گھر والوں کو بتانے کی کوشش بھی کرے تو کوئی اسکی بات کا یقین نہ کرے یہی سوچتا وہ کام کر رہا تھا اس نے کنکھیوں سے اکبر کو دیکھا جو کئی دن سے اسے قطعی نظر انداز کر رہا تھا - وہ ہر پہلو سے سوچتا رہا اور بالآخر کچھ دن بعد جب اکبر کچھ سامان لینے دوسرے شھر گیا تو اسے موقع مل گیا اس نے سونے کا ایک سیٹ غائب کیا اور الزام حسان پر لگا دیا اکبر جب واپس آیا تو دکان کے بہر پولیس کھڑی دیکھ کر اور ساری صورت حال کا پتہ لگتے ہی وہ پریشان ہو اٹھا حسان اس کا بہت پرانا اور وفادار ملازم تھا وہ کبھی سوچ بھی نہ سکتا تھا کہ وہ ایسا کام کر سکتا ہے وہ ساری رات بے چین رہا اور صبح ہوتے ہی جا کر اسے رہا کروا دیا حسان اس کا بہت ممنون تھا اور روتے ہوتے اسکو قسمیں کھا کر یقین دلا رہا تھا کہ اس نے چوری نہیں کی مگر اکبر نے اسے دوبارہ دکان پر آنے سے روک دیا اور خاموشی سے گھر آگیا چچا برساتی کو جب اس واقعے کا علم ہوا تو اس نے آسمان سر پر اٹھا لیا ماں باپ بھی اس سے ناراض تھے - " بھائی تمہارے سعودیہ جانے کے بعد میں نے اس دکان پہ محنت کی ہے رات رات بھر جاگ کر گزاری ہے تم اسے اتنی بڑی چھوڑ کر نہیں گئے تھے یہ اتنا بڑا کاروبار میری محنت سے بنا ہے یہ دکان صرف تمھاری نہیں ہے کہ تم گھر والوں کا حق مار کر چوروں پر لٹاتے پھرو -" وہ بڑھ بڑھ کر بولتا رہا اکبر کو اس کا انداز بے طرح کھٹکا مگر چپ چاپ ماں باپ کا منہ دیکھتا رہا جو اچھی طرح جانتے تھے کہ یہ دکان شروع بھی اسی نے کی تھی اور اسے وسعت دینے میں بھی اسکی سعودیہ کی کمائی شامل تھی - مگر وہ خاموش تھے نظریں چرا رہے تھے اسے شدید احساس زیاں نے آن گھیرا اسکی چھٹی حس اسے کہیں کچھ بہت غلط ہونے کا اشارہ دے رہی تھی مگر کیا غلط تھا وہ سمجھ نہیں پارہا تھا شدید گھٹن محسوس کرتے وہ گھر سے بہر نکل گیا-
Farheen Naz Tariq
About the Author: Farheen Naz Tariq Read More Articles by Farheen Naz Tariq: 31 Articles with 31872 views My work is my intro. .. View More