سیکولر قائد کا اسلامی ملک

شایدہم دنیا کی عجیب ترین قوم ہیں۔ اور یہ عجیب ترین قوم دنیا کے عجیب ترین موضوعات کو زیر بحث لائے ہوئے ہے۔ اسلام کے نام پر حاصل کیے جانے والی ریاست اسلامی جمہوریہ پاکستان تباہیوں کے کن دہانوں پر پہنچ چکا ہے ہمیں پرواہ نہیں۔ یہاـں کرپشن کتنی ہے؟ بیروزگار کتنے ہیں؟ کرپٹ لوگ کتنے ہیں؟ ہمارے آئین پر پورا اترنے والے حکمران کتنے ہیں؟ ہم نہیں جانتے اور نہ ہی ان سیاستوں کا حصہ بننا چاہتے ہیں۔ ہمارے بحث ان تمام مسائل سے جدا ہے۔ ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ قائد اعظم محمد علی جناح جن کے توسط سے ہمیں یہ ملک ملاوہ خود سیکولر تھے کہ مسلمان۔

اور بد قسمتی سے ہمارے ملک کے تھرڈ کلاس مفکر، دانشور اور تجزیہ کار حضرات ان مباحثوں کا حصہ ہیں۔ سیکولر ازم انگریزی زبان کا لفظ ہے جس کو اردو میں لادینیت کہتے ہیں۔ اور ہمارے ہاں قائد اعظم کو لادین کہنے کی وجوہات کا پیچھا کیا جائے تو علمائے کرام بڑی معصومیت سے گویا ہوتے ہیں کہ وہ ٹائی ، پتلون پہنتے تھے۔ مزید تفتیشی انداز اپنایا جائے تو یہ راز بھی افشاں ہوگا کہ محترم پنجگانہ نماز کی پابندی نہ کرتے تھے۔ اگر میں ان دونوں باتوں کا جائزہ لیتے ہوئے اپنے ملک کی قومی ، صوبائی اسمبلیون اور سینٹ وزراء کا جائزہ لوں توشاید ہی کوئی مسلمان میسر ہوگا۔ ہمارے وزراء ، معززین وطن ، کاروباری اور سماجی شخصیات کا لباس عموماََ ٹائی، پتلون ہی ملے گا۔ رہ گئی نماز کی بات تو زیادہ کھنگالنے کی ضرورت ہی نہیں آپ اس سینیٹر کو بھولے نہ ہونگے جنہیں سورہ اخلاص سنانے میں بھی مشکلات کا سامنا تھا۔ نام نہاد مولوی حضرات سے گزارش ہے کہ وہ آدھے سے زیادہ پاکستانیوں پر لادین ہونے کا فتوی داغیں او ر شناختی کارڈ پہ مذہب کے خانے میں اسلام کی بجائے سیکولر لکھوائیں کیونکہ جن وجوہات کی بناء پر ہم قائد اعظم کو لادین کہ رہے ہیں وہ ہم میں بکثرت موجود ہیں۔

اوریا مقبول جان نے کہا تھاکہ آپ کس طرح اس شخص کو سیکولر کہہ سکتے ہیں جس کے نظریے کی بنیا د پر پاکستان معرض وجود میں آیا۔ اسی نظریے کی بنیاد پردنیا کی سب سے بڑی ہجرت ہوئی۔ اور اسی نظریے کی بنیاد پر 10 لاکھ لوگوں کا خون اس سرزمین کے لیے بہا۔

حیرت کی بات ہے کہ جس انسان کو ہم سیکولر گردانتے ہیں جب اس سے میڈیا نے پوچھا کہ ’’مسٹر جناح پاکستان کے آئین کی بنیاد کیا ہوگی‘‘؟ تو اس لادین انسان کا جواب سنئے کہ
’’ ہمارے پاس قرآن و سنت کی صورت میں آئین موجود ہے‘‘۔

باعث حیرت ہے اس انسان کا سیکولرا زم، کہ جیسے تقریب حلف برادری میں ماؤنٹ بیٹن نے کہا کہ ہم آپ سے غیر مسلموں کے لیے اسی سلوک کی توقع رکھیں گے جو سلوک مغل بادشاہ بابرنے اپنے دور میں کیا تھا اور اس سیکولر کا جواب تھا کہ غیر مسلموں کے ساتھ کیسا سلوک کرنا ہے اس کے لیے ہمیں شہنشاہ بابر کی مثال کی ضرورت نہیں چودہ سو سال پہلے ہمارے نبی ﷺ کا اسوۂ حسنہ روشن مثال ہے۔

تف ہے ہم پر کہ جو شخص مسلمانوں کے آزاد مذہبی حقوق کا علمبردار اور محمد بن قاسم اور محمود غزنوی کے بعد اس قوم کے لیے اﷲ کا سپاہی بن کے آیاہم نے اس کی شخصیت کو پامال کر کے رکھ دیاہے اور ہم سب اپنے رہبر کی شخصیت کو پامال کر سکتے ہیں تو اس کا دیا ہوا یہ تحفہ کیا چیز ہے۔ شاید ہی کوئی سمجھ پائے کہ یہ پاکستان ہے یا دہشت ستان۔ اور غور کرنے کے بعد آپ اس نتیجے پرپہنچیں گے کہ یہ دہشت ستان بے شک نہ ہومگر یہ پاکستان اب با لکل نہیں رہا۔ بچے ، جوان، عورتیں اور بوڑھے اب اس کرپشن کی آگ میں جل رہے ہیں۔ یہ کرپشن پیسے کی بھی ہے اور اقتدار و روایات کی بھی ہے اور غیرت و حمیت کی بھی۔ یہاں عبدالقدیر جیسے روشن چاند بھی نشان عبرت ہیں اور عافیہ جیسے روشن ستارے بھی۔

مگر ہماری بے حسی یہ کہ ہماری قوم ان عظیم شخصیات کو اپنا تو مانتی ہے مگر ان کے حق کے لیے کھڑے ہوتے ہوئے جان نکلتی ہے۔ عوام تو ایک طرف ہمارے حکمران بنیادی حقوق کی پامالی پر بھی عالمی سطح پر آواز نہیں اٹھا سکتے۔ کیونکہ ہم ان کے مقروض ہیں وہ جس طائر لا ہوتی کا وصف علامہ اقبال نے ہم میں دیکھاتھا ان حکمرانوں نے وہ وصف ہم سے چھین لیا۔ رپورٹ کے مطابق پاکستان 2005 ء سے اب تک 18 بلین ڈالر کا قرضہ لے چکا ہے اور یقینا اس کی وجہ پاکستان کے حد سے زیادہ کمزور معاشی حالات ہیں۔ جب اس قرضے سے پاکستان کے معاشی حالات بہتر ہوتے دیکھنے کے لیے میں نے معاشرے میں جھانکا تو وہی خودکشی، خود سوزی اور عصمت و عفت فروشی کا بازار سرگرم نظر آیا۔

میں نے کہیں فرنگی کتوں کو فرنگی خوراکوں سے نہال ہوتے بھی دیکھا اور بھوک سے ترستے بچے کو کوڑے کی ڈھیر سے روٹی کا ٹکڑا ڈھونڈتے ہوئے بھی دیکھا۔ میں نے بی۔ اے پاس کرپٹ سیاستدانوں کو اسلام آباد کی سڑکوں پر B.M.W میں گھومتے ہوئے دیکھا اور P.hd ڈگری ہولڈر کو فٹ پاتھ پر خوار ہوتے ہوئے بھی دیکھا ہے۔ یاد رکھئے جس معاشرے میں انسان کی کوئی عزت نہیں ہوتی وہاں عزت کی بولی سب سے اونچی لگتی ہے۔ اور اپنی عزتیں نیلام کرنے والوں کے پاس کوئی پاگل ہی ضمیرو شعور کی تلاش میں جائے گا۔
اصول بیچ کر مقصد خریدنے والو
نگاہ اہل وفا میں بہت حقیر ہو تم
وطن کا پاس تھا نہ ہوسکے گا کبھی
کہ اپنی حرص کے بندے ہو بے ضمیر ہو تم

مگر اک لمحے کو ذرا سوچئے کہ کیا یہ سارا قصور ان حکمرانوں کے سر تھوپ دیا جائے گا؟ یا کہیں ہم بھی اس سے میں برابر کے ذمہ دار ہیں۔

کیونکہ قانون قدرت ہے کہ جو قوم جیسی ہو اس پر ویسا ہی حکمران مسلط کیا جاتا ہے۔
اور یقین رکھئے کہ قدرت کبھی غلط نہیں ہوتی۔
Zaryab Fatima Sikandar
About the Author: Zaryab Fatima Sikandar Read More Articles by Zaryab Fatima Sikandar: 2 Articles with 905 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.