بدکار ریاست اور انقلاب

شہر کراچی جسے کبھی روشنیوں کا شہر اور عروس البلاد کہا جاتا تھا گزشتہ کئی دنوں سے دہشت و ویرانیوں کا مرکز بنا رہا، حکومت کی جانب سے اجازت نہ ملنے کے باوجود ''نامعلوم دہشتگرد'' مسلسل ریاستی رٹ چیلنج کرتے رہے۔ جس کے نتیجے میں 40خاک نشینوں کا لہو زرق خاک ہوا، ان تمام افراد میں صرف 6ہی سیاسی جماعتوں کے کارکن تھے باقی تمام افراد عام محنت کش تھے جو کہ اپنے اہل خانہ کیلئے حصول رزق کیلئے گئے تھے مگر دہشتگردوں کی بربریت کی بھینٹ چڑھ گئے۔ شہر میں خون کی ہولی کھیلے جانے کے بعد حکومت کی ''اتحادی جماعتوں'' کی کور کمیٹی کا اجلاس ہوا جس میں اس خون خرابے کو روکنے کیلئے مل کر ''مشترکہ ''اقدامات کرنے کا فیصلہ کیا گیا اور خونریزی ختم ہو گئی ان سارے واقعات کو اگر صحافت کے قوانین (کب، کہاں، کیوں، کیسے، کون، کیا) کی روشنی میں پرکھا جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ ان سارے واقعات کے پیچھے بدکار ریاست اور اس کے حصوں و گرگوں کا ہاتھ ہے۔

آج پاکستان کی تمام سیاسی جماعتیں ایک مافیا کا روپ دھار چکی ہیں چونکہ سیاست ایک منافع بخش کاروبار ہے اور اس کیلئے کسی تعلیم کا ہونا ضروری نہیں بلکہ مکر و فریب و بدنامی کا ہونا ضروری ہے اس لئے یہ تمام جرائم پیشہ افراد کا پسندیدہ کاروبار ہے۔ سیاسی جماعتیں جرائم پیشہ افراد کو اپنی سیاسی جماعتوں میں نہ صرف شامل کرتی ہیں بلکہ ان کی سرپرستی بھی کرتی ہیں اور یہی سیاسی جماعتیں اکثر اوقات حکومت میں بھی ہوتی ہیں۔ سیاسی جماعت کو منظم انداز میں چلانے کیلئے وسیع سرمایہ درکار ہوتا ہے جس میں پارٹی کے منشور سے لے کر بینر چھپوانے تک دفاتر کے اخراجات سے لے کر جلسے میں لوگوں کو جمع کرنے اور ان کو لانے اور لے جانے کے ٹرانسپورٹ کے اخراجات بھی شامل ہیں ان اخراجات کو پورے کرنے کیلئے سیاسی جماعتوں میں جرائم پیشہ افراد کا ہونا ناگزیر ضرورت ہے۔ یہ جرائم پیشہ افراد مختلف مکروہ دھندے کرنے کے علاوہ سیاسی جماعتوں کیلئے بھتہ جمع کرتے ہیں ان کی رٹ قائم کرنے کیلئے اور دھاک بٹھانے کیلئے دہشت گردی کرتے ہیں لینڈ مافیا کی شکل میں زمینوں پر قبضے کرتے ہیں اور بدترین سیاسی مخالفوں کو اگلے جہان رخصت کرنے کا فریضہ بھی انجام دیتے ہیں۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ریاست ان معاملات کے دوران کیا کرتی ہے؟ ریاست سماج سے بالا تر وہ ادارہ بن گیا ہے جسے عوام اور عوام کے مسائل سے کوئی غرض نہیں ہے اسے مخصوص طبقے کے مفادات کا تحفظ کرنا پڑتا ہے بدلے میں ریاستی اداروں کو وہ طاقت حاصل ہو جاتی ہے جس کا کوئی خیال بھی نہیں کر سکتا۔ ریاستی طاقت نافذ کرنے کی پہلی اکائی یعنی پولیس کا ایک معمولی کانسٹیبل ریاستی وردی میں وہ طاقت رکھتا ہے جس پر چنگیز خان، ہلاکو خان اور ہٹلر بھی اگر زندہ ہوتے تو رشک کرتے۔ ریاستی طاقت کی پہلی اکائی یعنی پولیس کا نہ صرف ریاست کے گرگوں یعنی سیاسی جرائم پیشہ افراد کے ساتھ چولی دامن کا ساتھ ہوتا ہے بلکہ جرائم کے بیشتر اڈے پولیس خود ہی قائم کرواتی ہے۔ اس کاروبار میں اسٹیشن ہاؤس آفیسر(ایس ایچ او) جو کہ علاقے کا بے تاج بادشاہ ہوتا ہے اور اس کا کارندہ خاص جو کہ ''بیٹر'' کہلاتا ہے شامل ہوتے ہیں۔''بیٹر''علاقے میں ایس ایچ او کی اجازت سے کسی بھی جرائم پیشہ افراد کو مناسب معاوضے کے عوض جرائم کا اڈا کھولنے کی موکل دیتا ہے جسے ''موکل '' کہا جاتا ہے۔ موکل ملنے کے بعد جرائم پیشہ افراد دھڑلے سے اپنا کاروبار کرتے ہیں اور پولیس ان کی حفاظت کرتی ہے۔ ایس ایچ او ''بیٹر''کا جرائم کے اڈوں سے جمع کیا گیا پیسہ اپنے افسران بالا تک پہنچاتا ہے اور یہ سلسلہ وزیر داخلہ تک جاتا ہے اسی وجہ سے تھانے بکتے ہیں ایک پولیس افسر ایس ایچ او لگنے کیلئے کئی لاکھ کی بولی دیتا ہے اور ایماندار پولیس آفیسرز کو ہیڈ کوارٹر تک محدود رکھا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج شہر کراچی کے ہر علاقے میں جوئے کے اڈے قائم ہیں۔ شراب خانے آباد ہیں اسلحہ کھلے عام بک رہا ہے اور دیگر جرائم بھی زور و شور سے جاری ہیں۔ پولیس رسمی کاروائی کے دوران جو ملزمان پکڑتی ہے وہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو کہ اپنی سیاسی جماعت کے معتوب ہو یا نو آموز ہوں یہ بدکار جمہوری ریاست کے ایک معمولی پہلو کی حقیقت ہے جس کے سبب آج ملک بھر میں عوام کا برا حال ہے، ویران بستیاں ہیں، ٹوٹے پل، بند نہریں، سنسان سڑکیں ہیں، قابل نفرت برائیاں، طرح طرح کی بیماریاں، میلی صورتیں، نفرین مورتیں، جلے ہوئے جنگل، ٹھنڈے چولہے اور بنجر کھیت ہیں اور قوم خوف، غربت، بیماری، افلاس، جہالت، باہمی خونریزی، لسانیت و فرقہ واریت میں مبتلا ہے اور اس کا سبب یہ نظام، حکمران اور سیاستدان ہیں۔

حکمرانوں کی کارکردگی پر نظر ڈالیں تو جمہوریت کو بہترین انتقام قرار دینے والی حکومت نے عوام سے وہ انتقام لیا ہے جس کا احسان وہ مرتے دم تک نہیں چکا سکتے۔ نان شبینہ سے محتاج عوام اب تن کے کپڑوں کو بھی ترسنے لگے ہیں مہنگائی نے ان کے تن کی چادر کو سکیڑ کر رومال جتنا چھوٹا کر دیا ہے دوسری جانب ہر ریاستی ادارہ سرمائے کی چور بازاری میں سرگرم و متحرک ہے 63برسوں کی لوٹ مار نے سماجی بہتری کیلئے کچھ نہیں چھوڑا، آج پاکستان میں حالات بد تر سے بد ترین ہوتے جارہے ہیں اور ان کا تبدیل ہونا نا ممکن ہے اور ملک میں دور دور تک کسی انقلاب کا بھی پتہ نہیں جو کہ اس فرسودہ نظام کو تبدیل کرے کیونکہ سماج کی جدلیاتی سائنس یہ کہتی ہے کہ ''انقلاب تاریخ کے غیر معمولی واقعات ہوتے ہیں جو سماج کو ترقی اور ارتقاء کی جدید منزل سے ہمکنار کرتے ہوئے سماجی دھارے کو آگے بڑھاتے ہیں اور یہ سماجی ترقی کیلئے ناگزیر ہوتے ہیں، انقلابات کی بھی تاریخ ہے جو کہ یہ ثابت کرتی ہے کہ انقلاب کبھی بھی خود بخود نہیں آتے بلکہ عوامی شعور اجاگر کر کے جدوجہد کے نتیجے میں آیا کرتے ہیں کیونکہ ریاستی ادارے اور ریاستی گرگے سماج تباہ تو کردینگے لیکن اپنی مراعات اور عیاشیوں سے دست بردار نہیں ہونگے''۔ پاکستانی قوم اپنے حال سے بے خبر، مستقبل سے بے بہرہ ہے اس لئے معاشرے میں تبدیلی کیسے آسکتی ہے اور جس معاشرے میں انقلاب نہ آئے وہاں عذاب آتے ہیں ملک کی صورتحال سب کے سامنے ہے۔
Dr.Munir Ahmed Sahil
About the Author: Dr.Munir Ahmed Sahil Read More Articles by Dr.Munir Ahmed Sahil: 3 Articles with 2595 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.