نومولود ’متحدہ‘ اور کراچی

سننے میں آرہا ہے کہ متحدہ کے قائد الطاف حسین زیادہ مئے نوشی کی وجہ سے زندگی کی آخری علالت بھری سانسوں میں زندگی گزار رہے ہیں بلکہ سوشل میڈیا پر تو انکی رخصتی کی خبر نشر کی گئی ہے جس کی صداقت کی ابھی کوئی باوثوق ذرائع سے تصدیق نہیں ہوسکی۔الطاف حسین واحد ایسے سیاستدان رہے ہیں صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ عالمی لحاظ سے بھی وہ نامور سیاستدان ہیں جواپنی مرضی سے جلاوطنی حاصل کرکے ایک نامور جمہوری ریاست میں اپنی سیاسی پہچان رکھنے کے علاوہ ایک جماعت کو منظم رکھا۔ کم از کم ایک بڑے شہر میں اپنا سیاسی وزن برقرار رکھا۔لیکن عروج پر زوال تو ہے خواجہ غلام فریدـؒ کا قول ہے کہ ’’زیر تھی زبر نہ تھی متاں پیش آوی‘‘ اور اب الطاف حسین پر وہی پیش آرہے ہیں جو کبھی ان کے ’زبر‘ بنے پھرتے تھے الطاف بھائی کے کاندھے اور بازو تھے اور اب وہ الطاف بھائی کی حالت غیر دیکھ کر اپنی نئی متحدہ قائم کرنے لگے ہیں۔کچھ عرصہ صبر وتحمل کا مظاہرہ کرنے کے بعد اسی گندی سیاست میں اسی پرانے شہر میں وہی کچھ کرنے لگے جو کبھی ایم کیو ایم کے پرانے قائد نے متحدہ مہاجر قومی موومنٹ چھوڑ کر کیا تھا بس جی جیسا کرو گے ویسا بھرو گے۔ کراچی کی عوام فی الحال کسی کشمکش میں ہے کہ کسے چھوڑا جائے کسے تھاما جائے ۔حالات سے تنگ لوگوں کے لئے نئی قائم متحدہ میں روشنی کی کرنیں نظر تو آرہی ہیں لیکن اب دوسری طرف سے خطرہ جان کا بھی اور مال کا بھی ۔۔۔لیکن الطاف بھائی بھی فی الحال عتاب میں زندگی گزار رہے ہیں ،کیونکہ ایک وقت میں ہی وہ بیچارہ کتنے صدمے برداشت کرسکے گا، ایک طرف عمران فاروق کا قتل تو دوسری طرف بیماریوں کا گھیراو اور سب سے بڑا صدمہ کہ ان کی گود میں کھیلنے والے بچوں کے ہاں نئی جماعت کا جنم اور ساتھ میں کچھ بکروں کی قربانی بھی ہونے کا خدشہ ہے۔خیر یہ تو وقت بتائے گا کہ عقیقے پر کتنے بکروں کی قربانی کی جائے گی فی الحال تو صرف ایک ہی شامل قربانی ہوا ہے۔

مصطفی کمال کی حالیہ پریس کانفرنس اور ساتھ میں بلدیہ ٹاؤن فیکٹری کے نامزد ملزم انیس قائم خانی خود کو ’پاک پوتر‘ کرنے کے چکر میں کراچی جیسے شہر کو پاک کرنے کی نیت سے پاک صاف ہوکر آگئے ہیں۔خیر ان دونوں کا ضمیر جاگا ہے یا کسی نے جگایا ہے ۔مصطفی کمال ، ڈاکٹر صغیر احمد نے جو بتایا ہے کہ متحدہ ایک جماعت نہیں بلکہ ایک ایجنسی کے طور پر کام کررہی ہے جن کا نشانا صرف انسان ہیں حالانکہ یہ سرف الزامات نہیں ہیں بلکہ یہ حقائق ہیں جو کئی برسوں سے مختلف جماعتیں اور لوگ بتاتے آرہے ہیں۔دشمن ملک کے ہاتھوں کھلونا بننے والے یہ ’را‘ کے ایجنٹوں نے جتنا انسانی خون کراچی میں بہایا ہے وہ صرف سیاست کرنے کے لئے نہیں تھا بلکہ دشمن ملک اپنی دشمنی خوب طریقے سے نبھاتا رہا ہے۔سابقہ حکومت میں متحدہ اور پیپلز پارٹی کا روٹھنے منانے کا جو کھیل تھا وہ صرف عام معاملات پر نہیں تھا بلکہ یہی وہ معاملات تھے جن پر ’زردار‘ صاحب کو رحمٰن ملک کے توسط سے متحدہ سے یرغمال ہونا پڑا ۔یہ معاملات صرف سیاست یا جمہوریت کو قائم رکھنے کے لئے نہیں تھے بلکہ اپنی اتھارٹی قائم رکھنے کے لئے تھے جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ پیپلز پارٹی اپنی حکومت کے دوران ہی ذوالفقار مرزا جیسے سیاستدانوں سے ہاتھ دھو بیٹھی اور حکومت ختم ہوتے ہی لڑکھڑا گئی۔موجودہ حکومت نے بڑی سنجیدگی سے اس کھیل کو کھیلا ہے کہ ایک طرف سیاست بھی قائم رکھی اور دوسری طرف فوج کو بھی میدان عمل میں اتار دیا تاکہ ناراضگی بھی حد سے نہ بڑھے اور کچھ کنٹرول بھی ہوجائے۔ایکشن پلان کو کراچی میں کامیابی اس وقت ملی جب نائن زیرو پر چھاپے پڑنے کے بعد اہم رہنماوں کی گرفتاری عمل میں آئی اور ساتھ میں صولت مرزا سے حاصل ہونے والے ثبوت جو متحدہ کی دُم پر پاؤں رکھنے میں اہم ثابت ہوئے۔ان تمام حالات کے پیش نطر ہی مصطفی کمال جیسے لوگ بڑی سمجھداری سے ایک طرف ہوگئے اور وقت کا انتظار کرنے لگ گئے اور شاید ان کی اپنی سیاسی سوچ وبصیرت کے مطابق وہ دوبارہ ’دبنگ‘طریقے سے انٹری مار کر واپس آگئے۔میں یقین سے کہتا ہوں کہ یہ ان کی سوچ تقریباً نوے فیصد کامیابی دلاسکتی ہے۔ اور ساتھ میں اسٹیبلشمنٹ کی ’دھرنا فیچر فلم‘ مکمل طور پر فلاپ ہونے کے بعد یہ سب ہورہا ہے کہ اس نئی فیچر فلم کو کامیابی کی راہیں مل تو سکتی ہیں۔پورے پاکستان میں نہ سہی کراچی کو دوبارہ کس کے حوالے کیا جانا چاہیئے تاکہ کراچی کی افسردہ عوام کسی ہتھے تو آرام سے چڑھ جائیں۔باقی اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے، نیتوں کا حال تو اﷲ تعالیٰ ہی جانتے ہیں کہ کون کس نیت سے آیا ہے۔شاید اب حکومت وقت کے لئے اب سوچنے کا وقت نہیں ہے یا ثبوت مانگتے سے بہتر ہے کہ عمل کرنے پر وقت لگائے۔متحدہ قومی موومنٹ کے دشمن ملک کی ایجنسی سے تعلقات صاف اور واضح ہورہے ہیں جن پر ایکشن لینے کی ضرورت ہے۔جو را کے ہاتھوں اپنے ملک کو تباہ وبرباد کررہے ہیں ان کے خلاف بھرپور کروائی عمل میں لائے تاکہ کراچی کی نسلیں محفوظ ہوجائیں اور کراچی دوبارہ سے ایک پُر امن اور روشنیوں کا شہر بن سکے اور عوام کو بھی ایسے حالات سے محفوظ کیا جائے آنے والے وقت میں کوئی کسی کا کھلونا بھی نہ بن سکے۔
Muhammad Shahid Yousuf Khan
About the Author: Muhammad Shahid Yousuf Khan Read More Articles by Muhammad Shahid Yousuf Khan: 49 Articles with 40745 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.