کرپشن کے الزامات

 یہ پہلی مرتبہ نہیں ہوا، ایسے الزام تو اپنے سیاستدان ایک دوسرے پر ہمیشہ لگاتے رہتے ہیں، بلکہ وطنِ عزیز کی سیاست میں اپنی کارکردگی پر بات کم کی جاتی ہے، دوسروں کی خامیوں پر زیادہ توانائیاں صرف کی جاتی ہیں، پارٹیوں کے اندر دوسروں کے عیب تلاشنے کے لئے پوری ٹیمیں موجود ہیں، جن کا کام یہی ہے ۔ پہلے تو یہ ہوتا تھا کہ الیکشن وغیرہ کے موقع پر جب اپنی تمام جماعتوں کواپنا اپنا منشور پیش کرنا چاہیے، وہاں وہ مخالف کی پگڑی اچھالنے میں مصروف دکھائی دیتی ہیں۔ اب تو ایسا ہوتا ہی رہتا ہے، دوسروں پر کیچڑ اچھالنے کے لئے اب کوئی خاص وقت مقرر نہیں، جب جس کا دل چاہے ایک ہنگامہ برپا ہو جاتا ہے۔ اس کا ایک فائدہ تو یہ ہوتا ہے کہ قوم کو اپنے قائدین کے بارے میں معلومات مل جاتی ہیں کہ ان کی کارکردگی کیا ہے، اور وہ ملک وملت کی خدمت کس طرح کرسکتے ہیں یا کیسے کرتے ہیں؟ ان معلومات کا سیاستدانوں کو بھی کوئی خاص نقصان نہیں ہوتا، کیونکہ عوام اپنے محبوب رہنماؤں کی کسی بات کا برا نہیں مناتے، کیا ہوا کرپشن کرتا ہے، یا دیانتداری میں کچھ کمی ہے، یا مال وغیرہ بنا لیا ہے، یا کچھ زیادتیاں وغیرہ کرجاتا ہے، کیا ہوا، آخر لیڈر ہے۔

اگر پاناما لیکس نے پوری دنیا میں ایک ہنگامہ سا برپا کردیا ہے تو کیا ہوا؟ اس سے قبل وکی لیکس نے بھی ایک مرتبہ اسی طرح تہلکہ مچایا تھا، اس سے کیا ہوا؟ ہمارے ہاں سیاستدان ایک دوسرے کی مخالفت میں اس کی جائیداد اور کاروبار باہر ہونے کے معاملے کو ایشو بنا کر سیاست کرتے ہیں، مگر نتیجہ تو کوئی بھی نہیں نکلتا۔ پاکستان میں کرپشن کے معاملے میں سب سے زیادہ بدنامی پیپلز پارٹی کے حصے میں آتی ہے، خاص طور پر سابق صدر آصف زرداری کو کرپشن کے حوالے سے مختلف نام دیئے گئے۔ موجودہ حکومت نے ہی اپنے دورِ حکومت میں آصف زرداری کو سالہاسال جیل میں رکھا، مگر کرپشن کا کوئی ثبوت برآمد نہ ہوا، ایک ایک کرکے تمام مقدمات اپنا وجود کھوتے گئے اور موصوف تمام مقدمات سے باعزت بری ہوتے گئے۔ تاہم یہ کہانی الگ ہے کہ ’باعزت‘ بری ہونے والوں نے جس قدر جیل کاٹی اس کا ازالہ کون کرے گا؟ نیب، احتساب عدالتیں اور بھی نہ جانے کون کونسے ادارے ہیں جو کرپشن کو پکڑنے کے دعویدار ہیں، مگر کرپشن ہے کہ ختم ہونے کا نام نہیں لیتی، ہر دور میں سابق دور کے لوگوں کی پکڑ دھکڑ شروع ہوتی ہے، یہ تماشا کچھ روز ہی جاری رہتا ہے، عدالتیں، میڈیا، پیشیاں اور جیلیں۔ پھر باعزت رہائی ۔

اب پاکستانی سیاستدانوں کو ایک دوسرے پر مزید باتیں کرنے کا موقع میسر آگیا ہے، گویا ان کی بہت ہی پرانی باتوں کو ثبوت مل گیا، گویا ان کے پرانے الزامات کی تصدیق ہوگئی، ان کا کہا سچ ثابت ہوگیا۔ گویا اب حکومت کے پاس کوئی جواز نہیں رہا کہ وہ مزید اپنا کاروبارِ حکومت جاری رکھ سکیں۔ مگر ہوگا اب بھی وہی، جو پہلے ہوتا آیا ہے، یعنی الزامات، بیانات، اعتراضات اور آخر میں بات کا ٹھنڈا ہوجانا، معاملات پر مٹی پڑ جانا، الزامات کا ختم ہوجانا۔ چند برس بعد پھر کوئی اور ’’لیکس‘‘ برآمد ہوگی، وہ نئے انکشافات کرے گی، لوگ حیران ہوں گے، مخالفین خوش ہونگے، اپنے پریشان ہونگے اور آخر با ت آئی گئی ہوجائے گی۔ یوں جانئے کہ ٹھہرے ہوئے پانی میں کوئی کنکری گرتی ہے اور لہروں کے باریک دائرے کناروں تک جاتے ہیں اور پانی میں پھر سکون آجاتا ہے، یہ سلسلہ جاری ہے۔

حکمرانوں کی مراعات ہی کم کرپشن نہیں، ان کے قومی خزانے سے اٹھنے والے اخراجات بھی لاکھوں روپے ماہانہ ہوتے ہیں، قومی خزانے سے ان کے پرٹوکول اور آسائشوں پر اس قدر خرچ کیا جاتا ہے کہ اس رقم کا کچھ حصہ بھی اگر سکولوں، ہسپتالوں، پینے کے صاف پانی اور دیگر سہولتوں کے حصول پر لگا دیا جائے تو قوم کی حالت بدل جائے، رشوت ستانی اور کمیشن مافیا کا تو کوئی حساب ہی نہیں، جن لوگوں کے بچے بیرونی ممالک میں تعلیم حاصل کررہے ہیں، ان کے ٹیکس کا حساب کسی نے کیا لگانا ہے کہ اکثر ٹیکس ہی نہیں دیتے، بیوروکریٹ کروڑ پتی ہیں، کونسا پٹواری اور تحصیل دار ہے جو کروڑ پتی نہیں۔ مگر کیا کیجئے ، کوئی کرپٹ پکڑا نہیں جاتا ، کیونکہ وزیراعظم، ان کی اولاد اور دیگر لوگوں سے لے کر ایک پٹواری تک کی کسی کرپشن کا کسی کے پاس کوئی ثبوت نہیں، جب ثبوت نہ ہو تو جان لیجئے کہ اس نے کرپشن کی ہی نہیں۔ وزیراعظم نے عدالتی کمیشن بنانے کا حکم دے دیا ہے، امید ہے بہت جلد ان کو بے گناہی کا پروانہ مل جائے گا۔

muhammad anwar graywal
About the Author: muhammad anwar graywal Read More Articles by muhammad anwar graywal: 623 Articles with 429230 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.