عشق ٹوٹتا کب ہے!

 عشق ٹوٹا تو استخارہ کیا
اورپھر عشق ہی دوبارہ کیا
یہ شعر متحدہ قومی موومنٹ کے منحرف راہ نما اور سابق سٹی ناظم نے اس وقت پڑھا جب وہ اپنی پارٹی کے نام کا اعلان کر رہے تھے۔

سیاست داں سیاست کی الف ب سے واقف تو ہو سکتے ہیں لیکن عشق کے عین تک پہنچنے میں ابھی وقت درکار ہے عشق ہوتا تو ٹوٹتا نہیں، دوبارہ ہونے کا جواز کیا!

اسی طرح مستقبل قریب میں حکومت کے پانچ سال مکمل ہونے کے بعد اگر ن لیگ پھر سے اقتدار میں نہیں آتی تو ہم سابق صدر جنرل پرویز مشرف سے بھی یہ امید کر سکتے ہیں کہ وہ ایک دن اچانک آئیں گے اور اپنے عشق کے ٹوٹنے اور دوبارہ ہونے کا اعلان کردیں گے۔ چلیں صاحب دنیا ہے۔ اس سیاست کارخانے میں تو کچھ بھی کسی بھی وقت ہو سکتا ہے۔ عمران خان صاحب کی پارٹی کا جادو کبھی بھی عوام کے سر چڑھ کر بول سکتا ہے تو کبھی بھی دماغ کی بتی بجھا سکتا ہے۔ ق لیگ والوں کے نام و نشان اب آثار قدیمہ میں ملنے لگے ہیں، لیکن کچھ کہہ نہیں سکتے کہ کل ق لیگ کا جادو بھی چلنا شروع ہوجائے۔ بلوچستان کی سیاست کیا رنگ دکھاتی ہے یہ بھی اگلے الیکشن میں سامنے آجائے گا۔ یہاں کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ نہیں ہو سکتا تو ایک کام نہیں ہوسکتا تھا۔ نہ ماضی میں کوئی کرسکا نہ مستقبل میں توقع ہے۔ بڑے بڑے منصوبہ بنائے گئے لیکن نہیں مجال ہے جو کراچی کی سیاست کا گدی نشین کسی اور کا بنایا جانا تو دور کی بات اس حوالے سے سوچا بھی جاسکے․․․ناممکن!

بتیس سالوں میں کراچی کے عوام نے کبھی جنگیں تو کبھی نوراکشتی دیکھی۔ خون بہاگیا سیاست ہوئی۔ کبھی لیاری کی سیاست تو کبھی کٹی پہاڑی کے قصے،کبھی اورنگی کے مکینوں کا مسئلہ تو کبھی پورے کراچی کے امن و امان کے حوالے سے بے یقینی۔ اے این پی میدان میں اتری لیکن کراچی والوں کا دل نیں جیت سکی، پاکستان پیپلزپارٹی جب سے قائم ہوئی ہے اس وقت سے اب کراچی میں اپنا مقام بنانے کی کوشش کر رہے ہے، لیکن ناکام۔

کراچی کی وہ جماعت جسے کراچی کا سب سے بڑا اسٹیک ہولڈر کہا جانا چاہیے فقط ایک ہی پارٹی ہے اور وہ متحدہ قومی موومنٹ ہے۔ کراچی کی دوسری بڑی پارٹی جس نے عوام کی توجہ کو اپنی جانب ہمیشہ سے مبذول کیے رکھا جماعت اسلامی ہے، لیکن جماعت اسلامی کی طرف سے طالبان کی حمایت میں آنے والے بیانات اور کچھ دیگر عوامل میں، جن میں اس جماعت کو کراچی میں کام کرنے سے روکنے کا فیکٹر بھی شامل ہے، نے جماعت اسلامی کی مقبولیت کو کم کیا۔ بہرحال جماعت اسلامی اپنے مقاصد میں پہلے بھی مستحکم نظر آئی اور اب بھی اپنا کام کر رہی ہے کہ شاید کوئی امید نظر آجائے۔

عمران خان صاحب نے کراچی میں قدم جمانے کے لیے سر توڑ کوشش کی، لیکن افسوس ان کی پارٹی میں تنظیمی صلاحیت اور صحیح منصوبہ بندی کا نہ ہونا، عمران خان کے لیے نقصان دہ ثابت ہوا۔ کراچی عمران خان کے لیے فقط اتنا ہی ہے کہ انھیں دو ہزار تیرہ کے الیکشن میں نو لاکھ ووٹ پڑ گئے۔ اب ان کی پارٹی کے لیے اس کارکردگی کا مظاہرہ کرنا مشکل نظر آتا ہے۔

متحدہ قومی موومنٹ ہزار الزامات کے باوجود کراچی والوں کے لیے واحد پارٹی ہی بنی رہی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ کراچی کے عوام الطاف حسین پر اعتماد کرتے ہیں اور اعتماد کے ساتھ کچھ اور ایسی وجوہات ہیں جن کے ہوتے ہوئے ایم کیوایم کو کراچی کے عوام کے دلوں سے الگ کرنا بہت مشکل ہے۔ پرویز مشرف کے دور میں جس طرح سے کراچی کو فنڈز فراہم کیے گئے اور یہاں پیسہ لگایا گیا، وہ سب کے سامنے ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ عوام فقط وہ دیکھتے ہیں جو نظر سامنے آتا ہے۔ ورنہ کراچی میں فلائی اوورز اور انڈر پاس بنانا ایسا ہی تھا کہ آپ ایک بدصورت خستہ حال دیوار کو بہت اچھا پینٹ کرکے دو ماہ تو اس کی خوب صورتی برقرار رکھ سکتے ہیں لیکن آخر کار اس دیوار کو گر ہی جانا ہے۔

سو یہی کچھ کراچی کے ساتھ ہوا۔ ماس ٹرانزٹ کے منصوبہ پر عمل کرنے کے بجائے سڑکیں بنا دی گئیں اور نتائج سب کے سامنے ہیں۔ آج کراچی کے عوام ہر روز سڑکوں پر اپنا وقت ضایع کرکے بھگت رہے ہیں۔ نہ گاڑی چلانے کی جگہ ہے اور نہ ہی پبلک ٹرانسپورٹ کا کوئی نظام۔ لاوارث شہر جعلی رنگ چونے سے سجا دیا گیا اور عوام بے وقوف بن گئے۔ اب بھی یہ شہر لاوارث ہی ہے۔ جب تک کوئی معجزہ نہیں ہوتا، شاید صورت حال یہی رہے گی۔ کراچی میں رینجرز کی صورت میں کچھ معجزات ہوتے نظر آئے ہیں اور مزید معجزات کی امید رکھنی چاہیے۔
سوال یہ ہے کہ ایک پارٹی جس پر دہشت گردی کے الزامات لگتے رہے، جسے پرویزمشرف صاحب کی چھترچھایا میں اتنا دیا گیا کہ مصطفی کمال صاحب نے اپنے طور پر متحدہ قومی موومنٹ کے پلیٹ فارم کو استعمال کرتے ہوئے اتنا کام کیا کہ دنیا کے بہترین میئر قرار پائے۔ ایک ایسی پارٹی جس کے قائد کے متنازعہ بیانات نے پورے ملک کو ہلا کر رکھ دیا۔اور اب مصطفیٰ کمال نے ہلچل مچارکھی ہے۔ ان کی صورت میں کراچی کو ایک ایسا راہ نما ملا ہے جو قومی سیاست کرتے ہوئے اس شہر کے مسائل یا ’’مہاجر کارڈ‘‘ کو اپنی سیاست کی بنیاد بنا رہا ہے، جس کی سب سے بڑی مثال ایم کیوایم کے کارکنوں کو عام معافی دینے کا پُرزور اور متواتر مطالبہ ہے۔ پھر وہ عمران خان اور دوسرے سیاسی قائدین کے برعکس کراچی والے ہیں اور اس شہر کی سیاست کو وہی شخص بدل سکتا ہے جو یہاں کا رہنے والا ہو-
Sana Ghori
About the Author: Sana Ghori Read More Articles by Sana Ghori: 317 Articles with 282691 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.