سوال تو بنتا ہے؟

انسانیت کے بدترین دشمنوں نے تمام اصولوں کوبرطرف رکھتے ہوئے اے پی ایس کے بعداب چارسدہ یونیورسٹی پرحملہ کرکے بالعموم پاکستان اوربالخصوص خیبر پختونخواہ کے عوام کو جہاں شدیدصدمے سے دوچارکردیاہے وہاں اس سانحے کے دو دن کے بعد افغان صدر اشرف غنی نے جنرل راحیل شریف کی طرف سے ٹیلیفونک رابطے کے جواب میں پاکستان کی طرف سے مہیاکردہ مضبوط شواہد کی تحقیق کئے بغیر افغان سر زمین کے استعمال اوردہشتگردوں کی موجودگی کاصاف انکارکرکے اپنے چہرے کانقاب اتارپھینکاہے۔جنرل راحیل جوایک سال قبل سانحہ آرمی پبلک اسکول میں معصوم بچوں کاخون بہانے والوں سے متعلق افغانستان کے اندر موجوداوران کے ماسٹرمائنڈاور مکمل شواہد سے افغان حکومت کے متعلقہ ذمہ داروں کوآگاہ کرکے آئے تھے لیکن ایک سال گزرنے کے بعدبھی افغانستان کی طرف سے ایساکچھ نہیں کیاگیااوراب بھی پاکستان کے خلاف افغان سرزمین سے مسلسل دہشتگرد حملے جاری ہیں۔خوش قسمتی سے سانحہ اے پی ایس کے بعد پوری قوم نے کامل یکسوئی اور یکجہتی کاجومظاہرہ کیااس کے بعدافغانستان کی امریکی سرپرستی میں قائم حکومت ہی نہیں بہت ساروں کیلئے مشکل پیدا ہوگئی کہ اس سانحے کے بعدبھی سارا بوجھ براہِ راست پاکستان پرلادسکیں۔

اب جب باچاخان یونیورسٹی کاسانحہ ہواتوبلاشبہ پاکستان میں جہاں آپریشن ضربِ عضب نے پاکستانی فورسزاورعوام کامورال بلند ہونے کاجوازفراہم کردیا وہیں بدقسمتی سے دہشتگردی کے اندرونی اوربیرونی سرپرستوں،سہولت کاروں اور بالواسطہ یابراہ راست مددگاروں کوسخت پریشانی اوربے چینی کاسامنا تھا۔ نیز پاک چین اقتصادی راہداری کے منصوبے کے حولے سے پیش رفت نظر آنے والے مراحل میں ڈھلنے لگی۔یہ صورتحال پاکستان کے ساتھ بیررکھنے والی قوتوں اورملکوں کیلئے ہی نہیں پاکستان کے اندرموجود ان کے آلہ کاروں کے قابل برداشت نہ تھی۔اس لئے حکومت اوراپوزیشن جماعتوں کے درمیان جہاں آپریشن پر نقدو نظرکاماحول پیداکرنے کی سازش بنائی گئی وہیں کرپشن جیسے دیرینہ ناسورکولگنے والی ضرب کوبھی ملک کے اندربعض جماعتوں نے براہِ راست اپنے لئے خطرے کی گھنٹی جانا۔یوں پاکستان کے باہراوربعض سطحوں پرپاکستان کے اندربعض مشترکات کا امکان بڑھ گیا۔

حکومت اوراپوزیشن کے درمیان فرینڈلی فائربراہِ راست مخالفت اورمخاصمت کے اندازمیں ڈھلنے لگے اوربلوچستان وکراچی میں دباؤمیں آجانے والے دہشت گردوں اوران کے سہولت کاروں کوپھرسے متحرک کرنے کی تیاری شروع ہوتی نظرآنے لگی۔ جنوب سے شمال تک دہشتگردی کی ایک نئی لہر سامنے آگئی ۔یہ رفتارماہ جنوری کے ساتھ ہی نمایاں طورپرمحسوس کی جانے لگی اور آپریشن ضربِ عضب کے بعدجوبہتری سرچڑھ کربولنے لگی تھی اس کاراستہ روکنے کی سازش تیزکردی گئی اورپاکستان کا گھیراؤ پھرسے شروع کردیاگیا۔اس دوران پاکستان کے اندرآپریشن کومتنازعہ بنانے کیلئے سیاسی اندوختے کے علاوہ میڈیا بھی متحرک ہوگیا۔میڈیامیں اس گردان کے باوجودکہ قوم حالت جنگ میں ہے، طرح طرح کے سوالات اٹھائے جانے لگے،جس سے نہ صرف آپریشن کو کامیاب بنانے کیلئے سنجیدگی سے اپناحصہ ڈالنے کاتاثرابھرتابلکہ آپریشن ضرب عضب کے کمانداروں کے حوصلوں کونشانہ بنانے کی کوشش نظرآئی۔اسی دوران کابل،واشنگٹن اورنئی دہلی میں قربت میں اضافہ ہوا،پہلے پٹھانکوٹ میں ہونے والی کاروائی کی بنیادپرپاکستان پردباؤ بڑھانے کی کوشش کی گئی ، مصنوعی نیک نامی کوکافی سمجھتے ہوئے ایک مرتبہ پھر پاکستان کے ساتھ مذاکراتی عمل کونئے آغازسے پہلے ہی لٹکانے کی حکمت عملی اختیارکرتے ہوئے مذاکرات کوالتوا میں ڈال دیا ۔مزے کی بات یہ ہے کہ بھارت کی مذاکرات سے فرارکیلئے لگائی گئی قلابازی کی کہیں سے بھی مذمت نہیں آئی،نہ کسی نے بھارت پردباؤڈالاکہ ایک ایسی واردات جس میں بھارتی ایئرفورس،فوج اوربھارتی پنجاب پولیس کانہ صرف نام سامنے آرہاہے بلکہ ان کی گرفتاریاں بھی عمل میں آچکی ہیں جبکہ پاکستان اس معاملے میں ضرورت سے زیادہ تعاون پیش کررہا ہے تومذاکراتی عمل سے فرارکی کوشش کیوں کی جارہی ہے؟اس کے برعکس ایساتاثردینے کی سفارتی اورابلاغی سطحوں سے کوشش کی گئی کہ جیسے بھارت اس معاملے سے فرارکیلئے حق بجانب ہے۔مذاکراتی عمل سے فرارپر عالمی سطح پربھارتی قلابازی کی کسی نے مذمت تک نہ کی۔

اس دباؤ کے حربے میں صدراوبامانے اپناحصہ ڈالتے ہوئے اسٹیٹ آف دی یونین سے آخری خطاب میں بظاہرپیش گوئی کہ پاکستان اورافغانستان دونوں ممالک طویل عرصے تک دہشتگردی کاشکاررہیں گے۔ اس پیش گوئی میں دونوں ممالک کے عوام کیلئے ہمدردی سے زیادہ انتباہ کاپہلوغالب تھا۔واضح رہے کہ اوباما کی اس پیش گوئی کے انتباہ کے صرف ایک ہفتے کے بعدباچا خان یونیورسٹی میں دہشتگردی کایہ واقع بھی رونماہوگیا۔یقیناًاسے محض اتفاق قرار دینے کیلئے بھی دلائل ہوسکتے ہیں لیکن اہل پاکستان کے بچوں کومارنے کیلئے کی گئی اس وحشیانہ دہشتگردی کے بعدپاکستان کیلئے اس طرح کی ہمدردی کابیانیہ نظرنہ آ سکا جیسا عام طورپرعالمی طاقتیں بھارت کیلئے جاری کرتی ہیں۔اس کےبرعکس پاکستان کوامن کیلئے اپنے بچوں کی دی گئی قربانی کے بعد بھی نہ کہیں سے تعاون میسرآیااورنہ ہی ہمدردی کاکوئی ماحول ملا۔حدیہ ہوئی کہ اس سانحے کے صرف چاردن بعدامریکی صدر کااپنے نئے نویلے اتحادی بھارت کے میڈیاکے توسط سے پاکستان کو''ڈومور''کاپیغام بالفاظ دیگردے دیاگیا۔اس تناظرمیں افغان صدراشرف غنی نے بغیرکسی تحقیق وتفتیش اور شواہدکاسائنسٹیفک بنیادوں پر تجزیہ کرنے کیلئے وقت لینے کاازراہ تکّلف کابھی اظہارنہیں کیا۔اشرف غنی حکومت جوماضی کی کرزئی حکومت کے مقابلے میں پاکستان کے نسبتاًزیادہ رابطے میں سمجھی جاتی ہے،نے اس قدرجلدی میں بیان جاری کردیا ،یہ اس لیے حیران کن نہیں ہوسکتا کہ افغانستان میں باقی ماندہ امریکی فورسزکی موجودگی میں وہ اتنے بااختیارنہیں ہیں اورامریکی صدراوباماکے یکے بعد دیگرے سامنے آنے والے خیالات کے اثرسے آزادنہیں۔ ظاہرہے کہ ایک افغان صدرجوکابل کے اندربھی اتنے آزادوخودمختارنہیں،وہ اس عاجلانہ اندازمیں ازخودایسانہیں کر سکتے،اس لیے وہ امریکاکی خوشامدی زبان بول رہے ہیں ۔اشرف غنی نے یہ بیان جاری کرکے ایک طرح سے افغانستان میں موجودامریکی جنرل جان کیمبل کی پوزیشن بھی واضح کردی ہے کہ امریکی فورسزبھی اس بارے میں پاکستان کی توقعات کاکیااثرلیں گی کہ بہترین وسائل سے لیس امریکی فورسز افغانستان میں پاکستان کے خلاف سرگرم دہشتگردوں کونکیل ڈالے گی یا ان کے خلاف کوئی کاروائی کرے گی۔اس کے برعکس جومؤقف اوباماکی طرف سے سامنے آرہاہے ۔وہ بھی عملاً اسی امر کااظہارہے کہ دہشتگردوں کے خلاف سب کچھ اورمزیدبہت کچھ کرناصرف پاکستان کی ذمہ داری ہے لہندااس تناظرمیں افغان حکومت سے توقعات ، بھارت سے کوئی خوش فہمی اورامریکاپربھروسے کا جوازنہیں ہوسکتاکہ بہت سارے عناصر اپنے اپنے انداز اوباماکی پاکستان کے بارے میں پیش گوئیوں میں رنگ بھرنے کیلئے سرگرم عمل ہیں ۔

پاکستان جواپنے ہاں امن،خوشحالی اورترقی کیلئے ہراقدام کررہاہے اسے رواں سال کے آغازسے ہی ایک چومکھی جنگ لڑنے کی طرف دھکیلاجارہاہے، ایسے میں امریکی دوربینی حیران کن ہونی چاہئے نہ بھارتی قلابازیاں تعجب انگیزاورنہ ہی افغانستان کے رسپانس کوغیرمتوقع سمجھاجاناچاہئے۔یہ سب کچھ سوچاسمجھا اگرنہیں ہے توٹی ٹی پی کے رہنماء اورماسٹرمائنڈافغانستان میں سالہاسال سے کیوں پاکستان کے خلاف سرگرم ہیں؟ افغانستان میں بھارتی قونصل خانوں کے اہداف کیاہیں اوران کے رابطے کہاں کہاں اورکن لوگوں کے ساتھ ہیں؟سب سے اہم بات یہ کہ کیااس حوالے سے امریکی قیادت نے اپنی ذمہ داری کوکبھی تسلیم کیا ہے کہ افغانستان میں بیٹھی اس کی افواج کوبھی''ڈومور'' کی ضرورت ہے؟اس تناظرمیں پاکستان کے دفترخارجہ نے افغان ناظم الامورکوبلا کرپاکستان میں ہونے والی دہشتگردی کے شواہدحوالے کرتے ہوئے سخت ترین احتجاج کرکے بالکل درست اقدام کیااوراب یہی شواہدپاکستان میں امریکی سفیر کے حوالے بھی کیے جانے کاجوازموجودہے کہ افغانستان میں امریکی افواج پاکستان میں ہونے والی دہشتگردی کوروکنے میں کیوں ناکام ہے؟ بلکہ ایسالگتاہے کہ امریکی فوج نے کبھی اس جانب توجہ ہی نہیں کی،اس کے برعکس جب پاکستان اپنے جوان لاشے اٹھارہاہوتاہے توامریکاڈومورکاراگ الاپنے لگتا ہے۔

دوسری جانب مودی سے دوستی کاجہاں اوبامادم بھرنے لگے ہیں،وہیں مودی مغربی ممالک سے بھی پاکستان کے خلاف تعاون میں مزیداضافہ کیلئے دن رات سرگرم ہے۔ فرانس کے صدرکویومِ جمہوریہ کے موقع پرخاص دعوت دینے کا اس کے سواکوئی جوازنہیں تھاکہ دہشتگردی کے نام نہامشترک دردکاروناروکر ہمدردی حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ اپنی دہشتگردی پرپردہ ڈالا جائے ۔اسی طرح کے مزیدڈرامے رچاکرمغربی دنیاکو مسلمانوں اورپاکستان کے خلاف پروپیگنڈہ کیاجائے۔ایسے موقع پرجب فرانس کے صدربھارت کے دورے پر تھے توپیرس میں مشکوک بم کی سازش کیااسی ضرورت کیلئے کسی اسکرپٹ کاحصہ تونہیں تھی؟

ادھرپاکستانی قیادت ہے ایک طویل عرصے سے قوم کے حالت جنگ میں ہونے کا بیانیہ جاری رکھنے کے باوجوداپنے غیرملکی دوروں میں قدرے کمی کرنے اوراپنی توجہ نیشنل ایکشن پلان پرمبذول کرنے پرتیار نظرنہیں آتی۔وزیراعظم ملک سے اکثرباہر جائیں توواپسی پرلندن کے نجی دورے کواپنے لیے لازم بنا لیتے ہیں اوردوسری طرف پیپلزپارٹی کے زرداری تواب مستقل طورپربیرون ملک ہی قیام پذیرہیں جہاں وہ بیٹھ کراپنے صوبے کے معاملات من مانی مرضی سے چلارہے ہیں کہ ان کوخدشہ ہے کہ انہوں نے اپنے دورِاقتدارمیں جوکچھ بویا ہے اس کی فصل کاٹنے کے دن آگئے ہیں۔ حدیہ ہے کہ صوبہ خیبرپختونخواہ میں آئے دن الرٹ جاری ہوتے رہتے ہیں لیکن پوری صوبائی کابینہ باجماعت ملک سے باہردورے پرہوتی ہے۔سانحہ باچاخان یونیورسٹی کے بعدوزیراعلیٰ تو واپس آگئے لیکن بقیہ کابینہ ارکان دوہفتوں کے بعدواپس لوٹی ہے۔ کیاواقعی ایسے میں مشاہداللہ خان کے الفاظ مستعارلیناغیرپارلیمانی نہ سمجھاجائے تویہ خالصتاًقومی قیادت کاحالت جنگ کی بجائے ''حالت بھنگ''والی بات درست معلوم ہوتی ہے۔

ہوناتویہ چاہئے کہ اپوزیشن لیڈرخورشیدشاہ اپنے لیڈرآصف زرداری کوسانحہ چارسدہ پرفوری طورپرپاکستان آنے کی دعوت دیتے مگروہ ان دنوںوفاقی وزیر داخلہ کولتاڑرہے ہیں اورجواب میں چوہدری نثارنے''مک مکا''کی خوب تشریح جاری کردی ہے،اوراب دونوں پارٹیوں کی جانب سے دوسرے ارکان بھی میدان میں اترآئے ہیں۔سب سے اہم بات یہ ہے کہ دشمن ممالک پاک چین اقتصادی راہداری اوردیگرترقی کے منصوبوں کوسبوتاژکرنے میں مصروف ہیں لیکن اس ماحول میں اچانک ہمارے میڈیا نے آرمی چیف جنرل راحیل کی اپنی مدت ملازمت میں توسیع نہ لینے کے معاملے کوحدسے زیادہ اچھال کرسیاسی صحافت کی ایسی مثال قائم کردی کہ الامان الحفیظ،یہ قطعاًپرواہ نہیں کی کہ قوم اس وقت حالت جنگ میں ہے اورلڑنے والی فورسزکامورال متاثرکرنے والے لہجے سے پاکستان کانہیں بلکہ دشمنوں کوفائدہ ہو گا۔دوسری جانب تعلیمی اداروں کے تحفظ کامعاملہ ہے تونہ آرمی پبلک اسکول کے بعدسنجیدگی کا دائرہ ہرجگہ مؤثرتھانہ اب کوئی ایسی کاوش نظرآسکی ہے۔پنجاب کے وزیرتعلیم اوراسکول مالکان کی انتظامیہ کے درمیان چپقلش نے بھی بچوں کے والدین کوعجیب وغریب مخمصے اورخوف میں مبتلاکرکھاہے۔

حالیہ دہشتگردی پرپاکستان سے ہمدردی کے دوبول بولنے کی بجائے واشنگٹن، کابل اوردہلی نے پاکستان کو نشانہ بنانے والے دہشتگردوں کوبچانے کیلئے ان پرعملاًچھتری تان لی ہے اورہمارے اندرونی اختلافات کا خوب فائدہ اٹھارہے ہیں ۔کیااس کامقابلہ باہم متصادم رہ کرکیاجاسکتاہے؟کیاہماری سیاسی اور مرکزی قیادت ملک کے اندرونی مسائل پرقابوپاسکتی ہے؟کیاکسی سازشی یاشیطانی تکون کامقابلہ کیاجاسکتاہے؟کوئی کچھ بھی کہے سوال توبنتاہے؟
Sami Ullah Malik
About the Author: Sami Ullah Malik Read More Articles by Sami Ullah Malik: 531 Articles with 351022 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.