من کی بات چھوڑیئے!۔۔سب کی بات کیجئے !

گزشتہ لوک سبھا کے الیکشن سے قبل ہندوستان میں ریاستِ گجرات کے وزیر اعلی شری نریندر مودی جی کو بی جے پی نے بھگوا طاقتوں کے دباؤں میں آکر وزیر اعظم کے امیدوار کے طور پہ پیش کیا،معلوم نہیں کہ یہ گجرات میں ہندوتوا کو پھیلانے اور زعفرانی قوتوں کو بارآور بنانے کا صلہ تھا یا نریندر مودی کی نام نہاد مقبولیت اور گجرات کی ترقی کا ڈھنڈورہ پیٹ کر پورے ملک پر ہندوتوا تھوپنے کے لئے مودی جیسے زیرک چالاک اور ڈرامائی شخص کا انتخاب انکی بھگوا نوازی کے پیشِ نظر کیا گیا۔بہر حال مودی جی کو کرپشن ،مہنگائی ظلم ونا انصافی اور دوسرے عوامی مسائل سے نجات دہندہ کے قالب میں ڈھال کرنمودار کیا گیا جسکے خا طر خواہ اثرات مرتب ہوئے اوربی جے پی نہ صرف مرکز بلکہ ہریانہ مہاراشٹر جھار کھنڈ اور جموں کشمیر کی اسمبلیوں میں بھی بر سرِ اقتدار جماعت بن گئی2014کے عام انتخابات کے بعد بھی مودی لہر کا جادو لوگوں پر اثر انداز ہوتا رہا بی جے پی مودی لہر کے چراغ کی روشنی میں کامیا بی وکامرانی کا جشن منا تی رہی،فتح مندی کے اسی نشہ میں چور ہوکر حکمراں جماعت کے لیڈران مدہوشی کے عالم میں بے تکی زبان بیازی پہ اتر آئے جسکے نتیجہ میں بزمِ مسرت کا یہ چراغ نہ صرف یہ کہ ٹمٹمانے لگا بلکہ کیجریوال کی آندھی میں پوری طرح گل ہوگیا ۔بہار کی باشعور عوام نے تو وہ حشر کیا کہ بجھے ہوئے چراغ کی خاک بھی اڑا لے گئے اور یہ پرانا شعر نئی صورت میں جلوہ گر ہوگیا
تاسحر وہ بھی نہ چھوڑی اے بادِ صبا تونے
یادگار رونقِ محفل تھی پروانے کی خاک

آخر ایسا کیاہوا کہ مرکز میں شان کے ساتھ اقتدار پانے والی اور چار ریاستوں کی راج گدی حاصل کرنے والی جماعت محض ایک سال کے بعد ہی اپنی مقبولیت کھو بیٹھی2014 میں پے در پے فتوحات کاجشن ہے لیکن 2015 میں نامرادی وناکامی کاماتم اور ذلت ورسوائی کے داغ ہیں،فتح کی اس نوید کو آخر کس بدبخت کی نظر لگ گئی کہ اور ایسا کیا ہوا کہ بی جے پی کے ہوش اڑ گئے اور اسے آگے کی راہیں بھی مسدود نظر آنے لگیں -

دہلی اسمبلی الیکشن میں رام زادے اور حرام زادے؛ جیسے نفر ت آمیز اور گھناؤنے جملوں کا جواب عوام کی ستر رکنی اسمبلی میں صرف تین نشستوں کی بھیک دیکر دیا تو بہار میں نفرت آمیز بیان بیازی کے علاوہ دوسرے ہتھیار بھی آزمائے گئے بیف کا سہارہ لیاگیا گائے کو حاضر کیا گیا۔ بہار میں نفرت کے سودا گروں کی جب تمام کوشسیں جواب دے گئیں تو آخر میں گائے نودار ہوئے ۔یہ الگ بات ہے کہ اس بیضرر جانور کو جب انکے گھناؤ نے مقاصد کا علم ہو گیا تو اسکے تھن بھی سوکھ گئے اور فرقہ پرست ہاتھ ملتے رہ گئے اور دوسو تینتالیس ارکان پر مشتمل اسمبلی میں صرف تریپن افراد ہی منتخب ہوپائے ،رواں سال تمل ناڈو میں اسمبلی کے الیکشن ہونے ہیں جہاں گائے کو چھوڑ کر اسکے مذکر( بیل) کو میدان میں اتارا گیا ریاست میں’’جلی کٹو‘‘ نامی ظالمانہ کھیل پہ عائد پابندی کو ہٹا کر عوام کو لبھانے کی تیاری ہے۔

یہ ایسا کھیل ہے جو پونگل تہوار کے دوران دو دن کھیلا جاتا ہے اس میں بیلوں کے سینگ سے سکوں کی تھیلی باندہ دی جاتی ہے اور نوجوانوں کو ان بیلوں کو قابو میں کر کے یہ تھیلی نکالنی ہو تی ہے کھیل دلچسپ بنانے کے مقصد سے بیلوں کو مشتعل اور بے قابو کرنے کے اقدامات کئے جاتے ہیں جن میں انہیں نشہ آور چیزیں کھلانا آنکھوں اور شرمگاہ میں جلانے والا مادہ لگانا یا انہیں ہتھیار سے ٹونچنا شامل ہے۔اس کھیل میں ہر سال بہت سے نوجوان اور بیل شدید زخمی ہو تے رہے ہیں ،گزشتہ یوپی اے حکومت نے اس پر پابندی لگادی تھی سپریم کورٹ نے بھی یوپی اے حکومت کے فیصلہ کو صحیح قرار دیا تھا لیکن این ڈی اے حکومت نے نوٹیفیکیشن جاری کرکے پابندی ہٹادی ،اب عدالت نے پھر پابندی لگادی ہے،بی جے پی اسے سیاسی مسئلہ بنارہی ہے ظاہر ہے کہ دوسری پارٹیاں بھی اسے انتخابی مسئلہ بناکر میدان مارنا چاہیں گی،اس حساب سے گزشتہ سال گؤماتا کا رہا اور یہ سال بیل کے حصہ میں آجائے گا۔آئندہ سال یوپی میں بھی اسمبلی انتخابات ہو نے ہیں جسکے لئے ابھی سے فضا ہموار کی جا رہی ہے،رام مندر کا شوشہ مسلما نوں کی تاریخی ملکیت علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اور جامعہ ملیہ اسلامیہ جیسی عظیم علمی تہذیبی ثقافتی وراثتوں پر ڈاکہ ڈال کر انکے اقلیتی کردار کو چیلنج کر نا یو پی قلع کو فتح کر نے کی پالیسی کا حصہ ہے

بی جے پی کی پالیسی سے ایسا محسوس ہو تا ہے کہ یہ اس نادان کی طرح ہے جو یہ جان کر بھی کہ آگ کا خاصہ حرارت ہے اور اسکو چھونے سے ہاتھ جل تے ہیں ( اسکا تجربہ دہلی اور بہار میں ہو چکا) لیکن پھر بھی وہ یہ چاہتی ہے کی انگاروں سے کھیلنے کا تجربہ اور کرلیں ۔

واقعہ یہ ہے کہ بی جے پی سچ کا سامنا کرنے سے کترارہی ہے اپنی شکستگی اور پسپائی کے اصل اسباب کا قلع قمع نہیں کر پارہی ،شکست اور ہزیمت کا سبب شدت پسندی اور تنگ نظری سے بھر پور طرزِ عمل کے ساتھ ساتھ وہ جاگیر دارانہ ذہنیت ہے جسکا اظہار بی جے پی لیڈران موقع بہ موقع نفرت آمیز بیان بازی سے کرتے رہتے ہیں ،سب کا ساتھ سب کا وکاس کا نعرہ اسی متعصب ذہنیت کے گرداب میں دفن ہو گیا،دہشت گردی کے الزام میں مسلم نوجوانوں کی بے جا گرفتاریاں بیف کے بہا نے مسلمانوں کو ہراساں کرنا محض افواہ کی بنیاد پر ایک خاص فرقہ کے افراد کی جان تک لے لینا اسی جاگیردارانہ ذہنیت کی پیداوار ہے جو مرکز میں حزبِ اقتدار جماعت کی نامرادی وناکامی کے دامن پر ذلت کے داغو ں کا اضافہ کر رہی ہے اور مسلسل شکست کے اسباب مہیا کر رہے ہیں۔

ظاہر ہے کہ یہ حکمراں جماعت کی ہندوتوا کے تئیں نرمی اور رحم دلی کا نتیجہ ہے ورنہ شر پسند افراد پر مشتمل ایک مخصوص گروہ میں اتنی ہمت نہیں کہ پورے ملک کو اپنی شر پسندانہ ذہنیت کو یرغمال بنالے ویسے بھی بیج کو اگر پانی باہر سے نہ ملے تو زمین کے اندر رطوبت اتنی نہیں ہو تی کہ وہ اسے ایک تناور درخت بنادے۔ اگر اس جابرانہ اور جارحانہ ذہنیت کا سدِباب نہ کیا گیا تو ملک کی ترقی خواب بن کر رہ جائیگی ساتھ ہی ساتھ ملک برا بر پیچھے کی طرف جاتا رہے گا بالکل اسی طرح جس طرح بی جے پی پیچھے کی طرف جارہی ہے ۔

سوال یہ ہے کہ اس قاتلانہ ذہنیت کو کیسے قابو میں کیا جائے، جواب ہر ذی شعور انسان جانتا ہے کہ ترقی کی راہ میں رکاوٹ بننے والی اس ذہنیت کا سدِ باب اربابِ اقتدار کی جرأت سے ہی ممکن ہے ،ایسے افراد کی سر زنش کی جائے انکو قرار واقعی سزا دی جائے انکے خلاف بیانات جاری کرکے انکا حوصلہ توڑا جائے۔

ابھی تک اس سلسلہ میں ہماری حکومت کی طرف سے کو ئی قابلِ اطمینان کوشش نہیں کی گئی خاص طور سے ہمارے معاملہ فہم وزیر اعظم تو اس میدان میں بالکل ناکام نظر آرہے ہیں کیونکہ انکی مجبوری یہ ہے کہ وہ من کی بات کرتے ہیں ہو سکتا ہے ملک میں بد امنی اور انارکی پھیلانے والے افراف کے خلاف انکے من میں کوئی بات نہ ہو ۔جب انکا من کرتا ہے وہ خوب بات کرتے ہیں چاہے مخالفت کے نعروں سے استقبال کیا جائے اور اگر ان کا من نہ چاہے تو لاکھ کوششں کرلی جائے،ایوارڈ واعرزازات واپس کردئے جائیں عالمی میڈیا توجہ دلائے لیکن مصلحت کی چپی نہیں توڑتے ،ان کی زبان پر ایسے قفل چڑھ جاتے ہیں کہ حلق سے آواز نہیں نکلتی ۔

پچھلے دنوں حیدرآباد کی ایک یونیورسٹی سے نکالے جانے کے بعد ایک دلت طالب علم نے خودکشی کرلی مودی جی کے من میں آیا تو لکھنؤ کی امبیڈ کر یو نیورسٹی کے ایک پروگرام میں دلت طالب علم روہت ویمولا کی موت کا رونا روئے اور آدھا گھنٹہ تک اظہارِ خیال کرتے رہے ،حالانکہ وہاں موجود کچھ طلبہ نے مودی واپس جاؤ کے نعرہ بھی لگائے لیکن انہیں اس سے کیا لینا آنجناب کو تو من کی بات کرنی تھی ۔اسکے بر خلاف چند مہینوں پہلے راجدھانی دہلی سے متصل دادری کے درد کو پوری دنیا نے محسوس کیا لیکن اتنے سخت اور تکلیف دہ درد کو مودی جی نے محسوس نہیں کیا واقعہ کی مذمت میں ایک لفظ انکی زبان سے نہیں نکلا ۔

ہمارا مقصد مودی جی کی روہت ویمولا کے تعلق سے اظہارِ ہمدردی اور اخلاق کے تعلق سے لا ابالی پن اور لاپروائی پر انکی تنقیص وتعریض ہرگز نہیں ،بلکہ ہم تو یہ کہنا چاہتے ہیں کہ اگر آپ اسی طرح من کی بات کرتے رہیں تو یہ ملک اور حکمراں جماعت دونوں کے لئے ذلت کا سبب ہے نیز اس سے فرقہ پرست طاقتیں حوصلہ پائیں گی اور بھگوا ذہنیت کے افراد ایک خاص فرقہ کو برابر ہراساں کرتے رہیں گے اقلیتوں کا جینا دوبھر ہوجائے گا ملک کی ترقی کا خواب کبھی شرمندہ تعبیر نہیں ہوگا -

اس لےء ہماری درخواست ہے کہ من کی بات چھوڑ کر سب کی بات کیجئے ،تنگ نظری اور بیمار ذہنیت کو کچلئے اعلی اخلاقی قدروں کو پروان چڑھائیے اور وسعت سے کام لیجئے ،چونکہ وسعتِ دل اور وسعتِ نظر ہی سے تمام اعلی اخلاقی خوبیاں پرورش پاتی ہیں اور وسعت کے سوتے خشک ہوئے تو بد نصیبی اور ذلت ونکبت کے سوا کوئی دوسری چیز مقدر نہیں۔
Ahmad Shahzad Qasmi
About the Author: Ahmad Shahzad Qasmi Read More Articles by Ahmad Shahzad Qasmi: 3 Articles with 1440 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.