الٹی ہوگئیں سب تدبیریں کچھ نہ دوا نے کام کیا

ساری تدبیریں، سارے دعوے دھر ے کے دھرے رہ گئے، پرویز مشرف آخرکاربیرونِ ملک چلے گئے۔ اس ہفتہ کی یہ گرما گرم ، بعض دلوں کو افسردہ کرنے والے، بعض کو راحت پہنچانے والی، کسی کو گرمانے والی تو کسی پر آسمانی بجلی بن کر گرنے والی خبر رہی۔ جمعرات 17مارچ کو یہ دل ہلا دینے والی خبر اخبارات کی ذینت بنی ۔’سپریم کورٹ آف پاکستان کے لارجر بنچ نے سابق آرمی چیف جنرل (ر) پرویز مشرف کا نام ای سی ایل سے نکالنے سے متعلق سندھ ہائی کورٹ کا فیصلہ برقرار اور وفاقی حکومت کی اپیل خارج کرتے ہوئے قرار دیا کہ’’ اگر وفاقی حکومت یا سنگین غداری کیس کی سماعت کے لیے قائم خصوصی عدالت کسی قانونی بنیاد پر ملزم کا نام ای سی ایل پر برقرار رکھنا چاہے تو سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ اس کے راستے میں رکاوٹ نہیں بنے گا اور پرویز مشرف کی نقل و حرکت محدود کرسکتے ہیں۔ حکومت پرویز مشرف کے بیرون مل جانے کا فیصلہ خود کرے۔ اگر پرویز مشرف کو بیرون ملک جانے کی اجازت نہیں دیتی تو حکومت قانونی حکم جاری کرے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ای سی ایل میں نام ڈالنا نہ وفاقی حکومت یا خصوصی عالت کا کام ہے، سارے کام سپریم کورٹ کے کندھے پرچڑھ کر نہ کروائے جائیں، بادی النظر میں محسوس ہوتا ہے کہ حکومت خود کچھ نہیں کرنا چاہتی اور عدالت کا شیلٹر لینا چاہتی ہے‘۔عدالت عالیہ کافیصلہ بہت واضح اور دو ٹوک ہی نہیں بلکہ حکومت وقت کو صاف الفاظ میں یہ بتا دینا تھا کہ حکومت عدالت کا کندھا استعمال نہ کرے، اسے از خود کرنا ہے سو کرے ، اس کے پاس قانونی اختیارات ہیں۔ بال اب حکومت کے کورٹ میں آچکی تھی۔ سپریم کورٹ کے بعد اب کوئی ادارہ کوئی طاقت ایسی نہیں باقی بچی تھی جس جانب حکومت اس حوالے سے دیکھتی ۔ اب دو ہی راستے تھے ایک وہ جس پر حکومت نے عمل کیا دوسرا یہ بھی تھا جو عدالت نے تجویز کیا تھا یعنی اپنے اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے پرویز مشرف کانام ای سی ایل میں موجود رہنے دیتے اور صاف الفاظ میں مشرف کو باہر جانے سے روک سکتی تھی۔ نون لیگ کی اعلیٰ قیادت مشرف کے مسئلہ پر تقسیم ہوچکی تھی۔ بعض زیادہ طاقت ور نون لیگی وزیر اور بشمول پنجاب کے وزیر اعلیٰ اسی فیصلے کے حق میں تھے جس پر عمل کیا گیا۔ نواز شریف صاحب نے اُن نون لیگی ساتھیوں کے فیصلے سے اتفاق کیا، حالانکہ کچھ خبریں ایسی بھی تھیں کہ بدھ کے روز جب یہ افواہ عام ہوئی کہ پرویز مشرف نے بیرون بلک جانے کی تیاریاں شروع کردی ہیں تو نوز شریف صاحب نے یہ احکامات جاری فرمادیے تھے کہ مشرف باہر نہ جانے پائے لیکن رات گئے جب طاقت ور نون لیگیوں نے سر جوڑے اور اس مسئلہ پر مشاورت کی تو مشرف کو باہر جانے کے حق میں نون لیگی طاقتیں غالب آگئیں اور وہ نون لیگی وزیر جنہوں نے مشرف کے حوالے سے بڑے لمبے چوڑے ، بلند بانگ دعوے کیے ہوئے تھے ، اگر مشرف کو باہر جانے دیا گیا تو ہم یہ کردیں گے ہم وہ کردیں گے بغلیں جھانکنے اور وضاحتیں کرنے پر مجبور نظر آئے۔ نواز شریف صاحب نے اسی میں عافیت جانی کے یہ بلا ملک سے دور ہی رہے تو ان کے حق میں اور نون لیگیوں کے حق میں بہتر ہے۔ مشرف کو محفوظ راستہ دینے کے حق میں نون لیگ کے بعض دانشور اور کالم نگار بھی تھے، وہ اپنی رائے کا اظہار وقفہ وقفہ سے کرتے رہے ہیں۔قبلہ عطأ الحق قاسمی صاحب نے اپنے کالم ’وزیر اعظم پاکستان اور پرویز مشرف‘ شائع شدہ روز نامہ جنگ 18مارچ 2016ء فرماتے ہیں ’’جہاں تک میری ذاتی رائے کا تعلق ہے پرویز مشرف کے معاملے میں پہلے دن سے میرا موقف یہی رہا ہے کہ یہ شخص آئین سے غداری اور اس کے علاوہ دوسرے سنگین جرائم کا مرتکب تو ہوا ہے مگر ہمارے ہاں کے معروضی حالات کے پیش نظر اس معاملے میں ’’مٹی پاؤ‘‘ والی پالیسی صحیح ہے۔ میں نے تو یہ بات مسلسل لکھی تھی کہ یہ معاملہ یہیں ختم کردیں کیوں کہ حکومت پرویز مشرف کا بال تک بیکا نہیں کر سکے گی، تاہم اس کا مطلب یہ نہیں کہ قوم پرویز مشرف کے جرائم معاف کردے گی ایسا نہیں ہوگا لیکن ایک وسیع تر قومی مفاد میں وزیر اعظم پاکستان اپنے دل پر پتھر رکھ کر موصوف کو باہر جانے کی اجازت دے دی جانی چاہیے‘‘۔ یہی کچھ حکومت نے کیا معروضی حالات ، قومی مفاد میں حکومت نے دل پر پتھر رکھ ہی لیا، کاش یہ پتھر بہت پہلے رکھ لیا جاتا ۔

گلے میں گھنٹی کون باندھے، نون لیگیوں نے فیصلہ تو کرلیا ، وزیراعلیٰ پنجاب کا یہ کام نہیں، وزیر اطلاعات شاید اس فیصلے کے حق میں نہیں تھے اس لیے یہ ذمہ داری پورے کرنے سے گریزاں نظر آئے، خواجہ صاحبان اور منصوبہ بندی کے وزیر بھی مشرف کے باہر جانے کے حوالے سے زمین آسمان ایک کردینے کی باتیں کرچکے تھے بھلا وہ کیسے یہ اعلان کرتے ۔ نون لیگیوں میں ایک ہی وزیر سب سے طاقت ور ہے جو نواز شریف کو روٹھ روٹھ کر بھی دکھائے ، کئی کئی دن نواز شریف سے بات نہ کرے تب بھی میاں صاحب اس سوہنے وزیر کو کچھ نہیں کہتے ، نہیں معلوم ایسی کون سی خوبی یا گیدڑ سنگھی چودھری صاحب کے پاس ہے کہ وہ نون لیگیوں میں طاقت ترین وزیر ہیں۔ اب یہ ذمہ داری ان کے سپرد کی گئی ، کیونکہ وہ اس فیصلے کے حق میں بھی تھے اس لیے ا س کا اعلان اور حکومت کی حکمت عملی کا اعلان کرنے کی ذمہ داری انہوں نے اپنے سر لے لی۔ سنئے انہوں نے کیا فرمایا، پریس کانفرنس سے اپنے خطاب میں کہا کہ ’ سابق صدر پرویز مشرف کی جانب سے طبی بنیادوں پر بیرون ملک جانے کی درخواست کی گئی، مشرف کے وکلا نے ای سی ایل سے نام نکالنے کی درخواست کی ہے ۔ درخواست میں کہا گیا ہے کہ مشرف چار سے چھے ہفتوں کے اندر علاج کے بعد ملک واپس آجائیں گے جس پر حکومت نے مشرف کو علاج کے لیے بیرون ملک جانے کی اجازت دے دی ہے۔ چودھری نثار نے فرمایا کہ پرویز مشرف کا نام ای سی ایل سے نکالنے کا حکم سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں دیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ معاملے پر مک مکا کرنا ہوتا تو عدالت جانے کی کیا ضرورت تھی جب کہ حکومت پر تنقید کرنے والوں نے پرویز مشرف کو گارڈ آف آنر دے کر رخصت کیا، انہوں نے واضح کیا کہ پرویز مشرف کا نام پونے دو سال سے ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں ہے جب کہ حکومت نے ہر فورم پر مشرف کا نام ای سی ایل سے نکالنے کی مخالفت کی، انہوں کہا کہ مشرف کو محفوظ راستہ دینے والے اب باتیں بنا رہے ہیں، پہلے دن سے کہا تھا حکومت کی پرویز مشرف سے کوئی ذاتی رنجش نہیں‘۔جمعرات کی صبح عدالت عالیہ کا فیصلہ آیا، بیرون ملک جانے کی تیاریاں شروع ہوچکی تھیں، چودھری نثار کی پریس کانفرنس شام میں ہوئی ، اب تو پرویز مشرف کا جانا یقینی ہوچکا تھا ، صبح تین بجے کی فلائٹ میں سیٹ بھی بک کرالی گئیں، سیکیوریٹی خدشات کے پیش نظر ان کی روانگی کو ، ان کے ائر پورٹ کے روٹ کو خفیہ رکھا گیا، اور مشرف ائر پورٹ پہنچے جمعہ کا سورج پرویز مشرف نے دبئی میں دیکھا۔ میر تقی میرؔ کا یہ شعر معاملات کی صحیح تصویر کشی کرتا ہے ؂
الٹی ہوگئیں سب تدبیریں کچھ نہ دوا نے کام کیا
دیکھا اس بیماریٔ دل نے آخر کام تمام کیا

پاکستان پیپلز پارٹی نے مشرف کو محفوظ راستہ دے کر بہ حفاظت بیرون ملک جانے دینے پر نون لیگ اور حکومت وقت کو نشانہ بنا یا، حالانکہ یہ تنقید بے معنی اور بے وجہ معلوم ہوتی ہے۔ پیپلز پارٹی تو پرویز مشرف کے فیض یعنی این آر او کے نتیجے میں اقتدار میں آئی، وزیروں نے حلف اٹھایا، پیپلز پارٹی کے پانچ سالا دور میں مشرف آزادی سے باہر جاتے اور آتے رہے، جب مشرف کی رخصتی ہوئی تو یہ پیپلز پارٹی ہی تو تھی جس نے مشرف کو شاندار طریقے سے ریڈ کارپٹ فراہم کیا، گارڈ آف آنر پیش کیا، اپنی جھینپ مٹانے کو یہ کہنے سے کیا فرق پڑتا ہے کہ اس گارڈ آف آنر میں پارٹی کا کوئی کارندہ شریک نہیں تھا ، وہ اقدام تو حکومت اور برسرِ اقتدار پارٹی کا تھا۔ ہماری سیاست میں یہ روایت عام ہے کہ اچھا اچھا ہپ ہپ ، کڑوا کڑوا تھو تھو، اچھا کام ہم کریں ، برا کام دوسرے کریں۔ اب اس روش کو بدلنے کی ضرورت ہے۔ ہمارے اکثر کالم نگار پرویز مشرف کی بیماری پر خوب خوب لکھتے رہے ہیں، اس عمر میں کون ہے جو بیمار نہیں، کمر کی تکلیف کوئی خاص بات نہیں۔ سب لوگ محسوس کر رہے تھے کہ بیماری تو ایک سبب بن رہی ہے مراعات حاصل کرنے کا، کیا وہ یہ کہتے کہ میں سابق چیف آف آرمی اسٹاف ہوں چنانچہ میں کسی عدالت میں حاضر نہیں ہوسکتا ، نظر آرہا تھا کہ مشرف کا کچھ نہیں ہوگا، پتا نہیں ہم یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ پرویز مشرف کوئی سیاسی لیڈر نہیں کہ انہیں سولی پر لٹکا دیاجائے تو ان کی پارٹی بھی چپ سادھے رہے ، دیگر سیاسی لیڈروں کی تو بات ہی کیا تھی، ان کے پیچھے ایک مضبوط قوت ہے، جو کبھی یہ برداشت نہیں کرسکتی کہ ان کے ہر دلعزیز شخص کا بال بھی بیکا ہو۔ درست کہا قاسمی صاحب نے یہ حکومت پرویز مشرف کا بال بھی بیکا نہیں کرسکتی ، اور یہ حکومت ہی کیا کوئی بھی اس شخص کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ اب جو سیاسی گیدڑ یہ باتیں کر رہے ہیں کہ حکومت انہیں واپس لائے ، وہ مقدمات کا سامنا کریں ، وغیرہ وغیرہ وہ خوابوں کی جنت میں رہتے ہیں۔ نواز حکومت کے بعد اگر خدا برا وقت پاکستان پر نہ لائے پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت آبھی گئی تو وہ بھی پرویز مشرف کا کچھ نہیں بگاڑ سکے گی۔ اس پارٹی کی تو ادائیں ہی نرالی رہی ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو کو فوجی سربراہ کے دور میں پھانسی دے دی گئی، انہیں سانپ سونگے رہا، اُس جنرل کا کیا بگاڑ لیا، بے نظیر کے دو بھائی قتل کردیے گئے ، ان کے قاتلوں کو اپنے دور اقتدار میں کیوں گرفتا ر نہیں کیا گیا، خود بے نظیر کے قاتلوں کو اپنے دورِ اقتدار میں کیوں نہیں ڈھونڈ نکالا۔ اقتدار ملتا ہے تو دوسرے کاموں سے فرصت نہیں ملتی۔

پرویزمشرف ڈکٹیٹر ضرور تھے لیکن ان کی محبِ وطنی تمام تر شکوک و شبہات سے بالا تر ہے، وہ ملک و قوم کے ہمدرد اور اپنے خون کے آخری قطرے تک محبِ وطن کہے جاسکتے ہیں۔ ان کے دور میں ترقی کی شرح ہر اعتبار سے موجودہ اور سابقہ حکومت کے مقابلے میں کہیں زیادہ رہی، ڈالر کنٹرول میں رہا، کرپشن دوسروں نے ضرور کی ہوگی لیکن مشرف پر کسی قسم کا کرپشن کا الزام نہیں، قرضوں کی صورت حال کنٹرول میں تھی، مہنگائی کا جن جو اب قابو سے باہر ہے مشرف کے دور میں کنٹرول میں رہا، پاکستان دنیا میں 114ویں نمبر پر تھا آج 144پر چلا گیا ہے۔ مشرف نے این آر او کیوں کیا؟ کیا مجبوری تھی، اکبر بگتی کیس سے وہ بہ عزت بری ہوگئے، لال مسجد اور 12مئی کے واقعات میں انہیں شامل کیا گیا، اگر کیس چلے گا تو دودھ کا دودھ پانی کا پانی ہوجائے گا، رہا غداری کا مقدمہ تو اس کے بارے میں بھی یہی کہا جاسکتا ہے کہ مشرف اس میں بھی سرخ رو ہوں گے۔ ایک کالم نگار نے لکھا ’آخر کار کمانڈو فرار ہونے میں کامیاب ہوگیا‘ حیرت کی بات ہے کہ موصوف کو مشرف کی رخصی کے کارواں میں بے شمار فوجی اور نیم فوجی دستے نظر نہیں آئے، حکومت کی جانب سے کلین چیٹ دکھا ئی نہیں دی، وہ فرار نہیں بلکہ بقول خلیل احمد نینی تال والا ’آن بان شان سے پرویز مشرف رخصت کرادئے گئے‘۔ ان کی رخصتی شاندار طریقے سے ہوئی، رات کی تاریکی میں نہیں بلکہ صبح کی پھوٹتی کرنوں اور ائر پورٹ کی چکا چوند لائٹوں میں عمل میں آئی۔ پرویز مشرف کیوں آئے تھے یہ بھی ایک راز ہی رہا ، وہ بیرون ملک جس انداز سے پاکستان کانام روشن کررہے تھے وہ سب پر عیاں ہے، بے نظر کے بعد پرویز مشرف ہی تھے کہ جنہیں مغرب کی جامعات لیکچر کے لیے مدعو کر رہی تھیں اور ان سے انہیں بھاری مالی منفعت بھی ہورہی تھی۔ یہ صلاحتیں ہمارے حکمرانوں میں کم کم پائی جاتی ہیں۔ وہ اب واپس آئیں گے یا نہیں یقین سے کچھ کہنا قبل از وقت ہے۔ وہ جہاں بھی رہیں گے پاکستان کا نام روشن کرتے رہیں گے۔
Prof. Dr Rais Ahmed Samdani
About the Author: Prof. Dr Rais Ahmed Samdani Read More Articles by Prof. Dr Rais Ahmed Samdani: 852 Articles with 1281180 views Ph D from Hamdard University on Hakim Muhammad Said . First PhD on Hakim Muhammad Said. topic of thesis was “Role of Hakim Mohammad Said Shaheed in t.. View More