اکلوتی

 انسانی زندگی حادثات کی تھیٹر ہے۔ یہاں پرانے واقعات نئے انداز میں رونما ہوتے چلے جاتے ہیں۔ بہت سی باتیں جب ہماری آنکھوں کے سامنے وقوع پذیر ہوتی ہیں تو لگتا ہے کہ پہلے کبھی نہیں ہوئیں۔ جبکہ یہ دنیا اور یہ زندگی صدیوں سے ایسے ہی چلی جا رہی ہے اور ایسے ہی چلی جاتی رہے گی۔ آنے والے نئے انسان اس کو نیا سمجھتے رہیں گے۔ جبکہ یہ بوڑھی نئے میک اپ سے جوان بنتی رہے گی اور نوجوانوں کے دل لبھاتی رہے گی۔ بات یہی ہے اور اچھی بھی ہے کہ اگر یہ دنیا نو جوانوں کو بھی بوڑھی لگنے لگی جیسے یہ بوڑھوں کو لگتی ہے تو اس میں کیا رنگینی یا لطف رہ جائے گا۔

محمد سرور پولیس انسپکٹر کے طور پر کافی سالوں سے اپنی ڈیوٹی انتہائی ایمانداری اور جانفشانی سے انجام دے رہا تھا۔ اس کی محنت اور کام سے محبت سے ہر سپاہی اچھی طرح واقف تھا۔ اس کی اچھی شخصیت کی شہرت نہ صرف اس کے اپنے سٹیشن پر تھی بلکہ پورے ضلع کی پولیس میں اس کا تذکرہ اچھے الفاظ میں کیا جاتا تھا۔ افسر لوگ اپنے ماتحتوں میں کام اور فرائض کی انجام دہی کی تحریک پیدا کرنے کے لئے انسپکٹر سرور کی مثالیں دیا کرتے۔ انسپکٹر سرور واقعی اس تعریف کا حقدار بھی تھا کہ وہ ہر قسم کے ماحول ، موسم اور آزمائش میں اپنے کام کو کسی قسم کی پرواہ کیئے بغیر یوں پورا کرتا جیسے اسے جان کی نہیں، اپنی ڈیوٹی کی فکر ہو۔ وہ جس سٹیشن پر جاتا اس کے آس پاس کے لوگ خدا کا شکر کرتے کہ ان کو اتنا اچھا پولیس انسپکٹر مل گیا ہے جو ان کی جان ومال کا خود ان سے زیادہ محافظ اور خیر خواہ ہے۔ اگر چہ پولیس اپنی رشوت ستانی، فرائض سے کوتاہی، اور پولیس گردی کے باعث بدنامِ زمانہ ہے لیکن سرور کو دیکھ کر کوئی یہ نہیں کہہ سکتا تھا کہ یہ افسر بھی اسی محکمے کا ہے جس میں اچھائی نام کی چیز ناپید ہو چکی تھی۔ وہ اپنے محکمے میں اندھوں میں کانا راجا نہیں بلکہ اندھوں میں دور اندیش بلکہ خیر اندیش تھا۔ وہ زندگی اپنی ڈیوٹی کے نام وقف کر چکا تھا۔

سرور کے اس اچھے کردار پر لوگ باتیں کرتے کہ ابھی نیا نیا ہے ناں، کچھ مدت بعد وہ بھی باقی لوگوں جیسا ہو جائے گا۔ کوئی کہتا کہ اس کی کون سی اولاد ہے جس کے لئے باقی لوگ کرپشن کرتے ہیں۔ کوئی کہتا کہ نہیں اس کے والدین ہی اچھے تھے یہ اس کے خون کا اثر ہے جو اپنے موروثی اثرات دکھا رہا ہے۔کوئی کہتا کہ اسے کبھی کوئی بڑی آفر ہوئی نہیں جب ہو گی پھر دیکھیں گے۔ خیر جتنے منہ ، اتنی باتیں۔ اکثر لوگ اس کی تعریف اس کے کردار کی سچائی اور بڑائی کے پیشِ نظر ہی کرتے تھے۔

اتنے اچھے کردار کے بندے کو جسے قدرت کی طرف سے دل کا سکون تحفے میں ملا تھا، ایک پریشانی بھی تھی اور وہ یہ کہ شادی کو دس سال ہو چکنے کے باوجود اسے اولاد کی دولت میسر نہیں آئی تھی۔ اس نے اور اس کی گھر والی نے بہت علاج معالجہ اور دعائیں بھی کروائی تھیں لیکن قدرت کے منصوبے میں اسے اولاد سے سرفراز کرنا لگتا تھا کہ لکھا نہیں۔ اسے اس بات پر بھی صبر آجاتا کہ جو خدا کو منظور وہی ٹھیک ہے۔ وہ اپنی اس محرومی کا اظہار اکثر دوستوں کے ساتھ بھی نہ کرتا ، اور اگر کوئی دوست ،ساتھی اس کی اس محرومی کی طرف اشارہ کرتا تو وہ اسے خدا کی رضا کہہ کر ٹال دیتا ، اگرچہ وہ دل ہی دل میں اس نعمت کی محرومی پر فکر مند بھی ہوتا ۔لیکن خدا اپنے بندوں کو ان کی حیثیت کے نطابق ہی آزماتا ہے۔

ایک رات سرور اپنے اسٹیشن میں اسی ادھیڑ بن میں بیٹھا تھا کہ اولاد نہ ہونے کی صورت میں زندگی کی معنویت کیا رہ جاتی ہے۔ زندگی کا ایک بڑا مقصد اولاد کی پرورش اور تربیت ہوتا ہے جو اس کا بڑھاپے کا سہارا اور دنیا میں نام باقی رکھنے کا ذریعہ بھی ہوتی ہے۔اولاد نہ ہونے کی صورت زندگی ایسا پھول ہے جس میں خوشبو نہ ہو ، ایسا درخت ہے جس کا پھل نہ ہو، ایسا کمرہ ہے جس پے چھت نہ ہو وغیرہ قسم لے خیالات اس کے ذہن کے ڈرائنگ روم کی پر سکون فضا میں دھول اڑا رہے تھے۔ لیکن ہمیشہ کی طرح آج بھی اس کی شکر گزاری اُس کی اِس محرومی پر غالب آ رہی تھی کہ زندگی کا مقصد خدا کی رضا اور انسان کی خدمت ہے ۔ اگر یہ کام ہو جائیں تو زند گی کا مقصد پورا ہو جاتا ہے، ورنہ اولاد انسان کے لئے فتنہ بھی تو بن جاتی ہے۔اولاد کے لئے کتنی ، بلکہ ساری کرپشن ہوتی ہے، وغیرہ وغیرہ۔۔۔

وہ ابھی خیالوں کی اس مڈبھیڑ سے فارغ نہیں ہوا تھا کہ فون کی گھنٹی اس بیتابی سے بجنے لگی جیسے کسی کو سرور کی مدد کی اشد ضرورت ہو۔ اس نے فون اٹھایا :
سرور : جی ، کون؟
اجنبی آواز: سر میں اشرف بول رہا ہوں، ہم لوگ بڑے قبرستان کے کنارے ، کوٹ ناظم آباد کی سڑک پر کھڑے ہیں۔ ہمیں ایک نومولود بچی ملی ہے جسے کوئی پھینک کر فرار ہو گیا ہے۔ آپ سے گزارش ہے کہ اس معاملے میں اپنا رول ادا کریں۔
سرور: میں ابھی آتا ہوں۔
اجنبی: او۔کے

سرور چند سپاہیوں کے ساتھ ایک گاڑی میں جلدی سے بتائی گئی جگہ پر پہنچ گیا ۔ اس نے نومولود کو اسی حالت میں اپنی بانہوں میں اٹھا لیا اور شہریوں میں سے چند کے نام نوٹ کر کے اپنے اسٹیشن کی طرف جانے کی بجائے اپنے گھر کی طرف گاڑی موڑ لی۔

وہ اس نومولود کو کسی فلاحی ادارے کے حوالے کرنے کی بجائے اپنے گھر کی زینت بنانے کا رادہ کر چکا تھا۔ اس نے گاڑی سے اتر کر اس نو مولود کو جب اس نیت سے اپنے مضبوط ہاتھوں میں اٹھایا تو اسے ایسے لگا جیسے آسمان نے اپنے ستاروں میں سے ایک اس کے لئے بھیج دیا ہو، جیسے دنیا کے گلستان کا سب سے خوبصورت پھول اس کے آنگن کی رونق بننے آ گیا ہو،جیسے اس کی قسمت میں اولاد کا خانہ اب خالی نہ رہا ہو اور مہربان خدا نے اپنا ارادہ بدل کر اسے اپنی نعمتوں میں ایک اور کا انتخاب سرور کے نصیب میں لکھ دیا ہو ۔ جیسے کہ کہا جاتا ہے کہ خدا چھپر پھاڑ کر دیتا ہے۔ بس یہی کچھ آج کی رات سرور کے ساتھ کر رہی تھی۔
اس نے رات کے ایک بجے کے قریب اپنے گھر کا دروازہ کھٹکھٹایا تو کسی نے دروازہ نہ کھولا ، اس کی رات کے اس سمے گھر واپس آنے کی روٹین نہ تھی۔ وہ شام کا گیا ، صبح ہی کو گھر لوٹا کرتا تھا ۔ اس کی بیوی گھر میں اکیلی رہا کرتی ، وہ ایک بہادر خاتون تھی اور مذہبی خیالات کی مالک تھی۔ آخر اسے اپنی بیوی کو فون کرنا پڑا :
سرور: ثمینہ ،دروازہ کھولو !
ثمینہ : رات کے اس وقت، خیر تو ہے ، سب ٹھیک ہے ناں !
سرور: ہاں ، ثمینہ ، گھبراؤ نہیں ، سب ٹھیک ہے، دروازہ کھولو!
ثمینہ : اچھا کھولتی ہوں !

دروازہ کھلتے ہی سرور نے وہ بچی ثمینہ کی بانہوں میں تھما دی اور کہا کہ اﷲ نے اس نومولود کو ہمارے لئے اس دنیا میں بھیجا ہے۔ ثمینہ کو کچھ تجسس ہوا ، لیکن وہ بات کی نزاکت بھانپ چکی تھی۔ اس نے پیار سے بچی کا منہ چوما اور کہا کہ جو خدا کو منظور ، وہی ٹھیک ہے۔ ہم اسے اپنی اولاد سمجھ کر پالیں گے۔ باقی ساری کہانی سے سرور نے چند لمحوں میں ثمینہ کے کانوں کو آگاہ کر دیا۔وہ بھی خدا ترس ، رحم دل اور مادری شفقت سے مزین خاتون تھی۔ اس نے اس بچی کو قبول کرنے میں کسی پریشانی اور شک، شبہ کو اپنی سوچوں میں انتشار پیدا کرنے کی قطعاً اجازت مرہمت نہ فرمائی۔ اس نے جلد ہی نومولد کی خوراک، پوشاک وغیرہ کی فکر کی اور اس بچی کو ، جو کہ لا شعور کے پتہ نہیں کن جہانوں اور آسمانوں پر تھی، اتنا پیار کیا کہ اگر وہ جان پاتی تو خدا کا شکر کرتی ساری زندگی بیتا دیتی۔لیکن وہ ابھی ملکِ لا شعور کی شہری تھی اور شعور کی سلطنت کا ویزہ لینے کے لئے اسے ابھی کئی مہینوں یا چند سالوں کا انتظار کرنا تھا۔

خون کے رشتے بھی کبھی، کبھی خونی رشتوں میں ڈھل جاتے ہیں۔ وہ سارے بہن بھائی جو کچھ دن پہلے بڑے میٹھے اور قریبی تھے، اور سرور کی اولاد کے ہونے کے لئے ہاتھ اٹھا ، اٹھا اور جھولیاں پھیلا پھیلا کر دعا مانگا کرتے تھے، یک دم منہ کیوں موڑ گئے اور ان کی آنکھوں میں اتنی غیریت کیوں سما گئی۔ سرور نے تو کسی کو کچھ بھی نہ کہا تھا، اور نہ ہی اس کی بیوی نے کسی سے کوئی بد کلامی کی تھی۔ وہ منہ موڑ اور سر جوڑ کر باتیں کرنے لگے کہ’ یہ ناجائز بچی پتہ نہیں کس کی اٹھا لائے ہیں، وہ بچی گناہ کی پیداوار ہے، اس کا گھر پر سایہ منحوس ہو گا، وہ خاندان کی عزت پر ایک بہت بڑا دھبا ہے، اسے چھوڑ دیا جائے۔ انہوں نے اس کے ہوتے ہوئے سرور سے تعلق نہیں رکھنا ۔ سرور نے اگر کسی بچے کا اپنانا ہی تھا تو ان کاکوئی بچہ لے لیتا، کسی غیر کا بچہ اور وہ بھی نا جائز‘۔۔۔ یہ بات ان کو ایک آنکھ نہ بھائی۔ کہا ں وہ سرور کے گھر اپنی اولاد کو کھیلتا کودتا دیکھتے اور اس کی دولت پر مستقبل میں اپنے قبضے کے خواب دیکھتے۔ جو کہ اس بچی کے اچانک آ جانے سے چکنا چور ہو چکے تھے۔ وہ اتنی بڑی ذہنی تبدیلی کے بعد ، اپنی آنکھوں اور چہرے کے تاثرات کو کیسے اپنے کنٹرول میں رکھ سکتے تھے۔

وقت ،جذبات کی شدت میں از خود کمی لے آتا ہے۔ آہستہ، آہستہ حالات معمول پر آتے گئے اور تعلقات کی بحالی کسی حد تک ہوتی گئی۔ بھائیوں میں جائیداد کی تقسیم اور دوسرے معاملات کا ارتقاع وقوع پذیر ہوتا گیا۔ کافی سال بیت جانے کے بعد وہ بچی عاصمہ سرور کے نام سے ایک نو جوان نرجس کی شکل اختیار کر چکی تھی۔ اس کی تعلیم و تربیت میں سرور اور ثمینہ نے اگر کوئی کسر چھوڑی تھی تو بس یہ تھی کہ وہ اپنی جان اس کے نام وصیت نہیں کر سکے تھے باقی ہر چیز انہوں نے اپنی اس آسمانی دلاری کے لئے وقف کر چھوڑی تھی۔ اور عاصمہ بھی ایسی نوجوان لڑکی کے روپ میں سامنے آئی کہ خاندان میں ایسی نفیس ، حسین اور سلیقہ شعار کوئی اور لڑکی نہ تھی۔ اس کے سارے خاندان میں چرچے تھے ،اگرچہ ان میں حسد اور منافرت کے جذبات نمایاں تھے۔ حسد بھی تو کسی بڑھیا چیز سے کیا جاتا ہے۔جو اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہوتا ہے کہ کوئی چیز قابلِ رشک ہے۔ وہ تعلیمی لحاظ سے بھی اول پوزیشنوں پر آنے والی تھی اورہم نصابی سرگرمیوں میں بھی اپنا لوہا منوا لیتی۔ اسے بعض اوقات پریشانی بھی ہوتی اور اس کے ماضی پر سوالیہ نشان بھی لگانے کی کوشش کی جاتی لیکن سرور اور ثمینہ کی محبت اسے کسی بیگانگی کے احساس کو پنپنے ہی نہ دیتی۔ وہ اب جوانی کی نازک سیڑھی چڑھ رہی تھی اور سرور اور ثمینہ کو اس کی شادی کی فکر دامن گیر ہونے لگی تھی۔یہ فکر فطرتی، معاشرتی اور وراثتی ہے۔ ایک بار پھر سرور اور ثمینہ کو اپنی تنہائی کا احساس اپنا آپ جتانے لگا تھا۔ لیکن بیٹی تو آخر بیٹی ہوتی ہے اس نے اپنے گھر جانا ہوتا ہے، اس نے ماں باپ کے گھر بیٹھے تو نہیں رہنا ہوتا۔اور پھر اکلوتی بیٹی جو ایک جان نہیں ، دونوں والدین کی جان بلکہ اس سے بھی زیادہ پیاری ہوتی ہے۔ اور پھر عاصمہ جیسی قابلِ محبت اور شفقت آفریں بیٹی جسے ماں، باپ جدا کرنے کا سوچتے ہی اداس ہوا میں سانس لینے لگتے۔

سرور اور ثمینہ نے برادری میں اس بات کا بلواسطہ اظہار کیا کہ وہ عاصمہ کے لئے رشتہ تلاش کر رہے ہیں ،اس خیال سے کہ شاید کوئی اپنا ہی اسے اپنانے پر رضا مند ہو جائے۔ لیکن کافی انتظار کے بعد مایوسی ہوئی کہ بہن، بھائیوں میں سے کوئی بھی یہ رشتہ اپنے گھر نہیں لیجانا چاہتا۔ اگرچہ اس کے ساتھ بہت سارا مالی مفاد بھی منسلک تھا۔ شاید وہ سرور اور ثمینہ سے ماضی کی من مانی کا بدلہ لینا چاہتے تھے، شاید وہ عاصمہ کے خلاف اتنی زہر آلود باتیں اگل چکے تھے کہ اب وہ اس کا رشتہ لینے سے کترا رہے تھے، شاید ان کے لا شعور میں عاصمہ کی پیدائش کی کیفیت سے بہت بڑی نفرت منسلک ہو چکی تھی، شاید وہ اسے کہیں دور بھیجنے کے خیال میں ہی اپنی تمام نفرتوں کی تسکین پاتے تھے۔ آخر کچھ نہ کچھ تو تھا ہی کہ عاصمہ جیسی لڑکی کا رشتہ قریبی رشتہ دار لینے سے گریزاں تھے۔یہ بات سرور اور ثمینہ کے لئے اور بھی پریشان کن تھی کہ آخر وہ عاصمہ کو زندگی کے صحرا سے گزرنے کے لئے کس کے حوالے کریں، وقت کی بھی ایک مہلت ہوتی ہے۔ وقت نے بدلنا اور انسان نے ڈھلنا بھی ہوتا ہے۔دراصل سرور اور ثمینہ دونوں ڈھل چکے تھے۔ دونوں بلڈ پریشر اور شوگر جیسی لائف لانگ بیماریوں کا شکار ہو کر تیزی سے انحطاط و زوال کا شکار ہو رہے تھے۔ ان کا ارادہ تھا کہ کوئی انہونی ہونے سے پہلے ،پہلے وہ عاصمہ کو اپنے گھر والی بنا دیں۔

انہونی نے بھی پتہ نہیں اس وقت کیوں ہونا ہوتا ہے جب اسے نہیں ہونا چاہیئے۔ایک شام عاصمہ اپنی ماں، ثمینہ ،کا سر دبا رہی تھی جو دو گھنٹوں سے درد کئے جا رہا تھا ، اور دونوں ماں ، بیٹی آپس میں چھوٹی، چھوٹی باتیں کر رہی تھیں کہ اچانک ثمینہ کے دل میں درد کی شدید ٹیس اٹھی اور وہ ساتھ ہی بے ہوش ہو گئی۔ عاصمہ کی جان پر بن گئی۔ جلدی سے ڈاکٹر کا پتہ کیا ،لیکن ڈاکٹر کے آنے سے پہلے ہی ثمینہ کا جسم برف کی سی ٹھنڈک میں ڈوب چکا تھا، دل کی دھرکن محسوس نہ ہو رہی تھی۔ ڈاکٹر نے چند منٹوں کے چیک اپ کے بعد تصدیق کی کہ ثمینہ کسی اور دنیا میں جا چکی ہے۔ سرور ، اور عاصمہ کی زندگی اندھیر ہو چکی تھی۔ شادی کی باتوں والے گھر کی دیواریں ماتمی چہروں کے ساتھ خاموش کھڑی یہ منظر دیکھ رہی تھیں۔ لیکن تقدیر کے آگے کس کی تدبیر چلی ہے؟

سرور کو ریٹائر ہوئے چند سال ہو گئے تھے۔ اس نے ریٹائرمنٹ پے ملنے والی رقم کا ایک حصہ عاصمہ کی شادی کے لئے مختص کر دیا تھا اور دوسرا حصہ ایک خیراتی ادارے کو دے دیا تھا۔ اس کی اپنی اکیلی جان کا گزارہ اس کی پنشن کی رقم پر بآسانی ہو سکتا تھا۔ لیکن ابھی عاصمہ کی شادی ہونا تھی۔ ابھی توا س کا رشتہ بھی طے نہ ہوا تھا کہ ثمینہ ساتھ چھوڑ گئی تھی۔

ایک سہ پہر ، سرور کا ایک کولیگ ملنے آیا جو کہ کبھی کبھی آ جایا کرتا تھا ، وہ بھی ریٹائر ہو چکا تھا۔ اس نے ایک رشتے کی بات کی کہ گھر اچھا ہے، لڑکا ایم۔ اے انگلش ہے۔ فیملی اچھی ہے۔ لڑکے کا بھائی بھی پولیس کے محکمے میں افسر ہے۔ لڑکا ابھی جاب نہیں کرتا ، لیکن جاب مل ہی جائے گی۔ سرور نے مناسب سمجھا اور مذید بات چیت کا پروگرام بنایا گیا۔ انہوں نے کہا کہ لڑکا گھر داماد بننے پر بھی تیار ہے۔دیکھنے میں بھی بھلا لگتا ہے۔ دو بھائی اور ایک بہن ہے ، فیملی بھی چھوٹی ہے، والدین دونوں فوت ہو چکے ہیں۔

سرور کو رشتے میں کافی معقولیت نظر آئی۔ اس نے عاصمہ سے اس بارے مشورہ کیا ۔ اس بیچاری نے کیا کہنا تھا۔ وہ تو یہی کہتی تھی کہ اس نے شادی نہیں کروانی ، وہ بس اپنے باپ کی خدمت میں زندگی گزارنا چاہتی ہے ، لیکن بیٹیوں کو گھروں میں ایسے تو نہیں رکھا جا سکتا۔آخر سرور نے اپنے بڑھاپے اور بے بسی کے واسطے ڈال کر عاصمہ کو شادی کے لئے رضا مند کر ہی لیا ۔ عاصمہ کو یہ بات اچھی لگی کہ شادی کے بعد بھی اسے گھر سے جانا نہیں پڑے گا اور وہ اپنے باپ کی ہر طرح سے خدمت کر سکے گی اور اس کا خیال بھی رکھ سکے گی۔ چنانچہ منگنی وغیرہ کے ساتھ ہی شادی کی تاریخ پکی کر دی گئی۔

اگلے گھر والوں نے ایک مطالبہ رکھ دیا کہ نکاح شادی سے ایک مہینہ یا کم از کم دو ہفتے پہلے ہو جائے تا کہ شادی کے موقع پر بس بارات آئے ، کھانا ہو اور پھر رخصتی ہو جائے۔ یہ شرط بھی خوش دلی سے مان لی گئی۔ چنانچہ ان کا نکاح کر دیا گیا ۔ آخر گنتے، گنتے شادی کی تاریخ بھی ایکسپریس ریل کی طرح دیکھتے ہی دیکھتے سر پر آن پہنچی، اگر چہ گھر میں ہی رہنا تھا لیکن پتہ نہیں عاصمہ کا دل کرتا تھا کہ وہ کئی کئی گھنٹے بیٹھی اپنے باپ کا چہرہ دیکھتی رہے، دیکھتی رہے ، اور بس دیکھتی رہے۔ لیکن جب وہ لگاتار اپنے بوڑھے باپ کا جھریوں بھرا چہرہ دیکھنے کی کوشش کرتی ، اس کا باپ اس کی طرف دیکھ لیتا ، عاصمہ کو اپنی نظریں جھکانی پڑ جاتیں۔ سرور کا دل خوشی اور غمی کا کھٹا، میٹھا ذائقہ لئے ہوئے تھا۔ وہ سوچ رہا تھا کہ آنے والا داماد اس کے اور اس کی لاڈلی بیٹی کے ساتھ پتہ نہیں کیسا برتاؤ کرے گا۔ خیر وہ بھی پولیس کا ریٹائرڈ آفیسر تھا ، آسانی سے دبنے والا نہ تھا،لیکن بڑھاپا شیر کو بھی بھیگی بلی بنا دیتا ہے۔ وہ کبھی کبھی عاصمہ سے مذاق سے کہتا کہ ’ بھئی اب آپ لوگوں کی حکومت آنے والی ہے، دیکھیں بوڑھے کا کیا حشر ہو تا ہے؟‘ عاصمہ ایسی بوتوں پر شرما سی جاتی اور جلدی سے اپنے باپ کے سینے سے لپٹ کر رونا شروع کر دیتی۔ سرور اسے جلدی سے دلاسہ دیتا اور اس کے ماتھے کو چومتے ہوئے اسے پھر سے گلے لگا لیتا اور دیر تک پیار کرتا ۔۔۔

شادی کی مقررہ تاریخ میں صرف دو دن باقی تھے کہ عاصمہ کے سسرال والوں کی طرف سے ایک دل دوز پیغام آیا کہ شرافت، جس سے عاصمہ کی شادی طے پا ئی تھی، دوبئی جا رہا ہے۔ اس نے عاصمہ کی ٹکٹ بھی لے لی ہے، اور شادی کی رات ہی ان کی فلائٹ ہے۔ بلکہ شادی ہال سے سیدھے انہیں ائیر پورٹ ہی جانا پڑے گا ۔ یہ بات سرور اور عاصمہ کے لئے ایک تباہ کن زلزلے سے کم نہ تھی۔ وہ تو یہ سوچ رہے تھے کہ شادی کے بعد کی باتیں کیسی ہوں گی۔ یہ تو با لکل ہی نا قابلِ قبول بات تھی۔ عاصمہ نے تو فوراً شادی کی منسوخی کا اظہار کر دیا ۔ لیکن بوڑھے سرور کے لئے یہ لمحہ بہت ہی بڑے صبر اور آزمائش کا تھا۔ وہ تو بوڑھا ہی تھا اور اس کا دنیا میں قیام بھی مختصر ہی رہ گیا تھا۔ وہ اپنی جان کے لئے اپنی بیٹی کا مستقبل اندھیر نہیں کرنا چاہتا تھا۔ پہلے ہی رشتہ بڑی مشکل سے ملا تھا۔ اس کی آنکھیں بھی ساون کی طرح برس رہی تھیں اور عاصمہ تو چپ ہو ہی نہیں رہی تھی۔ اس کا تو دل کرہا تھا کہ خود کشی کر لے، لیکن اس کے تمام جذبات کے آگے اس کے باپ کی سفید داڑھی رکاوٹ تھی، وہ بہت کچھ کر گزرتی اگر اس کا باپ بوڑھا یا زندہ نہ ہوتا ۔ اب اسے اپنے باپ کی عزت کی خاطر وہ سب کچھ برداشت کرنا تھا جو وہ کسی طور بھی نہیں کرنا چاہتی تھی۔سرور کے سامنے اس کی برادری، اور سوسائٹی تھی جس نے اس کا جنازہ پڑھنا تھا۔ وہ کس منہ سے انکار کرتا ۔ اس معاشرے میں بیٹی والوں کو سر نگوں ہونا ہی پڑتا ہے۔ وقت بھی تو اس حق میں نہ تھا کہ عاصمہ کو گھر میں مذید رکھ لیا جاتا ۔ ثمینہ نے جلدی کوچ کر کے سرور کی پریشانیوں میں اضافہ کر دیا تھا اور اب اس کا وقت بھی قریب سے قریب ہو رہا تھا ، عاصمہ کا اکلوتا پن دنیا میں تحفظ سے محروم تھا۔ اسے کسی نہ کسی کے سپرد کرنا ہی بہتر تھا۔ جو قدرت کو منظور!

شہر کے سب سے مہنگے شادی ھال کی بکنگ کروائی گئی۔ مقررہ تاریخ پرمہمانوں کو مدعو کیا گیا ۔ جن میں سرور کے کچھ کو لیگ، کچھ رشتہ دار اور عاصمہ کی بہت سی سہیلیاں، اور ٹیچرز شامل تھیں۔ سب کو علم تھا کہ عاصمہ شادی ھال سے سیدھی ائیر پورٹ جا رہی ہے۔ پھر جانے کبھی ملاقات ہو ،نہ ہو ۔ سب کو اس کی شادی کی خوشی سے زیادہ اس کے بچھڑ جانے کا صدمہ تھا۔ کھانا بھی کسی نے پیٹ بھر کر نہ کھایا ۔ کھانا بھی اسی وقت کھایا جاتا ہے جب دل کر رہا ہو۔ جب دل خود خون کے آنسو رو رہا ہو تو کھانا کسی نے کیا کھانا ہے۔ بارات وقت پر آگئی تھی اور پھر کھانے کی دیر تھی کہ جدائی کا بگل بجنے والا تھا۔ کھانا بھی سرور نے خوب شاندار تیار کروایا تھا۔ اس کی پہلی اور آخری دعوت تھی جو اس نے تمام زندگی اس انداز میں کسی کو دی تھی یا دینی تھی اور پھر یہ سب کچھ تو اس کی پیاری بیٹی عاصمہ کے لئے تھا ۔ جسے وہ بار بار دیکھے جا رہا تھا۔ عاصمہ آج دلہن بنی اپنی سہیلیوں کے جھرمٹ میں سجی بیٹھی تھی۔ اس کا باپ بار بار ثمینہ کو یاد کر رہا تھا کہ کاش وہ آج ہوتی اور جاتے ہوئے اپنی بیٹی کے سر پر پیار کا ایک ہاتھ ہی رکھ دیتی۔ آنسواسے بار بار اپنے دل کے اظہار کی دعوت دے رہے تھے ،لیکن وہ پھر کسی نہ کسی کام میں مصروف ہو کر اس خیال کو دل پر وار کرنے کی اجازت نہ دیتا ! ! !
آخر وہ لمحہ آن پہنچا جو دلوں کو ریزہ، ریزہ کر کے آنکھوں کے رستے بہا دیتا ہے۔ عاصمہ کے آنسو بہے جا رہے تھے، بہے جا رہے تھے،بس بہے جا رہے تھے۔ اس کو چپ کرانے کی کوشش میں اس کی سہیلیاں بھی اپنی آنکھوں میں پانی کی مشکیں بھر بھر کے ابل رہی تھیں۔آخر دلہا ، دلہن کو لینے آگیا ۔ وہ کچھ دیر بیٹھا، تحفے وصول کئے اور پھر کچھ ہی وقت بعد روانگی کی باتیں ہونے لگیں : ’فلائٹ کہیں مس نہ ہو جائے‘!

آج سرور اور ثمینہ کے وہ رشتے دار جن کا کبھی موڈ سیدھا نہ ہوا تھا، عاصمہ اور سرور کے آنسوؤں میں اپنے دل کی تپش میں کمی محسوس کر رہے تھے اور کئی افسوس بھی کر رہے تھے کہ عاصمہ کا رشتہ لے ہی لیتے تو اچھا تھا لیکن اب وقت پیچھے نہیں جا سکتا تھا۔

آخر بوڑھے باپ سرور کا ہاتھ آخری بار اپنی پیاری لختِ جگر کے سر کی طرف بڑھا ، عاصمہ جھٹ سے اپنے باپ سے لپٹ گئی اور چاہتی تھی کہ اسے وہیں موت آ جائے اس میں اپنے باپ سے جدا ہونے کا حوصلہ نہ رہا تھا یہ حوصلہ سرور میں بھی تو نہیں تھا لیکن اس کا بڑھاپا اسے مجبور کر رہا تھا کہ کسی کی امانت زیادہ دیر اپنے گھر میں رکھنے کا وقت نہیں رہا ۔ وہ اپنا فرض ادا کر کے سبک دوش ہونا چاہتا تھا۔ وہ ساری عمر ایک فرض شناس پولیس آفیسر تو رہا تھا وہ اس بڑے فرض سے کیسے غفلت برت سکتا تھا۔ عاصمہ کو بڑی مشکل سے اپنے باپ سے جدا کیا گیا، کیوں کہ یہ دستورِ زمانہ ہے کہ جدائی نے جیتنا ہوتا ہے۔عاصمہ کو سہارے کے ساتھ چلاتے ہوئے کار میں بٹھا دیا گیا جسے بھی دلہن کے سے انداز میں سجایا گیا تھا۔ کچھ ہی منٹوں بعد گاڑیاں ’گیں! گیں!‘ کرنے لگیں اکثر و بیشتر مہمان بھی اپنے گھروں کو روانہ ہو چکے تھے اور باقی ماندہ ہو رہے تھے۔

سرور کے ساتھ بس ایک دو ساتھی رہ گئے تھے جو اس کے ساتھ شادی ھال کے مالک سے اخراجات کا حساب بے باک کرنے جا رہے تھے کہ اچانک سرور کا شکستہ دل کسی حادثے کا شکا ر ہو گیا ۔ فوراً ریسکیو والوں کو فون کیا گیا ۔ چند منٹ میں، خوفناک آوازیں نکالتی، ایک ایمبولینس شادی ہال کے سامنے کھڑی تھی۔ ریسکیو کے جوانوں نے بڑی پھرتی سے سرور کو ایمبولینس میں ڈالا اورڈی۔ ایچ۔ کیو کی طرف گامزن ہو گئے ۔ ڈی ایچ کیو نے ہر مسئلے کا ایک ہی فارمولا بنایا ہوا تھا جو سرور پر بھی لگا دیا گیا ـ’ مریض کو لاہور لے جائیں‘۔ چنانچہ وہ ایمبولینس لاہور کی شاہراہ پر ڈگ بھرنے لگی۔ ابھی سرور کی زندگی ، موت و حیات کی کشمکش میں تھی اس کا سانس بحال کرنے کی کوشش ہو رہی تھی وہ ابھی اسی دنیا میں تھا لیکن دوسری دنیا کی کشش بہت زیادہ لگ رہی تھی کہ جیسے اس کا فرض ادا ہو گیا ہے ،اب اُس کا اِس دنیا سے کیا کام ! اب اسے اس دنیا کا راہی بن جانا چاہیئے جہاں ثمینہ کئی سال پہلے جا چکی تھی۔ ریسکیو جوان بڑی جانفشانی سے اپنی ڈیوٹی ادا کر رہے تھے۔
چلتے ،چلتے گاڑی اس دوراہے پر پہنچ گئی جہاں سے ایک سڑک لاہور کے ایک بڑے سرکاری ہسپتال کو اور دوسری ائیر پورٹ کو جاتی تھی۔ جیسے ہی گاڑی نے ٹرن لے کر ہسپتال کا رخ کیا ، سرور کا سر یک دم ایک طرف کو لپک گیا ! ریسکیو جوان کے منہ سے نکلا’ آہ‘ مریض دم توڑ گیا ۔ لیکن ان کی گاڑی ابھی ہسپتال کی طرف محو حرکت تھی ۔ شاید انہوں نے ڈاکٹر سے تصدیق کروانی تھی کہ مریض کہاں ہے: اِس دنیا میں کہ اُس دنیا میں‘؟ اور شاید اس تصدیق کی چنداں ضرورت بھی نہ تھی سرور کا پیچھے پوچھنے والا کون تھا؟

عاصمہ فلائٹ کے انتظار میں مسافر لانچ میں بیٹھی تھی کہ اس کی نظریں ایک بوڑھے شخص پر مرکوز ہو گئیں۔ اسے لگا کہ اس کا پیارا باپ سرور بھی اس کے پیچھے ائیر پورٹ پے آگیا ہے، جیسا کہ وہ عاصمہ کے پیچھے اس کی سہیلیوں کے گھروں میں اسے لینے چلا آیا کرتا تھا۔ وہ اس شخص کو غور سے دیکھنے لگی اور شش وپنج میں تھی کہ کیا واقعی اس کا باپ اس کے پیچھے آگیا ہے ۔ تھوری دیر بعد وہ شخص عاصمہ کے قریب سے گزر گیا یہ کوئی اور شخص تھا جس کی شکل حیرت انگیز طور پر سرور سے مشابہ تھی !!!
Niamat Ali
About the Author: Niamat Ali Read More Articles by Niamat Ali: 178 Articles with 285063 views LIKE POETRY, AND GOOD PIECES OF WRITINGS.. View More