ایسا بھی ہوسکتا ہے

ایک ہارر افسانہ جو بعد میں مائکرو فکشن میں تبدیل کردیا گیا.کیوںکہ ایسا بھی ہوسکتا ہے....
رات کے پچھلے پہر اسٹیشن کے اس حصے میں کافی اندھیرا تھا.کمزور بلبوں کی دم توڑتی روشنی میں اسٹیشن کی پھپھوندی لگی عمارت. خاصی خستہ حال اور عقب میں گھنے درختوں سے گھرے ہونے کے باعث کسی پرانے کھنڈر کی خوفناک تصویر پیش کررہی تھی.یہ گاؤں کا ایک چھوٹاـسا اسٹیشن تھا جہاں آنے والی ٹرینیں چند ہی لمحوں کے لیئے رکتیں تھیں پھر شدید سردی اور رات کی وجہ سے اس وقت اکادکا ہی لوگ نظر آرہے تھے.میں نے محسوس کیا میرے ہاتھ کافی یخ ہورہے ہیں تو انھیں اپنے کوٹ کی جیبوں میں اندر تک دھنسالیا.ٹرین کے آنے میں ابھی کافی وقت تھا اور مجھے تنہا انتظار کرنا سخت ناپسند اسی لیئے میں نے اسکا انتخاب کیا وہ بھی شاید ٹرین کے ہی انتظار میں تنہا بینچ پر بیٹھا اخبار پڑھ رہا تھا.اسکی طرف پیش قدمی کرتے ہوئے فرش پر پڑے زرد پتوں نے کافی زور سے صدائے احتجاج بلند کی میں ٹھٹھک کے رک گیا.شاید آس پاس کا ماحول بھی میرےاعصابی نظام پر اثر انداز ہونے لگا تھاکسی ناخوشگوار احساس کے پیدا ہونے سے پہلے ہی میں نے اسے مخاطب کرنا بہتر سمجھا...آہم آہم...گلا کھنکھارنے کی آواز پر اسنے اخبار پر جمی نظریں ہٹا کے مجھے قدرے حیرت اور استفسار سے دیکھا...جی

کیا میں آپکے ساتھ یہاں اس بینچ پر میری بات پوری ہونے سے پہلے ہی اسنے قدرے رکھائی سے جواب دیا جی جناب کیوں نہیں. میں کوئی گھر سے الاٹ کرواکے تو لایا نہیں اپنے نام پر .....

اتنا ہی غنیمت تھا میں جلدی سے بیٹھ گیا.اور اسٹیشن پر پھر سے نظریں دوڑانے لگا.ہم سے تھوڑی ہی دور پر ایک چھوٹا سا ہوٹل تھا.جس پر کوئی گاہک نہ ہونے کے باعث ہوٹل والا تھڑے پہ بیٹھا اونگ رہا تھا.

آپ غالباً ٹرین کا انتظار کررہے ہیں اسکے آنے میں تو ابھی کافی وقت ہے...اخبار ابھی بھی چہرے پر تنا ہو ا تھا...کافی غیرآباد اسٹیشن ہے آبادی سے دور بھی آپ کو خوف محسوس نہیں ہوتا یہاں دل گھبرانے،دم گھٹنے، آوازیں سنائی دینے اور لوگوں کو چلتے پھرتے سائے دکھائی دینے کے کافی واقعات ہوچکے ہیں..کوئی توجہ نہ پاکر میں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا آپکو نہیں لگتا کہ ہمارے بیچ کوئی غیر مرئی مخلوق موجود ہوسکتی ہے-

اس بار اخبار تھوڑاـسرکا اور میری بڑ بڑ پر اسنے کافی خشونت بھری نگاہ سے مجھے دیکھا تو گویا آپ مجھے ڈرانے کی کوشش کررہے ہیں.

ارے نہیں جناب بس تنہا ہوں آس پاس کے ماحول سے اکتایا ہوا تھوڑی سی توجہ مل جاتی تو ..... .اپنی بات ادھوری چھوڑ کر میں نے اسے ٹٹولنے کی کوشش کی..
اوہ! اچھا اٹس اوکے....

لگتا ہے آپ بھی اکیلے ہیں....میرے ایک بار پھر بے تکے سے سوال سے اسکے چہرے پر ایک مسکراہٹ رینگ گئی.مجھے تو وہ بھی اس خوفناک ماحول کا ایک حصہ ہی لگا.ایک بھو......ت.....

سنا تھا کہ بے وقوفوں کے سر پر سینگ نہیں ہوتے آج دیکھ بھی لیا.یہ کہہ کر اسنے ایک فلک شگاف قہقہہ لگایا.اور اخبار فولڈ کرکے سائیڈ میں رکھ دیا.پیڑوں کے پاس سے گذرتی سرد ہوا کسی سیٹی کی طرح سنائی دے رہی تھی.اس پر اسکی ہنسی کافی بھیانک معلوم ہوئی.کافی دلچسپ انسان لگتے ہیں.آپ ایسا کرتے ہیں دو کپ چائےلاتا ہوں ساتھ میں گپ شپ بھی چلتی رہے گی اور وقت بھی کٹ جائے گا.یہ کہہ کر اسنے اپنا چھوٹاسا سفری بیگ کاندھے پر لیا اور ہوٹل کی طرف قدم بڑھا دیئے -

بھیا ذرا دو کپ چائے تو دینا. ہوٹل والے نے دو کیتلی میں کپوں میں چائے انڈیل کر اسکی طرف بڑھائی تو اسنے کہا دوسرا کپ بینچ پر بیٹھے بھائی صاحب کو دے دو. ابھی وہ اسے پیمنٹ کرنے ہی لگا تھا.کہ ہوٹل والے کی نیم وا سوالیہ آنکھوں پر اسکی نظر جم گئ.کس کو صاحب وہاں تو کوئی نہیں ہے.اسنے چونک کے میری سمت دیکھا اس بار ہنسنے کی باری میری تھی کیونکہ میرا مقصد پورا ہوگیا تھا.
Haya Ghazal
About the Author: Haya Ghazal Read More Articles by Haya Ghazal: 65 Articles with 88154 views I am freelancer poetess & witer on hamareweb. I work in Monthaliy International Magzin as a buti tips incharch.otherwise i write poetry on fb poerty p.. View More