آزادی اطلاعات کا آرڈیننس، مجریہ 2002

پس منظر، حقائق اور تجزیہ
 ہر جمہوری معاشرے کی یہ ذمہ داری ہوتی ہے کہ ریاست کے معاملات سے اپنے شہریوں کو مکمل آگاہ رکھے اور ریاست کے تمام امور و معاملات تک ان کی رسائی کو ممکن بنائے۔ پاکستان میں 1973 کے آئین کے آرٹیکل 19 میں ریاست شہریوں کو معلومات تک رسائی کا حق دیتی ہے مگر افسوس صد افسوس کہ یہ قانون صرف کاغذی حد تک رہا اور اس کے عملی اطلاق پر کوئی خاطر خواہ توجہ نہیں دی گئی۔ سول سوسائٹی، میڈیا اور وکلاء تنظیمیں کئی برسوں سے پاکستان میں معلومات تک رسائی سے متعلق قوانین کا مطالبہ کرتی چلی آ رہی ہیں، مگر طویل مدت تک نہ صرف یہ مطالبہ نظرانداز کیا جاتا رہا بل کہ معلومات تک رسائی کے حق پر مختلف قوانین اور اقدامات کے ذریعے قدغنیں لگائی جاتی رہیں۔ پاکستان کی تاریخ میں سابق فوجی صدر جنرل پرویز مشرف نے 2002 میں ایشیائی ترقیاتی بینک کی قرض دینے کی شرط پر فریڈم آف انفارمیشن آرڈیننس نافذ کیا (1) اور اس طرح پاکستان اپنے ہم سایہ ممالک، جن میں بھارت اور بنگلا دیش شامل ہیں، سے اس سلسلے میں سبقت لے گیا، کیوں کہ بھارت نے اس قانون کو 2005 جب کہ بنگلادیش نے 2009 میں نافذ کیا۔ بھارت نے قانون کے عملی اطلاق کو بہتر طریقے سے متعارف کرایا جس سے عام شہریوں کو کافی حد تک معلومات تک رسائی مل پائی۔

اطلاعات تک عوام کی رسائی کا معاملہ ’’جاننے کے حق‘‘ سے جُڑا ہے، چناں چہ سب سے پہلے ہم اس حق کے بارے میں اختصار کے ساتھ بیان کرتے ہوئے اس حوالے سے پاکستان کی تاریخ پر نظرڈالیں گے اور یہ بتاتے ہوئے کہ ایک فوجی آمر پرویزمشرف کو ’’اطلاعات تک رسائی‘‘ کا عوام دوست اور جمہوری قانون نافذ کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی، اس قانون کے مختلف پہلوؤں کا جائزہ لیں گے۔

٭جاننے کا حق کیا ہے؟
جاننے کی خواہش انسان کی بنیادی جبلت ہے۔ اس جبلت کو فطرت کا نام بھی دیا جاسکتا ہے، جس سے آگاہی، علم، دریافت اور تحقیق کی راہیں روشن ہوتی ہیں، جن معاشروں میں ان راہوں میں رکاوٹیں کھڑی کی جاتی ہیں یا انھیں محدود کردیا جاتا ہے، وہ معاشرے تحقیق اور ترقی سے محروم ہوکر نقال بن کر رہ جاتے ہیں اور پس ماندگی ان کا مقدر بن جاتی ہے۔ انسان اپنے گردوپیش اور ماحول کو جانے بغیر نہیں رہ سکتا۔ کسی بھی نموپذیر معاشرے میں ارتقاء کی رفتار کا تعین اس امر سے کیا جاسکتا ہے کہ اس میں عوام کو جاننے اور اطلاع حاصل کرنے کے کس قدر مواقع دست یاب ہیں اور لوگوں کے لیے اطلاعات تک رسائی کتنی سہل ہے۔ انسانی معاشروں کی تشکیل اور ارتقاء کی تاریخ اس حقیقت کی غماز ہے کہ پس ماندہ رہ جانے والے معاشروں کی بنیادی وجہ ان کے عوام کے جاننے کے حق کی نفی ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ وہی معاشرے ترقی کرسکے جہاں عوام کو یہ حق زیادہ سے زیادہ میسر آسکا ہے۔ اگر لوگ یہ نہیں جانتے کے ان کے معاشرے میں اور جس ریاست کے وہ شہری ہیں یا جس دنیا میں وہ رہتے ہیں، اس میں کیا ہورہا ہے، اگر وہ حکم رانوں کی سرگرمیوں اور اقدامات سے آگاہی نہیں رکھتے، اگر انھیں اپنے گردوپیش ہونے والے واقعات اور رونما ہونے والے عوامل سے بے خبر رکھا جارہا ہے، تو ان میں بہ حیثیت شہری شعور اجاگر نہیں ہوسکتا اور وہ معاشرے اور ریاست کے معاملات میں بامعنی اور مثبت شراکت نہیں کرسکتے۔

عوام کو یہ جاننے کا حق حاصل ہے کہ ان کے ووٹوں سے تشکیل پانے والی حکومت اور سرکاری اہل کار اور افسران، جنھیں عوام سے وصول کردہ ٹیکسوں سے تن خواہیں ملتی ہیں، ان کے ایما پر کیا کر رہے ہیں، مختلف منصوبوں پرکس حد تک عمل درآمد کیا جارہا ہے اور ان پر کتنی لاگت آرہی ہے، عوام کی ترقی کے نام پر حاصل کردہ قرضوں کو بیان کردہ مقاصد کے لیے استعمال کیا جارہا ہے یا نہیں۔ یہ اور ان جیسے دیگر معاملات سے متعلق معلومات تک عوام کی رسائی عوام کا بنیادی حق ہے اور کسی ملک میں حقیقی جمہوریت کے فروغ اور ملک کی ترقی کے لیے بنیادی ضرورت ہے۔ عوام کے معاملات کے بارے میں فیصلہ سازی اور اس کے مراحل میں ان کی بامعنی شرکت اسی وقت ممکن ہوسکتی ہے جب حکومتی اداروں کے تمام اجلاس اور کارروائیاں عوام کے لیے کُھلی ہوں اور ان سے متعلق دستاویزات عوام بہ آسانی حاصل کرسکیں(2)۔

پاکستان میں عوام کے جاننے کے حق کی صورت حال کی نشان دہی کرتے ہوئے اس حق کے بارے میں ڈاکٹر تنویر اے طاہر اپنے مقالے میں رقم طراز ہیں،’’پاکستان جیسے معاشروں میں حکومتیں اور ان کے اہل کار اطلاعات کو اپنی ملکیت تصور کرتے ہیں۔ ان کا یہ نقطۂ نظر ریاست کے جدید تصور سے متصادم ہے اور نوآبادیاتی ذہنیت کا آئینہ دار ہے۔ ماضی میں جب فاتحین ملکوں پر بہ ذریعہ عسکری طاقت قبضہ کرتے تھے اور عوام پر نوآبادیاتی راج مسلط کرتے تھے، تو ایسے ادوار میں حکم راں اطلاعات کو اپنی ملکیت قرار دے سکتے تھے، لیکن موجودہ دور میں اطلاعات ریاست، حکومت یا سرکاری اہل کاروں کی ملکیت نہیں ہوتیں، بل کہ عوام کی ملکیت ہوتی ہیں، کیوں کہ یہ اطلاعات حکومت یا اہل کار اپنی ضرورت کے لیے پیدا نہیں کرتے، بل کہ ان کی طرف سے عوام کی خدمت کے فرائض منصبی کی انجام دہی کے دوران پیدا ہوتی ہیں اور ان پر عوام کے ٹیکسوں سے حاصل ہونے والا سرمایہ خرچ ہوتا ہے۔ اس لیے یہ عوام کی ملکیت ہیں اور ان تک رسائی عوام کا بنیادی حق ہے۔‘‘ (ڈاکٹرتنویر اے طاہر، ’’آزادی اطلاعات کا آرڈینینس اور عوام کے جاننے کا حق‘‘ ابلاغی تحقیق، صفحہ نمبر 37, 38)

٭پاکستان میں جاننے کے حق کی تاریخ کا مختصر جائزہ:
پاکستان جمہوری جدوجہد کے نتیجے میں معرض وجود میں آیا۔ اس مملکت کے قیام کے لیے برصغیر کے مسلمانوں نے قائداعظم محمد علی جناح کی زیرقیات سیاسی تحریک چلائی اور ووٹ کے ذریعے قیام پاکستان کے حق میں فیصلہ دیا۔ بانیٔ پاکستان قائداعظم محمد علی جناح جمہوریت پسند سوچ کے حامل اور آزادیٔ صحافت کے قائل تھے۔ آزادیٔ صحافت اور عوام کو جاننے کا حق دینے کے حوالے سے ان کی سوچ ان کے متعدد اقدامات اور اقوال سے صاف ظاہر ہے۔ مثال کے طور پر محمد علی جناح نے ہرامپریل لیجسلیٹیو کونسل میں آزادیٔ صحافت اور انسانی حقوق کے خلاف پیش کیے جانے والے بلوں کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے کونسل سے استعٰفی دے دیا تھا۔ اسی طرح 1948میں جب کراچی سے شایع ہونے والے انگریزی اخبار ’’سندھ آبزرور‘‘ میں ہندومسلم فسادات کے حوالے سے چھپنے والے سخت اداریوں پر برافروختہ ہوکر بیوروکریسی نے اس اخبار کے مدیرK Punno کے خلاف کارروائی کا ارادہ باندھا تو بابائے قوم نے ہدایت کی کہ ایسی کوئی کارروائی نہ کی جائے (3)۔

افسوس کا مقام ہے کہ ان روشن حقائق کے باوجود پاکستان میں عوام کے جاننے کے حق کو بُری طرح کچلا گیا۔ عوام کو جاننے کے حق سے محروم رکھنے کے لیے پاکستان کے حکم راں اور بیورکریسی نے کیا کیا ہتھ کنڈے استعمال کیے اور کس حد تک گئی، اس کا اندازہ اس تاریخی اور مشہور واقعے سے لگایا جاسکتا ہے کہ 11اگست 1947کو دستورساز اسمبلی سے قائداعظم کے خطاب کو بھی سینسر کرنے کی ناکام کوشش کی گئی۔ اس خطاب میں قائداعظم نے کہا تھا،’’پاکستان میں مذہب کی بنیاد پر کسی قسم کی تفریق نہیں ہوگی۔ ریاست کی نظر میں ہندو، مسلمان، عیسائی سب برابر ہوں گے۔‘‘ اس وقت کے کیبینٹ ڈویژن کے سیکریٹری جنرل چوہدری محمد علی کی ہدایت پر پریس انفارمیشن کے ڈائریکٹر کرنل ریٹائرڈ مجید ملک نے اپنے انفارمیشن سیکریٹری F.D Duglesکے ذریعے اخبارات کو یہ پریس ایڈوائس جاری کی کہ قائداعظم کی تقریر کے اس حصے کو شایع نہ کیا جائے۔ روزنامہ ڈان کے ایڈیٹر الطاف حسین نے جب کرنل مجید ملک سے رابطہ کرکے کہا کہ وہ اس بارے میں قائداعظم سے رابطہ کریں گے اور معلوم کریں گے کہ یہ ایڈوائس ان کی ہدایت پر جاری کی گئی ہے؟ جس پر یہ ایڈوائس واپس لے لی گئی اور قائداعظم کی یہ تقریر کسی قطع وبرید کے بغیر اخبارات میں شایع ہوئی (4) ۔

قائداعظم کے انتقال کے بعد حکم رانوں اور بیوروکریسی نے عوام کے جاننے کے حق کو پیروں تلے روند ڈالا مختلف کالے قوانین نافذ کرکے خبروں اور اطلاعات کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کی گئیں، اخبارات کو بند کیا گیا، صحافیوں کے خلاف مقدمات قائم کیے گئے یہاں تک کے جنرل ضیاء الحق کے سیاہ دور میں صحافیوں کو کوڑے بھی مارے گئے۔

عوام تک اطلاعات کی رسائی کو روکنے میں حکومت ہی نے منفی کردار ادا نہیں کیا بل کہ سیاسی جماعتوں اور پریشر گروپوں نے بھی مختلف اخبارات کے بائیکاٹ کی مہم چلا کر، اس مہم کے دوران بہ زور اخبارات کی ترسیل روک کر، اخبارات کے دفاتر پر حملے کرکے اور صحافیوں کو تشدد کا نشانہ بناکر عوام کو ایسی خبروں کی فراہمی کی راہ میں روڑے اٹکانے کی کوشش کی جن کی اشاعت ان گروہوں کو پسند نہیں تھی (5)۔
ایک طرف عوام کو جاننے کے حق سے محروم رکھنے کے خواہش مند حکومتیں اور افسر شاہی تھی، دوسری طرف عوام کو یہ حق دلوانے کی جدوجہد بھی جاری تھی۔ پاکستان میں عوام کے جاننے کے حق کو آئینی طور پر تسلیم کرنے کی مہم کا آغاز 90ء کی دہائی سے ہوا، جب جماعت اسلامی کے سینیٹر پروفیسر خورشید احمد نے سینیٹ میں ایک بل پیش کیا۔ 1988ء سے 1999ء تک برسراقتدار آنے والی پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ کی حکومتوں نے اپنے اپنے منشور میں جاننے کے حق کو قانونی طور پر تسلیم کرنے کے لیے قانون سازی کے وعدے کیے تھے، مگر ان وعدوں پر عمل نہیں کیا گیا۔ 1997ء میں قائم ہونے والی ملک معراج خالد کی عبوری حکومت میں بہ طور وزیرقانون شامل جسٹس (ر) فخر الدین جی ابراہیم نے اطلاعات کے حصول کے قانون کا مسودہ تیار کیا مگر وہ احتساب کے قانون پر اختلاف کی بناء پر مستعفی ہو گئے۔ اس حکومت کے ایک اور وزیرسنیئر صحافی نجم سیٹھی کی کوششوں سے عبوری حکومت کی میعاد ختم ہونے کے آخری دن اطلاعات کے حصول کا آرڈیننس نافذ ہوا (6)۔

٭پرویزمشرف کا جاری کردہ اطلاعات تک رسائی کا قانون:
پاکستان میں ابتداء سے آزادیٔ صحافت اور جاننے کے حق کے ساتھ حکم رانوں اور افسر شاہی ، یہاں تک کہ عوام کے ووٹوں سے منتخب ہونے والی حکومتوں نے بھی، جو سلوک کیا اسے دیکھتے ہوئے محققین اور سیاسی تجزیہ کار کے لیے ایک فوجی آمر کی جانب سے اطلاعات کی رسائی کے قانون کا اجراء حیرت انگیز تھا۔ اگرچہ پاکستان نے انسانی حقوق کے عالمی اعلان نامے پر 10ستمبر 1948کو دستخط کیے تھے، جس کا آرٹیکل 19واضح طور پر آزادیٔ اظہار اور اطلاعات تک عوام کی رسائی کے حق کو تسلیم کرتا ہے، لیکن پاکستان کی حکومتیں اس حق کو ماننے سے انکاری رہیں۔ اس حق کو تسلیم کرانے کے لیے صحافی تنظیموں اور دیگر حلقوں کی طویل جدوجہد کے بعد آخرکار ایک فوجی آمر پرویزمشرف کی حکومت نے 2002 میں ایک آرڈینینس کے تحت یہ قانون جاری کیا۔ تاہم یہ فیصلہ نظریاتی بنیاد پر اور عوام کا یہ حق مانتے ہوئے نہیں کیا گیا، بل کہ یہ پرویزمشرف حکومت تھی۔ فوجی آمر نے کس ضرورت کے تحت یہ فیصلہ کیا؟ یہ جاننے کے لیے ہمیں کچھ حقائق کو سمجھنا ہوگا۔

عالم گیریت نے کثیرالقومی کارپوریشنوں کے دائرہ کار اور مفادات کو اس قدر وسعت دے دی ہے کہ اب اس دائرہ کار میں آنے والے ممالک کے داخلی معاملات پر بھی ان کارپوریشنوں کی نظر ہوتی ہے اور وہ نظر رکھنا چاہتی ہیں۔ دراصل عالم گیریت یا گلوبلائزیشن ان کارپوریشنوں اور کمپنیوں کی ضرورت اور ان کے مفادات کی تکمیل ہی کا دوسرا نام ہے۔ جنرل پرویز مشرف نے 12اکتوبر1999کو نوازشریف کی منتخب حکومت کو برطرف کرکے اقتدار پر قبضہ کیا۔ ان کے عہداقتدار کا آغاز اس عہد میں ہوا جب آزاد معیشت اور تجارت کے عالم گیر اطلاق کے پس منظر میں ذرائع ابلاغ کو نئے سرے سے مارکیٹ تک رسائی کی غایت کے پیش نظر مرتب ہونا تھا۔ چناں چہ پرویزمشرف کو بیرونی دباؤ کے تحت اس حوالے سے فیصلے کرنے پڑے، جن میں اطلاعات تک رسائی کے قانون کا اجراء بھی شامل ہے۔2002 سے2005 کے دوران ملک میں سات ایسے صدارتی آرڈینینس نافذ کیے گئے جن کا براہ راست یا بالواسطہ تعلق ذرائع ابلاغ اور عام شہریوں تک اطلاعات اور معلومات تک رسائی اور تمام بصری، سمعی اور تحریری مواد کی عوام تک ترسیل کے لیے میکنزم فراہم کرنے سے ہے (7)۔ عالمی تبدیلیوں خاص طور پر اقتصادی ضرورتوں اور تغیرات کے تحت اطلاعات اور معلومات تک رسائی اب کسی ملک کا داخلی معاملہ نہیں رہا تھا۔ نئے میڈیا ماحول کی ڈیزائنگ کی ذمے داری کارپوریٹ کلچر کے ابھار کے ساتھ منڈی کی قوتوں کے ہاتھ میں منتقل ہورہی تھی اور ریگولیٹری فریم ورک کی تشکیل اس کا اہم تقاضا تھا۔

ان حالات میں عالمی مالیاتی اداروں، خاص طور پر ایشیائی ترقیاتی بینک، کے دباؤ کے تحت 2002 میں پرویزمشرف کی حکومت نے ’’فریڈم آف انفارمیشن آرڈینینس‘‘ جاری کیا۔ اس قانون کی رو سے تمام وفاقی اداروں کے ریکارڈ تک عوام کی رسائی ممکن بنانے کے لیے مکنیزم تشکیل دیا گیا۔ اس قانون کے لیے عالمی مالیاتی اداروں کے دباؤ اور اس کے اجراء کا اصل مقصد یہ تھا کہ پاکستان میں مصروف عمل اور مستقبل میں دل چسپی رکھنے والی کثیرالقومی کارپوریشنوں کے مفادات کو تحفظ حاصل ہوسکے۔
یہ قانون شہریوں کو وفاقی حکومتی اداروں اور محکمہ جات کے پبلک ریکارڈ تک رسائی کو یقینی بنانا ہے۔ اس کے تحت شہری اداروں کی کارکردگی اور املاک کی ٹرانزیکشن میں ہونے والے اخراجات، لائسنس کی منظوری، الاٹمنٹ اور پبلک باڈی کی جانب سے کیے گئے کسی بھی کنٹریکٹ یا معاہدے، فیصلوں یا احکامات کے اجراء اور کسی بھی ایسے ریکارڈ تک، جسے وفاقی حکومت کی جانب سے پبلک ریکارڈ قرار دیا گیا ہو، عوام رسائی حاصل کر سکتے ہیں۔

اس قانون کے تحت شہری درج ذیل معلومات تک رسائی نہیں کر سکتے:
٭سرکاری میٹنگز کے اہم نکات
٭ابتدائی آرا اور تجاویز
٭بینکنگ اور مالیاتی اداروں کے صارفین کا ریکارڈ
٭دفاع اور قومی سلامتی کی معلومات
٭وفاقی حکومت کی جانب سے کلاسیفائیڈ قرار دی گئی دستاویزات
٭انفرادی پرائیویسی سے متعلق معلومات
٭وفاقی حکومت کی جانب سے مفاد عامہ میں مستثنیٰ قرار دی جانے والی دستاویزات

صوبائی باڈیز کا ریکارڈ
٭کوئی بھی ایسا ریکارڈ جس کا سامنے آنا؛
قومی سلامتی کے لیے خطرہ ہو
کسی کاروبار یا معیشت میں گراوٹ کا سبب بنے
بین الاقوامی تعلقات میں مداخلت کرے
قانون نافذ کرنے والے اداروں کے کام میں خلل پیدا کرے

٭ معلومات کے حصول کا طریقہ کار
تمام تر معلومات کے حصول کے لیے شہریوں کو ایک درخواست فارم بھرنا ہوگا درخواست
( request.html foiapakistan.com //:http پرآن لائن جمع کروائی جاسکتی ہے۔ درخواست دہندہ کو درکار معلومات کی نوعیت، کمپیوٹرائزڈ قومی شناختی کارڈ کی کاپی کے ساتھ پچاس روپے مالیت کا چالان جمع کرواکر خود یا ڈاک کے ذریعے متعلقہ محکمے کو بھیجنا ہوگا۔

بعدازاں پرویز مشرف کے دور میں لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2001ء کی شق نمبر137 کے تحت پنجاب کی تمام ضلعی حکومتوں کو ہدایت کی گئی کہ وہ دفتری ریکارڈ سے متعلق معلومات تک رسائی کے قانون پر عمل درآمد کو یقینی بناتے ہوئے باقاعدہ پبلک ڈِسکلوزراینڈ اکسیس ٹوانفارمیشن

میکنزم (public disclosure and access to information mechanism) قائم کریں۔ اسی طرح حکومت ِبلوچستان نے 2005 اور حکومت سندھ نے بھی 2006ء میں یہ قوانین نافذ کیے، جس کے بعد خیبرپختونخوا کی حکومت نے 2013 میں اطلاعات تک رسائی کا قانون نافذ کیا، لیکن ان قوانین پر تاحال نہ تو عمل درآمد ہوسکا ہے اور نہ ہی ان قوانین سے عوام کو کوئی ریلیف مل پایا ہے۔ اس حوالے سے حکومت پر میڈیا، سول سوسائٹی اور تھنک ٹینک کی طرف سے کافی دباؤ رہا جس کے نتیجے میں پیپلز پارٹی کی حکومت نے بلا شبہ 18 آئینی ترمیم کر کے ایک عظیم کارنامہ سر انجام دیا، جس کو تمام سیاسی جماعتوں نے اتفاق رائے سے اپریل 2010 میں منظور کیا۔ پاکستان کے 1973 کے آئین میں سیکشن 7 ( اٹھارویں ترمیم) ایکٹ 2010 ( 2010 کا دسواں نمبر) میں نئی شق 19(اے) شامل کرکے ہر شہری کے معلومات تک رسائی کے حق کو اس طرح بیان کیا گیا ہے کہ ‘‘ قانون کے لاگو کیے گئے ضابطوں میں رہ کر عوامی اہمیت کی ہر معلومات تک رسائی ہر شہری کا بنیادی حق ہے۔‘‘

2002 میں جاری ہونے والے اطلاعات تک رسائی کے آرڈینینس کے نتیجے میں پاکستان جنوبی ایشیا پہلا ملک بن گیا ہے جس نے رائٹ ٹو انفارمیشن کا بل پاس کرکے اسے قانون کی شکل دے دی ہے کہ اب حکومت، اس کے تحت چلنے والے محکمے اور دوسرے ادارے پابند ہیں کہ وہ عام آدمی کو سوائے اہم رازوں کے باقی معلومات فراہم کریں۔ مگر اس قانون میں بہت سارے رخنے یا خلاء رکھے گئے ہیں، جن کا پُر کیا جانا ضروری ہے۔ ان رخنوں کی وجہ سے یہ قانون کم زور رہ گیا ہے۔

اس قانون کے تحت اطلاعات فراہم نہ کرنے پر وفاقی محتسب سے اپیل کا حق دیا گیا۔ محتسب کے پاس توہین عدالت کے اختیارات نہیں تھے، پھر محتسب کے خلاف اپیل صدر مملکت سے کی جا سکتی تھی۔ صدر محتسب اور وزارتوں کے سرپرست اعلیٰ تھے اور اس سے اپیل کا کوئی خاص فائدہ نہ تھا۔

پنجاب کے اطلاعات کے حصول کے قانون کے بارے میں یہ امر سامنے آیا کہ وزیراعلیٰ ہاؤس کو اس قانون سے مستثنیٰ قرار دیا گیا ہے، جس کا کوئی جواز نہیں ہے۔ اس آرڈیننس کے تحت اطلاعات فراہم نہ کرنے پر اپیل کے لیے پنجاب انفارمیشن کمیشن کے قیام کی تجویز پیش کی گئی مگر اس کمیشن کو آزاد independent statutory body قرار نہیں دیا گیا۔

پنجاب کے قانون کے تحت پبلک انفارمیشن افسر 14 دن میں اطلاعات فراہم کرے گا، اس کی مدت میں مزید 14 دن کی توسیع ہو سکتی ہے۔ دوسری صورت میں درخواست کنندہ انفارمیشن کمیشن سے رجوع کر سکتا ہے۔ ماہرین ابلاغیات پختونخوا کی تحریک انصاف کی حکومت کے اطلاعات کے حق کے قانون کی ستائش کرتے ہیں، جس کے تحت اطلاعات فراہم نہ کرنے پر اپیل کے لیے independent statutory body قائم کی گئی ہے۔ اس قانون کے تحت پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس ہائی کورٹ کے (ر) جج کو بحیثیت رکن نام زد کریں گے، بار کونسل ایک وکیل کو انسانی حقوق کمیشن سول سوسائٹی کے ایک رکن کو نام زد کرے گا۔ اس قانون کے تحت اطلاعات کی فراہمی کے لیے ہر محکمے میں ایک افسر کا تقرر ہو گا، اس طرح اطلاعات جان بوجھ کے فراہم نہ کرنے اور ریکارڈ کو تلف کرنے پر جرمانہ اور سزا کی تجویز دی گئی ہے۔
دوسری طرف سندھ اور بلوچستان میں 2000ء اور 2001ء سے رائج اطلاعات تک رسائی کے قوانین مایوس کُن اور محض وفاقی قانون کا چربہ ہیں۔ بلوچستان میں قانون کو نافذ ہوئے 7 سال ہو چکے مگر اس کے ذیلی قوانین تیار نہیں ہوئے، یوں یہ قوانین عملی طور پر موثر نہیں ہیں۔ وفاق میں نافذ قانون کے تحت اطلاعات کی فراہمی کا عمل انتہائی مایوس کن ہے۔ اس حوالے سے ایک اہم نکتہ یہ ہے کہ عوام ان قوانین سے واقف نہیں ہیں، خاص طور پر صحافی، سماجی علوم کے اساتذہ اور سیاسی کارکنوں کی ان قوانین سے لاعلمی افسوس ناک ہے۔

خاص طور پر سندھ کے قانون میں بڑی گنجائش ہے کہ اسے مزید بہتر بنانے کے لیے اس میں ترمیم کرنے کے بجائے اسے نئے سرے سے بناکر پاس کیا جائے تاکہ عام آدمی کو اس سے فائدہ حاصل ہوسکے۔ اس سلسلے میں ایک ورکشاپ کراچی میں کروائی گئی تھی تاکہ میڈیا، این جی اوز کے نمایندے اور پارلیمنٹیرین مل کر تجاویز مرتب کریں اور یہ تجاویز حکومت سندھ کو پیش کی جائیں تاکہ نئے آنے والے قانون میں کوئی کمی اور غلطی کی گنجائش نہ رہے۔

معلومات کو عام آدمی تک فراہم کرنا حکومت کا فرض ہے جسے خودبخود پہنچنا چاہیے تھا مگر افسوس ہے کہ قانون پاس ہونے کے بعد بھی ایوانوں میں بیٹھے کچھ جاگیردار اور کچھ شہری سرمایہ دار یہ نہیں چاہتے کہ ایسی معلومات عام آدمی تک پہنچیں، جن سے لوگوں کی آگاہی اس طبقے کے مفادات کے لیے خطرناک ثابت ہوسکتی ہے، کیوں کہ اس طرح سیاست دانوں اور بیوروکریٹس کی غلط کاریاں، خاص طور پر مالی بے ضابطگیاں اور بدعنوانی کے معاملات سامنے آجاتے ہیں۔

ہمارے یہاں یہ قانون اس لیے بھی کم زور نظر آتا ہے کہ قانون بناتے وقت سول سوسائٹی سے مشاورت نہیں کی گئی تھی۔ بڑی مہارت سے اس میں کچھ ایسی شقیں رکھی گئی ہیں، جن سے پتا چلتا ہے کہ معلومات دینے کے بجائے انھیں روکا جا رہا ہے۔

سندھ کے اطلاعات تک رسائی قانون میں یہ ہے کہ جو شخص کسی قسم کی معلومات حاصل کرنا چاہتا ہے تو وہ اسے 30 دن کے اندر فراہم کی جانی چاہیے، خواہ وہ معلومات ایک گھنٹے میں بھی دی جاسکتی ہوں۔ اگر یہ عرصہ گزر جائے تو معلومات کا طلب کنندہ محتسب سے رابطہ کرسکتا ہے۔ وہ ایک مہینے کے اندر کیس کو Decide کرسکتا ہے اور اگر ایسا نہیں ہوتا ہے تو وہ اس کیس کو گورنر سندھ کو بھیج دے گا اور اگر وہ بھی فیصلہ نہیں کرسکا تو اس معاملے کو شاید صدر پاکستان کو بھیجا جائے گا جس کا مطلب یہ ہے کہ آپ کی عمر ختم ہوجائے گی مگر مطلوبہ معلومات آپ کو نہیں مل سکیں گی۔

ہونا یہ چاہیے کہ ایسی تمام معلومات اور دستاویزات جو عام شہریوں، صحافیوں اور محققین وغیرہ کو درکار ہوسکتی ہیں، انھیں عام استفادے کے لیے انٹرنیٹ پر جاری کردیا جائے اور یہ سلسلہ مستقل چلتا رہے۔ اس طرح عوام تک اطلاعات کی رسائی زیادہ سہل ہوجائے گی۔

اطلاعات تک رسائی کے حق کے لیے دنیا بھر کے عوام نے جدوجہد کی ہے۔ اس سلسلے میں ہمارے ملک میں بھی مختلف حلقوں کی جانب سے کوششیں کی جاتی رہی ہیں۔ آخرکار قانون کی حد تک یہ کوششیں کام یاب قرار پائی ہیں۔ اب اس بات کی ضرورت ہے کہ گاؤں سے لے کر چھوٹے بڑے شہروں تک اس قانون کے بارے میں آگاہی دینے کے لیے سول سوسائٹی کے لوگ اور پڑھے لکھے طبقے کے افراد اپنا کردار ادا کریں۔ اس حوالے سے لوگوں کو معلومات فراہم کی جائیں اور انھیں اپنے اس حق سے آگاہ کیا جائے کہ وہ کسی بھی سرکاری ادارے سے رجوع کرکے مطلوبہ معلومات حاصل کرسکتے ہیں۔ اس کے ساتھ جو افسر یا ادارہ معلومات نہیں دے رہا ہے اس کے خلاف شکایت درج کروائے میں بھی معلومات کے طلب کنندہ کی مدد کی جانی چاہیے۔ اس ضمن میں عوام کو آگاہی دینے کے لیے سیمینار، ورکشاپس اور دوسرے پروگرام منعقد کیے جائیں۔
․․․․․․․․․․․․․․․
حوالہ جات:
(1) ’’معلومات تک رسائی کا قانون‘‘ نصیرجھکرانی، مضمون مطبوعہ https://www.laaltain.com/ مئی 2014۔
(2) ’’آزادی اطلاعات کا آرڈینینس اور عوام کے جاننے کا حق‘‘، ڈاکٹر تنویر اے طاہر، مقالہ مطبوعہ ‘‘ابلاغی تحقیق، شعبہ ابلاغ عامہ وفاقی اردو یونی ورسٹی کا تحقیقی جریدہ۔
(3) ’’عوام کے جاننے کا حق اور اس پر پابندیاں‘‘، پروفیسر توصیف احمد خان،مقالہ مطبوعہ ’’ابلاغی تحقیق‘‘، شعبہ ابلاغ عامہ وفاقی اردو یونی ورسٹی کا تحقیقی جریدہ۔
(4) ’’صحافت پابندِسلاسل‘‘، مصنف ضمیرنیازی۔
(5)‘‘عوام کے جاننے کا حق اور اس پر پابندیاں‘‘، پروفیسر توصیف احمد خان،مقالہ مطبوعہ ’’ابلاغی تحقیق‘‘، شعبہ ابلاغ عامہ وفاقی اردو یونی ورسٹی کا تحقیقی جریدہ۔
(6)پروفیسر توصیف احمد خان کا روزنامہ ایکسپریس کراچی میں مطبوعہ کالم بہ تاریخ 8 نومبر 2013، بہ عنوان ‘‘اطلاعات کا حصول، قوانین سے آگہی‘‘۔۔۔۔۔۔۔
(7) ‘‘پاکستانی قوانین اور جاننے کا حق‘‘، پروفیسر ڈاکٹر سیمی نغمانہ طاہر، بیرم خان، مضمون مطبوعہ ’’ابلاغی تحقیق‘‘، شعبہ ابلاغ عامہ وفاقی اردو یونی ورسٹی کا تحقیقی جریدہ۔
Sana Ghori
About the Author: Sana Ghori Read More Articles by Sana Ghori: 317 Articles with 283112 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.