جاوید چوہدری صاحب کون سی ترقی کون سے ڈنڈے؟

چند دن پہلے جاوید چوہدری صاحب کا ایک کالم ــــ ’ترقی کوڈنڈے مارتے لوگ ـ‘پڑھا جس میں موصوف نے جاپان کی ایک طالبہ کا ذکر کیا جو ٹرین کے ذریعے سکول پڑھنے جاتی ہے کیونکہ جس جزیرے پر وہ رہتی ہے وہاں پر صرف 40 لوگ ہی رہتے تھے ان میں سے بھی کچھ دوسری جگہوں پر شفٹ ہو گئے تو مسافر ٹرین کی سواریاں ختم ہو گئیں چنانچہ کمپنی نے 2012 میں یہ روٹ بند کرنے کا فیصلہ کر لیا لیکن پھر کمپنی کو اس طالبہ کا خیال آیا جس کے لئے سکول پہنچنے کا واحد ذریعہ وہ ٹرین ہی ہے تو کمپنی نے فیصلہ کیا کہ جب تک اس طالبہ کی تعلیم مکمل نہیں ہو جاتی اس وقت تک اس ٹرین کو جاری رکھا جائے اب وہ ٹرین ہر صبح آتی ہے اور اس طالبہ کو اس کے سکول پہنچاتی ہے اور شام کو واپس بھی چھوڑتی ہے اس ٹرین کی وہ طالبہ واحد مسافر ہوتی ہے یہ سلسلہ تین سال سے جاری ہے اور کمپنی نے فیصلہ کیا ہے کہ مارچ 2016 تک یہ روٹ بندنہیں کرے گی جب تک کہ اس طالبہ کی تعلیم مکمل نہیں ہو جاتی اس طرح وہ کمپنی ہزاروں ڈالر خسارہ برداشت کر رہی ہے۔ چوہدری صاحب مزید فرماتے ہیں کہ جاپان، ایران ، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات جیسے مماملک میں میٹرو ٹرین چل رہی ہیں اس لئے لاہور والے جو آج میٹرو ٹرین جیسی ترقی کو پتھر مار رہے ہیں کل یہ پچھتائیں گے۔چوہدری صاحب فرماتے ہیں کہ جاپان میں طالبہ اورٹرین میں سے ٹرین زیادہ اہم ہے میں اس سے ہرگز اتفاق نہیں کرتا میرے خیال کے مطابق جاپانیوں کے لئے سب سے زیادہ اہم تعلیم ہے اس بات کا اندازہ آپ جاپان کے نظام تعلیم سے لگا سکتے ہیں جاپان میں شرح خواندگی 99% ہے جاپان کی کل آباوی تقریباً14 کروڑ ہے اور1223 یونیورسٹیاں ہیں جبکہ پاکستان کی آبادی 20 کروڑ کے لگ بھگ پہنچ چکی ہے پر ابھی تک یہاں کل174یونیورسٹیاں ہیں، جاپانی حکومت پر لازم ہے کہ ہر بچے کو 6سال کی عمر میں ایلمنٹری تعلیم جس کو ہم پرائمری تعلیم بھی کہہ سکتے ہیں اور اس کے بعد 3 سال کی جونئیر ہائی سکول تک کی تعلیم یعنی 9 سال تک کی تعلیم دلوائے۔جاپان میں ایسا کوئی سکول نہیں ملے گا جس میں بچوں کوتمام سہولیات میسر نہ ہو، جس میں ڈاکٹر موجود نہ ہو اگر بجٹ کی بات کریں توپاکستان نے اپنے موجودہ بجٹ کا2.68 حصہ تعلیم کے لئے مختص کیا تھا جو کہ 734 بلین پاکستانی روپے بنتا ہے جاپان نے موجودہ 1.06 ٹریلین ڈالر بجٹ کا5.6 حصہ جو اس سے پہلے 6.8 حصہ ہوتا تھا تعلیم کے لئے مقرر کیا ہے جو کہ پاکستان کے کل بجٹ جتنا بنتا ہے۔ ان ساری باتوں سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ جاپانیوں کے لئے نہ تو وہ طالبہ اہم ہے اورنہ ہی ٹرین ان کے لئے بس صرف تعلیم اہم ہے۔ ہمارے ملک پاکستان کا موازنہ کسی صورت بھی جاپان جیسے ترقی یافتہ ملک سے نہیں کیا جا سکتا اگر ہم جاپان، ایران، سعودی عرب اور متحدہ عرب عمارات جیسے ممالک سے اپنے ملک کا موازنہ صرف میٹرو بس یا ٹرین ہونے یا نہ ہونے کی بنا پر کریں گے تو ذیادتی ہو گی کیونکہ کسی بھی ملک کا موازنہ کرنا ہو تو اس ملک میں موجود تعلیم اور صحت کی سہولیات دیکھ کر کیا جاتا ہے۔ ہمیں نہیں بھولنا چاہئے کہ ہم اس ملک میں رہتے ہیں جہاں 25 ملین بچے ایسے ہیں جن کو تعلیم کی سہولت میسر نہیں ہمار ے سرکاری پرائمری ، مڈل اور ہائی سکولوں میں سے گیارہ ہزار سے زائد سکول ایسے ہیں جن کی یا تو سرے سے عمارت ہی نہیں ہے یا بغیر چار دیواری کے ہیں جس میں سے 7,461 سکول سندھ، 281 پنجاب، 375 خیبر پختونخواہ، 1.046 آزاد کشمیر، 3 گلگت بلستان اور 875 فاٹا میں ہیں۔حال ہی میں وفاقی وازرت تعلیم کی طرف سے شائع ہونے ولے اعدادوشمار کے مطابق پاکستان میں 42 ہزاسرکاری سکول ایسے ہیں جن میں بچوں کو یاتو پینے کا صاف پانی میسر نہیں ہے یا بیت الخلاء جیسی بنیادی سہولت ہی میسر نہیں جن میں سے 14 سکول اسلام آبا دمیں ہیں ، 21,771 سندھ، 2,229 پنجاب ، 7,680 خیبر پختونخواہ اوربقیہ بلوچستان اور آزاد کشمیر میں ہیں۔چوہدری صاحب نے فرمایا کہ 1960 میں صرف دو فیصد طالب علم ہی یونیورسٹی کا منہ دیکھ پاتے تھے موجودہ صورت حال دیکھیں تو آپ کو واضع اضافہ نظر آئے گا۔ ان کے مطابق یہ اضافہ نئی سڑکیں بننے کی وجہ ہے جناب یہ حقیقت سہی کہ1960 میں صرف 02 فیصد لوگ ہی یونیورسٹی پہنچتے تھے پر آپ1960 کے اعدادوشمار دیکھیں کہ 1960 میں پاکستان کی اس وقت آبادی تقریباً 4.50 کروڑ تھی جبکہ اس وقت ملک میں کل 9 یونیورسٹیاں تھیں جن میں سے ایک خیبر پختونخواہ، 6 پنجاب اور 2 سندھ جبکہ بلوچستان میں کوئی یونیورسٹی نہیں تھی۔ جناب اب آپ 1980 کے اعدادوشمار دیکھیں کہ 1980 میں پاکستان کی کل آبادی تقریباً8 کروڑ تھی جبکہ 23 یونیورسٹیاں تھیں جن میں سے 5 اسلام آباد، بلوچستان ,01 خیبر پختونخواہ 2 ، پنجاب میں 9 اور تمام ہی لاہور میں واقع تھیں اور سندھ میں 05 یونیورسٹیاں تھیں اس وقت شرح خواندگی26.02% تھی اب 2015 کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں 174 یونیورسٹیاں ہیں اور شرح خواندگی57% ہے اس کے علاوہ آپ پرائمری ، مڈل ، ہائی سکولوں ،کالجوں اور اساتذہ کی تعدادکے اعدادوشمار کا موازنہ کر کے دیکھیں تو آپ کو پتہ چلے گا جیسے جیسے تعلیمی اداروں اور اساتذہ کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے ویسے ویسے ہی شرح خواندگی میں اضافہ ہوا ہے۔ چوہدری صاحب نے فرمایا کہ اپنے ماضی میں جا کر دیکھیں تو ماضی میں جا کر مجھے یاد پڑتا ہے کہ 1990 میں جب میں گورنمنٹ پرائمری سکول کھاریاں میں پڑھتا تھا تو سکول میں پانی پینے کے لئے ایک نلکالگا ہوتا تھا جب پانی پینا ہوتا تو ہم لوگ قطار میں لگ کر اسی ایک نلکے سے اپنی پیاس بجھاتے تھے اور اسی کے پانی سے اپنی تختیاں دھوتے تھے اس کے علاوہ ہر ایک کلاس کو پڑھانے کے لئے ایک ہی استاد صاحب ہوتے تھے جب پریڈ بدلنے کی گھنٹی بجتی تھی تو وہ حکم صادر فرما دیتے تھے کہ اب فلاں کتاب نکال لو اس کا پریڈ شروع ہو گیا ہے تو ہم وہ کتاب نکال لیتے تھے میں نے اپنے ماضی میں جا کر دیکھا تو مجھے نظر آیا کہ ہمارے شہر کھاریاں میں دور درازکے گاؤں سے طلبہ کئی کئی کلومیٹر کا فاصلہ سائیکلوں پر طے کر کے کھاریاں کے پرائمری سکول میں پڑھنے آتے تھے کیونکہ ان کے گاؤ ں سے لے کر کھاریاں شہر تک بہترین سڑکیں تو موجود تھیں پر ان کے گاؤں میں کوئی پرائمری سکول نہیں تھا ہمارے شہر کھاریاں میں کوئی کالج نہیں تھا جس کو کالج جانا ہوتا تھا دہ کھاریاں کینٹ کے کالج میں داخلہ لیتا تھا یاپھر گجرات جاتا تھا گجرات جانے کے لئے بہترین سٹرکیں موجود تھیں جو ماں باپ اپنے بچوں کی پڑھائی کا خرچہ برداشت کرنے کی سکت رکھتے تھے وہ اپنے بچوں کو کالج کے لئے گجرات بھجوا دیتے تھے یا بیرون ممالک بجھوا دیتے تھے جن کے پاس سرمایہ نہیں ہوتا تھاان کے بچے پڑھائی چھوڑ کر محنت مزدوری شروع کر دیتے تھے اپنے ہی ماضی میں جا کر میں تو اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ شرح خواندگی میں اضافہ کی وجہ ہو سکتا ہے کسی جگہ پر سڑکیں ہوں پر اگر سکول و کالج ہی نہیں ہوں گے تو سٹرکیں کیسے کسی کا ذریعہ تعلیم و ترقی بن سکیں گی۔چوہدری صاحب مزید فرماتے ہیں کہ جاپان کے علاوہ ایران، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات میں بھی میٹرو ٹرینیں اور بسیں چل رہی ہیں کاش چوہدری صاحب یہ بھی فرما دیتے کہ ایران میں شرح خواندگی86.06% ہے جبکہ پاکستان میں 57% ہے، سعودی عرب میں شرح خواندگی96.02% ہے، متحدہ عرب امارات میں 93.08% ہے۔ ان ممالک میں ہر گھنٹے بعد بجلی نہیں جاتی، نہ ہی لوگ بجلی کی بندش کی وجہ سے اپنے کاروبار دوسرے ممالک میں لے کر جا رہے ہیں، ان ممالک میں سینکڑوں بچے بھوک سے ہلاک نہیں ہوتے، لوگ بھوک سے خودکشیاں نہیں کرتے، ان ممالک میں، بغیرچھت، بغیرعمارت، بغیر پانی اوربغیر بیت الخلاء والے سرکاری سکول نہیں ہیں۔کاش چوہدری صاحب یہ بھی لکھ دیتے کہ پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن کی2011 کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ہر سال 4 لاکھ بچے زندگی کے پہلے سال ہی طبی سہولیات میسر نہ ہونے کہ وجہ سے مر جاتے ہیں، ہر سیکنڈ میں ایک بچہ زندگی کی بازی ہارتا ہے، ہر دس میں سے ایک بچہ5 سال کی عمر میں پہنچنے سے پہلے ہی مر جاتا ہے، 12 ملین لوگ ہیپاٹائٹس B,Cمیں مبتلا ہیں۔صرف صحت کی بات کریں تو ورلڈ ہیلتھ اورگنائزر رپورٹ کے مطابق صحت کے حوالے سے متحدہ عرب امارات دنیا میں 09 نمبر پر ہے، سعودی عرب16 نمبر پر ، ایران46 نمبر پر جبکہ پاکستان122 نمبر پر ہے۔1980 تا 1990میں پاکستان میں فریجوں اور ٹیلی ویثز ن کی موجودگی کا آج سے موازنہ کریں تو سب سے پہلے1982 میں PTV نے پاکستان میں کلر ٹیلی کاسٹ کا سلسلہ شروع کیا اس دور میں زیادہ تر گھروں میں بلیک اینڈ وائٹ ٹی وی ہی تھے اس وقت ٹی وی کی قیمت اتنی تھی کہ ہر کسی کی قوت خرید سے باہر تھا کیونکہ اگر ٹی وی کی قیمت30 ہزار تھی توتنخواہ1 ہزار تھی یعنی ٹی وی کی قیمت 30 تنخواہوں کے برابر بنتی تھی پھر وقت کے ساتھ ساتھ ٹیکنالوجی تبدیل ہوتی گئی بڑے بڑے ٹیلی ویثزن کی جگہ اب LED آچکی ہے اس ٹیکنالوجی کی تبدیلی سے مہنگے پرزوں کی جگہ انسان نے سستے پرزے ایجاد کر لئے ہیں جس کی دجہ سے اب مارکیٹ میں چائینہ کے ٹی وی 2 ہزار میں مل جاتے ہیں اب چوہدری صاحب اس ٹیکنالوجی کی تبدیلی کو سڑکوں اور میٹرو بسیں اور ٹرینیں بننے کی مرحون منت کہتے ہیں جو میری سمجھ سے بالا تر ہے۔جس شہر میں میٹرو بس رواں دواں ہے اور اورینج ٹرین بننے جا رہی ہے اس شہر لاہور میں اگر خدانخواستہ آپ نے دل کا آپریشن کروانا ہے تو پنجاب انسٹیٹوٹ آف میڈیکل سائنس جائیں وہاں پر آپ کو آپریشن کے لئے اگلے سال کی تاریخ ملے گی آپ کے ہاتھ میں جو پرچی تھما دی جائے گی اس پر لکھا ہو گا آپریشن کے لئے فروری 2017 میں تشریف لائیں۔ جناب ہم ترقی کے خلاف نہیں ہم ترجیحات کے خلاف ہیں ۔ آپ کس ترقی کی بات کرتے ہیں جس کو لاہوریوں نے ڈنڈے ،مارے ہیں اعدادو شمار کی مطابق تو جن سکولوں میں پینے کا صاف پانی اور بیت الخلاء کی سہولت میسر نہیں ان کی تعداد 2009 میں 34,890 تھی جو اب بڑھ کر 42,009 ہو گئی ہے یہ کیسی ترقی ہے ۔ آپ کے خیال میں جاپان ، ایران ، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی میٹرو ٹرینوں ہی ان کو ترقی یافتہ ممالک کی فہرست میں شامل کرتی ہیں، جب پاکستان میں بھی جاپان کی طرح 12 سو سے زائد یونیورسٹیاں بن جائیں گی، جب جاپان کی طرح سو سے زائد پرائیویٹ کمپنیاں پاکستان کے ریلولے نظام کو سنبھالا دیں گی اور پاکستان ریلوے بھی جاپانی ریلوے کی طرح حکومتی سبسڈی پر چلنے کی بجائے منافع میں جائے گا جب آئین پاکستان کے آرٹیکل نمبر25-A جس کے مطابق 3 سال سے 16 سال تک کے بچوں کی تعلیم کی ذمہ داری حکومت کی ہے اور آئین کے آرٹیکل نمبر 37-B جس کے مطابق ناخواندگی بالکل ختم کرنے اور آٹھویں تک فری تعلیم حکومتی ذمہ داری ہے پر عمل درآمد ہو جائے گا۔جب سرکاری یونیورسٹیوں میں داخلہ لینا خواب نہ رہ جائے گا۔ جب کسی کو دل کا آپریشن کروانے کے لئے ایک سال انتظار نہیں کرنا پڑے گا جب پاکستان میں کوئی بھی سکول ایسا نہیں ملے گا جس میں بنیادی سہولیات میسرنہ ہوں، جب لوگ اپنا سرمایہ ملک سے باہر نکالنے کی بجائے ملک میں لگائیں گے، جب بجلی ، گیس او رپانی کی بندش ختم ہو جائے گی، جب ہر ایک کو ڈگری ملنے سے پہلے روزگار مل جایا کرے گا۔ جب ہر گلی محلے میں سرکاری سکول ہو گا، جب ہر ایک مستحق شہری کو سرکاری خرچہ پر علاج اور دوائی مہیا ہو گی۔اس وقت ہم سمجھیں گے کہ ہم ترقی کر چکے ہیں جناب ابھی کون سی ترقی اور کون سے ڈنڈے؟
S.Mohsin Shah
About the Author: S.Mohsin Shah Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.