لبرل آزاد پرستوں کا مطالبہ اور اصل حقائق

پاکستان میں بعض لبرل یعنی آزاد پرست لوگ مغربی مکمل مگربی قانون کا نفاز چاہتا ہے وہ چاہتے ہیں کہ ایک ایسا معاشہرہ قائم کرے جہاں ہر کسی کو آزادی ہو۔ جہاں پہ عدالتی نظام سے لیکر تمام قوانین یورپی ممالک کی قوانین کو دیکھ کر بنائے ۔ اور ان کی نظر میں مغربی طرز زندگی گزارنے سے ملک ترقی کریگا اور ملک میں امن و امان ہوگی لوگ سکون کی زندگی گزارین گے عورتیں خود کو محفوظ سمجیں گے اقلیتوں کو آزادی ہوگی ۔ اور چاہتے ہیں کہ پاکستان میں ہم جنس پرسی کو قانونی شکل دے۔ اگر مرد عورت بغیر شادی کے خوشی سے جنسی تعلقات قائم کرے تو اس کی اجازت ہو ۔ مطلب وہ تمام قوانین جو مغربی ممالک میں رائج ہے وہ یہاں نافذ کرنا چاہتا ہے۔

اب سوال یہ ہے کہ مغربی قوانین سے ان ملکوں میں کیا اثرات مرتب ہو چکے ہین اور کیا ہو رہا ہے؟ جواب یہ ہے کہ مغربی ممالک آزادی کے نام پہ اس قدر آگے بڑھ گیا ہے کہ ہم جنس پرستی جو ایک زمانے میں تمام معااشروں اور مذاہب میں جرم تصور کیا جاتا تھا اسے انہوں نے قانونی شکل دی ۔ عورت مرد کی ناجائز تعلقات کو جنسی آزادی کا نام دے دیا اور مادر پدر آزاد معاشرہ وجود میں آیا ۔ حال ہی می امریکہ میں کچھ لوگوں نے سگے رشتوں یعنی بہن بھائی شادی کو قانونی شکل دینے کا مطالبہ کیا ہے ۔ جس سے آپ خود اندازہ لگا سکتے ہیں کہ مغرب کس قدر آگے نکل چکا ہے قریب ہے کہ مفکرین دوبارہ اپنے قوم کو صحیح سمت مین ڈالنے کے لئے کوششیں شروع کرے۔ دوسری طرف عورتوں کی آزادی کے علمبردار مغربی ملکوں میں عورتوں سے ریپ کی شرح سب سے زیادہ ہے ۔ سویڈن دنیا میں پہلے نمبر پہ ہے جہاں سب سے زیادہ ریپ ہوتا ہے . مادر پدر ازاد کرنے کے باوجود ریپ کی شرح مغرپ میں دن بدن بڑھتا جا رہا ہے ایسا کیوں؟ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ جنسی آزادی کے بعد ریپ کی شرح میں کمی آنا چاہیے تھا جو کہ ان کا خیال تھا لیکن صورتحال اس کے بالکل بر عکس ہے۔

ایڈز ایک لا علاج مرض ہے اس کی وجوہات میں سے ایک مختلف لوگوں سے جننسی تعلقات قائم کرنا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ افریقہ اور مغربی ملکوں میں ایڈز سے متاثرہ مریض زیادہ ہے ۔ جبکہ مسلم ملکوں میں ایڈز کی بیماری کا تناسب بہت کم ہے بکہ نہ ہونے کے برابر ہے۔

عدالتی نطام کو اگر دیکھا جائے تو مغربی عداالتی نظام میں لوگوں کو انصاف ملنا بہت مشکل ہے ایک غریب شخص انصاف کے حصول کے لئے ۲۰ سے ۳۰ سال زندگی سرف کرتے ہیں لیکن انصاف نہیں ملتا ۔ اور مجرموں کو چند سال جیل میں رکھنے کے بعد رہا کیا جاتا ہے جس کیی وجہ سے ان مین امید پیدا ہوتا ہے کہ جرم کرے تو چند سال جیل میں گزرنے کے بعد رہا ہو جائے گا اس طرح سٹریٹ کرائم کی شرح میں اضافہ ہو رہا ہے ۔

معاشی نطام
کیپیٹلزم ایک ایسا نطام ہے جس میں جائداد بنانے کی کوئی حد نہیں ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ میں کچھ ایسے امیر ترین افراد ہیں جن کی امدنی دنیا کے مختلف ممالک کی کل آمدنی سے زیادہ ہے ۔ یہ نظام بری طرح ناکام ہو چکا ہے ۔چند سال پہلے امریکہ سمیت بہت سے یورپی ممالک کو دیوالیے کا سامنا کر پڑا ۔ جبکہ اس کے مقابلے میں سوشلسٹ چائنا دن بدن معاشی طاقت کے طور پر ابھر رہا ہے ۔ کیپٹلزم میں غریب آدمی کو کوئی خاص فاءدہ نہیں نہ ہی ریاست ان کی کفالت کی زمہ داری لہتا ہے یہی وجہ ہے کہ امریکہ میں بے روزگاری کی شرح بہت زیادہ بڑھ گئی ہے۔

امریکہ اور مغربی ممالک کس طرح اپنے آپ کو ان ناکامیوں سے بچا رہا ہے ؟
امریکہ اس وقت دنیا میں سب سے زیادہ ہتھیار فروخت کرنے والا ملک ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ دنیا کے کسی بھی ملک میں کسی بی طریقے سے خانہ جنگی شروع کر دیتا ہے تاکہ ان کا اسلحہ بکے ۔ اسے کے عالوہ جدید ٹیکنالوجیز جیسے انٹرنیٹ کی ایجاد کے بعد امریکہ اور دوسرے ممالک کچھ عرصے کے لئے دنیا پر حاوی رہے گا لیکن جوں جوں دوسرے ممالک ان ٹیکنالوجیز میں مہارت حاصل کرلے گا پھر ان ے پاس اور کوئی آپشن ہی نہیں رہے گا جس کی ایک مثال چین کی معروف ای کامرس ویب سائٹ علی بابا داٹ کام ہے جس نے معروف امریکی کمپنی یاہو کو پیچھے چھو ڑ دیا ہے ۔ اسی طرح مستقبل میں انڈیا ، جاپان ، روس اور چین میں اس طرح کی بڑی کمپنیاں وجود مین آئے گی جس کے بعد امریکہ اور مغربی ممالک دیوالئے کی طرف جائے گی ۔ لیکن رکئے اس کا بھی حل امغربی ملکوں نے نکال لیا ہے ۔ آپ نے کبھی سوچا ہے کہ امریکہ کینیڈا اور یورپی ممالک کیوں پناہ گزینوں اور پروفیشنل لوگوں کو اپنے ملک آنے کی دعوت دیتے ہیں ؟ اس لئے کہ وہ اب ہیومن ریسورس پہ کام کر رہے ہیں وہ چاہتے ہیں کہ ماہر لوگ ان کے ملکوں کی شہریت حاصل کرے تاکہ وہ ان سے فائدہ حاصل کر سکے ۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان ، انڈیا ، جاپان ، چین اور مختلف ملکوں سے سائنسدان ، ڈاکرز ، انجنئرز اور دوسرے ماہر لوگوں کو امریکہ ،کینیڈا اور یورپی ملکوں میں شیریت دیتے ہیں ۔ حال ہی مین پاکستانی ساءنسدان عمران خان اور ماورا نے نئے تحقیق میں حصہ لیا ۔

یورپ کی ترقی کا راز ان کی کلچر یا ان کا نطام حکومت نہیں بلکہ ان کی محنت ہے ۔ دنیا کا کوئی بھی ملک اگر اسی محنت اور لگن سے کام کرے تو کچھ بھی کر سکتا ہے جس کی مثال 1949 میں آزاد ہونے والے چین کی ہے ۔ چین کا نہ نظام حکومت مغربی ہے اور نہ ہی ان کا کلچر ۔ باوجود اس کے وہ لوگ آج مغرب کے مدمقابل ہے ۔ ہمیں اپنے کلچر اور اپنی روایات کو جدید ساءنسی خطوط پر استور کرنے کی ضروت ہے لیکن ہم اپنے کلچر اور روایات کو بالکل ختم نہیں کر سکتے ۔ جس کی مثال کچھ یوں ہے کہ چائنا نے نہ انگریزی کو سرکاری زبان قرار دیا اور نہ ہی وہاں مغربی کلچر کو فروغ دیا لیکن انھوں نے سائنس اور معاشی میدان میں دن رات کام کیا ۔ آج نہ چاینا کی زبان بدلی ہے اور نہ ہی ان کا کلچر لیکن ان کا نطام زنگی بدل گیا اور جدید سائسی خطوظ پر استوار ہو چکا ہے ۔ ایک مختصر مثال یہ ہے کہ پرانے زمانے میں لوگ گوڑے پہ سفر کرتے تھے سائنس کی ترقی سے آج لوگ جہاز میں سفر کرتے ہیں لیکن جہاز میں سفر کرنے سے نہ ہماری زبان ختم ہو گئی اور نہ ہی کلچر ہم پہلے بھی مسلمان تھے اور آج بھی ہے فرق صرف اتنا ہے کہ پہلے پیدل سفر کرتے تھے آج گاڑی یا جہاز مین سفر کرتے ہیں ۔ بس ا سی چیز کو سمجھنے کی ضرورت ہے ترقی کے لئے اپنے کلچر کو ختم کرنا ضروری نہیں ہے اور نہ ہی مغربی کلچر اپنانے سے ترقی پوتی ہے ۔ ترقی صر ف اور صرف مہنت اور لگن سے ہو سکتی ہے ۔
Abid Hussain
About the Author: Abid Hussain Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.