اھوری محبت

ہم جس ماحول کی پیدا ہیں ،وہ رسموں اور ر واجوں کا پابند ہے ۔یہ نظام ہمارا اپنا بنایا ہوا ہے ،ہمیں اسی کے اندر زندگی گزارنی ہے ۔تم کو اندازہ توہو گیا ہو گا کہ شہر آنے سے پہلے ہم گاﺅں میں رہتے تھے ۔گاﺅں میں آج بھی انسان پرانی رسموں کا پابند ہے ۔انسان اتنا خدا کی نہیں مانتا جتنا رسموں کے آگے سر جھکا دیتا ہے۔
اندھیری رات میں آسمان ستاروں سے روشن تھا ،چاند زمین کی آغوش میں ، ماں کی گود میں سونے والے بچے کی مانند سو گیا تھا ۔ شہر کے شمالی علاقے کے ایک محلے میں میں واقع ایک کمرا ابھی تک روشن تھا ۔ کمرے کے باہر موسم سرما کی ٹھٹھرا دینے سرد ہوا چل رہی تھی ۔ کمرے میں سردی کا احساس باہر کی نسبت قدرے کم تھا ۔ کمرے کا درازہ اور کھڑکیاں مع روشندان کچھ اس طرح بند کیئے گئے تھے کہ سرد ہوا کا گزرنا محال تھا ۔ اسکے ساتھ کمرے میں رکھی کوئلوں کی انگیٹھی جس میں موجود انگارے سرخ گلابوں کی طرح دہق دہق کر اب ٹھنڈے پڑ چکے تھے ۔ ایک نوجوان چارپائی پہ بیٹھا کمبل میں لپٹا ،ٹیبل پر جھکے لکھنے میں مصروف تھا ۔ اسے اپنا ہاتھ منجمد ہوتا محسوس ہوا ۔شریانوں میں موجود خون ا س سے پہلے کہ اپنی روانی بند کرتا ۔نوجوان نے دونوں ہاتھوں کی ہتھیلیوں کو ایک دوسرے سے رگڑنے لگا ۔رگڑ سے ہاتھوں میں اس قدر تپش پیدا ہو گئی کہ وہ دوبارہ لکھ سکتا تھا لمبی سی جمائی لینے کے بعد نوجوان کو احساس ہوا کہ رات آدھی سے زیادہ بیت چکی ہے اور نیند بھی اس کی آنکھوں کی پلکوں پہ آن کھڑی ہوئی ہے اور اس کے سونے کا انتظار کر رہی ہے ۔اس نے میز پر سے وہ کاغذ اٹھایا جس پر وہ تھوڑی دیر پہلے لکھنے میں مصروف تھا اس نے کاغذ لپیٹا اور پاس پڑھی کتاب کے اندر رکھ لیا ۔نوجوا ن نے پھر سے ایک لمبی سی جمائی لی ۔بلب کے بند ہوتے ہی سارا کمرہ کو جو چند لمحے پہلے نور کا محل لگ رہا تھا ۔اندھیرے کھنڈر کا منظر پیش کرنے لگا۔نوجوان لحاف میں منہ لپیٹ کر سو گیا ۔ صبح اس کی آنکھ اس وقت کھلی جب اس کی ماں کی کڑک دار آواز اس کی سماعتوں سے آٹکرائی ۔ ”مراد “ اٹھ جا سورج دوپہر کو آیا اور تو ابھی سو رہا ہے۔ کتنی بار کہا ہے جلدی سو جایا کر ۔۔۔۔۔۔۔ پتا نہیں رات دیر تک کون سی پڑھائی کرتا رہتا ہے ؟“ ’مراد ‘ اٹھا ہاتھ منہ دھویا ،چولہے پہ بیٹھی ما ں کے پاس آن بیٹھا ۔” اماں تو ایسے ہی بولتی رہتی ہے ،رات بھر پڑھائی کرتا ہوں اور میں نے کیا کرنا ہے ؟“ ’مراد ‘ نے ایک نوالہ منہ میں ڈھونستے ہوئے ماں سے کہا اور چائے کی چسکی بھری ۔ گرم گرم چائے کے گھونٹ نے اس کے منہ کو جلا ڈالا۔” ٹھنڈی کر کے گھونٹ بھر لے’مراد ‘، کیوں اتاولا ہوا جاتا ہے “ ” اماں چائے گرم ہی اچھی لگتی ہے ، ٹھنڈی چائے کا کیا مزا ؟ “ ’مراد ‘نے جلدی جلدی ناشتہ کیا ،کتابیں اٹھائیں اور کالج کی راہ لی ۔

ہلکی ہلکی ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی ، سورج بھی چمک رہا تھا مگر اس کی تمازت اس قدر نہ تھی کہ سردی کے احساس کو ختم کر سکتی ۔چھوٹی گلی نے نکل کر ’مراد ‘ نسبتاً بڑی گلی میں آگیا ،گلی میں چھوٹے بڑے لڑکے لڑکیاں ،بیگ کندھوں پر اٹھائے سکول جانے کیلئے جا رہے تھے۔ کبھی کبھار مرد و زن بھی گلی میں آتے جاتے نظر آ جاتے ۔ سفید یونیفارم میں ملبوس ’مراد ‘ ہاتھ میں کتابیں پکڑے آہستہ آہستہ چلتا گیا ۔چند لمحوں کے بعد وہ گلی کی نکر پر کھڑا ہو گیا ۔اس کے چہرے پر پریشانی کے آثار نمایاں تھے ،یوں لگتا تھا جیسے اس کو کسی کا انتظار ہو،وہ بار بار میں پیچھے دیکھتا اور ایک دو قدم آگے بڑھ جاتا۔

اس سے پہلے کہ اس کی اس بے چینی کو کوئی اور محسوس کرتا ’مراد ‘ نے جانے کا ارادہ کیا ۔پاﺅں کو جنبش دی ہی تھی کہ اس کے قدم اپنی ہی جگہ پر ساکت ہو گئے ۔گلی کے کونے والے مکان سے سرخ رنگت،کشادہ چہرہ ، درمیانی چپٹی ناک،ہلکے سرخ موٹے ہونٹ اور بھرویں جسم کی مالک ایک خوب صور ت لڑکی پیلے رنگ کا لباس زیب تن کیئے ہاتھ میں جھاڑو لیئے باہر نکلی ،’مراد ‘ کو اپنے سامنے پا کر لڑکی کلی کی ماند کھل گئی اور عادتاً منہ پر ہاتھ رکھ کر مسکرانے لگی جواب میں جگو بھی مسکرا دیا ” زیادہ دیر تک کھڑے رہنا خطرے سے خالی نہیں “ ’مراد ‘ کے دل کی دھڑکن نے خطرے کی گھنٹی بجا دی۔ ” اتنی دیر ۔۔۔۔۔۔۔۔“ یہ کہتے ہوئے کتاب میں رکھا کاغذ نکالا اور لڑکی کے سامنے ڈال دیا ۔ لڑکی نے جھٹ سے کاغذ اٹھا یا اورگلی میں جھاڑو لگانے لگی ۔’مراد ‘ مسکراتا ہوا آگے بڑ ھ گیا۔” بس وہ۔۔۔۔اس سے پہلے کہ وہ اپنی بات مکمل کرتی ’مراد ‘ تیز قدموں سے گھر کی حدود کو کراس کر گیا ۔ لڑکی نے لپٹا ہواکاغذ اٹھایا اور’مراد ‘ کو گلی میں جاتے ہوئے دیکھنے لگی۔ گلی کے اگلے موڑ پر پہنچ کر اس نے پیچھے دیکھا سوائے لڑکی کے گلی میں کوئی نہ تھا ۔ وہ ابھی تک اسے دیکھ رہی تھی۔’مراد ‘ نے ہاتھ ہوا میں لہرایا جو خدا حافظ کہنے کا اشارہ تھا ۔جواب میں لڑکی نے بھی ہاتھ بلند کر دیا اور اپنے روز کے کام کاج میں مشغول ہوگئی ۔ جتنی دیر وہ گلی میں جھاڑو لگاتی رہ ’مراد ‘ کا ہنستا مسکراتا چہرہ اس کی نگاہوں کا طواف کرتا رہا ۔ وہ اپنے آپ میں مسکرا دی اور زیر لب بولی ” پاگل ۔۔۔۔۔۔“

گلی میں صبح صبح ہی جھاڑو لگانا گویا اس کے فرائض منصبی میں شامل تھا ۔مکان کے باسیوں کی طرزرہائش سے معلوم ہوتا تھا کہ شہر آنے سے پہلے وہ کسی گاﺅں میں رہائش پذیر تھے ،جہاں آج بھی گلی کی صفائی ستھرائی خاتون خانہ کی ہوتی ہے ۔وہ کوڑا کرکٹ گلی میں نہیں پھینکتیں بلکہ گھر کے ساتھ ساتھ گلی کی صفائی ستھرائی بھی باقاعدگی سے کرتیں جیسے وہ بھی گھر کا حصہ ہو۔

مکان کی ظاہری بناوٹ سادہ تھی ،جیسے دیہاتی علاقے میں بنائے جانے والے مکان ہوں ،دو کمرے ان کے سامنے برآمدہ پلاٹ کے کونے پر بیٹھک جسے آئے گئے مہمانوں کیلئے استعمال کیاجاتا ہے ۔ لڑکی کا نام شنو تھا ، ’مراد ‘ ، شنو کو مسلسل ایک سال سے دیکھتا چلا آ رہا تھا ۔ جب سے اس نے شنو کو دیکھا تھا وہ اسے اچھی لگنے لگی تھی ،اس کے دل میں جذبات نے نئی انگڑائی لی ،وہ صنف نازک کی جانب کھینچا جانے لگا۔لوگ عورت اور مرد کے درمیان اس کھینچاﺅ کو محبت کا نام دیتے ہیں ۔ محبت کا یہ پودا دلوں میں خود رو جھاڑی کی طرح اگتا ہے ،موسم اور حالات کے مطابق پھیلتا ہی چلا جاتا ہے ۔ ’مراد ‘کے دل میں بھی یہ پودا اپنی جڑیں پھیلا چکا تھا ۔ مگر ابھی تک اس نے دل میں چھپی محبت کوزبان نہیں دی تھی۔ اس نے کئی بار سوچا دل کی بات کو زبان پر لے آئے ۔ مگر کوئی نہ رکاوٹ آڑے آجاتیاور وہ یہ سوچ کر آگے بڑ جاتا کہ آنے والا کل اس کے اظہار کا دن ہو گا ۔

ایک دن حسب معمول جب شنو گلی سے جھاڑو لگا رہی تھی ’مراد ‘ کالج جانے کیلئے گلی سے گزرا اس نے گلی میں ادھر ادھر دیکھا جہاں ان دونوں کے سوا کوئی نہ تھا ،’مراد ‘ نے اپنے اعصاب پر قابو پاتے ہوئے جھاڑو کے اوپر پاﺅں رکھ دیا۔ گھبراہٹ سے اس کے چہرے کا رنگ سرخ ہو گیا ۔اسے یوں محسوس ہونے لگا جیسے جسم میں موجود سارا خون چہرے پر امڈ آیا ہو۔دونوں نے حیرانگی سے ایک دوسرے کو دیکھا مگر دونوں کے چہروں پر گھبراہٹ کے آثارنمایاں تھے۔ وہ ایک دوسرے سے کچھ نہ کہہ سکے،’مراد ‘ نے بات کرنا چاہی مگر اسکے حلق میں جیسے کانٹے اٹک گئے ہوں ،اسکا حلق خشک ہو گیا ۔بغیر کچھ کہے تیز قدموں سے وہ گلی کے اگلے موڑ پر جا پہنچا ۔اس میں اتنی ہمت نہ رہی کہ مڑ کر پیچھے دیکھ لے ۔ ’مراد ‘نے سوچا بھی نہ تھا کہ وہ اس طرح بھی اپنی محبت کا اظہار کرے گا۔’مراد ‘ کے جانے کے بعد شنو لرزتی ٹانگو ں کے ساتھ دوڑکر اندر چلی گئی ۔ آج پہلی بار کسی نے اس کے ساتھ ایسا برتاﺅ کیا تھا۔وہ سارا دن’مراد ‘ کی اس انہونی حرکت کے بارے میںسوچتی رہی” آخر اس کا کیا مطلب ہے ۔۔۔۔ اس نے ایسی حرکت کیوں کی ؟ “ لیکن اس کو اس کا کوئی جواب نہ مل سکا ۔

’مراد ‘ اپنی اس حرکت کے بعد کئی روز تک گلی سے نہ گزرا ۔ کالج جانے کیلئے وہ متبادل راستہ استعمال کرنے لگا ۔ جبکہ شنو معمول کے مطابق صبح سویرے ہی گلی میں جھاڑو لگانے آجاتی ۔ اس دوران وہ’مراد ‘کے بارے میں سوچتی رہتی اس کے ذہن میں’مراد ‘کی ادھوری سی شکل ، ادھوراکا نقش بناتی اور ہوا میں بکھرے پتو ں کی طرح بکھر جاتی ۔ وہ بار بار اس طرف دیکھتی جس طرف سے ’مراد ‘آیا کرتا تھا ۔ دور سے آنے والا ہر فرد اسے’مراد ‘ ہی لگتا مگر قریب آنے پر اسے سراب لگتا،فریب لگتا ۔وہ کام مکمل کرتی اور اندر چلی جاتی ۔ایک ہفتہ گزر جانے کے بعد ’مراد ‘نے سوچا شنو گزشتہ واقع کو بھول گئی ہو گی۔کالج جانے کیلئے پھر سے اسی راستے سے گزرا،کیا دیکھتا ہے کہ شنو پہلے کی طرح گلی میں موجود اپنے کام میں مگن ہے ۔ ’مراد ‘ نظریں جھکائے جب شنو کے پاس سے گزرنے گا تو شنو نے مٹی سے بھرا جھاڑو ’مراد ‘ کی ٹانگو ں پر جمادیا ،’مراد ‘ نے تذبذب کے عالم میں شنو کی طرف دیکھا ۔ شنو ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ اٹھی اور اندر بھاگ گئی۔’مراد ‘ جان گیا کہ یہ اس کی اس حرکت کا جواب ہے جو اس نے چند دن پہلے شنو کے جھاڑو پر پاﺅں رکھ کرکی تھی۔

شنو عین اسی وقت گلی میں جھاڑو لگانے آتی جس وقت ’مراد ‘کو کالج جانا ہوتا تھا ۔دنوں کی نظریں ملنے لگیں ۔نظروں کے ملنے سے دل بھی مل گئے ’مراد ‘نے جو چاہا وہ ہو گیا ۔ ان دونوں کے درمیان خط و کتابت کا سلسلہ شروع ہو گیا ’مراد ‘ کالج جاتے ہوئے اپنے دل کی باتیں کاغذ پر لکھ کر شنو کو تھما جاتا اس کے جواب میں شنو بھی کاغذ کو اپنے دل کا راز داں بنا کر’مراد ‘کے ہاتھ میں تھما دیتی ۔یوں ان کے درمیاں آدھی ملاقات کا ایک سلسلہ چل نکلا ۔

سورج غروب ہوا اور پھر اندھیرا چھا گیا۔سب گھر والے اپنے اپنے کمروں میں جا کر سو گئے تو شنو نے کاغذ نکالا جو آج ’مراد ‘نے کالج جاتے ہوئے اس کو دیا تھا ،خط میں لکھا تھا ۔” میری جان ! شنو ،ہم کب تک یوں لوگوں کی نظروں سے چھپ کر ملتے رہیں گے، میں تم کو قریب سے بہت قریب سے دیکھنا چاہتا ہوں ،میں تم سے ملنا چاہتا ہوں ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔“ اس طرح کی بہت سی دوسری خواہشات تھیں جن کا اظہار ’مراد ‘ نے خط میں کیا تھا ۔ خط پڑھتے ہی شنو چہرہ آنسوﺅں سے بھیک گیا وہ سسکیاں لینے لگی۔ اس کی سمجھ میں کچھ نہ آیا کہ وہ کیا کرے وہ دل ہی دل میں دعا مانگنے لگی ۔صبح ’مراد ‘ کو اس کے خط کاجواب دینا تھا ۔ کیا جواب دینا تھا ابھی اس نے کچھ نہ سوچا تھا ۔یوں لگ رہا تھا اس کا دماغ لفظوں سے خالی ہو گیا ہے اور سوچنے سمجھنے کی صلاحیت بھی ختم ہو گئی ہے ۔ صبح نماز پڑھ کر اس نے دعا مانگی اور ناشتہ بنانے میں مگن ہو گئی ۔اس کے چہرے سے صاف عیاں تھا کہاسے کسی پریشانی کا شامنا ہے ۔عدم توجہی کی بنا پر اس نے ناشتہ بناتے اپنا دوپٹہ جلا لیا ۔چولہے کے قریب بیٹھی اس کی بھاوج گز بھر لمبی آواز سے اس پر برس پڑی۔

’مراد ‘کے آنے کا وقت جوں جوں قریب آتا گیا شنو کی بے چینی بڑھنے لگی ۔ وہ دروازے تک آتی پھر پلٹ جاتی۔ایسا اس نے دو تین بار کیا ۔ وہ کوئی فیصلہ نہ کر سکی کہ کیا کرے۔ باہر ’مراد ‘گلی میں شنو کا انتظار کرتا رہا مگر وہ نہ آئی ۔ ’مراد ‘کالج چلا گیا ۔کلاس میں بیٹھے اس کا دو دماغ شنو کی طرف تھا ۔ اس کے دل میں طرح طرح کے خیالات آتے اور چلے جاتے۔اس کے دوستوں نے بھی اس کی بدلی کیفیت کو بھانپ لیا اور اس سے وجہ دریافت کی مگر’مراد ‘ نے سر درد کا بہانہ بنا کر دوستوں کو ٹال دیا ۔ اگلے دن بھی گلی میں شنو نہ تھی ،وہ بوجھل قدموں کے ساتھ گلی میں چلتا جا رہا تھا گلی کا موڑمڑتے ہوئے اس نے ہاتھ ہوا میں بلند کیا پیچھے مڑ کر دیکھا آج گلی میں خدا حافظ کہنے والا کوئی نہ تھا ۔کالج جانے کو اس کا دل نہ چاہا وہ واپس گھر پلٹ آیا۔

تقریباً ایک ہفتہ کے بعد ’مراد ‘ نے شنو کو گلی میں پھر سے جھاڑو لگاتے دیکھا۔اس کی خوشی کی انتہا نہ رہی ، وہ خوشی سے چلا اٹھا ،اس سے پہلے اس کی آواز کوئی اور سنتا شنو نے ایک لپٹا ہوا کاغذ ’مراد ‘ کے ہاتھ میں تھمایا اور اندر بھاگ گئی۔ ’مراد ‘ کو جیسے دوبارہ سے زندگی مل گئی تھی۔وہ خط لیئے کالج کے گراﺅنڈ میں چلماتی دھوپ میں آ بیٹھا ۔خط کھولا چوما اور پڑھنے لگا ۔خط میں لکھاتھا ۔

” آداب ! ’مراد ‘، میں تمھاری محبت کی قدر کرتی ہوں مگر جیسا تم سوچ رہے ہو ویسا ممکن نہیں ،میں تم سے نہ تو اکیلے میں مل سکتی ہوں اور نہ ایسا ممکن ہے ۔ رہاسوال ہمیشہ کیلئے ایک ہونے کا، میرا خیال ہے ایسا بھی ممکن نہیں ، ہم جس ماحول کی پیدا ہیں ،وہ رسموں اور ر واجوں کا پابند ہے ۔یہ نظام ہمارا اپنا بنایا ہوا ہے ،ہمیں اسی کے اندر زندگی گزارنی ہے ۔تم کو اندازہ توہو گیا ہو گا کہ شہر آنے سے پہلے ہم گاﺅں میں رہتے تھے ۔گاﺅں میں آج بھی انسان پرانی رسموں کا پابند ہے ۔انسان اتنا خدا کی نہیں مانتا جتنا رسموں کے آگے سر جھکا دیتا ہے۔میرے گھر والوں کے متعلق تمھیں میرے محبت ناموں کی وساطت سے آگاہی تو ہو گئی ہے۔میرے بھائی کے گھر کی خوشیاں مجھ سے جڑی ہیں ۔ جب میرے بھائی کی شادی اس شرط پر ہوئی تھی کہ بدلے میں میرا رشتہ میرے جوان ہونے پر دیا جائے گا ۔ اگر میں اس رشتہ سے انکار کرتی ہوں تو کیا ہو گا ؟ اس کا انداز ہ تم لگا سکتے ہو ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اورمیں سمجھتی ہوں ،میری محبت سے ماں باپ ،بہن بھائیوں کی عزت کئی درجے مقدم ہے ۔محبت کی خاطر اٹھایا ہوا میرا ایک قدم کیا نتائج لائے گا ۔اس کا اندازہ شاہدہم دونوں کو نہیں ہو گا ۔کیوں کہ ہم اپنی محبت کو ٹھیک سمجھتے ہیں جبکہ دوسروں کی نظروں میں ہم جرم کر رہے ہیں جرم نہ تو اخلاقی لحاظ سے ٹھیک ہے اور نہ قانونی لحاظ سے ۔ محبت تنہائی میں ملنے کانام نہیں ہے’مراد ‘ ،محبت اک رشتے کا نام ہے اور رشتہ لوگوں کی ںنظروں کے سامنے بنتے ہیں ۔ آخر میں صرف یہی کہوں گی اگرچہ ہماری محبت ادھوری ہے مگر بے عیب اور پاک ضرور ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ شنو “

’مراد ‘کالج جانے کیلئے گلی سے گزرتاہے ،گلی میں شنو کی بجائے ایک اور پختہ عمر کی عورت جھاڑو لگاتے نظر آتی ہے ۔’مراد ‘نظریں جھکائے پاس سے گزر جاتا ہے
Muhammad Nawaz
About the Author: Muhammad Nawaz Read More Articles by Muhammad Nawaz: 16 Articles with 14170 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.