ریزرویشن تحریک: منظر، پس منظر

ہریانہ میں ریزرویشن کے نام پر بربریت کا جو کھیل کھیلا گیا وہ سب کے سامنے ہے۔ہریانہ کی سب سے زیادہ طاقتور برادری اپنے لئے تعلیمی اداروں اور روزگار میں ریزرویشن کا مطالبہ لے کر کھڑی ہوئی ہے۔ یہ ایک معلوم حقیقت ہے کہ ہریانہ میں جاٹوں کی کثیر آبادی مقیم ہے اور اسمبلی کی رکنیت ہو یا پارلیامنٹ کی رکنیت یا پنچایتی اداروں میں ان کا تناسب ہر جگہ وہ ایک قابل لحاظ تعداد میں موجود ہےں۔ہریانہ کے کل آبادی کا22فیصد جاٹ ہےںجو اس ریاست کی سب سے بڑی آبادی ہے اور اس تعداد کے اعتبار سے تعلیمی اداروں،روزگار اور سیاسی اداروں میں ان کی نمائندگی خاصی موجودہے۔ ہریانہ کی زراعتی زمینوں پر بھی زیادہ تر جاٹ برادری کا قبضہ ہے۔ اتنے طاقتو ر ہونے کے باوجود بھی اس برداری کو ریزرویشن کی ضرورت محسوس ہورہی ہے۔ ملک کی مختلف ریاستوں میں اس سے قبل جاٹوں کو ریزرویشن بھی دیا جاچکا ہے۔ مثلاً راجستھان میں چار سال قبل اسی طرح کی ایک پرتشدد تحریک کے بعد کانگریس کی اشوک گہلوت سرکار نے پس ماندہ طبقے کے تحت جاٹوں کو پانچ فیصد ریزرویشن دے دیا تھا۔ اسی طرح اترپردیش میں بھی جاٹوں کی کچھ برداری کو بھی ریزرویشن حاصل ہے۔ راجستھان کے بعد یہ مطالبہ ہریانہ میں بھی اٹھایا گیا تھااور گزشتہ اسمبلی انتخابات کے وقت بھارتیہ جنتا پارٹی نے اپنے انتخابی منشور میں ہریانہ کے جاٹوں سے یہ وعدہ بھی کر لیاتھا۔اس وقت بی جے پی کا مقصد محض کانگریس اور انڈین نیشنل لوک دل کو شکست دے کر ریاست میں پہلی مرتبہ بی جے پی کی سرکار قائم کرنا تھااور اس کے لئے جاٹوں کی حمایت حاصل کرنے کی غرض سے یہ وعدہ کیا گیا ۔اقتدار میں آنے کے بعد بی جے پی اس وعدے پر خاموش ہوگئی۔ ظاہر ہے کہ ریاست کی کثیر آبادی والے اور سب سے زیادہ طاقتور اور اثر دار برادری کو ریزرویشن دینے کا کوئی دستوری جواز موجود نہیں ہے۔دیگر ریاستوں میں جہاں جاٹوں کو ریزرویشن دیا گیا وہاں وہ تعداد میں بہت کم ہےںلیکن سماجی طور پر پسماندہ وہاں بھی نہیں ہےں۔چنانچہ ہر جگہ محض سیاسی منہ بھرائی کے لئے اس برادری کو ریزرویشن کے فوائد پہنچائے گئے۔ہریانہ میں یہ تحریک خود بی جے پی کے اشارے پر شروع کی گئی۔یہی وجہ ہے اس تحریک نے اس قدر ہیبت ناک رخ اختیار کیاکہ ریاست کے 21ضلعوں میں سے 12ضلعے اس میں جھلس کر رہ گئے۔ایک ہفتے تک ایسا محسوس ہوا گویا ریاست میں کوئی حکومت موجود نہیں ہے۔نظم ونسق نام کی کوئی چیز باقی نہ رہی ۔ ہر طرف لوٹ مار، آتشزنی حتی کہ بےشمار خواتین کی عصمت دری کی گئی۔ریاستی حکومت نے ابتدا ہی میں فوج طلب کرلی گئی تھی لیکن فوجی افسران کو قتل کیا گیا اور فوج کی گاڑیوں کو بھی نذر آتش کیا گیا اور آخرکار صدر جمہوریہ، چیف جسٹس آف انڈیا اور ہوم منسٹر کو بحالی امن کی اپیل کرنی پڑی جو بے اثر ثابت ہوئی۔بالآخراس پرتشدد تحریک کے سامنے مرکزی حکومت کو گھٹنے ٹیکنے پڑے اور اس مطالبے کو تسلیم کرنا پڑا۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ نظم و نسق کی اس قدر بگڑی ہوئی صورت حال میں بھی کسی بھی سیاسی جماعت نے ریاستی حکومت کے استعفے کا مطالبہ نہیں کیا اس سے مختلف سیاسی جماعتوں کی نیت کا صاف اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ اس سے قبل گزشتہ سال اگست میں گجرات کی پٹیل برادری نے بھی اسی قسم کا مطالبہ کم وبیش اسی انداز میں کیا تھا اور ایک غیر معروف جواں سال بی جے پی لیڈر ہاردک پٹیل کی قیادت میں لاکھوں پٹیلوں نے گجرات کے نظم ونسق کو اپنے ہاتھ میں لے کر ریزرویشن کا مطالبہ کیا تھا۔ حالانکہ جاٹوں کی طرح گجرات کے پٹیل بھی ریاست میں ہر طرح خوشحال ہیں اور اقتدار کے اعلیٰ ترین مناصب پر ہمیشہ فائز رہے ہےں حتی کہ چیف منسٹر بھی عام طورپر پٹیل برادری کا ہی ہوتا ہے۔ تاحال بھی گجرات کی وزیر اعلیٰ آنندی بین پٹیل ہی ہےں۔ اس کے باوجود اس برادری کو ریزرویشن کو ضرورت محسوس ہورہی ہے۔
ہندوستان میںریزرویشن کوئی نئی بات نہیں ہے۔یہ بحث 1882سے ہی جاری ہے کہ جب ہنٹر کمیشن نے جوتی راﺅ پھلے کے مطالبے کے بعد دلت برادریوں کو ریزرویشن دینے کا فیصلہ کیا تھا۔لمبے عرصے تک یہ بحث جاری رہی ہے اور مختلف ریاستوں میں مختلف مواقعوں پر مختلف انداز سے کچھ نہ کچھ ریزرویشن دیا جاتا رہا ۔1933میں یہ بحث اس وقت شدید ہوگئی جب علاحدہ الیکٹوریٹ کی بنیاد پر ہندو مسلمانوں، سکھوں، عیسائیوں، اینگلو انڈینس، یورپین اور دلتوں کو الگ الگ حلقے مخصوص کرکے دینے کی بات کی گئی ۔مہاتما گاندھی اس کے شدید مخالف تھے۔ جبکہ بھیم راﺅ امبیڈکر اس کے حق میں تھے۔ایک طویل بحث کے بعد امبیڈکر اور گاندھی جی کے بیچ ایک معاہدہ ہوا جےسے پونے ایکٹ کہا جاتا ہے1933میں اس ایکٹ کے تحت دلتوں کے لئے علاحدہ حلقہ بندی کرنے کے بجائے انہیں ہندوﺅں کے زمروں میں شامل کرنے کی بات تسلیم کرلی گئی اور یہ مان لیا گیا کہ ہندوﺅں کے زمروں میں دلتوں کے لئے الگ سیٹیں مخصوص کرلی جائیںگی ۔ موجودہ ریزرویشن کی بنیاد اسی پونہ ایکٹ 1933پر رکھی گئی ہے۔1946میں دستور ساز اسمبلی کی بحث کے دوران بھی ریزرویشن پالیسی پرطویل بحث ہوئی۔جس کے بعد یہ طے کیا گیا کہ سماجی اور اقتصادی پسماندگی کی بنیاد پر متاثر ہ طبقات کو ریزرویشن دیا جائے گا۔لیکن مذہبی بنیاد پر کوئی ریزرویشن نہیں دیا جائے گا۔ لیکن حیرت انگیز طورپر 1950میں دستور کے نفاذ کے فوراً بعد 8 اگست1950کو ایک صدارتی حکم نامے کے ذریعے دستور کے آرٹیکل 341میں ترمیم کرکے یہ کہا گیا کہ غیر ہندو پسماندہ طبقات کو ریزرویشن کے فوائد حاصل نہیں ہوںگے۔بعد ازاں 1976میں بودھوں اور سکھوں کو بھی اس شرط سے مستثنیٰ کرکے ریزرویشن کے فوائد پہنچائے گئے۔ اب ملک میں صرف مسلمان اور عیسائی اس فائدے سے محروم ہےں۔حالانکہ ایک طویل عرصے سے ملک کی عدالت عظمیٰ اس عدالتی حکم نامے کے خلاف کیس موجود ہے لیکن مرکزی حکومت کی جانب سے کوئی جواب نہیں دیا گیا جبکہ مرکزی حکومت نے جسٹس رنگا ناتھ مشر کمیشن کے سامنے یہ سوال بھی رکھا تھا کہ اقلیتوں کو ریزرویشن دیا جائے یا نہیں اور جسٹس مشر نے اپنی رپورٹ میں واضح طورپر سفارش کی تھی کہ ملک کی تمام اقلیتوں کو 15فیصد ریزرویشن دیا جانا چاہیے اور اس میں سے دس فیصد خاص طورپر مسلمانوں کو دیا جانا چاہیے۔ جسٹس مشر نے یہ سفارش بھی کی تھی کہ دستور کی دفعہ 341میں سے مذہب کی مذکورہ قید کو ہٹا دینا چاہیے۔لیکن گزشتہ 11سال میں اس رپورٹ پر کسی بھی سرکار نے کوئی توجہ نہیں دی اور سپریم کورٹ کو بھی کوئی جواب نہیں دیا۔

مذکورہ بالا بحث سے جو باتیں اخذ کی جاسکتی ہیں وہ یہ ہیں کہ ملک میں آزادی کے وقت سے ہی سماجی اور پسماندگی کے بہانے ریزرویشن کو ہندوﺅں کے لئے مخصوص کیا گیااور بودھوں اور سکھوں کو اس میں شامل کرکے ہندوستان کے مول واسی (اصل باشندے) کو وہ فائدہ پہنچایا گیا۔اسی طرح دلتوں کے قبول اسلام کو روکنے کے لئے ریزرویشن کے ساتھ یہ شرط بھی لگائی گئی کہ اگر کوئی دلت اپنا مذہب تبدیل کرکے عیسائی یا مسلمانوں ہوجاتا ہے تو وہ ریزرویشن کے فوائد سے محروم ہوجائے گا۔اسی طرح مسلمانوں کی جانب سے جب بھی ریزرویشن کا مطالبہ کیا گیا تو یہی کہہ کر بات کو ٹالنے کی کوشش کی گئی کہ مذہبی بنیادوں پر ریزرویشن نہیں دیا جاسکتا ۔گویا اس بہانے مسلمانوں اور عیسائیوںکوریزرویشن کے فوائد سے محروم رکھاگیا ۔ہرچند کہ تمل ناڈو، کیرل اور آندھراپردیش میں مسلمانوں کو مختصر ریزرویشن دیا گیا ہے لیکن پورے ملک میں اسے عام نہیں کیا گیا۔ لیکن یہ مطالبہ اپنے آپ میں شدت اختیار کرتا جارہا ہے اور مختلف سرکاری کمیشنوں کی رپورٹیں بھی اس کی تائید میں موجود ہےںاور ایسا محسوس ہوتا ہے کہکسی نہ کسی موقعے پر مسلمانوں کو بھی ریزرویشن دینا ہی پڑے گا۔

بی جے پی کی موجودہ سرکار جو آر ایس ایس کے نظریات پر کاربند ہے وہ تو کسی قیمت پر بھی مسلمانوں کے ریزرویشن کی حامی نہیں ہوسکتی اور یہ بھی واضح ہے کہ اعلیٰ ذات ہندﺅں کے مفادات کی حامی یہ سرکار دلتوں اور قبائلیوں کی ترقی کو اچھی نظر سے نہیں دیکھتی یہی وجہ ہے کہ شروع سے ہی ہندو احیاءپرستوں کا یہ طبقہ دلتوں کے ریزرویشن کی بھی مخالفت کرتا رہا ہے۔اس کی ایک تازہ مثال یہ ہے کہ 1992میں جب برسرروز گار دلتوں کو ان کی نوکری میں ترقی کے لئے بھی ریزرویشن کا مطالبہ کیا گیا توکانگریس اور بی جے پی کے اعلیٰ ذات ہندﺅں نے اس کی اتنی شدید مخالفت کی کہ وہ آج بھی منظور نہیں ہوسکا۔یہ وہ عوامل ہےں جو آر ایس ایس اور اس کی پروردہ بی جے پی نیز کانگریس کے اعلیٰ دات ہندوں کو مجبور کرتے ہےں کہ ریزرویشن کی پوری پالیسی پر ازسر نو بحث کی جائے اور ملک میں ایسے حالات پیدا کئے جائیں کہ بالآخر ملک کا ہر طبقہ تنگ آکر یا تو ریزرویشن کی مخالفت کرے یا اس کے طریقہ کار کی تبدیلی کا مطالبہ کرے۔اس طرح مسلمانوں کو ریزرویشن دینے کا مسئلہ بھی ٹل جائے گا اور اس زمرے میں اعلیٰ ذات ہندو بھی شریک ہوجائے گا۔واضح رہے کہ ابتدا میںریزرویشن صرف دس سال کے لئے دیا گیا تھا۔دلت تنظیموں کے طاقتور دباﺅ اور حکمراں جماعتوں کی سیاسی مصلحتوں اور مفادات کے تحت اس میں بار بار توسیع کی جاتی رہی ۔ ریزرویشن کی موجودہ معیار 2026میں ختم ہوجائے گی اور اس وقت ایک بار پھر اس ریزرویشن کو جاری رکھنے یا نہ رکھنے یا اس کی پالیسی اور طریقہ کار میں تبدیلی کرنے پر بحث کی جائے گی۔یہی وجہ ہے کہ اگلے دس سال ریزرویشن کے نام پر اس قسم کی وحشت ناک، بہیمانہ اور بربریت پر مبنی تحریکوں کے ذریعے غیر مستحق طاقتور طبقات کو اکسایا جاتا رہے گاتاکہ اس بحث کو ابھی سے مہمیز حاصل ہو اور اس بحث کے نام پر ہونے والے مظالم سے تنگ آکر لوگ ریزرویشن کی مخالفت پر آمادہ ہوجائیںتاکہ 2026تک اعلیٰ ذات ہندﺅں کو ریزرویشن تک رسائی حاصل ہوجائے اور دلت پسماندہ اور اقلیتی طبقات اس دور میں پچھڑ جائیں۔موجودہ فسطائی سرکار جہاں جہاں اقتدار میں ہے وہاں وہاں انتہائی چالاکی کے ساتھ سماج کے بااثر طبقات کواس کے لئے اکسایا گیا ہے۔گجرات اور ہریانہ دونوں جگہ بی جے پی حکومتیںموجود ہےں اوروہ برادریاں بھی اقتدار میں ہےں جو ریزرویشن کا مطالبہ کررہی ہےں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ مطالبے میں بھی اتنی شدت تھی کہ پولیس اور فوج کے قابو میں نہ آسکا۔یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ ان مطالبوں کے مقابلے میں دیگر ذات کے لوگوں نے مخالفانہ تحریک چھیڑی ہے ہر چند کہ وہ مخالفانہ تحریک کمزور رہی اور اس کا زیادہ چرچا بھی نہیں ہوا لیکن اس سے یہ بات ضرور سمجھ لینی چاہیے کہ ملک کی بااثر اور مقتدر برادریوں نے اگر جگہ جگہ اسی طرح کی پرتشدد تحریکیں چھیڑیں تو ملک کے دلت اور پسماندہ طبقات بھی جو اصل مقصد کو بھانپ رہے ہےں اپنی تحریکیں لے کر کھڑے ہوجائیںگے اور پھر ریزرویشن کے نام پرآمنے سامنے کی سماجی شورش بپا ہوجائے گی۔ ملک کے ہر سمجھ دار شہری اور حکمراں طبقے کے ہر فرد کو بھی یہ بات اچھی طرح ذہن نشین رکھنی چاہیے کہ ریزرویشن کے معاملے میں دلت اور پسماندہ طبقات اس قدر حساس ہےں کہ وہ اسے اپنی زندگی اور موت کا مسئلہ سمجھتے ہےں۔ ایسے میں کوئی بھی ایسی سازش جو ان کے ریزرویشن کو کم یا ختم کردے اسے ناکام بنانے کے لئے وہ اپنی جان پر کھیلنے سے گریز نہیں کریںگے۔آر ایس ایس اور بی جے پی کے نام نہاد قوم پرستوں کوملک کی تباہی سے گریز کرنا مقصود ہے توریزرویشن کے نام پر آگ اور خون کا یہ کھیل بند کردیں۔
Dr Tasleem Ahmed Rehmani
About the Author: Dr Tasleem Ahmed Rehmani Read More Articles by Dr Tasleem Ahmed Rehmani: 41 Articles with 24496 views I m Chief Editor of Mission Urdu Weekly New Delhi, President Muslim Political Council of India lives in Delhi a political strategist and profound writ.. View More