جمہوری اور آمریت میں کیا فرق ہوتا ہے……!!!

چھوٹے منہ سے اگر بڑی بات نکل بھی جائے تو کوئی اسے لائق تحسین اور قابل توجہ نہیں سمجھتا ،اسکی وجہ ہے کہ اس دنیا کے’’ بڑے لوگ ‘‘اپنے سوا کسی غریب کو’’ سیانا ‘‘تسلیم نہیں کرتے۔چھوٹے منہ والے کو با صلاحیت قرار نہیں دیتے ۔حالانکہ ہمارے داناؤں کا کہا بلاجواز اور بلا وجہ نہیں ہے کہ’’ نیانا گل کرے تے سیانا قیاس کرے‘‘ مطلب یہ کہ اگر کو ئی نادان سمجھداری کی بات کہہ دے تو اسے بچے اور نادان کے منہ سے نکلی بات کی وجہ سے ضائع مت کیجیے بلکہ اس پر غور کیا جائے۔ہمارے معاشرے کا سب سے بڑا المیہ ہی یہی ہے کہ یہاں بات کو قد اور کاٹھ کے ترازو میں تولا جاتا ہے اور یہ بھی دیکھا جاتا ہے کہ بات کون کہہ رہا ہے اوریہ نہیں دیکھا جاتا ہے کہ کیا بات کہی جارہی ہے۔

اس کے علاوہ ہمارے معاشرے سے تحمل ،برداشت ،بردباری ناپید ہو چکی ہے، اور ہمارے اندر خود غرضی، حرص ،لالچ، طمع اور ’’ ذاتی انا‘‘ نے گہرے ڈایرے لگا رکھے ہیں۔قیام پاکستان سے قبل اور کچھ عرصہ بعد تک جو ہمارے بڑے بزرگ دوسرے کی محبت کا دم بھرتے تھے،حق ہمسائے کی ضرورتوں کا خیال رکھنے کے ساتھ انکے مال و زر اور عزت آبرو کو بھی اپنا سمجھتے تھے آج ہمارے ہاں ایسانہیں ہے ،انہیں بزرگوں کی اولاد کہلانے کے باوجود ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہیں۔قیام پاکستان سے قبل اور بعد کے چند سال تک گاؤں میں یہی رواج تھا کہ گاؤ ں کے کسی بھی فرد کے دماد کو پورے گاؤ ں کا دماد سمجھا ہی نہیں جاتا تھا بلکہ اسے پوری عزت و احترام بھی دیا جاتا ہے، گاؤں کے لوگ اس کی دعوتیں کیا کرتے تھے لیکن آج کسی کا کہا سچ ثابت ہو رہا ہے کہ ’’جس کی بیٹی ہے اسی کی بیٹی ہے باقی کسی کی کچھ نہیں لگتی۔‘‘

معاشرے کی تباہی و بربادی کی سب سے بڑی وجہ ہی یہی ہے کہ ہم اخلاقی اقدار کو چھوڑ چکے ہیں، باہمی احترام کے رشتوں سے آزادی حاصل کرچکے ہیں،تحمل ،بردباری اور برداشت کا مادہ ہم میں نہیں رہا، انسانیت کے احترام کا سبق ہم بھول بیٹھے ہیں، ان سب کی جگہ ایک چیذ نے لے لی ہے کہ ہمیں راتوں رات بغیر محنت کے امیر ہونا ہے،دولت مند بننا ہے۔چاہے اس کے لیے ہمیں انسانی و خونی رشتوں کا خون بہانا پڑے چاہے اخلاقی قدروں کا قتل عام کرنا پڑے، چاہے اپنے ہی معصوم بچوں کو نشے کی لت میں جھونکنا پڑے، کوٹھیوں بنگلوں اور بڑی بڑی گاڑیوں کے حصول کے لیے ہم کوٹھیوں کو قبحہ خانوں، جوائے خانوں میں تبدیل کرنے سے بھی نہیں ہچکچاتے اوراس چیز کے لیے ہمہ وقت تیار رہتے ہیں…… کیونکہ انکی منزل دولت کے سہارے ’’ عزت دار کہلوانا اور بننا ہے۔

آج بھی وہ خواتین اور مرد حضرات ہمارے معاشرے میں زندہ جاوید موجود ہیں جو انگریز حکمرانوں کی تعریفیں کرتے نہیں تھکتے انکے بقول انگریزوں کا دور حکومت سنہرا دور تھا۔ چوری چکاری اس دور میں ناپید تھی، باہمی عزت و آبرو ،جانو مال کی حفاظت ہوتی تھی، کبھی کھبار اگر کہیں قتل ہوتا تو آسمان سرخ ہوجاتا تھا جس سے لوگ سمجھتے کہ کہیں کسی کا خون بہایا گیا ہے۔ نوجوان بہو بیٹیاں اور بزرگ خواتین سونے چاندی کے زیوارات سے لدھی ہوئی جنگلوں میں سے بلا خوف و خطر گزرجاتیں، اور خیر وعافیت سے اپنی منزل مقصود پر پہنچ جاتیں، لیکن آج ایسا نہیں ہے، لوگ اپنی بیٹیوں اور بیٹوں سمیت اپنے بچوں کو سکول اور کالج بھیجنے سے گھبراتے ہیں، کیونکہ انہیں یہ کوف دامن گیر ہوتا ہے کہ کیا ان کے بچے باحفاظت واپس گھر اائیں گے بھی یا نہیں …… آج بڑے شہروں کے ساتھ چھوٹے چھوٹے دیہاتوں میں بھی تعلیمی اداروں کے باہر ریت سے بھری بوریوں کے پیچھے نیلی پیلی اور خاکی وردی پہنے ہر عمر کے افراد کھڑے دکھائی دیتے ہیں ،جن کے ہاتھوں میں اسلحہ بھی موجود ہوتا ہے، بے شک یہ جدید اسلحہ لیے کھڑے لوگوں کو چلانا بھی نہ آتا ہو۔

ویسے تو عوام جو حکمرانوں کی رعایا ہوتی ہے کہ جان ومال کی حفاظت برسراقتدار طبقہ کی ذمہ داری ہوتی ہے لیکن یہاں بھی حکمران ڈنڈی ما جاتے ہیں اور چہرے کے ساتھ حثیت دیکھ کر سکیورٹی معاملات دیکھے جاتے ہیں، اگر کوئی ناراض نہ ہو تو مجھے یہ کہنے میں میں کوئی عار محسوس نہیں ہوگا کہ اگر آرمی پبلک سکول پشاور کا سانحہ نہ ہوتا تو آ ہمارے تعلیمی اداروں کے دردیوار پر خار دار تاریں نہ لگی ہوتیں اور نہ ہی ان کے گیٹس پر دکھاوے کے مسلح اہلکار کھڑے ہوتے……اﷲ ہمارے حکمرانوں کو اپنی رعایا کے تحفظ کے لیے کیے گئے اقدامات کو مذید بہتر بنانے کی توفیق اور ہمت عطا کرے۔

پیٹرولیم مصنوعات میں کمی کا اعلان کرتے ہوئے وزیر اعطم صاحب نے قوم کو مژدہ سنایا کہ انکی حکومت نے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں دس سال قبل کی سطح پر لے آئی ہے جو اس بات کی دلیل ہے کہ مسلم لیگ نواز کی حکومت کو عوام کی بہت فکر ہے……لیکن دس سال کی سطح پر پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کا آنا اس بات کو ثابت کرتا ہے کہ آمر پرویز مشرف کے دور حکومت میں عوام کو پیٹرولیم مصنوعات سمیت اشیا ئے خورد و نوش سستی دستیاب تھیں جبکہ عوامی اور جمہوری حکمرانوں کے دور حکومت میں یہ قیمتیں آسمان پر پہنچا دی گئیں…… یہی وجہ ہے کہ عام لوگ جمہوریت اور جمہوری حکومتوں کے ذکر پر کانوں کو ہاتھ لگاتے ہوئے توبہ توبہ پکار اٹھتے ہیں۔

عام لوگوں کی تھڑوں پر جمی محفلوں میں بیٹھ کر دیکھا اور سنا جائے تو اصلی عوامی رائے کا علم ہوتا ہے میں چونکہ تھڑوں اور چائے خانوں ، حجام کی دوکانوں پر اٹھنا بیٹھنا زیادہ ہوتا ہے کیونکہ میں بھی اسی کلاس سے تعلق رکھتا ہے اس لیے میں عوامی رائے کو بہتر سمجھتا ہوں اور عوامی رائے کو مدنظر رکھ کر قلم سے لکھتا ہوں میری حکومت اور بہت جلد حکومتوں کا حصہ بننے والے منتخب بلدیاتی نمائندوں سے التماس ہے کہ وہ اپنے اقدامات اور فیصلوں میں عوامی زندگی کے متاثر ہونے کو پیش نظر رکھیں تو بہت مہربانی ہوگی۔ حکومت سے ایک اور درخواست بھی کرنی ہے کہ وہ بلدیاتی نمائندوں کو فوری اختیارات دے اور انہیں کام کرنے دے ورنہ بہت دیر ہوجائے گی۔آپ ہی کی جماعت کے ٹکٹ پر منتخب ہونے والے بلدیاتی نمائندوں کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو رہا ہے اور وہ عام تقریبات میں اس ھوالے سے بہت معنی خیز کہانیاں بیان کرتے ہیں۔
Anwer Abbas Anwer
About the Author: Anwer Abbas Anwer Read More Articles by Anwer Abbas Anwer: 203 Articles with 144433 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.