عوام کا پانامہ لیکس سے لاتعلقی مردہ سوسائٹی کی ایک بڑی مثال۔

پوری دنیا میں ایک دھوم مچی ہے یہ تو صرف ایک کمپنی کی معلومات افشا ہوئی ہیں جن پر پوری دنیا میں تہلکہ مچ گیا اس وقت تک دو سربراہان خود مستعفی ہو چکے ہیں چونکہ ان کے پانامہ کے بینکوں میں اکاوئنٹس موجود ہونے کی تصدیق ہوئی وہ شخصیت اپنا اعتماد اس لئے کھو چکی کیونکہ انہوں نے قوم سے جھوٹ بولا ، اسلئے انہیں اخلاقی طور پر انہیں اقتدار میں رہنے کا حق حاصل نہیں ہے اور وہ خود بخود اقتدار سے علیحدہ ہو گئے ۔ وہاں قانون کی مکمل حکمرانی ہے اور اصل حقائق پر پہنچنے میں کوئی رکاوٹ نہیں ہوتی نہ حکمران اس پر اثر انداز ہو سکتے ہیں اسلئے ان کے پاس دوسرا کوئی رستہ نہیں ہوتا اور وہ ازخود اقتدار چھوڑ گئے۔

دوسری طرف ہمارے ملک میں قوم ایسے ایسے فراڈ اور لوٹ مار پر احتجاج کرتے کرتے تھک گئے ہیں، چونکہ عوام نے بھٹو حکومت کی تبدیلی کے بعد اس کے ثمرات دیکھے انہوں نے نظام مصطفی کے نفاذ کرنے کے لئے قربانی دی لیکن اسلامی نظام تو کجا پہلے سے بھی بد تر نظام لوگوں کے مقدر میں آ گیا اور ملک ایک سیکولر ریاست کا منظر پیش کررہا ہے۔ عوام کی وہ تمام تحریکیں اور قربانیاں ضائع ہو گئیں ہماری ا سلامی نظام کا قیام کی جدوجہد میں حکومت کو تو چلتا کر دیا لیکن ہمیں اس نجات دہندہ نے قوم کو امریکی جہاد میں پھنسا دیا اور اس ملک کو اسلام کے نام پر دھشتگردی، بھتہ مافیا، اغوا برائے تاوان، قتل عام کی آبیاری ہوئی، انہیں حالات کو دیکھتے ہوئے عوام اس پورے سسٹم ہی سے لاتعلق ہو چکے ہیں۔ جو ایک خطرناک بات ہے چونکہ اگر قوم کسی سانحے اور واقع پر کھڑی نہ ہوئی توریاست کے تمام ستون ڈھے جائیں گے اور کسی اور قوت کو بھی اس ملک میں اپنے مقاصد پورے کرنے کے مواقع دستیاب ہونگے۔ اور آپ غیر ملکی ایجنٹوں کی خبریں سنتے رہتے ہیں جو عرضہ سے اس ملک کے شہری بن کر رہ رہے تھے اور جانے کتنے اور ہیں جوہماری صفوں میں گھسے ہوئے ہمیں نقصان پہنچانے میں لگے ہوئے ہیں۔

عوام نے ملک ٹوٹنے کے بعدکسی ملزم کو سزا پاتے نہیں دیکھا چاہے وہ مشرقی پاکستان ہو ، یا وہاں قتل عام کرنے میں ملوث اس وقت کے کلیدی کردار ہوں وہاں لوٹ کھوٹ اور غلط حراکات میں ملوث لوگوں کا احتساب بھی نہیں ہوا اور انڈین قید سے رہائی پا کر انہیں کسی پوچھ گچھ کا سامنا نہیں کرنا پڑا ، نہ حمودالرحمان کمیشن میں حاضر سروس آرمی آفیسر کو سوال جوابات پر مجبور کیا، بھٹو نے صرف عوام کو بیوقوف بنانے اور لولی پاپ دے کر بہلایا ، لیکن اس کے باوجود اس کمیشن نے اپنی رپورٹ مکمل کر کے حکومت وست کو بھیج دی لیکن اس رپورٹ کو بھی منظر عام پر نہ لایا گیا بلکہ اسکی ایک کاپی ہمارے اس وقت حکومت میں شامل ایک اہم شخصیت پر الزام ہے کہ انڈیا کو بھیج دی جو اب سے کچھ عرصہ قبل چھاپ دی گئی۔ ہمارے ملک میں اب تک لا علم ہیں۔

چونکہ حموالرحمان کمیشن کی رپورٹ میں سنا ہے مجرمان کا تعین کیا گیا تھا اور انہیں سزا دینے کا مطالبہ کیا گیا تھا جس سے خاص کر فوج پریشان تھی اور اپنے کسی بھی شخص کو مجرم ہوتا دیکھنا نہیں چاہتی تھی اسی لئے بھٹو کے خلاف ایک سلامی تحریک اٹھوائی گئی اور اسی بنیاد پر ملک میں مارشل لاء نافذ کر دیا ۔ اور عوام نوے روز کے وعدے پر گیارہ سال انتظار ہی کرتے رہے ، وہ کام جو سیاست دان کرتے ہیں وہ کام فوج سے سنبھال لیا اور چونکہ فوج سے لوگ ڈرتے ہیں لوگ خاموش ہو گئے اس فوجی ڈکٹیٹر نے ملک میں جاری اسلامی تحریک کارخ جہاد افغانستان کی طرف موڑ دیا اور اس کے حکم پر ہم دوسرے ملک میں مداخلت کے مرتکب ہوئے اسطرح پاکستان کی فوج نے افغانستان میں مجاہدین کی مدد سے مداخلت کی جو ہمارے ملک کے لئے زہر ثابت ہو ئی، ہم آج بھی ہم اسکے اثرات سے نکل نہیں پا رہے ، ہم نے اس کے جواب میں کیا کچھ پایا اور کیا کچھ کھویا عوام اس سے پوری طرح آگاہ ہیں۔

اگر قوم تاریخ پر نظر رکھتی ہو تو اس کے علم ہیں ہوگاکہ جب بھٹو کو حراست میں لیا گیا تو سب سے پہلے فوج نے جس چیزکی تلاش کی وہ حمودالرمان کمیشن کی اورجنل رپورٹ تھا جس کے بارے میں بعد میں معلوم ہوا کہ بھٹو کے بیڈ کے گدے کو پھاڑ کر برآمد کی۔ اور بعد کے تمام حالات سے قوم سے آگاہ ہے، کیا یحیح خان کو سزا دی گئی، کیا اے کے نیازی کو سزا ہوئی جبکہ ان کو ریٹائرمنٹ کے تمام حقوق اور سہولیات انکے عہدے کے مطابق ادا کردئیے گئے جبکہ نیازی ایک سیاسی پارٹی میں شامل ہو کر سیاست میں حصہ لیا، یہ سب قوم نے دیکھا۔ مرشل لاء لگانے پر فوجی ڈکٹیٹر کو بھٹو سے خوفزدہ تھا اسلئے اسنے بھٹو کوپھانسی دلوانے میں ایک کردار ادا کیااور بعد میں لوگوں نے اس پھانسی کو متنازع قرار دیا ، لیکن کوئی بھی سچ سامنے لانے کو تیار نہیں چونکہ اس ملک میں عدلیہ اپنا کردار آزادی سے ادا کرنے سے قاصر ہے۔

قوم نے ضیاء الحق نے ایک دھائی سے زائد مطلق العنان حکمرانی کی جس میں ان کی فرزند کہلانے والے نواز شریف نے انکے لئے بڑی جانفشانی سے کام کرتے تھے ان کا کام پیپلز پارٹی کے اہم لیڈروں کو اپنی پارٹی سے توڑ کر لانا تھا اور انہوں نے یہ کام بڑی جانفشانی سے کیا اور انہیں دولت میں تول کر اپنے ساتھ شامل کرایا اس دور میں ، نواز شریف جوڑتوڑ میں کافی طاق ہو ئے اور کچھ ان کے والد کی شخصیت کا اثر تھا باقی ضیاء صاحب کی قیادت میں اس میں مزید نکھار پیدا ہو گیا، اور قوم دیکھ رہی ہے انکے کارنامے زدو عام ہیں۔ اب کیا کیا خفیہ معلومات دنیا پر آشکار ہوتی جا رہی ہیں اور اس وقت ملک کے اہم لوگ حکومت میں شامل اور اپوزیشن تمام لندن کسی خاص مقصد کے لئے جمع ہو کر اس ملک میں ایک نئی تحریک بنانے پر کمربستہ ہیں۔ چونکہ ایسی سازشیں اور حرکتیں دیکھتے دیکھتے لوگ بیزار ہو چکے ہیں اس لئے لوگ باہر نکلنے کو تیار نہیں جو ایک لمحہ فکریہ ہے اور اس ملک کے لئے بہت خطرناک ہے جب قوم لاتعلق ہو۔ جس کا واضح اشارہ ہے کہ اس ملک میں کچھ بھی ہو جائے وہ اسے قبول کر لیں گے کوئی مزاہمت نہیں کریں گے اسی لئے روز روز کے واقعات، قتل دھشت گردی، ریپ بینک ڈکیتی یا کسی بھی قسم کی بددیانتی سب کچھ اس سوسائٹی کا حصہ سمجھ کر قبول کر لیتے ہیں اور کوئی مزاحمت یا احتجاج نہیں کرتے۔ چونکہ اس ملک کے تمام ادارے دیانتداری اور ایمانداری سے کام کرنے کی روایات شاید بھول چکے ہیں ۔ حالانکہ تمام لوگ جو اسمبلیوں میں آتے ہیں حلف اٹھا کر اس کی روگردانی کرتے ہیں۔

لو گ مایوس ہیں اورکسی بھی تحریک کے لئے نکلنے کو تیار نہیں چونکہ ان تحریکوں نے ان کی زندگیوں میں کوئی تبدیلی نہیں آئی بلکہ حالات دن بدن خراب ہوتے چلے گئے اور یہ حکمران وزراء اور سیاستدان امیر سے امیر ترین ہوتے چلے جارہے ہیں اور یہ تو صرف پانامہ میں موجود اکاوئیٹس کی لسٹ نکلی ہے جبکہ سوئز اکاوئنٹ تو ابھی مخفی ہیں اب تمان سیاستدان اور لٹیرے ان اکائنٹس کے ظاہر نہ ہونے کی تیاریوں میں سارے لندن میں جمع ہو رہے ہیں تاکہ تبدیلی آرام سے آ جائے اور معاملات اتنے آگے نہ نکل جایءں کہ مذید اکیا خفیہ معلومات دنیا پر آشکار ہوتی جا رہی ہیں اور اس وقت ملک کے اہم لوگ حکومت میں شامل اور اپوزیشن تمام لندن کسی خاص مقصد کے لئے جمع ہو کر اس ملک میں ایک نئی تحریک بنانے پر کمربستہ ہیں۔ چونکہ ایسی سازشیں اور حرکتیں دیکھتے دیکھتے لوگ بیزار ہو چکے ہیں اس لئے لوگ باہر نکلنے کو تیار نہیں جو ایک لمحہ فکریہ ہے اور اس ملک کے لئے بہت خطرناک ہے جب قوم لاتعلق ہو۔ جس کا واضح اشارہ ہے کہ اس ملک میں کچھ بھی ہو جائے وہ اسے قبول کر لیں گے کوئی مزاہمت نہیں کریں گے اسی لئے روز روز کے واقعات، قتل دھشت گردی، ریپ بینک ڈکیتی یا کسی بھی قسم کی بددیانتی سب کچھ اس سوسائٹی کا حصہ سمجھ کر قبول کر لیتے ہیں اور کوئی مزاحمت یا احتجاج نہیں کرتے۔ چونکہ اس ملک کے تمام ادارے دیانتداری اور ایمانداری سے کام کرنے کی روایات شاید بھول چکے ہیں ۔ حالانکہ تمام لوگ جو اسمبلیوں میں آتے ہیں حلف اٹھا کر اس کی روگردانی کرتے ہیں۔

لو گ مایوس ہیں اورکسی بھی تحریک کے لئے نکلنے کو تیار نہیں چونکہ ان تحریکوں نے ان کی زندگیوں میں کوئی تبدیلی نہیں آئی بلکہ حالات دن بدن خراب ہوتے چلے گئے اور یہ حکمران وزراء اور سیاستدان امیر سے امیر ترین ہوتے چلے جارہے ہیں اور یہ تو صرف پانامہ میں موجود اکاوئیٹس کی لسٹ نکلی ہے جبکہ سوئز اکاوئنٹ تو ابھی مخفی ہیں اب تمان سیاستدان اور لٹیرے ان اکائنٹس کے ظاہر نہ ہونے کی تیاریوں میں سارے لندن میں جمع ہو رہے ہیں تاکہ تبدیلی آرام سے آ جائے اور معاملات اتنے آگے نہ نکل جایءں کہ مذید اطلاعات نہ سامنے آ جائیں کہ حکمرانوں کو لوگ خود ہی سزا دینے نہ کھڑے ہو جائیں اس نئی پیش رفت سے ان کے کردار سامنے آ جاتے ہیں چونکہ اس حمام میں سارے ہی۔ ۔۔۔۔۔۔ ہیں۔

لیکن یہ ہمارے اداروں کی رپورٹیں نہیں ہیں یہ تو باہر کی رپورٹیں ہیں جس پر ہمارے حکمرانوں کا کنٹرول نہیں ہے یہاں کی رپورٹیں تو ویسے ہی منظرعام پر نہیں آتی ہیں ۔ اس لئے قوم ان سیاستدانوں حکمرانوں اور ریاستی اداروں پر اعتماد کر نے کو تیار نہیں وہ دیکھ رہی ہے اور انتظار کی پالیسی پر کمربستہ ہے جو ایک لمحۂ فکیہ ہے۔ اللہ پاکستان کو اپنے حفظ و آمان میں رکھے۔
Riffat Mehmood
About the Author: Riffat Mehmood Read More Articles by Riffat Mehmood: 97 Articles with 75470 views Due to keen interest in Islamic History and International Affair, I have completed Master degree in I.R From KU, my profession is relevant to engineer.. View More