گمنام سپاہی حصہ دوم

اﷲ اکبر اﷲ اکبر کی صدا گونجی دادی جان خاموش ہوگئیں بعد اذان انہوں نے دعا پڑھی دونوں بھائی نماز کے لیے روانہ ہوئے تب انہوں نے حمنی کی طرف بڑے غور سے دیکھا ۔
" کیا دیکھ رہی ہیں دادی جان ؟ "حمنی نے پوچھا ۔
"بیٹی تمہاری آنکھوں کی شریر چمک بتا رہی ہے کہ
"ہاں تو بچو! نمبر قسط نمبر3نکتہ یا پوائنٹ ہے تیرا کی کا ، تم دونوں نے سوئمنگ پول جا کر تیرنا سیکھناہے۔۔۔!"
تم کوئی پلان بنا چکی ہو گڑیا کوئی مذاق نہ کرنا جس سے بھائیوں کو تکلیف ہو"۔دادی نے نصیحت کرتے ہوئے کہا۔
"ارے نہیں میں اپنے بھائیوں کو زیادہ مشکل میں نہیں ڈالوں گی آپ اطمینان رکھیں بس انہیں ذرا جلدی اور تفصیل سے منہ دھونا پڑے گا۔"حمنی نے تفصیل بتائی ۔
ـ ـ"بس پھرٹھیک ہے چلو اب نماز پڑھ لیں "دادی نے کہا۔
را ت کو حمنی نے دونوں کے جوتے پالش کیے خوب جان لگاکے چمکائے دونوں بھائی بستر پہ لیٹ کر دیکھتے جارہے تھے دونوں کے دانت باہر تھے اندر جانے کا نام ہی نہیں لے رہے تھے ۔
’’ہاں خوب مسکراؤ میرے بھائیو کل دو پہر تمہارے خوب آنسو نکلیں گے ․․․!‘‘وہ دل ہی دل میں ہنس رہی تھی۔
صبح اسکول روانہ ہونے کے بعد حمنی کو رشیدہ ماسی سے کھسر پھسر شروع ہوئی ،اصغر بابا سے گلاب کی پتیاں منگوا کر رکھی پھر کمرہ بند کر کے استقبال کی تیاری کر لی گئی۔
ٹھیک تین بجے اسکول وین گیٹ پر آجاتی تھی، نماز اور کھانے سے فارغ ہو کر وہ دادی کے کمرے میں پہنچتی آج انہوں نے بھی اسکول سے چھٹی کرلی تھی۔ شاید ہنگامی حالات سے نمٹنے کیلیے واہ خوب دادی جان آپ گھر میں ہیں تو اسکول وین کے آنے پر گیٹ پر آجائیں اور دیکھیے کہ بھائی کے لیے میرا استقبال کیسا شاندار ہوگا آپ بھی خوش ہوجائیں گی۔
اچھا آجاؤں گی ابھی پندرہ منٹ ہیں جواب سن کر دہ کچن میں دوڑ گئی رشیدہ آنٹی سے پلیٹ لی جو کپڑے سے ڈھکی ہوئی تھی میں جارہی ہوں ٹیرس پر جس کے نیچے گیٹ ہے آپ آجائیں جلدی یہ کہتی ہوئی اوپر چلدی ہاں آرہی ہوں حمنی بی بی بس پلاؤ کو دم پر رکھ دوں ۔
جیسے ہی وین آکر رکی حمنی اور رشیدہ تیار کھڑی تھیں ۔ گیٹ کی بیل بجانے سے پہلے یہ حمنی نے اوپر سے آواز دی بھائیوں کو السلام علیکم اور خوش آمدید اور پھولوں کی ڈھیر ساری پتیاں اوپر سے برسادیں دونوں بہت خوش ہوئے اور اوپر کی طرف دیکھنے لگے ، دادی جان گیٹ پر کھڑی تھیں۔
پھولوں کے نیچے سرخ پسی ہوئی بچھائی گئی تھی دونوں اوپر دیکھ رہے تھے یہی موقع تھا کاس نے مرچوں سمیت پلیٹ ان کے منہ پر الٹ دی اور وہ دونوں نیچے اترنے لگیں آرام آرام سے اتررہی تھیں ۔ اب انہیں کوئی جلدی نہیں تھیں ۔ ادھر گیٹ پر چیخ و پکار مچی ہوئی تھی بند آنکھوں کے ساتھ وہ گیٹ بجا رہے تھے بچاروں کو بیل کا بٹن بھی نہیں دکھائی دیا۔
دادی جان ان کی چیخ وپکار سے گھبراگئیں اور جھٹ گیٹ کھول دیا دونو ں اپنے منہ پر ہاتھ رکھے بھاگتے گیٹ کھول دیا دونوں اپنے منہ پر ہاتھ رکھے بھاگتے ہوئے اندر آئے اور دونوں کے الفاظ ایک ہی تھے واش روم واش روم کدھر ہے، اتنے میں حمنی نے آکر امجد کا ہاتھ پکڑا اور رشیدہ نے اسود اور دونوں کو لان میں لے گئی۔پودوں کو پانی دینے والے پائپ سے اکھٹے دونوں کے چہرے دھونے لگی جب اچھی طرح منہ دھل گیا تب آنکھیں کھلیں حمنی کے ساتھ دادی جان کو مسکراتے ہوئے دیکھ کر امجد نے صرف اتنا کہا۔
ہم نے تمہیں کچھ کام بتائے تھے نہیں کرنا چاہتی تھیں تو منع کر دیتیں ایسا استقبال تو ہم نے سوچا ہی نہیں تھا۔
ارے بھیا پھولوں کے ساتھ کانٹے بھی ہوتے ہیں خاص طور پر گلاب کے ساتھ اب مرچیں تو میں نے اس لیے ڈالی کہ آپ دونوں نے کس کو احکامات دیے ہیں جناب کرنل وقارالدین کی پوتی کو جو صرف اﷲتعالیٰ کے احکامات ماننے کی پابند ہے ہاں اگر محبت سے عاجزی سے درخواست کریں تو غور کیا جاسکتا ہے۔
کھانے کی میز پر بھی خاموش تھے وہ تو دادی جان گھر موجود تھیں ورنہ ہو حمنی کے کان اچھی طرح کھینچتیں۔بہر حال شام تک ان کا موڈ ٹھیک ہوگیا اس میں بھی دادی جان کا فون بھی کام کر گیا جو صرف انہوں نے امجد کو کیا تھا اس کے اپنے کمرے کے فون سیٹ پر اور کہا تھا امجد، اسود شام تک موڈ ٹھیک کر لوکیا ہوا اگر بہن نے تھوڑا سا مذاق کر لیا ، مذاق اپنوں سے ہی کیا جاتا ہے۔
جی دادی جان امجد نے دھیرے سے جواب دیا ۔
مغرب کی نماز کے بعد پھر دادی جان کے ساتھ نشست شروع ہوئی تینوں بچے دستک کے کر کمرے میں داخل ہوئے بات شروع کرنے سے پہلے ہی حمنی نے کہا۔
میں ایک سوال کر رہی ہوں جو اب دینا ضروری نہیں ،سوال یہ ہے کہ گمنام سپاہی کب مرچوں سے ڈرنے لگے؟
امجد نے فورا جواب دیا ہم مرچوں سے نہیں اپنی تیز مرچ جیسی بہن سے ڈرنے لگے ہیں ۔
نہ ۔۔۔نہ پیارے بھائیوں آئندہ ایسا نہیں ہوگا معافی چاہتی ہوں، سوری لیجیے کا ن بھی پکڑ لیے میں نے ۔ حمنی نے بہت پیا ر سے کہا۔
چلو ٹھیک ہے معاف کیا۔
ہاں آپ بات شروع کیجیے آج کا سبق کیا ہے؟
دادی جان ۔اسود نے کہا۔دو نکتے تو ہوگئے کراٹے اور نشانہ بازی کے تیسرا نکتہ کیا ہے؟
ہاں تو بچو نمبر 3نکتہ یا پوائنٹ ہے تیرا کی کا تم دونوں نے سوئمنگ پول جا کر تیرنا سیکھنا ہے آخر ڈوبتے ہؤوں کی جان بھی تو بچانی ہے۔پیارے نبی ﷺ نے فرمایا"ایک انسان کی جان بچانا ساری انسانیت کی جان بچانے کے برابر ہے"اس حدیث پر عمل بھی کرنا ہے"۔
جی آپ ٹھیک کہہ رہی تھی امجد نے کہا ۔ مگر دادی جان ہم دو کے سیکھنے سے کیا ہوگا؟ ہر کوئی سوئمنگ پول کی فیس تو ادا کرنے کے قابل نہیں ہوتا۔ اسود نے کہا۔
بھئی تم دونوں سکھاؤگے انشاء اﷲ میں اپنے گھر میں ایک بڑا سا پول بنواؤں گی پھر اپنی بہن کو بھی سکھا دینا سکھاؤ گے نا ؟
بالکل بالکل دادی جان اس طرح ہمیں پول میں مچھلی کی کمی محسوس نہیں ہوگی غنیمت یہ ہوا کہ حمنٰی مسکراتی رہی کچھ بولی نہیں ۔
ہاں ایک بات اچھی طرح سن لو نمازوں کی پابندی اور گھر سے باہر جاتے آتے دعاؤں کاورد لازمی کرناجب ہم پڑھ کر نکلتے لیں تو ایک فرشتہ ہماری حفاظت کے لیے ساتھ رہتا ہے۔اس کے علاوہ اسکول کی رپورٹ اسی طرح آنی چاہیے جیسے اب آتی ہے بلکہ اس سے بھی بہتر گرذرا بھی کمی آئی تو میں سمجھوں گی کہ تم دونوں سپاہیانہ کردار کے لیے مناسب نہیں ہو۔
نہیں نہیں دادی جان دونوں نے کہا انشاء ا ﷲ ہم آپ کی ہر امید کو پورا کریں گے۔

شاباش میرے بچوں اﷲ تمہیں لمبی عمر دے اور تمہار ے ایمان کو محفوظ رکھے۔ آمین !
اور ہاں تمہارے دادا جان کا فو ن آیا تھا ان کے کاغذات میں کچھ مشکل پیش آرہیں ہے ابھی وہ اسلام آباد میں ایک مہینہ اور رہیں گے وہاں تمہارے ابو کی پھپو اور ان کا بیٹا بہو رہتے ہیں کہہ رہے تھے کہ وہ بڑے آرام سے ہیں تمہارے ابا کی پھپو اور ان کی فیملی بڑی خوش مزاج اور ہنس مکھ ہے کسی کو بور نہیں ہونے دیتی تم تینوں کوبہت دعا اور پیا کہہ رہے تھے اب تم لوگ آرام کرو ۔ کل باقی باتیں ہوں گی ۔ ان شاء اﷲ۔

اسودبے خبر سورہاتھا مگر امجد کو نیند نہیں آرہی تھی کروٹیں بدل بدل کر تھک گیا ٹائم دیکھا تو صبح کے پانچ بج رہے تھے ارے صبح ہونے والی ہے کیا کروں؟
اسے خیال آیادادی جان نماز کے لیے اٹھنے والی ہوں گی ان سے سر میں تیل کی مالش کرواؤں تو شاید نیند آجائے یہ بھی اچھا ہے کہ کل اتوار ہے دیر تک سولوں گا۔دادی جان کے کمرے کے دروازے پر پہنچا لائٹ جل رہی تھی ایک پٹ کھلا ہوا تھا اندر سے نہایت عاجزی اور سوز میں ڈوبی ہوئی آواز آرہی تھی وہ شاید تہجد کی نماز کے بعد دعا کر رہی تھی وہ وہیں رک کر سننے لگا ۔
ـــــ"اے رحمان و رحیم رب اے ستر ماؤں سے بڑھ کے چاہنے والے اﷲ ،یہ میرے بیٹے کے بچے جو مجھے بے انتہا پیارے ہیں میرے پاس آپ کی امانت ہیں آپ نے انہیں میرے سپرد کیا ہے میں آپ کے اس فیصلے پر راضی ہوں میں انہیں سچا مسلمان سچا پاکستانی اور انسانیت کت لیے مفید اور کار آمد بنانا چاہتی ہوں یہ دنیا سے زیادہ آخرت کمانے والے ہوں، مگر میرے چاہنے سے کیا ہوتا ہے جب تک آپ نہ چاہیں ـ"۔
"مولا کریم اگر میری یہ خواہش درست ہے تو آپ میری اس چاہت کو اپنی چاہت بنا کر مجھے سر خرو کردیں میری مدد کریں میں تو فنا ہونے والی ہوں، آپ قائم رہنے والے ہیں میں اپنے سرمائے کو اپنے جگر کے ٹکروں کو آپ کے حوالے کرتی ہوں ان کی ہر مشکل کو آسان کرنے والیآپ ہیں انہیں مومن بنائیے مضبوط مومن تاکہ یہ غالب رہیں آپ کا فرمان ہے۔
"تم ہی غالب رہو گے اگر تم مومن ہو "۔
"مجھ گنہگار کی، مجھ خطا کار اور عاجزبندی کی دعا قبول کر لیجیے"۔ درود و سلام پڑھنے کے بعد وہ رونے لگیں تب اسے اپنے اوپر اختیار نہ رہا اور کمرے میں جا دادی جان کے پہلومیں بیٹھ گیا اور ان کے گلے میں دونوں ہاتھ ڈال دیے وہ بے طرح چونک گئیں کیا ہوا؟ میرے لعل تم اس وقت کیسے جاگ گئے۔؟
پہلے آپ بتائیے آپ کیوں رورہی ہیں کیوں اتنی پریشان ہیں؟ اگر آپ کو اتنا ہی پریشان ہونا تھا تو ساری پلاننگ نہ کرتیں اب بھی ہم سب اس معاملے کو سمیٹ سکتے ہیں۔
ارے بچے یہ تم کیا کہہ رہے ہو؟انہوں نے جلدی سے اپنے آنسوپونچھے اور مسکرادیں۔
"چندا یہ آنسو تو شکر کے ہیں کہ اس بے نیاز نے ہمیں ایک اچھی راہ دکھائی یہ آنسو عاجری کے ہیں کہ ہم کچھ بھی نہیں وہی سب کچھ ہے یہ اپنی درخواست کے ساتھ پیش کیے گئے جب ہم اس رحمان و رحیم سے رو کر درخواست کرتے ہیں تو اس کی رحمت جوش میں آتی ہے یہ ہر گز ڈراور خوف کے آنسون نہیں ہیں بالکل فکر مند نہ ہونا ٹھیک ہے نا"؟
جی ٹھیک ہے مگر ایک وعدہ کیجیے آئندہ آپ اس طرح آنسو نہیں بہائیں گی چلو وعدہ کرتی ہوں مگر خوشی کے آنسو بھی ہوتے ہیں کیا اس پر بھی پابندی ہے؟ پگلا کہیں کا ذراسے رونے سے گھبرا گیا بڑے بڑے کام کرنے ہیں شجاعت اور جی داری کے جھنڈے گاڑنے ہیں کیسے کرو گے؟
"نہیں میں جھنڈے نہیں گاڑوں گا آپ ہی تو کہتی ہیں کہ نمودونمائش نہیں کرنی واہ واہ اور شہرت نہیں چاہیے ثواب کم ہوجاتا ہے میں تو بھرپور ثواب لینا چاہتا ہوں دادی جان"۔
ارے وہ جھنڈے دلوں میں جھنڈے گاڑنا ہوتا ہے تم نے سنا نہیں۔
جو دلوں کو فتح کرلے وہی فاتح زمانہ جی ٹھیک کہہ رہی ہیں آپ امجد نے تائید کی۔
اچھا اب تم بیٹھو میں تیل ڈالتی ہوں تمہارے سر میں منٹوں میں درد غائب ہوجائے گا۔
جب مالش شروع ہوئی تو اس کی آنکھیں آپ ہی آپ بند ہونے لگیں وہ یہ نہیں دیکھ سکا کہ مالش کے ساتھ ساتھ سورہ فاتحہ پڑھ پڑھ کر دم کیا جارہاہے، ہر وقت رب کا نام زبان پرہویہی تو مومن کی صفت ہے اتوار کا دن سوتے جاگتے گزرا شام کے وقت اردو بازار جانا تھا عصر کی نماز پڑھ کر بس اسٹاپ کی طرف چلا۔ دو دن سے بائیک خراب تھی اور گاڑی چلانے کی اجازت نہیں تھی دادا جان کا کہنا تھا جب شناختی کارڈ بن جائے تب کسی اچھے ڈرائیونگ اسکول سے تریبت لے لے تو تمہیں گاڑی دلادوں گا لہٰذا پیدل ہی اکثر چل کے بس پکڑ لیتا۔ اپنی ٹانگوں کو وہ گیارہ نمبر بس کہتا تھا۔
جب ایسے موقع پر کوئی پوچھتا کہ بھئی کیسے آئے ہو تو بڑے مزے سے کہہ دیتا کہ پہلے گیارہ نمبر بس اسٹاپ تک آیا پھر مطلوبہ بس پکڑ لی اس
بات پر سب مسکرا دیتے۔
تفاق سے جو بس ملی اس میں لوگ بہت کم تھے ایک اسٹاپ گزرا دوسرے اسٹاپ پر ایک لڑکا یہی تقریبا دس بارہ سال کا اس کے برابر کی سیٹ پر بیٹھ گیا اس نے ایک نظر ڈالی معمولی سے تھوڑے سے میلے کپڑوں میں تھا مگر چہرہ بہت اترا ہوا لگ رہا تھا دوسرے لمہے وہ باہر کے نظارے میں مصروف ہو گیا۔ لیکن بے خبر نہیں تھا اگلا اسٹاپ آنے والا تھا تب اسے محسوس ہوا کہ کوئی اپنا ہاتھ اس کی پاکٹ جیب کی طرف بڑھارہا ہے وہ چوکنا ہوگیا کچھ لمحوں بعد پھر محسوس ہواکہ ہاتھ اور آگے بڑھا اور جیب میں جانا ہی چاہتا ہے اس نے دوسرے ہی لمہے اپنے سیدھے ہاتھ سے اس کا ہاتھ پکڑلیا گرفت اتنی مضبوط تھی کہ وہ لڑکا اپنے ہاتھ کی دو انگلیاں جو اس کی جیب ،میں ڈال چکا تھا واپس نکال بھی نہ سکا۔اب اس نے لڑکے کا چہرہ دیکھا خوف سے سفید پڑتا چہرہ اور سوکھے ہوے لب بھینچے رحم طلب نظروں سے دیکھ رہا تھا۔
گھبراؤنہیں میں کسی کو کچھ نہ بتاؤں گا بس چپ چاپ میرے ساتھ آنے والے اسٹاپ پر اتر جانا اگر بھاگنے کی کوشش کی تو نتیجہ اچھا نہیں ہوگا ساری بات اس نے سرگوشیوں میں کی اور اپنے ساتھ اس کا ٹکٹ کے پیسے بھی ادا کر دیے۔
قدرت نے بہت جلد امجد کے ضبط و تحمل اور حکمت عملی کا امتحان لینا شروع کر دیا تھا۔
وہ دونوں اس طرح بس سے اترے جیسے دو دوست ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑ کر چلتے ہیں۔ وہ اس کا ہاتھ پکڑ ے ہوئے قریبی ہوٹل میں چلا گیا اور خالی میز پر بیٹھ کر اسے بھی سامنے بٹھالیا۔
دو چائے اور دو کیک منگوائے اور اسے کھانے کا اشارہ کیا چلو دوست اطمینان سے کھاؤباتیں بعد میں ہوں گی۔ اس نے بڑے بڑے نوالے لے کر پانچ منٹ میں کھانا ختم کردیا امجد نے اپنی چائے ختم کی اور ہاتھ میز پر پھیلاکر اس کی طرف جھک گیا۔
ہاں پہلے تو اپنا نام بتاؤ پھر تفصیل سے بھی بتا دو کہ یہ گندا کام کب سے اور کیوں کر رہے ہو؟
میرا نام وجاہت ہے یہ کہہ کر وہ رکا ،ـــہاں ہاں رکو نہیں کہتے جاؤ تمہارا نام تو بہت اچھا ہے میرے ابا اچھے خاصے فیکٹری گئے تھے واپسی کے راستے میں گولیاں چل رہی تھیں کسی اندھی گولی کا شکار ہوگئے میری دونوں بہنوں جو مجھ سے چھوٹی ہیں امی کے ساتھ ہم اپنے ماموں کے گھر چلے گئے گھر کرایہ کا تھا ماموں تو بہت اچھے تھے میری امی اور میری دونوں بہنیں صبح تک کام میں لگی رہتیں بہنوں کی پڑھائی بھی گھر پر ہونے لگی، پڑوس سے ہالہ زبیدہ آکر پڑھا جاتی تھیں مگر کچھ عرصے بعد ممانی کا رویہ بدل گیا ہم سب ان پر بوجھ ہوگئے میں ساتویں کلاس میں تھا دو دن پہلے معمولی بات پر ممانی نے مجھے گھر سے نکال دیا اور کہا خود کماؤ خود کھاؤجگہ جگہ ہوٹل میں ،دکانوں پر کام ڈھونڈا مگر بغیر ضمانت کے کوئی کام نہیں دیتاآج تیسرا دن تھا بھوک سے بے تاب ہو کر آپ کی جیب پر ہاتھ ڈال دیا یقین مانیں بھوک برداشت نہیں ہورہی تھی میں نے طے کر لیا تھا کوئی کام ملنے کے بعد ہی گھر جاؤں گا یہ ہے میری کہانی اور آپ نے جو میرے ساتھ کیا وہ میں کبھی نہیں بھول سکتا مجھے چوری سے بچایا میری عزت رکھی اور میری بھوک مٹائی یہ کہہ کر وہ رونے لگا۔
ارے دوست روتے نہیں ہیں حالات کا مقابلہ کرتے ہیں، مصیبت ہم پر اس لیے آتی ہے کہ ہم مضبوط ہوجائیں اس لیے نہیں کہ کمزور پڑجائیں۔
اچھا اب میری بات مانو گے؟ امجد نے سوال کیا آپ ایک نہیں دس کہیں میں مانوں گا آپ کو آپ کو میں نے دل ہی دل میں اپنا بڑا بھائی مانلیا ہے۔
کیوں نہیں ،کیوں نہیں صرف دل میں نہیں زبان سے بھی کہہ سکتے ہومیرا نام امجد علی خان ہے تم مجھے بلا تکلف امجد بھائی کہہ سکتے ہو ۔۔۔اب تم میرے ساتھ چلو پہلے تمہارے رہنے کا انتظام کرتا ہوں، اس کے بعد کام تلاش کرتے ہیں۔
دونوں بس میں واپسی کے لیے روانہ ہوئے اپنے گھر کے اسٹاپ پر اتر کر امجد نے وجاہت کا ہاتھ پکڑا عشاء کی نماز کے لیے وضو کرنے مسجد میں داخل ہوئے نماز کے بعد قاری صاحب جو بچوں کو پڑھاتے تھے ان کو ایک طرف لے جا کر بتایا کہ یتیم بچہ ہے کام کرنا چاہتا ہے جب تک کام نہیں ملتا آپ کی نگرانی میں رہے گا ہمارے گھر سے دو وقت کا کھانا آجائے گا اور بستر بھی میں رات دس بجے تک پہنچادوں گا۔
ٹھیک ہے امجد بیٹا آپ بے فکر ہوجائیں یہ بچہ یہاں آرام سے رہے گا۔
جیسے ہی وہ گھر میں داخل ہوا اسودپریشان ساگیٹ پر ٹہلتا ہوا ملا لپک کر اس کے پاس آیا السلام علیکم بھائی جان خیر تو ہے آج آپ کراٹے کی کلاس میں نہیں آئے وہاں بھی سب پوچھ رہے تھے اسودنے بھی دومہینے سے کلاس لینی شروع کردی تھی۔
ہاں بھئی ہاں سب خیریت ہے بس کچھ ضروری کام پڑگیا تھا سوچا آج چھٹی مارلیتے ہیں، چھ ماہ سے ایک بھی چھٹی نہیں کی نا؟
اچھا چلیں کھانے کی میز پر اس نے صرف اتنا کہا کہ ایک مسافر ہماری مسجد میں ٹھہرا ہے اس کے لیے تینوں وقت کھانا ہمارے گھر سے جاسکتا ہے؟
کیوں نہیں امجد بیٹا یہ تو عین ثواب کا کام ہے مجھے بڑی خوشی ہوگی میں خود اپنی نگرانی میں کھانا بجھوادیا کروں گی ابھی رات کا کھانا بھیج دوں؟
دادی جان اب میں مطمئن ہوگیا ہوں۔ اچھا اب جاکر سوجاؤحمنیٰ بیٹا تم میرے ساتھ آؤ ابھی ہم دونوں عشاء کی نماز پڑھیں گے۔‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جاری ہے ﴾آسیہ بنت عبد اﷲ صدیقی ﴿
 
Aasia Abdullah
About the Author: Aasia Abdullah Read More Articles by Aasia Abdullah: 23 Articles with 20427 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.