عبث ہے شکوہ تقدیر یزداں

امریکہ کا پاکستان کے لیے امداد کا اعلان، برطانیہ نے مشکل حالات سے نکالنے کے لیے پاکستان کی مدد کرنے کا وعدہ کیا ہے، یورپی یونین۔۔۔ یورو کی امداد دے گا وغیرہ وغیرہ یہ وہ خوشخبریاں ہیں جو روز قوم کو سنائی جاتی ہیں لیکن ہوتا وہی ہے جو ہمیشہ کا معمول ہے نہ تو وہ مدد کہیں نظر آتی ہے نہ استعمال ہوتی ہے قوم اسی لوڈ شیڈنگ میں ڈوبی رہتی ہے، سڑکوں کی حالت بہتر ہوتی ہے نہ درختوں کے سائے میں لگنے والے سکول کی عمارت بنتی ہے اور نہ ہی دور دراز کا سفر کر کے ہسپتالوں تک پہنچنے کی ضرورت ختم ہوتی ہے۔ کیونکہ یہ ایک حقیقت ہے کہ گھر اپنے ہی چلاتے ہیں دوسرے آکر چلانا چاہیں بھی تو ایسا ممکن نہیں ہے۔ جب تک ایک قوم اور اسکے حکمران خود اپنی ترقی کے بارے میں نہیں سوچتے تب تک ترقی ممکن ہی نہیں۔ ہمارے ہاں یہ ایک رویہ بن چکا ہے کہ ہم دوسروں پر تکیہ کر کے بیٹھے رہیں اور خود اپنی مہارتوں اور صلاحیتوں کو محفوظ رکھیں۔ جبکہ پوری دنیا میں پاکستانی ڈاکٹر، انجنئیر اور بزنس مین بڑی کامیابی سے اپنے پیشے میں خدمات سر انجام دے رہے ہیں لیکن یہی لوگ اپنے ملک میں آنے سے کتراتے ہیں جبکہ ان کی مہارتوں کا بہترین استعمال اپنے ملک میں زیادہ بہتر ہو سکتا ہے۔

چونکہ پاکستان زیادہ آبادی والا عظیم افرادی قوت کا حامل ملک ہے اس لیے یہ ایک بہترین تجارت ہے کہ ہم اپنی افرادی قوت کو کم افرادی قوت والے ممالک کو مہیا کریں اور اس کے بدلے ان سے قیمتی زرمبادلہ کمائیں لیکن یہ کسی بھی طرح قومی تقاضوں کے مطابق نہیں کہ ہم ان ممالک کو مسلسل برین ڈرین کی اجازت اور مواقع فراہم کرتے رہیں۔ اگر ہماری حکومت چاہے تو اپنے ہی ملک میں ایسے مواقع فراہم کر سکتی ہے کہ یہ دماغ ملکی اور قومی ترقی کے نشان بن جائیں جبکہ ہوتا یہ رہا ہے کہ ہم اپنے قومی معاملات کے لیے غیر ملکیوں کی خدمات بڑے فخر اور یقین کے ساتھ خریدتے ہیں اور اربوں روپے انکی جیبوں میں ڈال دیتے ہیں۔ ایک اور دعوت جو ہم مسلسل غیر ملکیوں کو دیتے رہتے ہیں کہ پاکستان میں سرمایہ کاری کریں یہ بھی درست ہے لیکن جب ہم یہ سمجھ لیتے ہیں کہ یہ غیر ملکی سرمایہ کار ہمارے غم میں دبلے ہو رہے ہیں اور ہماری ترقی کے لیے ہمارے ملک میں کارخانے لگائیں گے تو ہماری سوچ بالکل غیر حقیقی ہو جاتی ہے ہم دوسروں سے اپنی قومی ترقی کی توقع کیسے کر سکتے ہیں یعنی ایک عبث توقع۔

ہمارے حکمران، سیاستدان اور سرمایہ دار اگر بیرونی ممالک سے اپنا محفوظ سرمایہ لا کر اپنے ملک میں ہی سرمایہ کاری کریں تو سوچئیے اس ملک کی ترقی اور زر مبادلہ کا گراف کہاں سے کہاں جا پہنچے۔ قدرت نے بھی ہمارے ملک کو بہترین اور قیمتی ذخائر سے نوازا ہوا ہے لیکن کمی خلوص کی ہے منصوبہ سازوں کی نہیں۔ بہترین منصوبے بنا کر بھی ہم اس پر مخلصانہ عمل نہ ہونے کی وجہ سے فائدہ نہیں اٹھا پائے۔ تھرکول کو ہی لیجیئے ہمارے پاس یہ عظیم دولت موجود ہے لیکن اسکو استعمال کرنے کے طریقے پر اب بھی ہر طبقے کے اپنے تحفظات ہیں اور یہی حال ہمارے دوسرے معاملات کا ہے۔

مجھے اپنی قوم کی صلاحیتوں پر کوئی شک نہیں بلکہ اکثر اپنے مضامین میں ان صلاحیتوں کا ذکر کرتی رہتی ہوں اور حقیقت بھی یہی ہے کہ اس قوم کو جو کام بھی سونپا جائے تو تمام تر مشکلات کے باوجود اسے کر گزرتی ہے لیکن بات تب ہے جب ہماری حکومتیں دوسروں سے توقع کرنا چھوڑ دیں اور قوم کو بھی اس بات کی ترغیب دینا شروع کر دیں کہ خود کما کر کھانا ہے ورنہ بھوکے سو جانا ہے کیوں کہ مانگی ہوئی جنت سے بلاشبہ دوزخ کا عذاب ہی اچھا ہے کیونکہ سزا ہی سہی اپنے عمل کی تو ہے۔ دکھ تو یہ ہے کہ ہم نے تو منصوبہ سازی، سرمایہ کاری، تعلیم اور طریقہ ہائے کار تو چھوڑئے فکر بھی دوسروں کی اپنانی شروع کر دی ہے ورنہ ہم فکر اور نظریہ اپنا ہی رکھتے تو خود بخود ہمارا قومی احساس ذمہ داری ہمارے اعمال سے ہی ظاہر ہوتا۔ خودی اور خوداری ہمارے اسلاف کی عظیم فکر تھی لیکن ہم نے اسے اپنے قومی معاملات میں سے نکال دیا ہے اور اس بات پر فخر محسوس کرنے لگے ہیں کہ فکر غیر مستعار سہی، لیں اور پھر عملاً اپنائیں۔

اکثر صاحب حیثیت لوگ یہ بات کرتے ہوئے پائے جاتے ہیں کہ پاکستان میں رکھا کیا ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان میں سب کچھ ہے کیا یہ کم ہے کہ ہم بے نام و نشان نہیں لیکن ہم مسلسل تقدیر کو اپنی ناکامیوں کے لیے مورد الزام ٹھرائے جاتے ہیں اور تدبر اور پھر تدبیر کی اہمیت سے انکار کیے جاتے ہیں۔ اگر ہم کبھی تدبیر کریں بھی تو تدبر سے خالی اور فہم سے بالا اور عاری۔ بجلی کے بحران کو ہی لیجیئے ہم نے طرح طرح کے تجربے کر ڈالے کہ بجلی بچائی جائے بچت کی اہمیت اپنی جگہ لیکن مزید بجلی کی پیداوار بہرحال وقت کا تقاضا ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ سی این جی سٹیشن بند کر دینے سے بچت ہوگی تو یہ کیوں نہیں سوچا جاتا کہ ضرورت مند اسے بارہ بجنے سے پہلے بھر لیتے ہیں۔

قومیں اپنے ہی زور بازو پر ترقی کیا کرتی ہیں اور جب قدرت نے اسے سامان بھی مہیا کر رکھا ہو تو وہ بھی یہی چاہتی ہے کہ اس سامان کا بہترین استعمال کیا جائے نہ کہ اس ضائع کیا جائے۔ اس معاملے میں میرے خیال میں ساری ذمہ داری حکمرانوں کی ہے کیونکہ قومی رویے متعین ہی تب ہوتے ہیں جب قوم کے سامنے ایک مثال موجود ہو۔ ہمیں اپنی قومی ترقی کے لیے ایسے واضح خطوط متعین کرنے کی ضرورت ہے جو ہمارے قدم ڈگمگانے نہ دے نہ کہ غیر ملکی امداد کی۔ اور نہ ہی شکوہ شکایت کی بلکہ شکوہ شکایت کی تو ہمارے پاس گنجائش ہی نہیں کیونکہ قدرت نے اس ملک کو ایسے گراں بہا خزانے عطا کیے ہیں کہ جن کا کوئی شمار نہیں۔ معدنیات ہمارے پاس ہیں، سمندر ہے، پہاڑ ہیں، میدان ہیں، زرخیز زمین ہے، افرادی قوت ہے اور عوامی جذبہ ہے پھر کس چیز کا گلہ خدا سے کیا جائے۔ بات صرف ان کے استعمال کی ہے جس کے لیے ہمیں مخلص حکمرانوں کی ضرورت ہے۔ ترقی کا عمل اگر متواتر اور منصوبہ بندی سے ہو تو چلتا رہتا ہے ہمیں اس عمل کو شروع کرنا ہوگا اور حکمرانوں سے شروع ہو کر ایک عام آدمی تک خودی اور خوداری کی سو چ کو عام کرنا ہوگا۔ شخص کی بجائے ادارے کی اہمیت اجاگر کرنی ہوگی اور ذات پر قوم کو ترجیح دینا ہوگی اور تدبیر سے تقدیر بدلنی ہوگی۔
Naghma Habib
About the Author: Naghma Habib Read More Articles by Naghma Habib: 514 Articles with 508876 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.