67 آزادی کی تحریکیں۔۔۔۔ بھارتی جارحیت کا منہ بولتا ثبوت

اپنے آپ کو جمہوری اور سیکولر ملک کہنے والے بھارت میںنہ صرف انسانی حقوق کی پامالی صرف مقبوضہ کشمیر تک محدود نہیںبلکہ پورا بھارت ہی مذہبی، لسانی اور معاشرتی تعصبات اور ریاستی دہشت گردی کا شکار ہے۔عام طور سے یہی سمجھا جاتا ہے کہ بس بھارت سے آزادی کی تحریک صرف کشمیر میں چل رہی ہے مگر ایسا سوچنے والے بہت بڑی غلط فہمی کاشکار ہیں۔ کشمیرسمیت بھارت کی دوسری تمام ریاستوں میں 67 کے قریب آزادی کی تحریکیں چل رہی ہیں جس میں 50 چھوٹی جب کہ 17 پورے انڈیا میں چل رہی ہیں۔ صرف آسام کی ریاست میں 34 تحریکیں چل رہی ہیں۔جوملک کے162 اضلاع میں پھیکی ہوئی ہیں جن میں چند مشہور مندرجہ ذیل ہیں یونائیٹڈلبریشن فرنٹ، نیشنل ڈیموکریٹک فرنٹ، برچھا کمانڈوفورس، یونائیٹڈفورس، یونائیٹڈلبریشن، مسلم ٹائیگرفورس جبکہ آدم سینا میں حرکت المجاہدین، حرکت الجہاد، گورکھا ٹائیگرفورس، یونائیٹڈلبریشن فرنٹ۔ جموں کشمیر میں چلنے والی تحریکوں میں لشکرعمر، البرق، الجہادفورس، تحریک جہاداسلامی، حزب المجاہدین، لشکر طیبہ۔ س کے علاوہ تامل ناڈو،ناگالینڈ، تری پورہ، منی پور، شمالی مشرقی بھارت سمیت کئی ریاستوں میں بہت زیادہ علیحدگی کی تحریکیں چل رہی ہیں
کشمیر: ان تمام تحریکوں میں سب سے بڑی تحریک، آزادیِ کشمیر کی تحریک ہے۔ برصغیرکی تقسیم کے وقت سے ہی کشمیری آزادی کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ کشمیریوں کی یہ تیسری نسل ہے جو ظلم کا سامنا کررہی ہے۔ کشمیر میں متعدد آزادی کی تحریکیں چل رہی ہیں لاکھوں کی تعداد میں کشمیری شہادت کا مرتبہ حاصل کرچکے ہیں۔ 1948 میں انڈیا خود ہی مسئلہ کشمیر اقوامِ متحدہ کے پاس لے کرگیا تھا مگر اب خود ہی بھارت UNO کے قوانین کی پاسداری کرنے سے بھاگ رہا ہے کیونکہ اس کو علم ہے کہ کشمیر انڈیا کا حصہ نہیں بلکہ اس نے زبردستی قبضہ کیا ہواہے۔ ایک بات تو سچ ہے کہ سات لاکھ بھارتی فوج علی گیلانی، میرواعظ عمر فاروق، یسٰین ملک، خرم پرویز سمیت تمام کشمیری رہنماﺅں کی آواز کو دبا نہیں سکتی۔ ظلم کا نظام زیادہ دیر تک نہیں چل سکتا۔ آخر کار تو انڈیا کو اس کی جارحیت کا جواب ملے گا اور بھارت تباہ وبرباد ہوکر کشمیر سے نکلے گا انشاءللہ۔ بابائے قوم نے کہا تھا کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے تو یہ کیسے ہوسکتا ہے ہم اپنی اٹوٹگ کو ہی کسی غیر ملک کے ہاتھ میں دے دے ۔ کشمیر بنے گا پاکستان۔۔۔ انشاءللہ۔بھارتی پنجاب میں ایک اور بڑی تحریک "خالصتان" عرصہ دراز سے چل رہی ہے تحریک خالصتان بھارتی سکھ قوم کی تحریک ہے اس تحریک کو چلانے والوں کہ دعویٰ ہے کہ انڈیا سنکھ کمیونٹی کے ساتھ امتیازی سلوک کررہا ہے اور وہ ایک علیحدہ ملک بنانا چاہتے ہیں۔ سکھ زیادہ تر بھارتی پنجاب میں آباد ہیں، اور امرتسر میں ان کا صدر مقام ہے۔ 1980 کی دہائی میں میں خالصتان کے حصول کی تحریک زوروں پر تھی جس کو بیرون ملک مقیم سکھوں کی مالی اور اخلاقی امداد حاصل تھی۔ بھارتی حکومت نے آپریشن بلیو سٹارکے نام پر سکھوں کی آبادیوں پر باقاعدہ فوج کشی کروائی گئی۔ خالصتان تحریک کے رہنماو ¿ں کے گھروں اور دفتروں پر چھاپے مارے گئے، انھیں پابند سلاسل کیا گیا، ان کا ماورائے عدالت قتل کیا گیا لیکن وہ تحریک کا زور نہیں توڑسکی، آخر کار 1984 میں بھارتی فوج نے امرتسر کے گولڈن ٹمپل پر باقاعدہ حملہ کردیا، سکھوں کے اس مقدس مقام کی حرمت جوتوں تلے روند ڈالی گئی۔

تامل ناڈو: 1937 میں کانگریس کی صوبائی حکومت نے مدراس کے اسکولوں میں (موجودہ چنائے) میں جہاں تامل زبان بولنے والوں کی اکثریت تھی ہندی زبان کی تعلیم کو لازمی قرار دے دیا، اگرچہ وہ انگریز کا دور تھا مگر صوبوں میں کانگریس کے گورنر تھے جنھیں مکمل اختیارات حاصل تھے۔ تامل ہندو مذہب ہی کے ماننے والے ہیں، مگر انھوں نے ہندی زبان کا تسلط قبول نہیں کیا اور اپنے بچوں کو ہندی پڑھانے سے انکار کردیا۔ ریاست کی جانب سے اصرار کیا گیا تو انھوں نے اس کے خلاف احتجاج شروع کردیا۔1945 اور پھر 1947 میں برصغیر کی تقسیم کے بعد 1950 کی دہائی میں تاملوں کا یہ احتجاج زور پکڑ گیا، ہڑتالیں کی گئیں، ریلیاں نکالی گئیں، اسکولوں اور حکومتی اداروں کے باہر احتجاجی مظاہرے کیے گئے۔ کانگریس وزیروں کی مدراس آمد پر سیاہ پرچم لہرائے جاتے، لیکن بھارت کے متعصب حکمران اپنی ازلی ہٹ دھرمی چھوڑنے پر تیار نہ تھے۔ پولیس اور فوج نے تاملوں کو ریاستی دہشت گردی کا نشانہ بنایا، سیکڑوں لوگ جیلوں میں ڈالے گئے، تشدد کے واقعات میں بہت سے لوگ مارے گئے، بے شمار زخمی ہوئے۔ اس وقت کی ظالم بھارتی حکومت نے پہلے ہندی زبان ان پر مسلط کرنے کی کوشش کی اور بعد میں لسانی منافرت پھیلائی اور لسانیت کی بنیاد پر تاملوں کے حقوق غصب کرنا شروع کیے۔ پر امن احتجاج کرنے والے تاملوں پر بھارتی حکمرانوں نے بہیمانہ تشدد کرایا۔ ایک ہفتے کے اندر سیکڑوں تامل پولیس کے ہاتھوں قتل اور زخمی ہوئے۔ مرنے والوں کی تعداد کم ظاہر کرنے کے لیے خفیہ طور پر ان کی لاشیں جلادی گئیں۔

1968 میں اس تحریک نے ایک نیا موڑ لیا اور بجائے ”ہندی زبان سے آزادی“ حاصل کرنے کے انھوں نے بھارت سے ہی آزادی حاصل کرنے کی جدوجہد شروع کردی۔وسائل اور اختیارات کی کمی کی وجہ سے یہ تحریک خاطرخواہ کامیاب نہ ہوسکی۔ مگر یہ بات تو ضرور ماننا پڑے گی کہ بھارت نے تاملوں کو محرومی کے اندھیرے میں رکھا ہوا ہے-

آسام: بھارتی ریاست آسام میں آزادی کی تحریک 90 کی دہائی میں شروع ہوئی جب ایک مسلح گروہ یونائیٹڈ لبریشن فرنٹ آف آسام نے آسام کی آزادی کا مطالبہ کیا۔ بھارتی حکومت نے اس تنظیم کو فی الفور نہ صرف کالعدم قرار دے دیا بلکہ اس کے خلاف آرمی آپریشن بھی شروع کردیا گیا جو تاحال جاری ہے، بھارتی فوج نے آسام کے لوگوں پر ظلم و جبر کی انتہا کردی۔ ایک ہی رات میں 10 ہزار سے زائد آسامیوں کو شہید کردیاگیا ہے، ہزاروں زخمی ہوئے جن میں سے بہت سے زندگی بھر کے لیے معذور ہوگئے ہیں۔ سیکڑوں لاپتا ہیں۔آسام میں مسلم یونائیٹڈ لبریشن ٹائیگرز آف آسام کے نام سے ایک مسلم تنظیم بھی کام کررہی ہے جو آسام کے مسلمانوں کو بھارت سے آزادی دلانا چاہتی ہے۔ انسانی حقوق کی تمام عالمی تنظیمیںبھی بھارتی جارحیت کے سامنے خاموش ہیں۔

1970میں بھارتی پنجاب میں سکھوں نے اکالی دل کے نام سے ایک تنظیم قائم کی جس کا مقصد سکھوں کے حقوق کی پاس داری تھا۔ تنظیم کے تحت وفاقی حکومت سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ ملک میں سکھوں کے ساتھ روا رکھے گئے ناروا سلوک کو ختم کرے اور انھیں تمام شعبوں میں ہندو اکثریت کے مساوی حقوق دیے جائیں تاہم بھارت کی اس عرصے میں بننے والی کسی بھی حکومت نے سکھوں کے ان جائز مطالبات پر کان نہیں دھرا اور نسلی و مذہبی تعصب کی بنا پر امتیازی سلوک اور زیادتیاں جاری رکھیں۔ سکھوں نے ہندو حکمرانوں کے رویے سے مایوس مگر حکومت کی جانب سے اس مطالبے کے جواب میں قیادت اور کارکنوں کی گرفتاریاں شروع کردی گئیں۔قتل و غارت کا بازار گرم کیا گیا۔ مذہبی قیادت کو گرفتار کرلیا گیا۔اسی دوران اس وقت کی بھارتی وزیراعظم اندرا گاندھی کو ان کے دو سکھ محافظوں نے قتل کردیا جس سے صورت حال مزید خراب ہوگئی۔ حکومت کو بہانہ بھی ہاتھ آگیا اور اس کے حکم پر بھارتی فوج نے بڑا آپریشن کیا اور اکالی دل و خالصتان تحریک کی قیادت کے خلاف بھرپور طاقت کا استعمال کرتے ہوئے تحریک کو دبادیا۔ 1990 تک یہ تحریک اپنی فعالیت کھوچکی تھی۔ تاہم خالصتان کا نظریہ آج بھی زندہ اور توانا ہےبھارت میں 1958 میں "اے ایف ایس پی اے" نام سے ایک قانون متعارف کرایا گیا جس کا مقصد فوج کو خصوصی اختیارات دے کر ملک بھر میں جاری علیحدگی پسند تحریکوں کو کچلنا تھا۔ اس قانون کے تحت ایک عام سپاہی کو بھی یہ اختیار حاصل ہوگیا کہ وہ کسی بھی شخص کو غداری کے زمرے میں لاکر جیل بھجواسکتا تھا اور سر عام قتل بھی کرسکتا تھا۔ اس اختیار کا استعمال کرتے ہوئے بھارتی فوج نے علیحدگی پسندوں کے خون سے خوب ہولی کھیلی، اس قانون کا اطلاق سب سے پہلے کشمیر اور منی پورہ میں کیا گیا جو بھارتی نقطہ نظر سے بہت کامیاب رہا۔بعد ازاں اسے پورے بھارت میں نافذ کردیاگیا، چنانچہ بھارت سے علیحدگی یا آزادی کی کوئی بھی تحریک سر اٹھاتی ہے تو بھارتی فوج تمام جائز و ناجائز ذرائع اور ظلم و جبر کے تمام حربے استعمال کرتے ہوئے اسے کچل دیتی ہے۔ لوگوں کو قتل کیا جاتا ہے، ان کی جائیداد و املاک نذر آتش کردی جاتی ہے، خواتین کی عصمتیں پامال کرنے میں کوئی شرم اور جھجھک محسوس نہیں کی جاتی، نوجوانوں کو گرفتار کرکے بغیر مقدمہ چلائے جیلوں اور عقوبت خانوں میں ڈال دیاجاتا ہے جہاں سے اکثر کبھی واپس نہیں آتے۔ اس سب کا مظاہرہ اکثر مقبوضہ کشمیر میں سامنے آتا ہے۔ آزادی تو ہر قوم کی بنیادی ضروت اور ان کا حق ہوتا ہے آپ کسی کو قید کرکے یا جبری طور پر نہ تو قبضہ رکھ سکتے ہیں اور نہ ہی حکومت۔ کیونکہ ظلم کا نظام زیادہ دیر نہیں چلتا۔ آزادی حاصل کرنے والوں کو مارنے سے تحریک ختم نہیں ہوجاتی بلکہ تحریک کو آبیاری ملتی ہے۔ بھارت کشمیر سمیت دوسری ریاستوں میں کب تک مقبوض رہے گا آخرکار تو ان کو آزاد کرنا پڑے گا کیونکہ اس سے بھارت کا کالا اور منحوس چہرہ سامنے آرہا ہے جلداز جلد ان ریاست کو آزاد کردینا بھارت کی بقا کیلئے اچھا ہے اگر ایسا نہ کیا تو بھارت کا نام دنیا کی ہستی سے مٹ جائے گا -
Abdul Waheed Rabbani
About the Author: Abdul Waheed Rabbani Read More Articles by Abdul Waheed Rabbani: 34 Articles with 35183 views Media Person, From Okara. Now in Lahore... View More