طلبہ یونین بحال نہ کی جائیں

طلبہ یونینز پر پابندی اٹھانے کا فیصلہ تعلیمی تباہی کا باعث بنے گی اس لئے طلبہء یونینز پر پابندی برقرار رہنی چاہئے۔ تاہم ٹیٹوریل گروپ کی صورت میں طلبہ کو ہم نصابی سرگرمیوں میں تحریر و تقریر کے جوہر سکھانے اور دکھانے کے بھرپور مواقع ملتے رہنے چاہئیں۔ بہرحال طلبہ یونین میں سیاسی پارٹیوں کے گھناؤنے کردار نے طلبہ کے ہاتھوں سے کتابیں چھین کر کلاشنکوف تھمادی۔ سیاست دان اپنے مکروہ عزائم کی تکمیل کے لیے طلبہ کو استعمال کررہے ہیں۔ سیاسی جماعتیں اپنی ذیلی تنظیموں کی سرپرستی کرتی ہیں۔ اس صورتحال نے ہزاروں معصوم نوجوانوں کو جرائم کی پرخطر راہ پر ڈال دیا ہے۔ پاکستان میں قائم اعلی تعلیمی اداروں میں مختلف سیاسی جماعتوں کی ونگز متحرک ہیں، جس کی وجہ سے نوجوان سیاسی عمل میں شرکت کے بجائے منفی سرگرمیوں میں ملوث ہورہے ہیں۔ صورت حال اس قدر پیچیدہ ہے کہ یہ تنظیمیں کسی دوسری تنظیم کو اپنے مقابل ان تعلیمی اداروں پر برداشت نہیں کرتیں، ان طلبہ تنظیموں کے قائدین کی مرضی و منشا کے بغیر چڑیا بھی پر نہیں مار سکتی۔ جابرانہ اور غلامی کی زنجیروں سے جکڑا ہوا تعلیمی نظام تباہ و برباد ہے اور افسوس ناک صورت حال یہ ہے کہ ان اداروں میں تدریس کا مقدس فریضہ انجام دینے والے اساتذہ کرام بھی ان تخریبی کارروائیوں میں ملوث ہیں۔ اگر یہی صورت حال کسی قوم کی ہو تو اس کی ذہنی جہالت کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔

مار دھاڑ، اغوا، فائرنگ، بدمعاشی، قتل، دھماکے اور ہڑتالوں کی وجہ سے طلبہ تنظیمیں آج پابندیوں کی زد میں ہیں۔ پاکستان میں طلبہ یونین پر سب سے پہلی پابندی 28 فروری 1984ء میں ضیا الحق کے دور میں لگائی گئی۔ 1988ء میں بے نظیر نے یہ پابندی ختم کی تو نواز شریف کے دور حکومت میں پھر لگا دی گئی۔ اس دوران 1993 سے 1996 ء میں طلبہ یونینز کے نام پر تعلیمی اداروں کو میدان جنگ بنانے کے واقعات بھلائے نہیں جا سکتے۔ طلبہ یونینز پر پابندی کے ذمہ دار طلبہ نہیں بلکہ سیاسی پارٹیاں ہیں، جن کے مذموم مقاصد کی تکمیل میں یونینز کو استعمال کیا جاتا ہے۔ یونینز کو سیاسی پارٹیوں کے ذیلی ادارے کہا جاتا ہے، کیوں کہ سیاسی پارٹیاں ہی ان یونینز کو مضبوط بناتی اور اپنے کام نکلواتی ہیں۔ آج پاکستان میں کوئی ایسی بڑی طلبہ یونین نہیں جس کی پشت پر کسی سیاسی جماعت کا ہاتھ نہ ہو۔ ایم ایس ایف پر مسلم لیگ، جمعیت پر جماعت اسلامی، پی ایس ایف پر پیپلزپارٹی، انصاف سٹوڈنٹس فیڈریشن پر تحریک انصاف، آل پاکستان مہاجر سٹوڈنٹس آرگنائزیشن (APMSO) پر ایم کیو ایم کا ہاتھ ہے۔ ان طلبہ یونینز کو سیاسی پارٹیوں کی طرف سے رقم سمیت ہر قسم کی معاونت حاصل ہوتی ہے۔ اور جب آپ کسی سے لے کر کھائیں گے تو پھر اس کی جی حضوری بھی کرنا پڑے گی۔

پاکستان میں سٹوڈنٹس یونیز کے انتخابات میں بدمعاشی اور قتل و غارت کے بے شمار واقعات ماضی میں سامنے آ چکے ہیں۔ پاکستان اور ترقی یافتہ ممالک کی طلبہ تنظیموں میں رہنمائی اور تشدد کا فرق واضح ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں اگر کوئی پرتشدد طلبہ تنظیم تھی بھی تو آج اس کا نام و نشان تک نہیں ہے۔ مثال کے طور پر 1935 میں امریکا میں طلبہ پر مشتمل بائیں بازو کی ایک امریکن سٹوڈنٹ یونین (ASU) بنائی گئی۔ یونین نے فوجی جارحیت کے خلاف بھرپور احتجاج بھی کئے، بعدازاں 1939 میں اس گروپ کی پرتشدد سرگرمیوں کے خلاف تحقیقات کی گئیں اور 1941 میں اسے ختم کر دیا گیا۔ آج امریکا میں سٹوڈنٹ گورنمنٹ اور سٹوڈنٹ سینیٹ کے نام سے طلبہ تنظیمیں کام کر رہی ہیں، جن کے قیام کا مقصد طلبہ کو رہنمائی اور سہولیات کی فراہمی ممکن بنانا ہے۔student activity center کے نام سے مراکز بنائے گئے ہیں جہاں طلبہ رہنماؤں کے لئے دفاتر قائم اور ہم نصابی سرگرمیاں منعقد کروائی جاتی ہیں۔بہرحال پاکستان میں دہشت گردی کے تناظر میں طلبہ یونینز پر پابندی برقرار رہنی چاہئے ورنہ طلبہ کو غیر ریاستی عناصر اور پاکستان دشمن قوتیں پیسے اور اسلحے کے زور پر اپنے مقاصد کے لئے استعمال کرسکتی ہیں اس لئے ملکی مفاد اسی بات میں ہے کہ ملک کی درسگاہوں کو سیاست گاہوں تبدیل نہ ہونے دیا جائے۔
Raja Majid Javed Ali Bhatti
About the Author: Raja Majid Javed Ali Bhatti Read More Articles by Raja Majid Javed Ali Bhatti: 57 Articles with 39464 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.