مردم شماری ۔ موخرکیوں؟

پاکستان میں ہونے والی چھٹی مردم شماری موخر کردی گئی۔ حکومت ِ وقت نے ایک سال قبل الیکشن کمیشن کی شفارش پر مارچ2016میں مردم شماری کرانے کا اعلان کیا تھا۔ الیکشن کمیشن نے بلدیاتی انتخابات سے قبل 7 نومبر 2014 کو حکومت کو یہ مشورہ دیا تھا کہ بلدیاتی انتخابات سے قبل ملک میں مردم شماری کرالی جائے لیکن حکومت کو تو بلدیاتی انتخابات کرانا ببالِ جان نظر آرہا تھا وہ بھلا مردم شماری کا کس طرح سوچ سکتے تھے۔آخر کار حکوت کو اعلان کرنا پڑا کہ مردم شماری مارچ میں کرائی جائے گی لیکن جیسے جیسے مارچ قریب آرہا تھا مردم شماری کے حوالے سے سیاسی پنڈتوں کے بیانات جس قسم کی آرہے تھے ،ان سے یہی بو آرہی تھی کہ مردم دشماری موخر ہوجائے گی۔ وجوہات بے شمار، ان سب میں اہم مفادات ہیں ، وہ مفادات مختلف نوعیت کے ہیں اس لیے کہ مردم شماری بہت سے مسائل سے پردہ چاک کردیتی ہے، ملکی ترقی کے لیے حقیقی اعداد و شمار سامنے لے آتی ہے۔ اس کے برعکس ہمارے سرمایہ دار، جاگیردار، وڈیرے ، سیاسی پنڈت یہ نہیں چاہتے کہ مردم شماری کی بنیاد پر ملک میں منصوبہ بندی ہو۔ سر دست چھٹی مردم شماری جس کی ابتدائی تیاریاں مکمل بھی کی جاچکی تھیں ، وزیر اعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف کی صدارت میں منگل 29فروری کو ہونے والے مشترکہ مفادات کونسل کے اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ سکیورٹی آپریشنز کی وجہ سے مردم شماری کے عمل کو سر دست موخر کردیاجائے، اس اجلاس کے فیصلے میں کہا گیا ہے کہ تمام صوبوں کی مشاورت سے سیکورٹی فورسیز کی پہلے سے طے شدہ مصروفیات اور جاری آپریشن کے باعث مردم شماری کا عمل ملتوی کرنے کا فیصلہ کیا۔ مردم شماری کے نئے شیڈول اعلان اسٹیک ہولڈرز (شراکت داروں) کی مشاورت کے بعد کیا جائے گا۔مردم شماری کے لیے ملک میں ایک لاکھ نفری کی درخواست کی گئی تھی۔ یہ کوئی غیر معمولی بھی نہیں۔

اس بات میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ ہماری فورسیز اہم ذمہ داریوں کی انجام دہی میں اپنے طے شدہ پروگرام کے مطابق کافی عرصے سے مصروف ہیں۔ سرحدوں کی حفاظت اور دشمن سے ہمہ وقت چوکنا رہنے کے علاوہ ملک کے اندر ہونے والی دہشت گردی جیسے موزی مرض سے چھٹکارا حاصل کرنے کی رات دن کوشش کررہی ہیں۔ یہ فورسیز ہی تو ہیں کہ جب بھی کوئی مشکل گھڑی ہوتی ہے یا آفت آن پڑے تو فوری طور پر ہر ایک کی نظر فورسیز کی جانب جاتی ہے، سیلاب ہو، زلزلہ ہو، انتخابات ہوں یا پھر مردم شماری یا خانہ شماری حتیٰ کہ اب تو پولیوں کے قطرے پلانے کے لیے بھی فورسیز کا سہارا لینے کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہی نہیں حکومت وقت سے مخالف سیاست دانوں کو اختلاف انتہا کو پہنچ جائے تو حکومت مخالف قوتیں تیسرے ایمپائر کی جانب دیکھنے لگتی ہیں۔ ہر مشکل اور پریشانی کا حل فورسیز ہی میں نظر آتا ہے۔ مردم شماری جیسا کام بہت ہی اہم اور نازک ہوتا ہے۔اس عمل سے یہ معلوم ہوجاتا ہے کہ ہماری آبادی کتنی ہوچکی ہے، ان میں مرد، عورتیں اور بچے کتنے ہیں اور پھر ان کی تعداد کے اعتبار سے ان کی ضروریات کی منصوبہ بندی کی جاتی ہے۔ قومی اور صوبائی اسمبلی کی نشستوں کا تعین کیا جاتا ہے، لمحہ موجود میں تو مردم شماری موخر کرنے کا جواز بڑی حد تک مناسب معلوم ہوتا ہے لیکن ماضی میں حکمرانوں اور سیاسی پنڈتوں نے مردم شماری کبھی وقت پر نہیں ہونے دی، کوئی نہ کوئی حیلہ بہانہ اور عُذر پیش کر کے اس عمل کو ہمیشہ پیچھے دھکیلا گیا۔ اس حوالے سے تاریخ کو دھرانا نہیں چاہیے۔ نواز شریف صاحب اپنے سابقہ دورِ حکمرانی میں مردم شماری کرانے کا کریڈٹ لے چکے ہیں ۔ امید ہے کہ وہ اس دور میں بھی مردم شماری کراکے کریڈٹ اپنے نام کرانے میں کامیاب ہوں گے۔

پاکستان میں مردم شماری کی تاریخ 1951سے شروع ہوتی ہے یعنی اولین مردم شماری 1951میں ہوئی تھی جس سے یہ معلوم ہوا تھا کہ ہماری آبادی ساڑھے سات کروڑ ہے۔ اس لیاقت علی خان وزیر اعظم تھے لیکن انہیں 16اکتوبرا 1951 کو شہید کر دیا گیا تھا اور ان کی خواجہ ناظم الدین پاکستان کے وزیر اعظم مقرر ہوئے تھے۔ وقت مشرقی پاکستان جو اب بنگلہ دیش ہے پاکستان کا حصہ تھا اس لیے اس خطہ کے لوگوں کی تعداد بھی اس میں شامل تھی۔ اس وقت یہ طے ہوا تھا کہ اب ہر دس سال بعد مردم شماری ہوا کرے گی۔ تاکہ حکومت اسی اعتبار سے عوام کی ضرریات کی منصوبہ بندی کرے۔ پہلا اور آخری موقع تھا کہ پورے دس سال بعد دوسری مردم شماری 1961میں ہوئی۔اب ہماری آبادی نوکروڑ سے تجاوز کر چکی تھی۔ یہ دور فیلڈ مارشل محمد ایوب خان کا تھا ۔اس مردم شماری میں بھی مشرقی پاکستان ہمارے ساتھ تھا ۔ اب تیسری مردم شماری طے شدہ شیڈول کے مطابق 1971میں ہونی چاہیے تھی لیکن یہ وہ وقت تھا جب ہمارے ہمسایہ دشمن ملک نے مشرقی پاکستان میں علیحدگی کے حالات پیدا کیے ہوئے تھے ، جنگ کی صورت حال کے باعث یہ مردم شماری ایک سال آگے کرنا پڑی اور تیسری مردم شماری 1972میں ہوئی۔ اس وقت ذو الفقار علی بھٹو ملک کے حکمران تھے۔ مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بن چکا تھا چنانچہ ہم آبادی کے اعتبار سے ساڑھے چھ کروڑ رہ گئے۔ 1981میں چوتھی مردی شماری وقت مقرہ پر ہوئی اس وقت آبادی تقریباً نو کروڑ کے قریب تھی یعنی7820000 ،یہ دور جنرل ضیا ء لحق کا تھا۔ پانچویں مردم شماری کو جسے 1991 میں ہونا تھا مختلف حیلے بہانوں سے آگے بڑھا یا گیا اور وہ 1998میں ہوئی اس وقت پاکستان کی آبادی بڑھ کر 13کروڑ 23 لاکھ ہوچکی تھی۔اس وقت میاں نواز شریف وزیر اعظم تھے۔ اب چھٹی مردم شماری کی طے شدہ مدت کب کی پیچھے جاچکی اب بھی اس کے اہتمام میں رکاوٹیں ہیں۔ دس کے بجائے 18سال ہوچکے ہیں لیکن مردم شماری ہے کہ ہونے کا نام نہیں لے رہی۔ ہر حکومت اسے اپنے لیے ببالِ جان تصور کرتی ہے اس لیے کہ جب آبادی کی صحیح تصویر سامنے آجائے گی تو اس کے مطابق اقدامات بھی تو کرنا پڑیں گے۔ بد قسمتی سے ہم لاتوں کے بھوت ہوچکے ہیں، جب تک ہمارے سر پر کوئی ڈنڈا نہیں ہوتا ہم کام نہیں کرتے، اب بلدیاتی انتخابات کی مثال ہمارے سامنے ہے اگر اعلیٰ عدلیہ اپناڈنڈا نہ چلاتی تو یہ انتخابات ہوسکتے تھے؟ عدلیہ کے فیصلے کے باوجود ہر صوبائی اور مرکزی حکومت کس قدر لَیت و لَعل اور ٹال مٹول سے کام لیتے رہی ہیں ۔ آخر مجبور ہوکر گھٹنے ٹیکنے پڑے اب انتخابات ہوگئے تو اس مشینری کو کام شروع کرنے میں اور اختیارات دینے میں کس قدر پَش و پیش اور سوچ بچار سے کام لیا جارہا ہے۔ بعض کا تو خیال ہے کہ مردم شماری کے لیے بھی اعلیٰ عدالت ہی اپنا ڈنڈا گھمائے گی تو کام ہوگا۔

ایک سروے کے مطابق پاکستان میں ہر سال 45لاکھ سے 50لاکھ لوگوں کااضافہ ہوتا ہے، جولائی 2014ء کا سروے کہتا ہے کہ پاکستان کی کل آبادی 19کروڑ اور 35لاکھ ہوچکی ہے اس اعتبار سے دسمبر 2015میں پاکستان کی آبادی 20کروڑ کو چھو رہی ہوگی۔ مردم شماری کے لیے ایک ادارہ علیحدہ سے موجود ہے جس کا کام ہی یہ ہے کہ وہ ہر دس سال بعد اس ذمہ داری کو انجام دے ۔پولیس یا فوج تو کام میں بیرونی مداخلت کو روکنے کا فریضہ انجام دیتی ہیں ، اصل کام تو اس ادارے کا ہے کہ اس نے اس اہم کام کے لیے کیا حکمت عملی اپنائی ہے۔ منصوبہ سازوں کو دنیا کے وہ ملک نظر نہیں آتے جہاں طے شدہ شیڈول کے مطابق مردم شماری ہوتی ہے ، ہمسایہ بھارت ہی کی مثال لے لیں وہاں شیڈول کے مطابق مردم شماری ہوتی چلی آرہی ہے اور پھر نئے اعداد وشمار کے مطابق منصوبہ سازی کی جاتی ہے۔ ہمارے ملک میں جو مسائل ہیں اور جو حل نہیں ہورہے اس کی بنیادی وجہ ہی یہ ہے کہ ہم بلاسوچے سمجھے ، تحقیق کیے بغیر منصوبے بنائے چلے جارہے ہیں۔ سارا زور موٹر وے بنانے، جنگلا بس چلانے، گرین بس چلانے ، اورنج بس چلانے پر لگا یا جارہا ہے۔ کیا پاکستان میں صرف لاہور، اسلام آباد اور کراچی ہی بڑے شہر ہیں ان کے علاوہ بھی بے شمار شہر ایسے ہیں جہاں کے مسائل انہی بڑے شہروں کی مانند ہیں انہیں کون حل کریگا۔ آبادی کتنی ہے ، ان کے لیے پانی، بجلی، اناج اور دیگر ضروریات کا انتظام ان کی تعداد کے اعتبار سے ہی تو کیا جائے گا۔ لمحۂ موجود کی حکومت کو تین سال ہونے کو ہیں اب خیال آیا گرین بس چلانے کا، سرکلر ریلوے کا منصوبہ عرصہ دراز سے سرد خانے کی نظر ہے ،کراچی میں پہلے بھی گرین بسیں چل چکی ہیں ان کاکیا انجام ہوا وہ اہل کراچی کو خوب معلوم ہے، گرین بس کی جگہ سرکلر ریلوے کو فعال کردیاجاتا تو وہ کراچی کے عوام کے لیے زیادہ مفید ہوتا۔ کراچی سرکلر ریلوے کراچی کی ترقی اور عوام کی ٹرانسپورٹ کے مسئلے کا بنیادی حل ہے جو جاپان کی حکومت کے تعاون سے از سرِ نو شروع ہونے کے انتظار میں ہے۔گرین بس منصوبے پر 16 ارب روپے لاگت کا تخمینہ ہے جو وقت کے ساتھ ساتھ بڑھے گا کم نہیں ہوگا، اس منصوبے کی افادیت اپنی جگہ لیکن سرکلر ریلوے زیادہ اہم اور پائے دار حل ہے۔وفاق اور سندھ حکومت کراچی سرکلر ریلوے کے لیے جاپان کی حکومت کی وہ شرائط کو اہمیت نہیں دے رہی جس میں کہا گیا ہے کہ حکومت پاکستان ریلوے کی اس زمین پر کہ جہاں جہاں سے ریل کی پٹری گزرتی ہے غیر قانونی تجاویزات کو ہٹا دے ، یہ کوئی مشکل کام بھی نہیں ، سندھ حکومت وفاق کے تعاون سے یہ کام بہ آسانی کرسکتی ہے ۔ لیکن اس میں کیا راز پنہا ہے نہیں معلوم ۔دنیا کے تمام ممالک اپنے تمام تر مسائل اپنی آبادی کے اعداد و شمار کو سامنے رکھ کر حل کرتے ہیں۔ اس کے بغیر مسائل کا دائمی حل ممکن نہیں۔ 2016کو حکومت نے مردم شماری کا سال کہا ہے اس وقت موجودہ حالات کے پیش نظر مردم شماری موخر ضرور کردی گئی ہے لیکن اس سال میں ابھی کئی ماہ باقی ہے ، متعلقہ ادارے کو اس کی تیاری کی ہدایات کرتے ہوئے جیسے ہی حالات بہتر ہوں اور فورسیز اس کام کے لیے تیار ہوں مردم شماری کا انجام پاجانا ملک اور قوم کے مفاد میں ہوگا۔
Prof. Dr Rais Ahmed Samdani
About the Author: Prof. Dr Rais Ahmed Samdani Read More Articles by Prof. Dr Rais Ahmed Samdani: 852 Articles with 1281108 views Ph D from Hamdard University on Hakim Muhammad Said . First PhD on Hakim Muhammad Said. topic of thesis was “Role of Hakim Mohammad Said Shaheed in t.. View More