امتحان میں جعل سازی!

 ملتان کے مسلم لیگی ممبر پنجاب اسمبلی رانا محمود الحسن کا بیٹاعبداﷲ محمود نے جماعت نہم کا امتحان دے رہا تھا، بیالوجی کا پرچہ اسے کچھ مشکل محسوس ہوا، تو اس نے اپنے کسی ساتھی کی خدمات حاصل کیں، یوں علی وارث نے اصل امیدوار کی جگہ پر بیٹھ کر پرچہ حل کرنا شروع کیا، یہ کہانی الگ ہے کہ اس کاروائی کے سہولت کاروں کو کوئی پوچھے گا یا نہیں؟ معاملات کو مشکوک پا کر سپرنٹنڈنٹ امتحان کے سوالات کے جوابات درست نہ مل سکے، شک یقین میں بدل گیا۔ صاحب نے ملزم کو پکڑ کر حوالہ پولیس کردیا۔ جب میڈیا نے لوگوں نے بورڈ کے متعلقہ افسران سے رابطہ کیا تو فون بند پائے گئے۔ تاہم ذرائع یہ خبر حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے کہ بورڈ افسران پر دباؤ شروع ہے، اور دباؤ ڈالنے والوں کی فہرست طویل ہوتی جارہی ہے، جن میں دو وفاقی اور دو صوبائی وزراء کے نام شامل ہوچکے تھے، مقامی طور پر تو اور بھی بہت سے لوگ ہونگے۔ تاہم عدالت نے جعل سازی کا اتکاب کرنے والے ملزم کو جیل روانہ کرتے ہوئے پولیس سے اصل ریکارڈ طلب کیا ہے۔ کیونکہ عدالت کو درخواست دی گئی تھی کہ ملزم بے قصور ہے، اس کو بے گناہ قرار دیا جائے۔

یار لوگ ناراضی کا اظہار کرتے ہیں، کہتے ہیں کہ کیا ہوا، ایک بچے سے چھوٹی سی غلطی ہوگئی، اسے اچھالنے کی کیا ضرورت ہے، اور ویسے بھی ایک معمولی غلطی کسی ایک بچے سے ہوئی ہے، پوری حکومتی مشینری یا حکمران سیاسی جماعت تو اس میں ملوث نہیں؟ درست ہی کہتے ہیں، بات چھوٹی چھوٹی باتوں سے شروع ہوتی ہے، اور بگڑتے بگڑتے بات کا بتنگڑ بن جاتا ہے، معمولی چوری اور معمولی بدتمیزی ڈاکو اور بدمعاش بنادیتی ہے، پہلی ہی گیند پر کوئی چھکا نہیں لگاتا۔ جس بچے کی جگہ پرچہ حل کیا جارہا تھا وہ خاندانی سیاستدان ہیں، امید وار کے والد صاحب پنجاب اسمبلی کے معزز ممبر ہیں اور انہوں نے نہایت معقول سیاسی بیان جاری کیا ہے، فرمایا، ’’․․عبداﷲ کا فعل خاندان کے لئے بدنامی کا سبب بنا، یہ اس کا ذاتی فعل تھا، اس کی اسے سزا ملنی چاہیے، ہم نے ہمیشہ قانون اور ضابطے کو مد نظر رکھا ہے․․‘‘۔ اگر اس بیان کے بعد بھی کسی کو یہ شک رہ جاتا ہے کہ اپنے ممبران اسمبلی قانون کی پاسداری نہیں کرتے تو یہ شک زیادتی اور ظلم ہے۔ اب ہم سب کو عوامی نمائندے کی بات پر یقین کر لینا چاہیے ، کیونکہ لاکھوں لوگوں کا نمائندہ برسرِ میڈیا جھوٹ تو نہیں بول سکتا۔ مگر کیا کیجئے کہ اپنے ایم پی اے صاحب تو اپنے بچے کو قانون کے مطابق سزا دلوانے کے لئے تیار ہیں، مگر ان کے ساتھی اس بات کو برا جانتے ہیں کہ اگر ایک حکومتی ممبر اسمبلی کے بچے کو بھی سزا ہوگئی تو ہمارا حکومت میں رہنے کاکیا فائدہ؟ بھینسیں بھینسوں کی بہنیں ہوتی ہیں، واقعی اگر رانا صاحب نے کسی سے بھی نہیں کہا تو بھی ان کے ساتھیوں کا فرض ہے کہ وہ اپنے پیٹی بھائی کا مسئلہ حل کروائیں۔ ورنہ دوستوں کی محفل میں رانا صاحب یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ دوستوں کو خود خیال کرنا چاہیے، اب میں خود جا کر ان سے کہتا پھروں؟ اسی فارمولے کے تحت ان کے دوست ان کی مدد کو آنکلے ہیں، دیکھیں کوششیں کیا رنگ دکھاتی ہیں۔
 
پرچہ حل کرنے والے کو تو جیل بھیج دیا گیا، مگر جس کا پرچہ تھا، یعنی جو اصل ملزم تھا، اس کے بارے میں کیا فیصلہ ہوتا ہے، یہ آنے والا وقت ہی بتائے گا۔ اپنے ہاں یہ عام روایت ہے کہ طاقت ور کے لئے الگ قانون ہوتا ہے اور کمزور کے لئے الگ۔ حکمرانوں کے دعووں کو ایک طرف رکھ کر اندازہ لگایا جائے تو ایسی بہت سی مثالیں آئے روز سامنے آتی رہتی ہیں۔ تازہ مثال پرویز مشرف کے باہر جانے کی ہے، اس سے قبل چھوٹی اور عام مثالیں تو بہت ہیں، بگڑے امیرزادے اگر کسی کو قتل بھی کردیتے ہیں تو اس کے لئے بھی تاویلیں تلاش کرلی جاتی ہیں، مقتول پارٹیاں اپنے پیارے کی جدائی کو حکمِ خداوندی تصور کر کے برداشت کرلیتے ہیں۔ دراصل ہوتا تو دباؤ ہے، مگر زبان سے ظاہر نہیں کیا جاتا، زبانِ حال سے سب عیاں ہوجاتا ہے۔ متعلقہ سپرنٹنڈنٹ کی ہمت کی بھی داد دینی چاہیے، بڑی بات یہ ہے کہ ابھی تک سپرنٹنڈنٹ پر سختی نہیں آئی۔ خیر جو بھی ہوا، یا جوبھی ہونے والا ہے، ہوگا وہی جو عام روایت ہے، معاملات پر مٹی ڈال دی جائے گی۔ اسی طرح امیروں کے بچے جعلی طریقے سے اچھے نمبر حاصل کرتے رہیں گے اور قوم کے سرپر مسلط ہوتے رہیں گے۔ جعلی امتحان، جعلی قیادت، قوم کا اﷲ حافظ۔
muhammad anwar graywal
About the Author: muhammad anwar graywal Read More Articles by muhammad anwar graywal: 623 Articles with 428688 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.