جہنم کا گڑھا

جہنم کا گڑھا........چوہدری شعبان احمدکیا تم مجھ سے شادی كرو گی؟؟اسفند مجھے لگتا ہے تم اپنے ہوش وحواس میں نہیں ہو!رقیہ میں نے یہ فیصلہ کافی سوچ وبچار کے بعد کیا ہے.تمہیں لگ رہا ہے کہ میں نشے میں ہوں تو یہ تمہاری غلط فہمی ہےمجھ تو لگ رہا ہے کہ نشے کا اثر تم پہ کچھ زیادہ ہی ہو گیا ہے جو ایسی بہکی بہکی باتیں کر رہے ہو میں نے مسکراتے ہوئے کہا!اسفند بھی باقی تماش بین کی طرح اک تماش بین تھا جو شراب کا کافی رسیا تھا خیر وہ باقیوں کی طرح غل و غپاڑہ نہیں کرتا تھا
کیا تم مجھ سے شادی كرو گی؟؟
اسفند مجھے لگتا ہے تم اپنے ہوش وحواس میں نہیں ہو!
رقیہ میں نے یہ فیصلہ کافی سوچ وبچار کے بعد کیا ہے.تمہیں لگ رہا ہے کہ میں نشے میں ہوں تو یہ تمہاری غلط فہمی ہے
مجھ تو لگ رہا ہے کہ نشے کا اثر تم پہ کچھ زیادہ ہی ہو گیا ہے جو ایسی بہکی بہکی باتیں کر رہے ہو میں نے مسکراتے ہوئے کہا!

اسفند بھی باقی تماش بین کی طرح اک تماش بین تھا جو شراب کا کافی رسیا تھا خیر وہ باقیوں کی طرح غل و غپاڑہ نہیں کرتا تھا بلکہ کمرے کے اک کونے میں بیٹھا میرا رقص ہی دیکھتا تھا..
اسفند علاقے کے اک کافی امیر وڈیرے اور سیاسی اثر و رسوخ رکھنے والے نواز محمد کا بیٹا تھا.پہلے پہل تو وہ اپنے دوست کے ساتھ آتا تھا مگرکچھ عرصے سے اس نے اکیلا ہی آنا شروع کر دیا تھا
پہلے تو باقی تماش بین کی طرح وہ بھی میر رقص دیکھتا پیسے لُٹاتا اور چلا جاتا پر پچھلے کچھ دونوں سے وہ میرے کچھ زیادہ ہی قریب آ گیا اور مجھ سے اپنی ساری باتیں کرنے لگا....
جو بھی بات ہو مجھے بتاتا اور اک دن باتوں ہی باتوں میں مجھ سے پیار کا اظہار بھی کر ڈالا

کسی عورت کے جب پہلا بچہ ہوتا ہے تو اُس کی خوشی کی کوئی انتہا نہیں ہوتی کیونکہ اُسے لگتا ہے کہ وہ مکمل ہو گئی ہے یہی حال پہلے پیار کرتے وقت اک طوائف کا ہوتا ہے اس لیے کہ طوائف سے تو بہت سے مردوں کو پیار ہوتا ہے مگر جس مرد کے ساتھ طوائف کو پیار ہوتا ہے وہ اُسے اپنے لیے مکمل سمجھتی ہے

میرے سامنے بہت سی طوائفوں کے گھر بسنے اور پھر جلد ہی اُجڑنے کی بے شمار مثالیں موجود تھیں پر کمبخت پیار تو پیار ہے جسکے پیچھے پڑ جائے اُسے ہر طرح سے برباد کر کے چھوڑتا ہے خیر اب پیار کیا تو ڈرنا کیا
تو کب کر رہی ہو مجھ سے شادی؟؟

بائی سے بات کرلو میں راضی ہوں۔
میں نے اسفند کو کہا،

میں رقیہ سے شادی کرنا چاہتا ہوں تمہیں جو چاہیے میں دینے کو تیار ہوں بس رقیہ سے میری شادی کروا دو....
اسفند نے عطیہ بائی سے کہا!

بائی بہت ہی شاطر،مکار اور لالچی عورت تھی۔کچھ نام نہاد شریفوں سے اُن کی عزت کا جنازہ نکال کے کافی پیسے ہتھیا چُکی تھی..

مجھے پتا تھا کہ وہ اسفند سے بهی کافی پیسے لے گی اور وہی ہوا

شادی کے بعد زندگی ہنسی خوشی گزر رہی تھی پر خبر کس کو تھی کے غموں کی سیاہ رات میرے زندگی كے تمام دوونوں پہ محیط ہو جائے گی جہاں اُمید کی کوئی بھی کرن اُجالا نہ کرسکے گی

شادی کے کچھ ہی ماہ بعداسفند سے میری ہر بات پہ تکرار اور نوک جھوک ہونے لگی.بات بات پہ طعنے دینا اور مار پیٹ کرنا اپ اُس کا معمول بن گیا تھا

"طوائفیں دل بہلانے کے لیے ہو تی ہیں گھر بسانے کے لیے نہیں" عطیہ بائی کی یہ بات میرے کانوں میں ہر وقت گونجتی رہتی

یہ کس کے بچے ہیں اک دن مارکیٹ سے گھر واپس پہنچ کر اسفند سے پوچھا؟؟

بئی میرے بچے ہیں اور کس کے..

تم نے تو کہا تھا میں تمہاری پہلی بیوی ہوں پھر یہ بچے کہاں سے؟؟؟

شہناز سے میری لڑائی ہوئی تو وہ ناراض ہوکے مہکے چلی گئی کافی بار اُسکو منانے گیا پر وہ نا مانی کیونک وہ میرا پہلا اور آخری پیار ہے

پھر مجھ سے پیار اور شادی.....تم مذاق کر رہے ہو
یہ مذاق نہیں حقیقت ہے شہناز کے جانے کے بعد میں زہنی مریض ہونے لگا تو اک دن سلطان مجھے تمہارے کوٹھے پہ لے گیا...تم مجھے پسند آ گئی تو سوچا روز روز کوٹھے پہ جانے سے بہتر ہے تمہیں عطیہ بائی سے خرید لوں اس طرح میرا دل بھی لگا رہو گا اورشراب و شباب کا بھر پور مزہ بھی لیتا رہو گا

مجھے کسی بھی بات پہ یقین نہیں آرہا تھا کہ میرے ساتھ اتنا بڑا دھوکہ ہوگا خیر جب شکست نصیب ہو تو زیادہ داوُ لگانا بھی بیوقوفی ہے
اب میرا کیا ہوگا جس کو تم نے زندہ در گور کر دیا ہے؟؟؟؟
شہناز اور میں دونوں ایک ہیں اس لیے اب وہ واپس آ گئی ہے تو کوئی تیسرا ہمارے بیچ نہیں آ سکتا اگر تو تم بانڈھی بن گے رہ سکتی ہو تو ٹھیک ہے ورنہ

ورنہ کیا؟؟

یہی کے تم مجھ سے طلاق لے سکتی ہو اور اور اپنی زندگی آسانی سے گُزار لو کسی قید کے بغیر

میں لڑ کے واپس کوٹھے پہ آ گئی کیونکہ میرا اور کوئی ٹھکانہ نہیں تھا کچھ دن بعد طلاق کا نوٹس آ گیا اور یوں میں نے اپنی چاہت کو آنسووُں اور بے بسی کا کفن پہناکر دل کی لحد میں دفن کر دیا

پھر وہی پہلے والی زندگی جینے لگی مگر پہلے جیسا کچھ نا تھا سب کچھ بدل گیا بات بات پہ بائی کے طعنے نے زندگی عذاب کر دی

شادی طوائف کے مقدر پہ لگی ایسی دیمک ہوتی ہے جو اندر اندر سے کھانے کے باوجود اس کی زندگی عذاب بنا دیتی ہے

بائی سی لڑ جھگڑ کر میں نے کوٹھا چھوڑ دیا مگر اکیلی عورت بھی زمانے میں ایسے ہوتی ہے جیسے کھولے سمندر میں کشتی جس کو ہر طرف سے طوفان نے اپنی زد میں لیا ہو اور ظالم موجیں جس طرف مرضی دھکیل دیں

اک تو میں بے یارو مدد گار اور اوپر سے پیٹ کی آگ،کچھ جگہوں پہ کام کیا مگر طوائف ہونے کی وجہ سے کوئی بھی شریف آدمی مجھے کام دینے کو تیار نہیں تھا

طوائف بھی تو اک انسان ہوتی ہے یہ قدرت کا قانون ہے کے جس کو چاہے جیسا مرضی بنادے پر شریف لوگ اس سے جانوروں سے بھی بدتر سلوک کرتے ہیں
پھر مجھے مجبوری سے جسم فروشی جیسا گھناونا اور قبیح دھندہ کرنا پڑا
مرد انسانی چہرے میں اک مکار لومڑ اور خون خوار بھیڑیا ہوتا ہے جو اپنی چالاکی سے پہلے عورت کے جزبات کو چاک کرتا ہے پھر محبت سے اس کے جسم کے گوشت اور خون سے اپنی ہوس کی آگ بجھاتا ہے

باتیں کرتے کرتے تنگ و تاریک گلیوں سے گزرتے ہوئے کمرےتک کب پہنچ گے پتہ ہی نہیں چلا
بوسیدہ عمارت،تاریک کمرہ اور تباہ شدہ فر نیچر دیکھ کے میں بولا "یہ کیا ہے؟؟؟؟؟
بولی:
جہنم کے گڑھوں میں سے اک گڑھا جس کی ہر دیوار پے شرفاء کی شرافت کے کُتبے اور میری مجبوری اور عذاب زندگی کی داستانیں مرتب ہیں
چوہدری شعبان احمد
About the Author: چوہدری شعبان احمد Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.