سعودی حکومت کی دعوت دین کی بہاریں

مسجد نبوی کے طہارت خانوں کے داخلی راستوں پر بھی ہر جگہ کی طرح خود کار برقی زینے لگائے گئے ہیں۔ یہاں سگریٹ نوشی سے پرہیز کیلئے کوئی روائتی جملے نہیں بلکہ قرآنی آیات کے ساتھ رہنمائی کا اہتمام کو دیکھنے کو ملا…… اپنے آپ کو ہلاکت میں نہ ڈالو…… تمہارے رب نے تمہارے لئے خبیث چیزوں کو حرام کر دیا ہے، ایسی آیات کے ساتھ تمباکو نوشی سے پرہیز کی نصیحت دل میں توجیسے گھر ہی کر گئی۔پتہ چلا کہ حرمین شریفین کے دونوں شہروں میں سگریٹ و تمباکو وغیرہ بیچنے پر مکمل پابندی ہے۔یہاں قرآنی آیات و احادیث مبارکہ سے اسی انداز میں قدم قدم پر رہنمائی کا اہتمام ہے۔ سڑکوں، راستوں میں ہر جگہ آیات قرآنی اور مسنون اذکار کے بورڈ نصب ہیں تو پورے ملک میں کسی اشتہاری بورڈ پر کہیں عورت کی تصویر نہیں۔ وہی ملٹی نیشنل کمپنیاں جو ہر سانس میں عورت کو کاروبار اور اشتہار کیلئے استعمال کرتی ہیں، یہاں سب کچھ اس کے بغیر تیار کر کے پہنچاتی ہیں کیونکہ انہیں بہرحال کاروبار تو کرنا ہے اور اس کیلئے وہ ہر پابندی قبول کرنے کو تیار ہیں۔ ہسپتال میں قدم رکھا تووہاں بھی دیکھا کہ مریضوں کو انتہائی محبت سے’’اے میرے مریض بھائی‘‘کہہ کرمخاطب کرنے کے بعدشفاء کے لئے مسنون دعاؤں اور اذکار کی تاکید تھی۔

حرمین شریفین میں نماز مغرب کے بعد جگہ جگہ دینی تعلیم کے حلقے لگ جاتے ہیں، جہاں انتہائی جید علمائے کرام کے مختلف زبانوں میں دروس ہوتے ہیں۔ مسجد نبوی میں تو جگہ جگہ ماہر قرائے کرام بھی تشریف فرما ہوتے ہیں جو دنیا بھر سے آئے مہمانوں کو انتہائی ادب و احترام سے پاس بلا کر چند قرآنی آیات خصوصاً سورۂ فاتحہ سنتے اور تلفظ درست کرتے ہیں۔ بظاہر یہ انتہائی معمولی سا عمل ہے لیکن اس عمل سے یہاں آئے ہر مہمان کے اندر وہ ہمیشہ کیلئے ایک تڑپ اور لگن کی شمع ضرور روشن کر دیتے ہیں کہ اسے قرآن پڑھنا درست نہیں آتا ،لہٰذا اسے اس بارے میں ضرور غوروفکر کرنا چاہئے۔ یہ سب کچھ سوچنے پر مجبور کر دیتا ہے کہ دنیا بھر میں سب سے زیادہ قرآن چھاپنے، مفت تقسیم کرنے، سب سے زیادہ زبانوں میں تراجم و تفاسیر تیار کر کے ہر جگہ پہنچانے والے سعودی حکمرانوں کو امت کے ہر دینی پہلو کی کتنی فکر ہے۔

مدینہ طیبہ میں نماز عصر کے بعد قبرستان بقیع کو زیارت کیلئے کھولا جاتا ہے تو یہاں بھی ہر عام و خاص کی رہنمائی کیلئے جہاں قبرستان کے آداب اور اس سے متعلقہ مسائل کے مختلف زبانوں میں بورڈ نصب ہیں، وہیں علمائے کرام کی ایک بڑی ٹیم جگہ جگہ کھڑے ہو کر لوگوں کو مختلف مسائل سمجھاتی اور ان کے سوالوں کے جواب دیتی ہے۔ علمائے کرام کے ساتھ پولیس اہلکار بھی دینی مسائل سے لاعلم لوگوں کوغیرشرعی حرکات سے روکتے اور رہنمائی مہیا کرتے ہیں۔ یہی کچھ نبی کریمﷺ اور سیدنا ابوبکر و سیدنا عمرؓ کی قبور پر دیکھنے کو ملتا ہے کہ یہاں آنے والا کوئی شخص لاعلمی کی وجہ سے کوئی ایسی حرکت نہ کرے کہ وہ خلاف شریعت ہو اور وہ اس کے اعمال کو برباد کر دے۔

مسجد نبوی کے پاس ہی قرآن کریم کے قدیم نسخوں اور اسماء الحسنیٰ اور قدرت الٰہی کے حوالے سے نمائشوں کا اہتمام ہے۔ یہاں آئے مہمانوں کی رہنمائی کے لئے بھی علمائے کرام ہمراہ چلتے ہیں تو جگہ جگہ اﷲ تعالیٰ کی قدرت کاملہ کے مختلف مظاہر دکھاتے،ساتھ ہی ساتھ توحید و سنت کا درس دیتے اور شرک و بدعت سے بچنے کی تلقین کرتے چلے جاتے ہیں، یعنی یہ سب کچھ بھی دکھانے کا منتہا و مقصود بھی یہی ہے کہ ہر کسی تک دین کی سچی دعوت پہنچ جائے۔ اسی کام کیلئے مسجد نبوی اور حرم مکی میں عظیم الشان لائبریریاں بھی قائم ہیں۔یہیں علمائے کرام اور مفتیان عظام بھی الگ سے مسائل سمجھانے کیلئے بیٹھتے ہیں۔ قدم قدم پر توحید و سنت، مسائل حج و عمرہ اور دعاؤں وغیرہ پر مشتمل چھوٹی کتابیں اور پمفلٹ مسلسل تقسیم کئے جاتے ہیں۔ اس کا اہتمام حرمین شریفین ہی نہیں بلکہ ان ہوٹلوں تک میں ہوتا ہے جہاں عازمین حج و عمرہ رہائش پذیر ہوتے ہیں۔ بڑے ہوٹلوں میں استقبالیہ پر بڑی سکرینیں لگائی گئی ہیں جن پر مسلسل قرآن و حدیث کی سلائیڈز چلتی ہیں توساتھ ہی لے جانے کیلئے مفت کیسٹیں، سی ڈیز اور کتب بھی رکھی ہوتی ہیں۔ حرم مکی میں تو اس حوالے سے بھی قدم قدم پر رہنمائی کا اہتمام ہے کہ عمرہ زائرین دوران عمرہ ایسی کوئی غیر شرعی حرکت نہ کریں کہ جس سے ان کے طواف یا عمرہ کے ضائع ہونے یا اجروثواب کے بجائے گناہ و بربادی کا اندیشہ ہو۔

مدینہ طیبہ سے واپسی پر ذوالحُلَیْفَہ کا مقام میقات ہے جہاں سے عازمین عمرہ احرام باندھتے ہیں۔ اپنے ملک میں ہی نہیں، دنیا بھر میں بھی سب سے زیادہ مساجد بنانے والی سعودی حکومت نے یہاں بھی ہر طرح کی سہولیات سے آراستہ عظیم الشان مسجد بنائی ہے تاکہ عمرہ زائرین کو ہر ممکن سہولیات مہیا کی جا سکیں۔ یہاں سے احرام باندھا تو وہی خود ساختہ باتیں پھرسے دیکھنے کو ملیں کہ دو رکعت نوافل اور وہ بھی سر پر احرام رکھ کر…… عمرہ کی نیت کے الفاظ کم ہی کسی کو یادہوں گے، حالانکہ نماز کی خودساختہ نیت تو بہت سوں نے یاد کر رکھی ہوتی ہے۔ یہاں بھی سفر شروع کرنے کے بعد وہی خاموشی کہ کسی کو تلبیہ کے الفاظ ادا کرنے کی توفیق نہیں اور اگر تاکید کرو تو شرم آڑے آ رہی ہے۔ کئی ایک نے دایاں کندھا جسے طواف کے وقت ننگا کرنے کا حکم ہے، ابھی سے ننگا کر لیا ہے۔کئی ایک تو طواف مکمل کرنے کے بعد بلکہ سعی کے دوران میں اور احرام اتارنے تک کندھا ننگا رکھے پھرتے ہیں۔ سعودی حکومت کی طرف سے جہاں تک ممکن ہے ، رہنمائی کیلئے یہاں بھی دعوتی ٹیم کا اہتمام ہے۔طواف کا آغاز حجر اسود سے ہوتا ہے، جہاں اسے بوسہ نہ لینے یا ہاتھ وغیرہ نہ لگنے کی صورت میں اشارہ سے استلام کا حکم ہے لیکن اس صورت میں ہاتھ کو چومنا نہیں ہے کہ ہاتھ تو لگا ہی نہیں۔ یہاں ہاتھ چومنے یا دونوں ہاتھوں سے استلام کرنے والوں کی بھی حتی الوسع رہنمائی کی جاتی ہے کہ وہ ایسا نہ کریں۔ مقام ابراہیم پر پہنچیں تو یہاں اسے چومنے والوں کی بھی کمی نہیں لیکن مقام ابراہیم پر بھی علمائے کرام موجود ہیں جو عازمین کو سمجھا رہے ہیں کہ مقام ابراہیم صرف زیارت کا مقام ہے ،چومنے کا مقام نہیں۔ بیت اﷲ کے پاس پہنچیں تو یہاں بھی غلاف کعبہ کو چومنے والے کم نہیں، جنہیں سمجھانے کیلئے بھی علمائے کرام مسلسل متحرک ہیں کہ چومنے کا حکم صرف حجراسود کیلئے ہے،آپ سب وہی کریں جو قرآن و سنت سے ثابت ہے۔ موبائل فون میں کیمرہ آنے کے بعد تصویر کشی کی وباء نے جہاں ہر جگہ کو آلودہ کیا ہے ،وہیں حرمین شریفین میں بھی یہ وباء پہنچی ہے۔ چند سال پہلے تک یہاں تصویر کشی کا تصور نہیں تھا اور اس قدر سختی تھی کہ تصویرلینا امر محال تھا لیکن اب اس حوالے سے پابندی ناممکن ہے کہ کیسے ہر فرد کے ساتھ داروغہ کھڑا کیا جائے ۔ اتنی مشکل کے باوجود بھی علمائے کرام اپنے تئیں لوگوں کو تصویر کشی سے روک کر ذکر و عبادت کی تلقین و نصیحت کرتے ہیں کہ تصویر کشی کا کوئی فائدہ نہیں، نہ آپ اس کیلئے آئے اور نہ یہ اﷲ کے سامنے گواہی یا دلیل بنے گی۔ نماز مغرب کے بعد درس کے ایک حلقے میں بیٹھنا ہوا تو درس کے بعد سوال و جواب کے دوران ایک نوجوان نے مدرس عالم دین کو یاد دلایا کہ کل آپ نے حرم مکی میں ایک نماز کا ثواب چار لاکھ کے برابر بیان فرمایا تھا اور آج ایک لاکھ بیان فرما رہے ہیں۔ انہوں نے تصدیق کے بعد اﷲ تعالیٰ سے معافی طلب کی اور فرمایا کہ روایت یہی صحیح ہے کہ یہاں ایک نماز کا ثواب ایک لاکھ کے برابر ہے۔ یہی سب کچھ دیکھنے کے بعد دل یہ گواہی دینے پر مجبور ہوا کہ صرف حرمین شریفین آنے والا مسلمان ہی نہیں بلکہ دنیا کے ہر کونے میں رہنے والے سبھی اہل اسلام اور سبھی انسان ان شاء اﷲ قیامت کے دن یہ شکوہ نہیں کر سکیں گے کہ انہیں ان کی زندگی میں سعودی حکومت یا سعودی علمائے کرام کے ہاتھوں دین کی صحیح دعوت یا اسلام کی حقانیت کا پیغام نہیں پہنچا تھا۔ اس کا ایک مظاہرہ تو دنیا یوں بھی دیکھ رہی ہے کہ اس وقت اگر کسی ملک میں سب سے زیادہ غیر ملکی اسلام قبول کر رہے ہیں تو وہ سعودی عرب ہے اگر دنیا بھر سے کسی ملک کی دعوت کی نتیجے میں لوگ اسلام کی طرف آرہے یا صحیح دین سمجھ رہے ہیں تو وہ سعودی عرب ہے۔یہی تو وجہ ہے کہ سارے عالم میں اسلام دشمن اگر کسی ملک کے ہاتھوں زچ ہو کر ہمہ وقت اندھیر مچا رہے ہیں تو وہ سعودی عرب ہے۔ جی ہاں! یہ واحد خطہ ارضی ہے جہاں سے اذان آدھا گھنٹہ پہلے ہی لگ بھگ سارا کاروبار زندگی بند ہوجاتا ہے اور سب لوگ نماز کے لئے مساجد کی جانب کشا ں کشاں چلتے دکھائی دینے لگتے ہیں۔یہ سب کچھ دیکھ کر میرا ہی نہیں، ہر مومن کا دل خود کو بھول کر انہی کی سلامتی کیلئے دعائیں شروع کر دیتا ہے…… اس یقین کے ساتھ کہ اس کے حق میں ضرور فرشتے دعائیں کر رہے ہوں گے۔
Ali Imran Shaheen
About the Author: Ali Imran Shaheen Read More Articles by Ali Imran Shaheen: 189 Articles with 123507 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.