پاکستان کا دورہ ثالثی ۔۔۔۔۔!

بہت پہلے کی بات ہے کسی گاؤں میں کچھ خاندان ایک ساتھ میں رہتے تھے ،اچھا اخلاق اور اتفاق ان خاندان کو آپس میں جوڑے ہوئے تھا، وہ ایک دوسرے کی ہر مشکل گھڑی میں ساتھ دیتے تھے ،ساتھ دینے کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ انکے بزرگوں نے قسمیں کھائی تھیں کہ ہم مل کر نہ صرف اپنے خاندان کو بہتر بنائینگے بلکہ اس گاؤں کی بہتری کیلئے بھی پیش پیش رہے گے،مگر ان میں سے چند اناء پرستی اور علمی اعتبار سے ایک دوسرے میں امیتاز ضرور کرتے دیکھائی دیتے تھے ،اس وجہ سے اکثر و بیشتر ان میں لڑائی رہتی تھی ،کبھی کوئی کسی کو نیچا دیکھانے اور خود کو بہتر پیش کرنے میں مصروف ہو تو کبھی کوئی کسی سے افضل ہونے کیلئے فلاحی کاموں میں مصروف عمل ہو ،کبھی کوئی اپنی تجارت کو اس نیت سے وسیع کر تا کہ سب اس کے پاس روزگار مانگنے کیلئے آئیں تو کبھی کوئی کسی کو غلط ثابت کرنے کیلئے مختلف ہربے کرتا ، مگر اسی خاند ان میں ایک گھر ایسا بھی تھا جو تنولی ہاؤس کے نام سے جانا جاتا تھا ،تنولی ہاؤس کے افراد دانشوار اور ذی شعور تھے ، انہوں نے بہت سارے خاندانی مسائل کو حل بھی کیا ،جسکی وجہ سے ان کو ایک خاص مقام حاصل تھا ،تنولی ہاؤس میں چار افراد رہتے تھے جس میں میاں بیوی اور دو بچے شامل تھے،والدین کیساتھ بچے بھی عمر کے اس حصے میں تھے کہ وہ بھی ذی شعور تھے ،میاں اور بیوی خاندانی مسائل میں ثالثی کا کردار ادا کرتے تھے، اسی وجہ سے دوسرے خاندانوں میں بھی ان کے چرچے عام تھے ۔اکثر اوقات ایسا بھی ہوتا کہ کسی ایک گاؤں میں اگرشوہر کسی مسئلے کے حل کیلئے گیا ہو تو بیک وقت اسکی بیوی بھی کسی اور گاؤں میں مسئلے کو سلجھانے میں لگی ہوئی ہو ، یہ منظر دیکھنے والوں کی نظروں میں اس لیے بھی اہم تھا کہ گاؤں کے لوگوں کے مسائل آئے روز حل ہو جاتے، شاہد یہی وجہ تھی کہ وہاں کہ تمام لوگ خوشی خوشی زندگی بسر کرنے لگے ،ماں اور باپ کو دیکھ کر بچے بھی دوستوں کی مشکلات کو حل کرنے میں مثبت کردار ادا کرنے لگے،اسی وجہ سے اس گھر کو بہت ہی مقبولیت حاصل تھی ،بظاہر تو یہ گھردسروں کیلئے کسی مسیحا سے کم نہیں تھا ،مگر اس حقیقت سے بھی انکاری نہیں تھی کہ جو دوسروں کے دکھ اور مسائل کو احسن طریقے سے حل کرتا تھے ان کا گھر خود مسائل کی آماجگاہ تھا ،جو دوسروں کو گھر چلانے کے طریقے بتاتے تھے وہ خود کے مسائل کو کبھی حل ہی نہیں کر پائے،تنولی ہاؤس کے یہ افراد ددسروں کی نظر میں تو ذی شعور تھے مگر حقیقت میں وہ کسی جاہل سے کم نہیں تھے ،ان کے اردگر د چند ایسے لوگ تھے جو یہ باخوبی جانتے تھے کہ جودوسروں کی نظر میں مسیحاہیں وہ اصل میں اپنے گھر کے مسائل کو ساری عمر حل ہی نہیں سکتے، ان کے گھر میں آئے دن ایسی لڑائیاں ہونے لگے کے وہ اب صبح سے شام تک گھر میں ہی بند ہو کر رہنے لگے اوراب ہر وقت ان کے گھر سے اتنا شور برپا ہونے لگا کہ آس پاس کے لوگ ان سے تنگ آنا شروع ہو گے ۔

با ت یہاں تک ہی ختم نہیں ہوئی آپس میں ان کی لڑائیاں اس قدر بڑھنا شروع ہو گئیں کہ اب ان کے گھر کی اکثر لڑائی ختم کروانے کیلئے نہ صرف دوسرے گاؤں کے لوگ آیا کرتے بلکہ شہر سے چند فہم و فراست رکھنے والے افراد بھی آئے اور اس گھر میں رہنے والوں کی لڑائی میں بہتر ثالثی کا کردار ادا کرتے ہوئے مسائل کو حل کروا ۔جب گھر کے مسائل حل ہوئے تو پھر انہوں نے یہی سمجھا کہ اب وہ پھر سے اپنا کھویا ہوا وقار حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائینگے ،اس کیلئے انہوں نے پھر سے جتن کرنا شروع کر دیئے، کھوئی ہوئی عزت کو برقرار رکھنے کیلئے جب انہوں نے پھر شروعات کی تو پہلی ہی لڑائی میں دونوں کی موجودگی ان کی بدنامی کا سبب بنی ،جرگے میں بیٹھے ہر شخص نے ان پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ جو ابھی تک خود کے مسائل حل کروانے کیلئے شہر سے چند با اثر شخصیات کو دعوت دیتے ہیں وہ ہمیں کیا بتلائیں گے کہ صیح کیا ہے اور غلط کیا ہے،اتنا سب ہونے کہ بعد بل آخر انہوں نے تنولی ہاؤس کو خالی کرنے کا فیصلہ کر دیا اور اس گاؤں کو خیر آباد کہہ کر شہر کی طرف راوانہ ہو گے اور قسم کھا لی کہ اب کہیں بھی کسی بھی لڑائی میں داخل اندازی نہیں کرینگے ۔

بظاہر تو یہ ایک کہانی ہے مگر یہ حقیقت کے اس لیے قریب ہے کہ چند دن پہلے پاکستان کے وزیراعظم میاں محمد نواز شریف اور پاک فوج کے سربراہ ،آرمی چیف جنرل راحیل شریف سعودی عرب ا ور ایران کے درمیان کشیدگی کو ختم کروانے کیلئے ثالثی کا کردار ادا کر رہے تھے ،تہران میں پاکستان کے وزیراعظم میاں نواز شریف نے یہ بھی کہا کہ پاکستان خطے میں استحکام چاہتاہے جس کیلئے مسلم امہ کا اتحاد وقت کی اہم ضرورت ہے ،پاکستا ن سعودی عرب اور ایران کے درمیان کشیدگی ختم کرانے کیلئے بھرپور کردار ادا کرنا چاہتا ہے۔سب سے پہلے تو میں میاں محمد نواز شریف اور جنرل راحیل شریف کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں جنہوں نے ثالثی کا کردار ادا کیا ۔مگر کوئی اس سے نا آشنا نہیں ہے کہ پاکستان گزشتہ 15 سالوں سے خود دہشتگردی کا شکار ہے ، تمام سیاسی جماعتیں وزیراعظم بننے کیلئے ایک دوسرے کو رگڑر رہی ہیں ، اقتدار کی لالچ نے پاکستانی لیڈروں کو اندھا کر دیا ہے ،پاکستانی ہاؤس میں سیاسی اور عسکری قیادت کی لڑائیوں سے بھی تمام لوگ آشنا ہیں، وزیراعظم نواز شریف کی حکومت کا یہ آخری سال ہے مگر حیرت کی بات یہ ہے کہ نہ دہشگردی ختم ہوئی نہ غربت کا خاتمہ ہوا ،نہ بجلی کا بحران ختم ہوا اور نہ ہی گیس کا مسئلہ حل ہوا ، پھر بھی وزیراعظم نواز شریف اسمبلی آنے کے بجائے بیرونی دوروں کو ہی ترجیح دیتے ہیں۔

آخر میں اتنا کہوں گا کہ جو لوگ اپنی لڑائیوں کو نہیں حل کر سکتے،جو لوگ اپنے گھر کو امن کا گہواہ نہیں بنا سکے ،جو لوگ اپنے عوام کے مسائل حل نہیں کر سکے ،وہ کسی منہ سے بیرونی دورے میں ثالثی کا کردار ادا کر رہے ہیں ۔
M A Doshi
About the Author: M A Doshi Read More Articles by M A Doshi: 20 Articles with 17558 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.