ٹینشن زدہ ماحول میں بھی کرکٹ ہوسکتی ہے؟

اس کے باوجود کہ بھارت ہمارا پڑوسی ہے نہ وہ خود کو کہیں اور لے جاسکتا ہے اور نہ ہی ہم۔پھر بھی نہ جانے کیوں وہ پاکستان کے خلاف سازشوں میں مصروف دکھائی دیتا ہے ۔ گزشتہ سال پہلے سے طے شدہ پاک بھارت سیریزکھیلنے سے انکارکے بہانے تلاش کرتارہا ۔ اس کے باوجود کہ بھارت کے حالات بھی پاکستان سے مختلف نہیں ہیں جہاں کئی ریاستوں میں آزادی اور گوریلا جنگ لڑی جارہی ہے ۔ اگر پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات ہوتے ہیں تو ممبئی اور پٹھان کوٹ جیسے واقعا ت بھارت میں بھی ہوچکے ہیں ۔ پاکستان اپنے جسم پر لگے ہوئے زخم آسانی سے سہہ لیتا ہے لیکن بھارت شور مچاکر پوری دنیا میں دہشت گردی کے واقعات کو پاکستان کے ماتھے کا جھومر بنا دیتا ہے ۔پاکستان کرکٹ بورڈ کی جانب سے اس پیشکش کو بھی بھارت نے حقارت سے ٹھکرا دیا تھاکہ دوبئی میں طے شدہ پاک بھارت سیریز کے میچز کروالیے جائیں ۔اس سے زیادہ توہین کی بات اور کیا ہوگی کہ پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیرمین شہریار خاں کو پہلے بھارت میں بلایا پھر انتہاء پسند ہندووں کے ہاتھوں دھمکیاں ( بلکہ دھکے دے کر) بھارت سے نکال دیا گیا ۔ وہ شریف انسان پھر بھی غیر جانبدار جگہ پر پاک بھارت سیریز کی بھیک مانگتے رہے ۔ نہ بھارتی حکومت کو عقل آئے اور نہ ہی آئی سی سی کو اپنے طے شدہ شیڈول کا خیال آیا ۔ آئی سی سی کی مجرمانہ خاموشی کی سزا بھی پی سی بی کو ہی بھگتنا پڑی ۔اب جبکہ ٹی 20ورلڈ کپ کے میچزبھارت میں شروع ہوچکے ہیں تو انٹرنیشنل کرکٹ بورڈ کو اس بات کو ملحوظ خاطر رکھنا چاہیئے تھا کہ پاک بھارت تعلقات نارمل پوزیشن میں نہیں ہیں ۔ کئی تنازعات کے علاوہ بھارت میں ایک متعصب اور انتہا پسند وزیر اعظم نریندر مودی برسراقتدار ہیں جو بھارت میں بسنے والے مسلمانوں سمیت دیگر اقلیتوں کے بھی جانی دشمن ہیں اور ان کا سابقہ دورحکمرانی انسانوں کی بجائے درندوں جیسا ہے ۔ اگر بھارت نے اپنی حکومت کے دباؤ کی بنا پر غیر جانبدار جگہ پر پاکستان سے کرکٹ کھیلنا پسند نہیں کیا تو پاکستان کی ٹیم ان حالات میں بھارت جاکر ورلڈ کپ کے میچز کیسے کھیل سکتی ہے جبکہ اس کو انتہاء پسند ہند و تنظیموں کی جانب سے مسلسل دھمکیاں بھی مل رہی ہوں ۔اس لیے آئی سی سی کو ورلڈ کپ کا انعقاد بھارت میں رکھنا ہی نہیں چاہیئے تھا اور اگر بھارت میں ورلڈ کپ کاانعقاد بہت مجبوری بھی تھا تو کم ازکم پاکستانی کرکٹ ٹیم کے میچز سری لنکا ٗ بنگلہ دیش یا متحدہ عرب امارات میں رکھے جاسکتے تھے۔اب حکومت پاکستان نے اعلی ظرفی کامظاہرہ کرتے ہوئے کرکٹ ٹیم بھارت بھجوا دی ہے توسوچنے کی بات ہے کہ ٹینشن زدہ ماحول میں وہ کیسے اچھی کارکردگی دکھاسکتی ہے ۔ اگر ورلڈ کپ پاکستان میں منعقد ہوتا تو کیا بھارت اپنی ٹیم بھجوادیتا ؟ ۔جو پاکستان سے کسی تیسرے ملک میں بھی میچز کھیلنے کو تیار نہیں ہوا۔ کرکٹ اب عالمی کھیل کی صورت اختیار کرچکا ہے اور ساری دنیا کی توجہ ورلڈ کپ پر مرکوز ہے۔ باہمی سیریز اور ٹورنامنٹ کا فیصلہ کرنے سے پہلے آئی سی سی کو زمینی حقائق کو ملحوظ خاطر رکھنا چاہیئے تھا۔ بھارت وہ ملک ہے جس نے پاکستان کو آج تک دل سے قبول نہیں کیا ۔ وہ کل بھی ہمارا دشمن تھا اور آج بھی وہ دشمنی کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتا۔ تاریخ اس بات کی شاہد ہے کہ جب بھی پاکستان نے بھارت کی جانب دوستی کا ہاتھ بڑھایا بھارت نے کمزوری تصور کرکے دوستی کا ہاتھ جھٹک دیا۔ پاکستان کو آزاد ہوئے 68 سال ہوچکے ہیں ۔ دونوں ملکوں کے مابین تنازعات کم ہونے کی بجائے بڑھتے ہی جارہے ہیں ۔وادی کشمیر میں ہونے والے مظالم کی بازگشت تو اب بھارتی یونیورسٹیوں میں بھی سنی جارہی ہے جہاں زندہ ضمیر لوگوں نے کشمیر کی آزادی کے لیے آواز اٹھانا شروع کردی ہے جن کے خلاف بھارتی حکومت بغاوت جیسے سنگین مقدمات بنارہی ہے ۔بھارت کی آبی جارحیت اب بھی عروج پر ہے ۔پاکستانی دریاؤں میں سارا سال ریت اٹھتی ہے اور موسم برسات میں سیلابی ریلے ہمارا مقدر بنا دیئے جاتے ہیں ۔جو کھربوں مالیت کی فصلوں گھر مویشی اور املاک کو بہا کر لے جاتے ہیں ۔وہ رقم وہ قومی ترقی کے لیے خرچ ہونا تھی وہ رقم سیلاب زدگان کی مدد کے لیے ہر سال خرچ کرنی پڑتی ہے ۔ سانپ کو جتنا بھی دودھ پلایا جائے اس کی خصلت نہیں بدلتی ۔ بھارت ہمارا ہمسایہ ضرور ہے لیکن اس کی حیثیت ہماری نظر میں اس سانپ جیسی ہے جو ہمیشہ ہمیں ڈسنے کی تاک میں رہتا ہے ۔اسے پاک چین اقتصادی راہداری منصوبہ بھی بہت تکلیف دیتا ہے جس کا اظہار کبھی وہ خود تو کبھی پاکستان میں موجوداپنے ایجنٹوں کے ذریعے کرتا رہتا ہے ۔ہمیں ورلڈ کپ سے زیادہ اپنے کھلاڑیوں کی جان عزیز ہونی چاہیئے وہ ہمارے ہیرو ہیں جو میدان کرکٹ میں قومی پرچم کو اپنی کارکردگی سے بلند ترین مقام پر پہنچاتے ہیں ۔انہیں کھیلنے کے لیے ٹینشن سے پاک ماحول فراہم کرنا میزبان ملک کا فرض ہونا چاہیئے۔ اس مقصدکے لیے بھارت پر سفارتی سطح پر جتنا دباؤ بھی ڈالا جائے کم ہے ۔اگر دنیا اچھی اور معیاری کرکٹ دیکھنا چاہتی ہے تو اسے ٹینشن سے پاک ماحول میں ورلڈ کپ کروانا چاہیئے تھا ۔وگرنہ یہ ورلڈ کپ پاکستان اور بھارت کے مابین مزید کشیدگی کا باعث بھی بن سکتاہے۔اگر خدانخواستہ پاکستانی کرکٹ ٹیم کے کھلاڑیوں کو کوئی نقصان پہنچا تو بھارت کے ساتھ ساتھ آئی سی سی برابر کا ذمہ دار ہوگا۔
Aslam Lodhi
About the Author: Aslam Lodhi Read More Articles by Aslam Lodhi: 781 Articles with 666353 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.