عسکریہ پاکستان اور اُس کی عوام

پاکستان کی تاریخ میں فوجی حکمرانوں کا دور طویل رہا ہے اس کی جو بھی وجوہات رہی ہوں لیکن تاریخ گواہ ہے کہ سیاست دانوں کی غلط پالسیوں نے ہی فوج کو اقتدار و مداخلت کا جواز فراہم کیا ْ۔ماضی میں پاکستان کو ایسے جنرل بھی ملے جنھوں نے اپنے اقتدار کو طول دینے کیلئے کبھی بی ڈی سسٹم ، کبھی نفاذ اسلام تو کبھی ناظمین کا دور نافذ کرکے ، میرے ہم وطنوں کا نعرہ بلند کیا ۔ تلخ حقیقت ہے کہ ماضی میں کئے جانے والے فوجی حکمرانوں کے وعدے کم ہی وفا ہو سکے اور انھوں نے کھال و وردی میں اس لئے فرق نہیں سمجھا کیونکہ وہ اپنی وردی کو کھال ہی کہا کرتے تھے۔ویسے تو پاکستان کے صدر, افواج پاکستان بشمول پاکستانی بری فوج ، سویلین کمانڈر ان چیف یا سپہ سالار بری فوج کے عہدے کیلئے ایک چار ستارے والے جرنیل کا انتخاب کرتے ہیں ۔ لیکن پاکستان کی تاریخ میں یہ بھی پوشیدہ نہیں کہ سیاسی حکمرانوں نے سینارٹی کی روایت کو قائم رکھنے کے بجائے اپنے اقتدار کے تحفظ کیلئے ایسے جرنیلوں کو بھی فوج کا سپہ سالار بنایا جو کئی جرنیلوں کے مقابلے میں جو نیئر تھے ۔ بیشترفوجی جرنیلوں نے پاکستان میں اقتدار کی طویل مسافتیں طے کیں تو کبھی کوئی جرنیل اس قدر جارحانہ ہوا کہ ملک کے منتخب وزیر اعظم کو پھانسی کے تختے پر چڑھا کر ہی چھوڑا ، کسی جرنیل نے دس سالہ معاہدہ کرکے دوتہائی سے زیادہ اکثریت رکھنے والے وزیر اعظم کو ملک سے باہر کی راہ دکھائی تو اسی جرنیل نے این آر او جیسے قانون منظور کرکے خود ساختہ جلا وطن سیاست دانوں کو پاکستان میں خوش آمدید کہہ جمہوری روایت کا تاج پہن کر ان سے حلف بھی لیا۔

پاک فو ج عسکریہ پاکستان کی سب سے بڑی شاخ ہے اور اس کا کام ملک کی سرحدوں کی حفاظت کرنا ہے۔انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ آف سٹریجکے سٹدٰز International Institute for strategic studies IISSکے مطابق اپریل2013ء میں پاک فوج کی فعال تعدا افرادی قوت 7,25,000تھی اس کے علاوہ ریزو غیر فعال 5,50,000( کو کہ 45سال کی عمر تک خدمات سر انجام دیتے ہیں ) کو ملا کر افرادی قوت کا تخمینہ12,75,000افراد تک پہنچ جاتا ہے ، پاکستان دنیا کی سات بڑی افواج بشمول بحریہ اور فضائیہ شامل ہے۔

پاکستان کی جمہوری اور فوجی حکمرانی کا چولی دامن کا ساتھ رہا ہے اور یہاں تک کہ سیاست دانوں کو اپنی حکمرانی کی بار بار فوجی کی حمایت کی بھی ضرورت پڑتی رہی ہے ۔ حالیہ دھرنوں میں جب تحریک انساف کے سربراہ نے تھرڈ ایمپائر کی جانب اشارہ کیا تو پوری قوم کی توجہ عسکری قیادت کی جانب چلی گئی لیکن عسکری قیادت کے مدبرانہ فیصلوں نے ملک میں جاری نطام کو چلنے دیا ۔ یہ شائد ہماری قوم کا مزاج رہا ہے کہ ہم اپن مسائل کا حل فوج میں تلاش کرتے ہیں لیکن جب قوم کا دل بھر جاتا ہے تو ہی مٹھائیاں بانٹنے والے کسی تیسرے راستے سے اقتدار میں آنے کی کوشش کرتے ہیں۔ پاکستان میں جنرل راحیل شریف جیسے دور اندیش اور دور رس فیصلے کرنے والے جرنیل بڑٰ ے کم میسر آئے ہیں ۔ سیاسی تماش بینوں کی ہمیشہ یہ خواہش رہتی ہے کہ فوج کو سیاسی حکومت کے ساتھ ٹکراؤ میں رکھا جائے لیکن جنرل راحیل شریف کی سپہ سالاری میں ایسے کئی مواقعے آئے جس میں نواز شریف دووبارہ کلین بولڈ ہوسکتے تھے لیکن جنرل راحیل شریف نے وزیر اعظم نواز شریف کو نہیں بلکہ پاکستان میں چلنے والے اس نظام کو کامیابی سے چلانے کے کئی مواقع دئیے جیسے ہم عرف عام میں جمہوریت کہتے ہیں۔

نواز شریف کو ہمیشہ اپنے پیروں میں کہلاڑی مارنے کی عادت رہی ہے لیکن عسکری قیادت نے پاک فوج کی جانب سے اسٹیریجک پالیسی کی تبدیلی کی بناء پر پہلے دشمن کے طور پر اندرونی ملک دشمن عناصر کو ٹارگٹ میں رکھا ہوا ہے اور اپنی پالیسی کے تحت ملک دشمن عناصر کے خلاف عسکری قیادت نہایت سنجیدگی سے اپنے مطلوبہ مقاصد حاصل کر رہی ہے ۔ آپریشن ضرب عضب ، خبیر ون اور ٹو ، کوئی معمولی فیصلہ نہیں تھا ۔ لیکن جنرل راحیل شریف نے بڑے کٹھن فیصلے کئے اور آپریشن ضرب عضب میں اپنے جوانوں کو میدان جہاد میں اتار دیا ، ایک خطرناک جنگ جسے ملک دشمن پڑوسیوں کی حمایت حاصل تھی ، اور مغرب کے ساتھ مشرق کے محاذ بھی غیر محفوظ تھے۔ یہ کوئی عام اور آسان فیصلہ نہ تھا بلکہ محدود وسائل کے ساتھ لامحدود مسائل کی جنگ تھی جس سے عسکری قوت نبر الزما ہوئی۔ پاک فوج پہلی مرتبہ اقتدار کی شراکت میں جنرل ایوب خان کی قیادت میں1958ء میں آئی تھی اور اس وقت جہاں رن آف کچھ کی مختصر جھڑپ ہوئی تو بھارت کے غیر اعلانیہ جنگ نے بھی پاک فوج کے کردار کو پاکستانی عوام کے نزدیک کردیا ۔لیکن پاکستانی مزاج کچھ ایسا ہی ہے کہ وہ مستقل مزاج نہیں ہے لہذا جنگ کی فتح کے بعد اسی جرنیل کی پالسیوں سے اختلاف کے سبب اک عوامی تحریک شروع ہو گئی اور 1968ء اور1969ء میں عوامی تحریک کی وجہ سے ایوب کو صدر پاکستان اور چیف آف آرمی اسٹاف کے عہدے سے استعفی دینا پڑا اور جنرل یحی نے اقتدار سنبھال لیا۔ لیکن پاکستانی عوام ہو یا ملک کی پالیسیا ں پاکستان دو لخت ہوا ۔20دسمبر1971ء کو ذوالفقار علی بھٹو نے صدر پاکستان او باحیثیت چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر کے اقتدار کو سنبھال لیا لیکن یہاں بھی پاکستان کی بے چین عوام نے جمہوریت کو کسی بھی شکل میں چلنے نہیں دیا اور عوامی احتجاج اور مظاہروں کے بعد ذوالفقار علی بھٹو کا تختہ الٹ دیا گیا۔اور ضیا الحق نفاذ اسلام کا نام لیکر پاکستان میں میرے عزیز ہم وطنوں کا خطاب کرتے نظر آئے۔بھٹو پھانسی چڑھے اور پاکستان کی عوام عالمی استعماری قوتوں کی سازش کا اس طرح شکار ہوئی کہ آج تک ہم اس پرائی جنگ سے باہر ہی نہیں نکل سکے ۔ مجاہدین افغانستان میں امریکی خواہش کو ساتھ لیکر سرخ ریچھوں سے جہاد کرتے رہے ، جنرل ضیاالحق 90دن میں انتخابات کرانے کا وعدہ پورا نہیں کرسکے۔ یہاں تک کہ1988میں ایک فضائی حادثے میں جہان فانی سے رخصت ہوئے ۔پی پی پی کی حکومت خود ان کے جیالوں نے گرائی تو نواز شریف کی حکومت بھی ان کے پسندید جرنیل کی نظر ہوئی ، پاکستان کی عوام بار بار فوج کی جانب دیکھتی رہی لیکن وردی کو کھال سمجھنے والے سے این آر او کے تحت وردی اتار لی گئی اور جرنیل اشفاق کیانی جیسے جرنیل کے ہاتھ میں ملک کی سپہ سالاری آئی ،جرنیل کیانی نے فوج کی کمان جرنیل راحیل شریف کے سپرد کردی تو ان کی قائدانہ صلا حیتوں کے تمام ملکی اور غیر ملکی لیڈروں معترف ہوئے۔ کسی سیاست دان کو بوٹوں کی چاپ سنائی دینی لگتی تھی کسی کو اپنی خواب گاہ میں فوج کے داخلے کے خواب آتے تھے تو کوئی ملک کے حساس اداروں کے خلاف سازش کرتا نظر آتا تھا لیکن جرنیل راحیل شریف نے ملک کی تمام روایتوں کو غلط ثابت کرتے ہوئے فی الوقت یہ اعلان کردیا ہے کہ انھیں ملازمت میں توسیع کی خواہش نہیں ، ان کے اس اعلان کے ساتھ ہی ان کے فیصلوں کی تعریف شروع ہوگئی اور زیادہ تر وہ سیاست دان خوشی سے بغلیں بجاتے نظر آئے جن کی خواہش تھی کہ فوج پاکستان کا اقتدار ایک مرتبہ پھر سنبھال لے لیکن، ان کی خوابوں کو جنرل راحیل شریف نے تعبیر نہیں بخشی۔ پاکستان جمہوریت کے نام پر نوزائیدہ ملک ہے جہاں اقتدار بھی پہلی مرتبہ سیاسی ہاتھوں سے سیاسی ہاتھوں میں منتقل ہوا ۔ اب اگر فوج کے سربراہان بھی اپنی مدت ملازمت پوری کرتے ہوئے رخصت ہوتے ہیں تو یقینی طور پر یہ ایک اچھی روایت ہے لیکن اس میں سیاسی حکومت کو یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ وہ فوج کے سنئیر افسران کو نظر انداز نہ کریں اور سنئیارٹی کی بنیاد پر ان کی تقرریاں کرے ۔ اپنے مزاج کا سمجھتے ہوئے ایسے جرنیل سینئر کے مقابل نہ لائے کہ فوج کا ایک ڈسپلن متاثر ہو۔ سیاسی حکومت کو یہ بات اچھی طرح پہلو سے باندھ لینی چاہیے کہ اگر وہ ملک کی سلامتی کے مطابق اپنی پالیسیاں جاری رکھیں گے تو انھیں اس بات کا ڈر نہیں ہوگا کہ کوئی فوجی حکمران ان کا تتختہ الٹ دے گا ۔ اپنی سوچ اور اپنی داخلی اور خارجہ پالیسیوں کا محور صرف پاکستان کی سلامتی ہو اور ادارے اپنی حدود کے مطابق کام کرتے رہیں تو پاکستان میں چاہیے کوئی کتنی بھی ہیجانی کیفیت پیدا کرلے انھیں کسی قسم کا خوف وڈر نہیں ہونا چاہیے ۔ اگر سیاسی حکومت خود سیاہ و سفید کا مالک سمجھ کر عوام کے مفادات کا سودا کرتی رہے گی تو پھر انھیں یقین کرلینا چاہیے کہ پاکستانی قوم تحمل و مستقل جمہوریت پسندانہ مزاج نہیں رکھتی اور وہ قدم بڑھا ؤ ہم تمھارے ساتھ ہیں ، کے نعرے لگا کر غائب بھی ہوجاتی اور بوٹوں کی چاپ پر مٹھائیاں اور بھنگڑے ڈالنے میں بھی ان کا کوئی ثانی نہیں
Qadir Khan
About the Author: Qadir Khan Read More Articles by Qadir Khan: 937 Articles with 660402 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.