یا اللہ مثل موسی کوئی مدد بھیج جو آج کے قارونوں کا خزانہ قوم میں بانٹ دے

فرعونوں کے دور میں قارون اسی طرح بد دیانتی کا مرتکب ہوا تھا وہ لوگوں کے اصل معاوضہ ادا نہ کرتا تھا بلکہ اصل اپنے خزانے میں جمع کرتا تھا اور نہایت معمولی رقم دیا کرتا تھا جبکہ فرعون سے ان کے اخراجات کے نام پرجو رقم حاصل کیا کرتا تھا جسے وہ اپنے حواریوں اور قریب لوگوں کو بھی دینا تھا تا کہ وہ اس کی حمایت کرتے رہیں تاکہ سب اچھا کی رپورٹ دیتے رہیں اور کوئی شکایت اوپر تک نہ جانے دیں اسی طرح کام چلتا رہا اسی طرح لوٹ مار چلتی رہی ، اس کے خزانے کا یہ عالم ہو گیا کہ اس کی کنجیاں چالیس اونٹوں پر لے جائی جاتی تھیں۔ لیکن ہوس تھی کہ ختم ہونے کا نام نہیں لیتی تھی۔ اس دور میں لوگ خوف کے باعث اپنی زبانیں نہیں کھولتے تھے اور چپ چاپ خاموشی سے اس کے ظلم برداشت کرتے تھے۔ چونکہ انہیں فرعون کے غیض و غضب کا خوف تھا ، لیکن اللہ تعالی نے موسی ؑ کو قارون کے خزانے کو ختم کرنے اور فرعونوں کے اقتدار کا خاتمہ کرنے لئے چنا، اسکی داستان کا ذکر موجود ہے تاکہ ہم اس سے عبرت حاصل کریں اور فرعون جیسے اقدامات نہ کریں یا قارون کی طرح دولت کے انبار نہ لگا لیں۔ آپ اپنی جائز کمائی سے جتنا چاہیں دولت اکھٹی کر لیں اور اس پر جتنی زکواۃ بنتی ہے ادا کریں یا وہ ٹیکس جو حکومت وقت کے احکامات کے مطابق ہوں ادا کر رہے ہوں اس پر کسی کو اعتراض نہیں اور کوئی پکڑ نہیں۔ اگر آپ قارون کی طرح خزانے کو جمع کر رہے ہیں تو یاد رکھیں کوئی اللہ تعالی کی پکڑ بڑی مضبوط ہے کوئی چال اورکوئی سازش بھی بچا نہ سکے گی اور لگتا ہے کہ ایسے لوگوں کی سرکوبی کے لئے کوئی موسی آنے کو ہے جو اس دولت کو جو عوام کا حق مار کر جمع کی گئی ہے وہ قوم میں بانٹ دے گا۔

وہ حاکم جو لوگوں کو ایمانداری سے روزگار نہیں دیتے وہ جو نوکریاں پیسے لے لے کر اہل افراد کے حق پر ڈاکہ ڈال کر نا اہلوں کو اہم عہدوں پر تعینات کرواتے ہیں اور اس روایت کو پروان چڑھا کر لوگوں کا معاشی قتل عام کے مرتکب ہوں، ایسے لوگ جن کی کوئی سفارش نہ ہو وہ در بدر کی ٹھوکریں کھاتے پھرتے ہیں اور مر رہے ہوں یا اپنی اہلیت کے باوجود کمتر روزگار کرنے پر مجبور ہوں، اور وہ لوگ جو ترقی کے نام پر کک بیکس لے کر خفیہ اکاؤٹس میں جمع کر رہے ہوں جیسا قارون فرعون کی دولت میں سے لوگوں کے حقوق کی چوری کرکے اپنا خزانہ لوگوں سے مخفی رکھ کر زیر زمین بنکروں میں رکھتا تھا، آپ بھی وہی کام کر رہے ہیں اور بیرون ممالک خفیہ بنکوں میں جمع کر رہے ہیں۔

چالبازی سے اس دولت کو اپنے بچوں کے نام پر جمع کر کے خود کو اس سے مبرا قرار دے کر اپنی لاتعلقی ثابت کرنے پر کمر بستہ ہوں ، اپنا بنایا ایک محل جو بڑی چالبازی سے زمین حاصل کر کے بنوایا گیا ہو اسے اپنی بیگم کے نام کر رکھا ہو لیکن اسکے اخراجات قومی خزانے سے پورے کیے جاتے ہوں اسی طرح وزیراعظم ہائس کے ہوشربا اخراجات سے قوم کا پیسہ اڑایا جاتا ہو کوئی فکر ہے نہ کنٹرول ، کیا اس ملک کے آئین میں ان تمام باتوں کی اجازت ہے، جس کی سربلندی کے لئے آپ اسکی پامالی کے بھی مرتکب ہو رہے ہیں۔

جسے چاہیں نواز دیں میڈیا پرسن جو آپ کی تعریفوں کے پل باندھے اسے مال و دولت اور پلاٹوں سے نواز دیں، ایمانداری کا عالم یہ کہ اپنے وزراء تو وزراء انکے بچوں کو بھی بڑے بڑے مشاہیر پر رکھ لیا جائے اور ان کی لو ٹ ما ر کی الگ داستانیں جو کبھی منظر عام پر نہیں آتیں اور قومی دولت کی لوٹ مار اپنا حق پر سمجھیں۔
عدالتوں پر انکی دسترس جج انکے حلقہ اثر میں رہ کر انکے مفادات کا تحفظ کو اہنا فرض جان کر کریں، ملک کے اہم اداروں میں اپنے منظور نظر لوگوں کی تعیناتی اور اپنی مرضی کے احکامات کروانا بلکہ ان اداروں کو بیمار قرار دے کر اپنے حواریوں کو معمولی رقم کے عوض بیچ دینا۔ یہی کچھ اس چوم کے لوگ دیکھ رہے ہیں اور اسی چلن کو اپنا کر وہ بھی اپنی استطاعت کے مطابق لوٹ مار میں لگے ہوں چونکہ انہیں بھی اچھی طرح علم ہے کہ پیسہ ہو تو اس ملک میں سزا نہیں ہو سکتی اور اسی روایت کو سامنے رکھ کر پورا ملک بد انتظامی کی ایک بدصورت سوسائٹی کا منظر پیش کر رہا ہے لیکن کب تک ایسا چلے ا کیا کوئی تیسری قوت آ کر اس گند کو صاف کرے گی یا پھر اللہ کا عذاب ہی اس قوم کو اس کوڑھ زدہ اور بدبودار معاشرے کو ٹھیک کرنے کے لئے ان قارونوں کی سرکوبی کے لئے آئے گا۔

اس دور میں غیر ممالک میں ایسے بنکرز دستیاب ہیں جو چوری شدہ رقم جمع رکھتے ہیں اور اس پرمنا فع بھی دیتے ہیں یعنی سود دیتے ہیں جس سے اکاوئنٹ میں بتجریج اصافہ ہوتا رہتا ہے اور اصل مالک کی شناخت کسی طور ظاہر نہیں کرتے، ایسا ہے حال میں افسا ہونے والے خفیہ اکاونٹس کے مالکان کی فہرست جاری کی جں سے پوری دنیا میں تہلکہ مچ گیا اور ہمارے سیتیس سال اقتدار کے مزے لوٹنے والے وزیراعظم اور ان کے بچوں کے نام بھی افشا ہوئے ہیں۔

یہ تو صرف پانامہ کے ایک بینک کا معاملہ ہے اور جانے کتنے ایسے اکاؤنٹس اور بھی ہیں اور جانے کتنی جائداد جمع کی ہوئی ہے جبکہ ملکی قانون کے مطابق انہیں اپنے انتخاب میں حصہ لینے سے پہلے اپنی تمام جائدادوں کو ظاہر کرنا چاہیے تھا جو انہوں نے نہ کیا جس کے تحت وہ بد عنوان قرار پاتے ہیں اور اپنا اعتماد کھو چکے اور اسکے تحت آپ کو اقتدار پر رہنے کا حق حاصل نہیں۔

اب اس شخص کو جو ۱۹۹۹ء کے تحت اقتدار سے علیحدہ کیا گیا اور بد عنوانی کا مجرم قرار ر دے جیل بھیج دیا گیا جو اسے برداشت نے کر سکا اور دس سال سیاست سے باہر رہنے کا معاہدہ کر کے باہر بھاگ گیا۔ اس کی سزا تو بیرونی مداخلت سے معاف ہوگئی لیکن بدعنوانی کا الزام تو عائد ہے وہ تو ختم نہیں ہوا، اب اس الزام کے تحت آپ کس طرح الیکشن میں حصہ لے کر ملک کے وزیر اعظم بن گیا ، یہ اس ملک کے نظام پر ایک بھرپور تماچہ ہے، وہ لوگ جو الیکشن کمیشن میں تھے اور جنہوں نے ان کو الیکشن میں حصہ لینے کی اجازت دی جو خود بدعنوانی کے اور اختیارات کا غلط استعمال کے زمرے میں آتا ہے جس کا صدباب ضروری ہے ۔

یہ ملک صرف اس لوٹ مار کے لئے بنایا گیا تھا جو غلامی کے دور سے بھی بد تر ہے ، اب بہت ہو چکی اگر ہم اب بھی کسی بڑے سانحہ کے انتظار کر رہے ہیں تو یاد رکھیں پاکستان کے لوگوں کو غلامی سے کوئی نہیں بچا سکتا چہ جائے کہ آپ ایک اسلامی ایٹمی ریاست ہیں۔ چونکہ اسلام کے نام پر کس کس طرح قوم کو جھانسے دیے تھے اور دحے جا رہے ہیں قوم آگاہ ہے۔ لیکن ایک محب وطن اب صرف اللہ کی مدد اور اسکے کرم کا منتظر ہے کہ اس ریاست جو تیرے نظام کو قائم کرنے کے لئے بنی تھی اس کے حالات ٹھیک کر دے۔
Riffat Mehmood
About the Author: Riffat Mehmood Read More Articles by Riffat Mehmood: 97 Articles with 75467 views Due to keen interest in Islamic History and International Affair, I have completed Master degree in I.R From KU, my profession is relevant to engineer.. View More