رنگین شب اور دل آفروز سماں

2009جولائی کے مہینے کی ایک رات،حسین رُت ،رنگین شب اور دل آفروز سماں تھا ،ایک دیوانہ بہت خوش اپنی مستی میں گم ،خیالوں میں گنگناتا ہوا آج وقت سے پہلے ہی، گھر کی طرف چل دیا ،بتاتا چلو ان صاحب کا نام عمران ،تمام دوست انکوعمران بی اے کے نام سے پکارتے تھے۔بی اے اس لیے ، ان صاحب نے بہت لمبا بی اے کیا تھا ، پورے پانچ سال بعد بی اے پاس کیا تھا ،سو دوستوں نے عمران بے اے نام ڈال دیا ۔عمران لاہور کے دل کاہنہ نو کے بازار میں فروٹ کی ریڑھی لگاتا ،اور اپنی زندگی کو خوب انجوائے کر رہا تھا ،آمدنی اتنی ہو جاتی تھی کہ ایک خوشحال زندگی گزاری جا سکے،دو دوست آصف،اور طارق جن کے ساتھ عمران کافی وقت گزارتا اور خوش رہتا۔

عمران کو محبت کرنے کا بہت شوق تھا،اسی وجہ سے ہر دوسرے دن کسی نئے چہرے کی محبت میں گرفت ہو جاتاتھا۔مگر اب کی بار کچھ خاص ہی بات لگتی تھی، کیونکہ آج کل یہ اپنے دوستوں سے دور ، اپنے فروٹ ریڑھی سے دور الگ ہی دنیا میں رہناشروع ہو گیا تھا،ہر وقت اس کے کان کے ساتھ موبائل ،اور صاحب محو گفتگو رہتے ،چہرے پر خوشی کے آثار ہر وقت رہتے،اورآج تو عمران سات بجے ہی گھر جا رہا تھا ،آصف اورطارق اس کے پاس آئے اور پوچھا کہ یار تو آج کل کس دنیا میں گم رہتا ہے ،کیا ہو گیا ہے تم کو؟کہیں پھر پیار تو نہیں ہو گیا ؟ کس سے ہوا ہے ؟ کون ہے ہماری بھابھی؟ کہا ں رہتی ہے؟طارق نے سوالوں کی بوچھاڑ کر دی ،مگرعمران بس یہاں سے بھاگ کر اپنے محبوب کی آغوش میں جانا چاہتا تھا ،جس وجہ سے آج جلدی ریڑھی بند کر دی تھی،طارق اورریاض سے جان چھوڑانے کا جب کوئی راستہ نہ ملا تو عمران نے موبائل بند کیا اور اپنی محبوبہ کی منت کی جان بس ۲ منٹ میں واپس کال کرتا ہوں ۔
آصف : کتنی دیر لگادی بھائی تم نے ہمیں بتانے میں کے اب تجھے بڑے والا پیار ہو گیا ؟
عمران : ( سانس پھولتے ہوئے ) یار ایسی بات نہیں ہے۔
طارق: رہنے دو ! اْس لڑکی کے بارے میں بتاو جس کے ساتھ ہر وقت موبائل پر چمٹے رہتے ہوں ؟
عمران : ہاں بھائی۔ لڑکی کا نام رابعہ ہے۔ وہ بی۔اے کر رہی ہے۔
آصف: ( جلدی میں ) فیملی بیک گراوئنڈ ؟
عمران : فرسٹ کلاس فیملی ہے ۔
طارق: وہ سب چھوڑو۔ لڑکی اور اْس کے خاندان والے کیسے ہیں ؟
عمران : لڑکی اور اْسکے گھر والوں کی شرافت ؟ یوں سمجھ لوں کالونی میں اْن سے زیادہ معزز کوئی نہیں۔
اتنا ہی بتایا تھا کے عمران بھاگ نکلا گھر کی طرف،آصف اورطارق ادھر ہی پریشان ہو گئے کہ اب کی بار یہ بچ جائے بس کیونکہ عمران تو پورا دیوانہ ہوا پڑا تھا ،اْسے کسی کی بھی کوئی پروا نہیں رہی تھی ۔
یونہی دن گزرتے گئے اورعمران اپنی نئی نویلی محبت میں مگن ہوتا گیا اور ساری دنیا کو بھولتا گیا ۔دن ہو یا رات کوئی بھی ایسا پل نہ ہوتا تھا کہ عمران موبائل پر محو گفتگو نہ ہوتا،کاروبار کی طرف دھیان کم ہونے کی وجہ سے کام بھی کم ہونا شروع ہو گیا ، گاہک عمران سے آم اور سیب کے ریٹ پوچھتے رہتے ،مگرعمران صاحب کو فرصت ہی کہا تھی کہ وہ کسی اور کی بات سنے۔سارا ،سارا دن ، اور ساری، ساری رات اپنی محبوبہ سے باتیں کرنے ، اسی کے خیالوں میں ڈوبے رہنے سے اپنی نیندختم کر بیٹھا تھا ، سارا دن فروٹ کی ریڑھی پر رہتا اور رات ہوتے ہی اپنے گھر کی چھت پر لیٹ جاتا اور ساری رات باتیں کرتا رہتا ،اور جیسے ہی سورج اپنی آنکھیں کھولتا ،عمران کی اماں جان اسْے جگانے چھت پر جاتی تو صاحب اماں جان کی آہٹ سنتے ہی آنکھیں بند کر لیتے ،اور آماں جان کے جگانے پر اٹھتے اور نیچے آجاتے ۔ساری ساری رات جاگے رہنا، اورنہ کچھ کھانے پینے کی بدولت عمران کا رنگ زرد پڑ گیا ۔ آنکھوں کے گرد ہلکے نمایاں ہوتے گئے اور بیمار سا رہنا شروع ہوگیا تھا۔ہر وقت ہلکا بخار رہتا۔مگر اپنی محبوبہ سے ایک بھی پل دور نہ رہتا ،سبھی گھر والوں کو بھی عمران پر شک ہونا شروع ہوگیااوردوست بھی ہر وقت اسی کے بارے میں سوچتے رہتے، آج پورا سا ل ہو گیا تھا کہ عمران اور ر ابعہ کی دوستی ہوئے ایک دن کچھ یوں انکشاف ہواعمران اپنا موبائل آصف کی دوکان پر چارجنگ پر لگا کر اپنی فروٹ ریڑھی پر پریشان بیٹھا تھا ،ہم سب دوست اسے دیکھ کر پریشان ہوئے جا رہے تھے کہ کیا بنا رکھا اس نے اپنا حال ،خیرآصف نے موقع کو غنیمت جان کر کوشش کی کہ یہ چیز ہے کیا جس نے اس کے دوست کا برا حال کر رکھا ہے ،آصف نے موبائل چارجنگ سے اتارا اور دیکھا ،inboxمیں 51ایس ایم ایس تھے جسے پڑھنے کے بعد آصف کے ہوش اُڑگئے، عمران صاحب اور مس رابعہ میں ابھی تک ملاقات نہیں ہوئی ہے اورعشق کا بخار جناب کو موبائل پر ہی ہوا تھا۔ اور مکالمہ کچھ یوں چل رہا تھا۔رابعہ :تم کل ہر صورت میں میرے سامنے آؤمجھے تم کو دیکھنا ہے
عمران :جان کیوں اتنی ضد کر رہی ہوں؟
رابعہ :کہا نہ کہ کل تم ہماری گلی میں آرہے ہوں ، تو آ رہے ہوں
عمران :okایڈریس بتاؤ؟
رابعہ:جلو موڑ پارک، سٹریٹ نمبر 3نزد سوزو واٹر پارک ٹھیک 1.30pmپار ا ٓ جانا میں انتظار کروں گی۔
عمران : کوشش کروں گا ، وعدہ نہیں ۔
رابعہ : آج کے بعد مجھ سے بات نہیں کرنی تم نے ، مت آؤ۔
عمران : جان ایسی بات مت کرو ہر حا ل میں تمہاری گلی میں آؤں گا۔
تمام ایس ایم ایس پڑھنے کے بعد آصف کو سمجھ آگئی کہ آج یہ پریشان کیوں ہے۔
آصف ،عمران کے پاس گیا اور کہا کہ یار ہماری بھی کبھی بات کرواں بھابھی سے ،کیا ہم تمہارے کچھ نہیں لگتے جو تم نے اپنی محبت بارے ہمیں کچھ بھی نہیں بتایا، ایسے ہی ڈائیلاگ طارق نے بھی بولے ، عمران کو دوستوں نے احساس ڈلوایا کہ ہم تمہارے دوست ہے ۔
عمران پہلے ہی پریشان تھا اورسوچ میں مگن تھا کہ میں کل کیا کروں گا ، دوستوں نے پریشانی کا سبب پوچھا تو جناب نے سب کچھ کھل کر بتا دیا،ساری باتیں سن کر ہم سب دوستوں کو ہنسی بھی آئے اور دکھ بھی کیوں کہ ہمیں نظر آگیا تھا کہ یہ عشق اب ختم ہونے والا ہے۔
سب دوستوں نے مشورہ دیا ٹھیک ہے تم کل جاؤ ۔مل کر آؤ پریشان ہونے والی کوئی بات نہیں ،عمران صاحب نے ایک کار بک کروائی ہوئی تھی ، جسے طارق کے کہنے پر کینسل کر دیا گیا ،اور فیصلہ یہ ہوا کہ ہم بائیک پر بالکل سادہ جائے گے ،اگلے دن ٹھیک 12;pmپر طارق اور عمران ٹوٹی ہوئی بائیک ، جس کا والیم بہت اونچا تھا پر اپنی منزل کی طرف گامزن ہوئے،90منٹ کی مساوت کے بعد ہم رابعہ کی گلی میں پہنچے،ایڈریس کے مطابق ر ابعہ کے گھر کے باہر شریف ہاوس لکھا ہوا نظر آیا ہم پہنچان چکے تھے ، کہ یہی اس کا گھر ہے کیوں کہ ر ابعہ کے پاپا جی کا نام شریف تھا اور وہ پاس ہی جلو پارک میں چئیرمین تھا،ساری صورتحال دیکھ کرطارق نے اسی وقت سرمظہر کو فون کیا اور سب کچھ بتایا اور کہا کہ آپ تیار رہیے گا آج اس دیوانے کا دل پھر ٹوٹنے والاہے۔عمران او ر طارق گلی میں داخل ہوئے ، رابعہ کے گھر کی بیٹھک کا درواز ہ لا ئٹ آف ہونے کی وجہ سے کھلا ہو اتھا ، سامنے ہی ر ابعہ ء تھوڑے سے بچوں کے ہمراہ بیٹھی تھی ، اس نے اسی وقت ان دونوں کو دیکھ لیا ،طارق اوعمران نے بھی سے دیکھ لیا ،رابعہ کو دیکھ کرعمران پھولے نا سمایا ، کیوں کہ وہ بہت خوب صورت تھی،4منٹ گلی میں رکنے کے بعد جوتوں کے ڈر کی وجہ سے وہاں سے نکلنا ہی غنیمت جاناابھی بی آر بی نہر کے پاس ہی پہنچے تھے کہ ر ابعہ کا فون آگیا عمران نے کال رسیوکی اوربات کی ، رابعہ نے پوچھا کہ کیا جو گلی میں کھڑے تھے وہ تم تھے؟
عمران بہت خوش تھا ،وہ رابعہ کہ حسن کی تعریف کرنا چاہتا تھا ،مگر یہ رابعہ کو ایک سادہ شخصیت کامالک ہونے کی بنا پر ایک آنکھ بھی نہیں بھایا تھا ،جیسے ہی عمران نے ہاں بولا ،رابعہ نے کال بند کر کے اپنا نمبر آف کر دیا۔ عمران کی خوشی کو ایک پل میں ہی نظر لگ گئی تھی،اس کے آنسو نظر نہیں آرہے تھے مگر محسوس کئیے جا سکتے تھے، بڑا دھماکہ تو رات 11:21pmپر ہوا جب عمران سب دوستوں کے ہمراہ بازار میں تھا ، اوربار باررابعہ ء کا نمبر ڈائل کر رہا تھا،جیسے ہی نمبر آن ہوارابعہ نے کال اْٹھائی اور کہا آج ہمارے گھر میری آنٹی آئی اور ابو کے سامنے اپنی چادر اتار کر پاؤں میں پھینک دی اور کہا بھائی اپنی بیٹی کا رشتہ مجھے دے دوں ،اور ابو نے ہاں کر دی ہے لہذا آج کے بعد ہماری بات نہیں ہو گی ، اتنی بات کر کے را بعہ نے فون بند کر کے نمبر آف کر دیا،جو کہ آج تک بند ہے، عمران بہت بھولا نکلا نہیں سمجھا کہ رابعہ نے ایسا کیوں کیا ؟آنکھوں میں آنسو لیے گھر چلا گیا ، اگلے روز بازار نہ آیا ،سرمظہر نے کال کر کے بلایا اور دو کلو آم میٹھے والے ,اور4 سیب لیے اور عمران کو بولا اسے اچھے سے دھو کر لاؤاور برف بھی آموں میں ڈال کر لا ؤ،پھر دونوں ٹوٹی پھوٹی بائیک پر بیٹھے ، سرمظہر نے عمران کو نہر کنارے جانے کو بولا ، نہر پر پہنچنے کے بعد وہی لیکچرجو سر ہر دفعہ عشق سے نکام ہونے پر دیتے تھے وہ دیا ،یہ لیکچر لے کرعمران آدھا ٹھیک ہو جاتا تھا ، اسی لیے رابعہ کے ٹھکرا دینے کے بعد بھی عمران کچھ حد تک نارمل ہو گیا تھا،
مگر اس نے اب دیواروں سے باتیں کرنے کا فیصلہ کر لیا تھا۔ وہ اب دھیرے دھیرے دیواروں سے باتیں کرنے لگ گیاتھا۔سب دوست اس کے پاس آتے اسے وقت دیتے ، سمجھاتے ، بہلاتے لیکن بے سود، اب عمران کچھ نہیں سننا چاہتا تھا وہ بس اب صرف اور صرف تنہا رہنا چاہتا تھا۔ایک دن عمران پاس والی دیوار سے کچھ یوں بات کر رہا تھا ، کہ آج کے بعد میں کسی کو اپنے دل میں جگہ نہیں دوں گا کبھی پیا ر نہیں کروں گا ، مگر افسوس عمران کا دل بہت بڑا ہونے کی وجہ سے پھر کسی نے اپنی جگہ جلدی بنا لی مگر اب کی باررابعہ کی جگہ ماہی کوملی۔
Sajjad Ali Shakir
About the Author: Sajjad Ali Shakir Read More Articles by Sajjad Ali Shakir: 132 Articles with 131404 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.