وی آئی پی کلچر

کچھ دنوں پہلے کی بات ہے کہ میری نظروں سے ایک اسے شخص کی کہانی گزری جو اپنی ننھی سی پری بسمہ کو لے کراسپتال آیا۔ اس کی بیٹی کی طعبیت بہت خراب تھی اور بسمہ کو فوری طبی امداد کی ضرورت تھی۔اس بچی کے والد کا نام فیصل ہے۔ اسپتال آکر فیصل کو معلوم ہوتا ہے کہ وہاں سابق صدر مملکت کے صاحبزادے سول اسپتال کے ٹراما سنٹر کا افتتاح کرنے آئے ہوئے ہیں۔وہ غریب باپ ایمرجنسی وارڈ کے یکے بعد دیگرے کئی چکر لگاتا ہے اورایمرجنسی وارڈ کے پاس ڈیوٹی پر موجود عملے کی منتیں کرتاہے کے اسے اندر جانے دیا جائے تاکے وہ اپنی بچی کا علاج بروقت کرواسکے۔ مگر افسوس ایسا نہیں ہو پاتا۔ اور دوسری طرف وہ یہ دیکھتا ہے کہ اسکی معصوم ننھی سی گڑیا اس کے ہاتھوں میں تڑپ رہی ہے اور اپنی زندگی کی آخری سانسیں گن رہی ہے۔ یہ دیکھ کر فیصل پھر سے ایک بار کوشش کرتا ہے، شاید اس بار وہ بسمہ کو اندر لے جانے میں کامیاب ہو جائے۔مگر افسوس ایسا نہیں ہوپاتا۔ دوسری طرف وہ کیا دیکھتا ہے کہ اسکی بچی اسی کے ہاتھوں میں دم توڑ چکی ہے۔یہ بات اس کے لیے ناقابل برداشت بھی تھی اوراندر ہی اندر غصے کے مارے دم بھی گھٹ رہا تھا۔وہ بچی جیسے اتنے نازو سے بڑا کر کے اس قابل بنایا تھا کے وہ اسکول جاسکے اور ایک اچھا انسان بن کر ہمارا نام روشن کرے گی۔وہ آج میری ہی آغوش میں ہمیشہ کے لیے سو گئی۔اس بے بس با پ کی بے بس آنکھیں حکمرانوں سے کہ آخر کب تک ہم اس وی آئی پی کلچر کی زد میں آکر اپنی اور اپنے عزیز وعقارب کی جانوں نزرانہ دیتے رہیں گے؟اس حوالے سے میڈیا پر وقتی طور پہ ہلچل بھی مچی کہ اس بچی کوانصاف دیا جائے پر ایسا کچھ ہوتا دیکھائی نہ دیا۔وی آئی پی کلچر زورو شور سے جا ری تو ہے ہی۔اس کے ساتھ ہی غریبوں کی حسب روایت کے مطابق بسمہ کے ماں باپ اس کو قسمت کا لکھا سمجھ کرخاموش ہو گئے یا خاموش کروا دئیے گئے۔

اب تو یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ویا آئی پی کلچر ہے کیا اور یہ کس بلا کا نام ہے؟دوسرے ممالک میں اس کو کیسے لیا جاتا ہے، پا کستا ن میں اس کا رجحان دن بدن کیوں بڑھتا چلا جا رہا ہے؟ وی آئی پی کلچر ایک ایسا زہر ہے جس کی وجہ سے لوگوں کاراستہ وقتی طور پر روک دیا جا تا ہے، اس کے نتیجے میں لمبی لمبی قطاریں بن جاتی ہیں۔اس کی وجہ سے لوگوں کو بہت سی مشکلات کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔ہمارے حکمران شاید یہ بات بھول چکے ہیں کے انھیں آگے اﷲ سبحان تعالی کو جواب بھی دینا ہے۔

دوسرے ممالک خصوصاُُ ترقی پزیر ممالک کی بات کی جائے تو وہاں کس انداز سے دیکھا جاتا ہے۔ان ممالک کے تما م وزرائے اعظم کا تو یہ عا لم ہے وہ سب عوام کے ساتھ گھل مل جاتے ہیں۔ عام لوگوں کی طرح وہ بھی بسوں میں سفر کرتے ہیں۔چاہے امیر ہو یا غریب سب ہی ایک دوسرے سے اتنے اچھے سے بات کرتے ہیں کہ ایک پل کے لیے اندازہ لگا نا مشکل ہو جا تا ہے کے کون کس طبقے سے تعلق رکھتاہے۔امریکہ،برطانیہ،چائینہ،جاپان،روس، اور سوئیڈن جیسے ممالک کے نام نمایاں ہیں۔سب سے زیادہ خوش عائین بات تو یہ ہے کے جن ممالک میں بلہ تفریق کام کیا جاتا ہے۔سب سے بڑھ کر تو یہ اچھی بات تو یہ ہے کے وہاں قوانین سب کے لیے برابر ہیں۔

اگر کوئی غلط کام کرتا بھی ہے تو اس کی فوری پکڑ ہوجاتی ہے۔یہاں تک کہ ان کی عوام بھی سڑکوں پر نکل آتی ہے۔ترقی پزیر ممالک میں یہ نہیں دیکھا جاتا کے کون کتنا بڑا ہے اور کون کتنا چھوٹا،وہاں پر کام محض انصاف اور میریٹ کی بنیادوں پر کیا جاتاہے۔ترقی پزیر ممالک کے ماحول کو پاکستان کے ماحول کے ساتھ موازنہ کیا جائے تو انکے ارز ہمارے ماحول میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ان ممالک کے افراد اس حد تک آگاہ ہیں کہ انھیں پتہ ہے کے انھیں اپنے حقوق کے لیے کس طرح لڑنا ہے اور کیسے لڑناہے۔مگر افسوس در افسوس کے پاکستان میں ان سب چیزوں کا کوئی پرسانے حال نہیں۔یہا ں تو نہ کوئی اپنے حق کے لیے لڑتا ہے اور نہ ہی کوئی اپنے حق کے لیے آواز اٹھاتا ہے۔کرپشن اس حد تک بڑھ چکی ہے کہ اس کرپشن کی وجہ سے پورا نظام درہم برہم ہو کر رہ گیا ہے۔

اگر دین اسلام میں وی آئی پی کلچر کی بات کی جائے تو اسلام میں وی آئی پی کلچر کا کوئی تصور تھا ہی نہیں۔پرنہ جانے کیوں یہ رجحان ایسا بڑھا کے بڑھتا ہی چلا گیا اور ایسا بڑھا کے اب عوام کے لیے وبال جان بن چکا ہے۔عوام کو مشکل میں ڈال کر خود مزے کرنا اور دنیا گھومنا اس بات کی اجازت تر ہمارا مذہب بھی ہمیں نہیں دیتا۔بلکہ ہمارا مذہب اس بات کا حکم دیتا ہے رعایا کے ساتھ نرمی سے پیش آیا جائے، انکی ضروریات کو پورا کیا جائے، اور انکے حقوق کا خیال رکھا جائے۔

پاکستان میں بادشاہت نہیں ہے،لیکن وی آئی پی کلچر کا یہ عالم ہے کہ جب بھی ہمارے ہاں جمہوری بادشاہوں کی سواری نکلتی ہے تو جمہوری سرکار کی بلٹ پروف گاڑی کے آگے پیچھے پولیس رینجرزکے درجنوں گاڑیاں ہوتی ہیں۔اور جمہوری حضور نظاموں کے چمچوں کی گاڑیوں کی ایک لمبی قطارجمہوری بادشاہوں کی گاڑی کے پیچھے ہوتی ہے۔ٹریفک جام ہوتا ہے،مریضوں کو اسپتال لے جانے والی ایمنبو لنسیں دم سادھے سڑکوں کے کنارے جمہوری سواری کے گزرنے کے انتظارمیں کھڑی ہوتی ہیں۔ہونا تو یوں چاہیے کہ ان ری آئی پی کلچر کا شکار والے مقتولین کے ورثا کوایسے جمہوری بادشاہوں کے خلاف قتل کی ایف آئی آر درج کروانی چاہیے۔لیکن افسوس ایسا نہیں ہوتا۔ رات گئی بات گئی ہوجاتی ہے۔

درحقیقت وی آئی پی ماحول کے کلچر کی وجہ سے بڑے بڑے لوگوں کے روز مرہ کے حساب کتاب الگ کر دیے ہیں،جس کے باعث بڑھ رہے ہیں۔الگ الگ سہولیات دینے کے باعث بڑے بڑوں کے مسائل منٹوں میں حل ہو جاتے ہیں اور باقی کی عوام پس کر ررہ جاتی ہے۔روز مرہ کے معاملات میں ایسی بے شمار مثالیں موجود ہیں جن کا جتنا بھی زکر کیا جائے کم ہے۔اسٹیٹس (status) اور رول (role) کا تو یہ عالم ہے کے جمہوری سرکار اور امیروں کے بچے دوسرے ممالک میں پڑھنے چلے جاتے ہیں اور اس ملک کے بچے اسی ملک میں رہ کر پڑھتے ہیں اور ذلیل و خواہر ہوتے ہیں۔

خیبر پختونخواہ میں عمران خان نے آئی پی کلچر کو ختم کرنے کا آغاز کر دیا ہے۔وہاں کسی بھی وی آئی پی سواری کی آمد پر ٹریفک کو بند نہیں کیا جا رہا ہے۔یہ بلاشبہ ایک مثبت پیش رفت ہے۔لیکن اگر جمہوری بادشاہوں کی شامل کی جائے تو ان کے مطابق ان کے پاس ایک بہت بڑی دلیل ہے کہ ان کی جانوں کوہر وقت خطرہ لاحق رہتا ہے،جس کی وجہ سے سیکیورٹی انتظامات ہونا ضروری ہوتے ہیں اور ٹریفک کو بند کرنا بھی سیکیورٹی انتظامات کا ایک حصہ ہے۔اس میں تو کوئی شک نہیں کہ ہمارا ملک اس وقت دہشت گردی کے دور سے گزرہا ہے۔ اس میں حکام بالا کی جان کو بھی خطرات لاحق ہیں اور ان خطرات سے بچنے کے لیے سڑکیں بند کی جا تی ہیں۔

مجھے تو لگتا ہے کے ہمارے حکمرانوں نے حضرت علی ؒ کے دورحکومت کو نہیں پڑھا، کیونکہ اگر پڑھا ہوتا تو شاید ہمارے حکمرانوں اوراس ملک کے جو حالات ہیں یہ شاید نہ ہوتے۔ جان کی حفاظت کے لیے سیکیورٹی کی ضرورت توہوتی ہے لیکن ہمارے ملک میں جو سسٹم نافذ ہے وہ وی آئی پی کلچر کی تشہیر ہے۔جس کا مقصد اپنے آپ کو عام آدمی سے برتر ثابت کرکے عوام کواحساس کمتری میں مبتلا کرنا ہے۔عوام اس قدر با شعور ہو چکی ہے کہ وہ شریفوں اور ڈاکوں میں تفریق کر سکتی ہے۔اگر وی آئی پی کلچر یونہی چاتا رہا تو جیسے ابھی لوگ اس کی زد میں آکر مر جاتے ہیں تو یہ سلسلہ کبھی نہ ختم ہونے والے سلسلے کی طرح چلتا رہے گا۔
Anmol Rashid
About the Author: Anmol Rashid Read More Articles by Anmol Rashid: 4 Articles with 2549 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.