سوچنے کا پیمانہ کہاں ہے؟

 صدر جمہوریہ ہند کے بیان،’’دہشت گردی نفرت کے ماحول میں پروان چڑھتی ہے‘‘۔بظاہراس بیان پر صدر جمہوریہ ہند پرنب مکھرجی کی ستائش سماج کے ہر طبقے نے کی ہے اور یہ بھی کہا کہ بیشک نفرت کے ماحول میں دہشت گردی پروان چڑھتی ہے۔ہاں اگر بے قصوراور بے گناہوں کو بغیر کسی جرم کے گرفتار کر لیا جائے ، کسی کے ساتھ ظلم و زیادتی کی جائے،حقوق پامال کئے جانے لگیں تو اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ماحول میں خرابی پیدا ہو گی اور لوگوں کے درمیان نفرت کا زہر پھیلنے لگتا ہے۔بعض لوگوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ دہشت گردکہیں باہر سے نہیں آتے ، دہشت گرد ہمارے سماج میں ہی پیدا ہوتے ہیں اور حکومتیں ان کی پشت پناہی کرتی ہیں،جس سے ان کے حوصلے بلند ہوجاتے ہیں اور پھر دہشت گردی کا خونی کھیل شروع ہو جاتا ہے۔ حالانکہ صدر جمہوریہ ہند نے نفرت اور نا انصافی کو دہشت گردی کی اصل وجہ بتائی ہے اور لوگوں کو بھی اس بات پر یقین ہے کہ ہاں سماج میں نفرت اور نا انصافی سے دہشت گردی میں اضافہ ہوتا ہے ۔لیکن یہ بات درست نہیں لگتی ہے ۔چونکہ اکثر دیکھا گیا ہے کہ سماج میں کوئی عالمی اصطلاح پررائج ہو جاتی ہے اور ہم ہر چیز کو اسی سے منسلک کر کے دیکھتے ہیں ۔دیکھنے کایہ نظریہ انتہائی چھوٹے پیمانے سے لیکر بڑے بڑے شخصیات یہاں تک حکومت تک کا دائرہ کار وہی ہوتا ہے جو عالمی پیمانے پر مشہور ہو گیا ہوتا ہے ۔لفظ دہشت گردی کو ہم کس زمیرے میں رکھیں پہلا سوال تو یہ پیدا ہوتا ہے ۔دہشت گردی اگر اپنے اصل معنی میں استعمال ہو تو سماج میں ہر وہ کام جس سے عوام و خاص کے درمیان دہشت پیدا ہو دہشت گردی کہلاتا ہے ۔لیکن ہم تو دیکھ رہے ہیں کہ صرف کچھ عالمی پیمانے کی اصطلاحوں سے ہم چلاتے ہیں اور اسی کو دہشت گردی کا نام دیتے ہیں جو سرکاری سطح پر کسی کو نقاب پوش مشتبہ بنا کر پیش کیا جاتا ہے یا پھر کہیں کوئی بلاسٹ ہو جاتا ہے اس کے بعد جو گرفتاریاں ہوتی ہیں اسے ہم دہشت گردی کے نام سے منسوب کرتے ہیں ۔لیکن ساتھ ہی یہ بھی کہتے ہیں کہ سماج میں نا انصافی اور نفرت کے رد عمل سے دہشت گردی پروان چڑھتی ہے۔لوگ تالیاں بھی بجاتے ہیں کہ ہاں ہاں یہ ٹھیک ہے ۔لیکن حقیقت یہ ہے کہ جو نفرت کا ماحول پروان چڑھا رہا ہے اور جو نا انصافی کر رہا ہے اصل میں وہی دہشت گرد ہے اور اسی کو دہشت گردی کہتے ہیں ۔سرحد پار دہشت گردانہ کارروائی تو سرحدی معاملے کو لیکر ہے ۔لیکن ہمارے سماج میں جو کچھ لوگ لاٹھی ڈنڈا کے ذریعے حکومت کو ہائی جیک کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور سارے معاملات خود ہی سڑکوں پر حل کر رہے ہیں وہی منصف اور وہی جج اور وہی پولیس کاکا م کر رہے ہیں جس پر انتظامیہ کا کوئی کنٹرول نہیں ہے اصل میں یہی دہشت گردہیں جو سماج میں منافرت پھیلانے کا کام کر رہے ہیں اور کسی کو قتل کر رہے ہیں ۔آخر انہیں دانشور طبقہ کس زمرے میں رکھے گا ۔میں نہیں جانتا کہ ملک میں کوئی دہشت گرد پروان چڑھتا ہے بلکہ حکومت اپنے سرحدی معاملے میں دہشت گردی سے منسوب کرتی ہے جو ٹھیک نہیں بلکہ حکومت کو چاہئے کہ وہ سفارتی تعلقات کے ذریعے اپنے معاملے کو حل کریں ۔یہ کہاں کا انصاف ہے کہ جس پر ظلم و زیادتی اور نا انصافی ہو رہا ہے اسی کو دہشت گرد بنا دیا جائے یہ کہہ کر ہاں نا انصافی سے دہشت گردی پروان چڑھتی ہے ۔سوچنے کا نظریہ تبدیل کرنا ہوگا ۔واقعی اگر دہشت گرد کی تلاش ہے تو اصل دہشت گرد تو وہی ہیں جو ملک کے خزانے کو لوٹنے میں دن و رات مصروف ہیں ،جو سماج میں نفرت کے ماحول کو پروانے چڑھانے کیلئے طرح طرح کی حرکتیں کرتے ہیں ۔کہیں نائجیریائی لڑکی کی عزت سرے بازار نیلام کی جاتی ہے اور پولیس خاموش تماشائی بنی رہتی ہے ۔اصل میں یہاں پر پولیس سے لیکر جرم کا ارتکاب کرنے والے دہشت گرد ہیں ۔جہاں مندر کے مائک سے اعلان کر کے بھیڑ کسی بے قصور کو موت کے گھاٹ اتار دیتا ہے اصل دہشت گردی یہ ہے ۔کہیں ریل کے ڈبے میں گھس کر مسافر کی تلاشی لی جاتی ہے اور اس کو ذدوکوب کیا جاتا ہے اصل دہشت گردی یہ ہے ،جو سماج میں خوف کا ماحول پیدا کر رہے ہیں ۔کبھی راجدھانی میں موجود کیرل ہاؤس میں بیف کی افواہ پھیلا کر پولیس کا سہارہ لیکر کارروائی کی جاتی ہے اصل دہشت گردی یہ ہے ۔تو کہیں کسی کے منہ پر سیاہی پوت دی جاتی ہے اصل دہشت گردی یہ ہے جو سماج میں دہشت کا ماحول پروان چڑھا رہے ہیں ۔تو کہیں کسی دلت کو زندہ جلا دیا جاتا ہے اور کہیں کسی دلت کی عزت کو تار تار کرنے کے بعد اسے بے رحمی سے موت کے گھاٹ اتاردیا جاتا ہے اصل دہشت گردی یہ ہے ۔مجھے حیرت ہے دہشت گردی کی اصطلاح کو غلط طریقے سے پیش کرنے والوں پر کہ آخر وہ دہشت گرد کسے کہتے ہیں ان کے سوچنے کا پیمانہ کیوں نہیں بدلتا ہے ۔گزشتہ 18 مہینوں سے ملک میں جو نفرت کا بیج بویا جا رہا ہے وہ ملک کے لئے بیحد نقصان دہ ہے۔ کیا اسے ہم دہشت گردی میں شمار نہیں کر سکتے ہیں تو آخر کس کو دہشت گردی میں شمارکریں گے؟۔آج ملک میں کچھ خاص طبقے یہطے کر رہی ہے کہ عوام کو کیا کھانا چاہئے ،اورکیا پہننا چاہئے۔ عوام کے جمہوری حق کو چھیننے کی کوشش کی جا رہی ہے۔کیا یہ دہشت گردی نہیں تو اور کیا ہے کہ لوگ خوف کے سائے میں کھانا کھائیں اور خوف کے سائے میں کپڑا پہنیں۔صرف عالمی ایشو کی طرح اپنے ملک کے ایشو کو نہ دیکھیں بلکہ اپنے ملک میں ہونے والے واقعات و حادثہ پر کارروائی کو یقینی بنائیں ۔اس لئے ضرورت اس بات کی ہے کہ ایسے ماحول میں ملک کے اندر محبت و بھائی چارہ کی فضا ہموار کرنے کی ضرورت ہے اور اس کے لئے ہم سب کو آگے آنا ہوگا۔
Falah Uddin Falahi
About the Author: Falah Uddin Falahi Read More Articles by Falah Uddin Falahi: 135 Articles with 102161 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.