ایک اور خواب ۔۔۔۔۔۔؟

۲۳ مارچ ۱۹۴۰۔۔۔ ایک خواب کا آغاز تھا اور ۱۴ اگست ۱۹۴۷ ۔۔۔ اس خواب کی تعبیر کا دن تھا۔

کس نے سوچا تھا کہ ۲۳ مارچ ۱۹۴۰کو منٹو پارک میں جمع ہو کر ہزاروں مسلمانوں نے جو مطا لبہ کیا تھا اور جس کا خواب سب سے پہلے اقبال کی آنکھوں میں ایک دھنک کی صورت بکھرا تھا، اس کے رنگ اتنے پرکشش اور خوبصورت ہوں گے کہ ہندوستان کے تمام مسلمانوں کو اپنے سحر میں گرفتار کر لیں گے۔
اقبال کا خواب تھا کہ ـ اگر مسلم اکثریتی علاقوں مثلا سندھ، پنجاب، بنگال، شمال مغربی سرحدی صوبہ، کشمیر اور بلوچستان کو ملا کر ایک علیحدہ وطن کا درجہ دے دیا جائے تو مسلمان آزادی اور سکون کے ساتھ اپنے اسلامی عقائد و احکام کے مطابق زندگی بسر کر سکتے ہیں۔ اقبال کے اس خواب کو چوہدری رحمت علی نے ٭ پاکستان ٭ کے خوبصورت لفظ سے تعبیر دے دی اور قائداعظم نے اس خواب کے حصول کو اپنا مقصد زندگی بنا لیا اور پھر دنیا نے دیکھا کہ مخلص، وفادار اور پرعزم قیادت نے کس طرح صرف سات سال کے مختصر عرصے میں اس خواب کو بغیر کسی لڑائی کے، بغیر کسی خون خرابے کے، بغیر کسی جنگ کے ، تعبیر دے دی۔ اقبال تو اپنے خواب کی تعبیر نہ پا سکے مگر اپنا خواب سب کی آنکھوں میں بسا گئے ۔
پاکستان ایک اسلامی ملک کی حیثیت سے ۱۴ اگست ۱۹۴۷ کو دنیا کے نقشے پر ابھرا۔ پاکستان کا جغرافیائی محل وقوع اس قدر اہم ہے کہ اسے نظر انداز کرنا ناممکن ہے۔ پاکستان کی سرحدیں ایک طرف ایران، افغانستان اور تاجکستان جیسے اسلامی ممالک سے ملتی ہیں تو دوسری طرف چین اور بھارت سے ملتی ہیں ۔ پاکستان کے مغرب میں گرم پانی کا سمندر بحیرہ عرب ہے جو کہ بلوچستان کے وسیع علاقے کا احاطہ کرتا ہے اور سفر اور تجارت کے لیے ایک اہم ذریعہ ہے۔پاکستان معدنی وسائل سے مالامال ملک ہے۔ معدنی وسائل سے بھرپور بلوچستان کے پہاڑی علاقے، سندھ کے میدانی علاقے اور پنجاب کے زرخیز علاقے اس کو بہت زیادہ اہم بنا دیتے ہیں۔

اگر پاکستان اپنی جغرافیائی محل وقوع کو نظر میں رکھ کر اپنی خارجہ پالیسی بنائے تو پاکستان خطے میں ہمیشہ کے لیے ایک اہم مقام حاصل کر سکتا ہے۔ پاکستان اسلامی دنیا میں ایٹمی طاقت رکھنے والا ایک مسلم ملک ہے۔

سرد جنگ کے خاتمے کے بعد طاقت کا توازن سویت یونین اور امریکہ کے حق میں تھا مگر افغانستان میں سوویت یونین کی شکست کے بعد یہ مختلف ریاستوں میں تقسیم ہو گیا اور طاقت کا پلڑا امریکہ کے حق میں جھک گیا۔امریکہ جو عرصے سے دنیا کی واحد سپر پاور بننے کے خواب دیکھ رہا تھا۔ اسے اب اس کو پورا کرنے کا سنہری موقع مل گیا ۔ امریکہ جانتا تھا کہ نیو ورلڈآرڈر کو پورا کرنے کے لئے اور امریکہ کو دنیا کی واحد سپر پاور بنا نے کے لیے ضروری ہے کہ مسلم ممالک کو کمزور اور زیردست رکھا جائے چنانچہ اس کی آڑ میں اس نے پہلے افغانستان اور پھر عراق کو تباہ و برباد کر دیا۔ اور اس کی نظر اب دوسرے اسلامی ممالک پر ہے۔ ایسے میں مسلم ممالک کے اتحاد اور ایک اسلامی بلاک بنانے کی شدید ضرورت محسوس ہوتی ہے۔

۱۹۶۹ میں ایوب خا ن نے پاکستان ، ایران اور ترکی کے ساتھ اشتراک کر کے ایک تنظیم اقتصادی تعاون برائے ترقی قائم کی جس کا مقصد تینوں ممالک کے درمیان مشترکہ تجارت اور سرمایہ کاری کو فروغ دینا تھا۔ اس تنظیم کو ۱۹۹۵ میں معاشی تعاون تنظیم ) ECO ( میں تبدیل کر دیا گیا اور اس میں سات مسلم ممالک افغانستان، آذر با ئیجان، کازکستان، کرغیرستان، تاجکستان، ترکمانستان اور ازبکستان کو مزید شامل کیا گیا۔ اس تنظیم کے تحت ۱۷ جولائی ۲۰۰۳ میں ایک معاہدہ The Ecomonic Coorpation Organization Trade Agreement ( ECOTA) کیا گیا۔ اس کے علاوہ ۵ مارچ ۲۰۰۹ کو ایک معاہدہ پاکستان، ایران اور ترکی کے درمیان کیا گیا جس کے ذریعے ٹرین سروس استنبول تا اسلام آباد بذریعہ تہران چلانے کا فیصلہ کیا گیا۔ حال ہی میں پاکستان اور ایران کے درمیان گیس پائپ لائن بچھانے کا معاہدہ بھی کیاگیا ہے جس سے گیس اور بجلی کے بحران کو ختم کرنے میں مدد ملے گی۔

آج کے عالمی منظرنامے میں مسلم ممالک کو جس طرح معاشی اور دفاعی لحاظ سے کمزور کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے، اس تناظر میں ضروری ہے کہ پاکستان دیگر اسلامی ممالک کے ساتھ مل کر ایک مضبوط اسلامی بلاک کی تشکیل کرے اور ECO اور OIC کے دائرہ کار کو وسیع کر کے اقتصادی تعاون کے ساتھ ساتھ دفاعی اور تعلیمی تعاون کو بھی شامل کیا جائے۔

ایک خواب اقبال نے دیکھا تھا جس کی تعبیر پاکستان کی شکل میں آج ہمارے سامنے ہے۔

ایک خواب آزاد مضبوط اسلامی بلاک کی تشکیل اسلا می دنیا کے بہت سارے مسلمانوں کی آنکھوں میں ہے، دیکھیں اس کی تعبیر کب ، کون سا رہنما اور کون سی قیادت کرتی ہے۔

آج یوم پاکستان کے دن مسلمان نوجوان ایک اور خواب آنکھوں میں سجائے اس کی تعبیر کے منتظر ہیں۔ ہے کوئی اقبال؟ ؟ ؟ ہے کوئی قائداعظم ۔؟ ۔؟۔؟ ہے کوئی اس خواب کو تعبیر دینے والا۔؟۔؟۔؟
ختم شد
Humera Khatoon
About the Author: Humera Khatoon Read More Articles by Humera Khatoon: 8 Articles with 7068 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.