آن لائن رائٹرز

مشرقی روایات کی پابند ایک عورت اسکا شوق اسکی گھر ہستی کے آڑے آرہا تھا
آج پھر صبح ہی سے پورے گھر کا ماحول کشیدہ تھا. دلوں کی رنجش سے جیسے درودیوار بھی سہمے سہمے رنجیدہ نظر آتے تھے. معصوم بچے خوف زدہ گھر کے کونوں کھدروں میں دبکے بیٹھے تھے. شہزاد کا غصہ اپنے عروج کو چھو رہا تھا، اسکا بس جیسے کسی چیز پر نہیں چل رہا تھا، کھانے کے برتن اٹھا کر پھینک دیئے، ٹیبل کرسی سب ہی تو اوندھے پڑے ہوئے تھے. اور زبان بے وجہ گھن گھرج کے ساتھ زہریلے الفاظ اگل رہی تھی. "مجھے تمہاری صورت سے نفرت ہے". " جاؤ دفع ہوجاؤ میرے گھر سے ان کے ساتھ جن کے ساتھ تمہارا یارانہ ہے ". "جو تمہیں سنبھال سکتے ہیں.تمہاری فکر کرتے ہیں ".

شھزاد کے ان الفاظ پر ماہین نے شدید دکھ کے ساتھ آنسوؤں سے ڈبڈبائی اپنی بڑی بڑی آنکھوں سے اسکی طرف دیکھا، جو اس وقت شدت ضبط سے حد درجہ سرخ ہورہیں تھیں. شھزاد کس کے پاس چلی جاؤں. ایک کمزور احتجاج ایک سوال کے ساتھ ساری عمر تمہارے ساتھ تمہاری مرضی سے گذاری. ہر معاملے مین تمہاری مرضی تمہاری خواہش کو مقدم رکھا. اس گھر کو سجایا سنوارا، تم لوگوں کے چہرے پر ایک مسکان دیکھنے کے لیئے اپنی ہر خوشی قربان کردی، سب سے ناطہ توڑا صرف تمہاری خوشی کے لیے اور آج کہتے ہو یہ گھر تمہارا ہے اس گھر پر، ان بچوں پر میرا کوئ حق نہیں کیا گناہ کیا ہے میں نے ؟؟ جو تم نے ایک دم ہی مجھے سزا سنا دی. اگر تمہیں میرا لکھنا پسند نہیں تو ٹھیک ہے نہیں لکھتی پر بے اعتباری اور شک تو نہ کرو. یہ ٹھیک ہے ایک رائٹر کی حیثیت سے لوگ مجھ سے رابطہ کرتے ہیں لیکن اس سے زیادہ کچھ نہیں میرا یقین کرو.اسکی صفائی نے شھزاد کے غصے پر جلتی پر تیل جیسا کام کیا اور اسکی زبان مغلظات بکنے لگی. انکا جھگڑا مسلسل بڑھتا ہی جارہا تھا یہاں تک کہ شھزاد نے ماہین کی گردن سختی سے پکڑ لی. اسکی آنکھیں ابلنے لگی.بچے باپ کے پیروں سے لپٹ گئے اور ماں کو چھڑانے کی کوشش کرنے لگے. پاپا پلیز وہ رو رہے تھے، فریاد کررہے تھے آخرکار شھزاد نے اسکے وجود کو بیڈ پر پھینکا اور تیزی سے چلتا ہوا گھر سے باہر نکل گیا. ممی پاپا گندے ہیں آپ کو مارتے ہیں نا.شہلا ماں سے روتے ہوئے لپٹ گئی تو ماہین نے اسے پچکارا نہیں بیٹا ایسے نہیں کہتے، ابھی وہ غصے میں ہیں ناں، جب انکا غصہ اتر جائے گا تو وہ پھر سے آپکے پہلے والے پاپا بن جائیں گے. بچوں کے ذہن سے ابھی کچھ دیر پہلے ہوئے واقعہ کا اثر کم کرنے کے لیے وہ پھر سے اٹھ کھڑی ہوئی. بکھرے بال سمیٹے، جلدی جلدی منہ پر ٹھنڈے پانی کے چھینٹے مارے اور سرعت کے ساتھ گھر سمیٹنا شروع کردیا. تھوڑی ہی دیر میں پورا گھر پہلے کی طرح سلیقے سے سمٹا ہوا دکھنے لگا بچے بھی سب بھول کر ٹی وی پر کارٹون دیکھنے میں مشغول ہوگئے. بچوں کو مصروف دیکھ کر ماہین کچن میں آگئی.اور رات کے کھانے کی تیاری کرنے لگی. ہانڈی میں چمچہ چلاتے ہوئے انتہائی ضبط کے باوجود اسکے گال پر پھر چند آنسو لڑھک آئے. میرا قصور کیا ہے آخر ؟؟ اسکا ذہن اسکے سوال کا جواب تلاش کرنے کے لیئے ماضی ٹٹولنے لگا.

شھزاد اور ماہین کی شادی بڑوں کی رضامندی اور خوشی سے ہوئی، ان دونوں نے بھی اس نئے رشتے کو خوشی سے قبول کیا. شادی کے شروع کے سال کے بعد جیسے ایک گڑھے میں پانی کھڑا ہوجائے اور اسے باہر جانے کا کوئی راستہ نہ ملے تو اس میں تعفن، بدبو اور غلاظت پیدا ہوجاتی ہے. یہی حال شھزاد کا ہوا وہ اندر ہی اندر کڑھنے لگا. ماہین جب کوئی کامیابی حاصل کرتی تو اسکے دمکتے چہرے کو دیکھ کے اسکے دل میں ناسمجھ اندیشوں کے ناگ سر اٹھانے لگتے. ماہین کی طرف سے اب شھزاد لاپرواہی برتنے لگا، بات بات پر غصہ چڑ چڑاہٹ اسکا معمول بن گئے تھے. معمولی معمولی باتوں پر گھر میں فساد کھڑا ہوجاتا، آتے جاتے وہ ماہین کا سیل فون چیک کرتا.

جبکہ ماہین تو شھزاد کے سارے رنگوں میں اپنا آپ گھول چکی تھی، دھیرے دھیرے اسکے من میں شہد کے قطرے ٹپکتے تھے اور وہ ایک انوکھی مٹھاس مین ڈوب گئی تھی.ہر وقت گاتی گنگناتی خوش رنگ لباس سے سجی سلیقے سے سنوارا ہوا روپ خود اعتمادی سے چمکتا ہوا چہرہ سب اسے مڑ مڑ کے دیکھتے اور شادی کے کچھ سالوں کے بعد ہی وہ کچھ پیارے پیارے خوبصورت بچوں کی ماں بنی تو جیسے پوری ہی کائنات کی مالک بن گئی. اب اسکی ذمہ داریوں میں مزید اضافہ ہوگیا. شھزاد کو بھی اس سے شکوہ رہنے لگا کہ وہ اب اسے پہلے کی طرح پورا وقت نہیں دے پاتی تھی. تب وہ ایک بھرپور مسکان کے ساتھ اسے یقین دلاتی کہ یہ سب اسکے ہی لیئے ہے. شھزاد فطرتا تنہائی پسند تھا اسے لوگوں سے زیادہ ملنا جلنا قطعی پسند نہیں تھا یہی وجہ تھی کہ وہ ماہین کو بہت کم ہی کہیں لے کر جاتا، اسطرح دھیرے دھیرے ماہین اپنے تمام رشتے داروں سے کٹتی چلی گئی. مگر اسنے کبھی اس بات کا شکوہ نہین کیا. ایک دن گھر کی صفائ ستھرائ ہونے کے دوران شھزاد کے ہاتھ ماہین کی کالج کے دنون کی ڈائری لگ گئ.تب اس پر آشکار ہوا کہ ماہین کو شاعری لکھنے کا بہت شوق تھا.

ماہین تم لکھتی کیوں نہیں؟؟

شھزاد کے اس اچانک سوال پر ماہین نے چونک کے اسکی طرف دیکھا ..میں نہیں........ وہ سب پرانی بات ہوگئی، اب ان سب کے لئیے میرے پاس بالکل وقت نہیں. یہ کہہ کر وہ روم سے باہر گلدان دھونے چلی گئی، پر شھزاد دیر تک سوچتا رہا دوسرے ہی دن وہ ماہین کے لیئے ایک اسمارٹ فون اور نیٹ ڈیوائس لے آیا.

یہ کیا شھزاد ؟؟...یہ اسمارٹ فون ہے اور یہ نیٹ کی ڈیوائس، دیکھو تم جب بھی فری ہو اسے آسانی سے یوز کرسکتی ہو. میں نے دیکھا ہے تم سارا دن گھر میں لگی رہتی ہو اپنی طرف بالکل دھیان نہیں دیتی، میں چاہتا ہوں تم اپنے لیے وقت نکالو اپنے شوق کو ہماری خاطر ختم نہیں کرو، اگر بائی پوسٹ لکھ کر بھیجنے کے لیئے وقت نہیں تو آن لائن لکھو. شھزاد کی محبت بھری ضد نے ماہین کے ایک نئے کیرکٹر کو وجود دیا.
اسنے خود کو ایک آن لائن رائٹر کے طور پر دنیا میں متعارف کرانا شروع کیا.

دیکھتے ہی دیکھتے اسکا یہ شوق اسکی پہچان بن گیا اسکی تحریر وں کو پسند کیا جانے لگا ، اسے ایونٹس میں مدعو کیا جانے لگا، شروع شروع میں تو شھزاد نے ماہین کی حوصلہ افزائی کی پر جلد ہی وہ اپنی تنہائی پسند طبیعت کے باعث اس سب سے بے زار ہونے لگا ..... اسے دوسرے لوگوں کا ماہین کے کنٹیکٹ میں آنا کھلنے لگا.

پتہ نہیں کیوں جب وہ ماہین کو روتےدیکھتا تو آسودگی محسوس کرتا. ماہین اور اسکا ازدواجی رشتہ صرف جسم کی لطافت کی حد تک محدود ہوکے رہ گیا تھا وہ اب جب بھی اسکے قریب آنے لگتی تو اسے بے دردی سے جھڑک دیتا.....

ماہین اسکے رویے کی اس تبدیلی کو محسوس کررہی تھی یہی وجہ تھی کہ اب اس نے اپنے لکھنے کے عمل کو سست کردیا تھا. اسکی کوشش یہی ہوتی....... جب شھزاد ہو وہ دوسری ایکٹیویٹیز سے دور رہے. سارا دن گھر میں مصروف رہنے کے باوجود وہ رات کو دیر تک جاگتی مبادا شھزاد کو کسی چیز کی ضرورت نہ پڑ جائے مگر وہ اس سے یکسر بے نیاز اپنے ادھورے دفتری کام رات گئے تک نمٹاتا رہتا یا پھر موبائل پر بلیو سینز میں غرق رہتا. ماہین بے چاری اسکے اس رویے پر کڑھنے کے سوا کیا کرسکتی تھی.

اسے ایسا لگتا جیسے کمرے میں دوسرا کوئ وجود ہی نہ ہو پیار دینے کی جزا اور نہ دینے کی سزا میں بالکل بھگوان جیسا تھا اسکا پتی دیو ، خوش ہو تو بھرا بادل روٹھ جائے تو پیاسی ندی جسے کوئی سروکار ہی نہ ہو اسکا... بدن ایک زمین تھا شھزاد کے لیے وہ اپنے بدن کے سوا اور کچھ نہیں رہی تھی اس کے لئیے. اور اب تو جیسے حد ہی ہوگئی تھی اب تو وہ سامنے سے اس پر الزامات کی بھرمار کرتا. اسکے ذاتی تشخص کی دھجیاں اڑاتا. آپسی رنجش کا اثر اب بچوں پر بھی دکھنے لگا تھا.

آہ! ہانڈی میں کرچھی چلاتے اچانک سالن کے گرم چھینٹے ماہین کے ہاتھ پر آگئے. آخر ایسا بھی کیا کبھی کبھی تو دل کرتا ہے شھزاد کے ہر اندیشے کو سچ ثابت کردوں، اسکے اندر سرکش جذبے سر اٹھانے لگے. وہ کیا سمجھتا ہے میں اسکے بغیر کچھ بھی نہین جوان ہوں، خوبصورت ہوں، پڑھی لکھی ہوں، میرا ایک اپنا وجود ایک اپنا مقام ہے . میں آج بھی اپنی ایک علیحدہ زندگی بنا سکتی ہوں. مجھے اسکے لئیے دن رات ایک کرنے کا کیا صلہ ملا؟؟؟ ہر وقت کی تذلیل.... جھڑکیاں ، بے اعتباری شک، آنسو کیا وہ میرے گزرے برسوں کےہر پل کا حساب لوٹا سکتا ہے. انہی سوچوں میں غلطاں وہ اپنی رائٹنگ ٹیبل پر آبیٹھی اور سفید کاغذ پر آڑی ترچھی لکیریں کھنیچنے لگی.

تبھی اسنے محسوس کیا کہ کاغذ پر کھنچی لکیریں آپس میں گڈمڈ ہورہی ہیں.

سنو ماہین کیا ہوا ؟؟ .......کیوں رو رہی ہو ؟؟؟ اس نے حیرت سے اس ننھے وجود کو دیکھا جو ابھی سامنے پڑے کاغذ سے باہر نکل آیا تھا. اسکی شرارت سے بھری آنکھین چمک رہی تھیں. ک ک کون ہو تم... وہ ڈر ملی حیرانگی سے ہکلاتے ہوئے بولی ... یہاں کیسے آئے اورتم اتنے چھوٹے کیوں ہو؟؟؟ ابھی وہ اس سے استفسار کرہی رہی تھی کہ دھیرے دھیرے اس کے سامنے دھرے کاغذ میں سے کئی اور کردار اسکی کھینچی آڑھی ترچھی لکیروں میں سے نکل کر اس کے سامنے آگئے..... آپ سب ؟ کون ہو.... ؟؟؟

تو ان میں سے ایک نوجوان نے جواب دیا ہم آپکی کہانیون کے کیرکٹر ہیں..... کیا ہوا اب آپ لکھتی کیوں نہیں.... دیکھو میری کہانی بھی کب سے ادھوری پڑی ہے اسنے منہ بسورتے ہوئے ایک لکیر کی طرف اشارہ کیا .... تبھی دو پیاری سی لڑکیاں... ایک گہری لکیر میں سے نکل کر اماہین کے سامنے آئیں ..، اور وہ کومل آواز میں بولیں.. ماہین آپی ہم سب چاہتے ہیں کہ آپ لکھنا نہیں چھوڑو، دیکھو آپ نے ان سب کیرکٹرز کو زندگی دی. اسکی وجہ سے آج لوگ آپکو جانتے ہیں... اور آپکو مزید پڑھنا چاہتے ہیں.... آپکی شاعری آپکے افسانوں میں دن بدن نکھار آرہا ہے... پھر کیوں؟؟؟؟

ماہین نے اپنی بڑی بڑی آنکھیں مسلیں تو کاجل پھیل کر اسکے گالوں تک آگیا. وہ رندھے ہوئے لہجے کے ساتھ سختی سے بولی نہیں.... میرا شوق اب میرے گھر کے آڑے آرہا ہے، اس سے پہلے کہ میں جذبات میں آکر کوئ انتہائ قدم اٹھالوں مجھے اس سب میں سے کسی ایک کو چننا ہوگا. اسنے زبردستی سب کو سمیٹنے کی کوشش کی. جیسے انہیں واپس لکیروں میں دھکیلنا چاہتی ہو.... اور ناکامی ، تزبزب اور بے بسی سے جھنجھلا کر اس نے سامنے بکھرے صفحات اور اپنی ڈائری کو بے دردی سے پھاڑ کر ڈسٹ بن میں ڈال دیا. اور سر کرس کی پشت پر ڈال کر اس نے آنکھیں بند کر لیں... کہ تبھی ڈسٹ بن میں ہلچل شروع ہوگئی... اس نے دیکھا کوئی کردار ڈائری کے گتے کے نیچے سے تو کوئی پھٹے کاغذ کے پیچھے سے نکل کر سامنے آنے لگے ... وہ حیرت زدہ رہ گئی یہ دیکھ کر کہ .. ان کے وجود سالم تھے.. صفحے تو پھٹ گئے تھے.... لیکن وہ فیصلہ کرچکی تھی.... اسنے یہ شور احتجاج یکسر نظر انداز کردیا.... اور اس نے سوچا کہ اگر شھزاد پہل نہیں کرتا تو کیا ہوا میں تو کرسکتی ہوں ایک بیوی ہونے کے ساتھ ساتھ میں ایک ماں بھی ہوں. میری خدمت اور قربانی کا صلہ بھلے ہی نہ ملے مجھے ....مگر میرے فرائض میری زمہ داری میں شامل ہے یہ گھر ، بچے اور شوہر میرے لیئے زیادہ اہم ہیں اور انکے لیئے میں اپنی ذات اور اپنے ہر شوق کی نفی کرسکتی ہوں.اسنے اپنے اندر اٹھتی چیخوں کو سختی سے اندر ہی اندر گہرائی میں دبا دیا تھا اور ردی کی ٹوکری سے گونجتے نوحوں کی طرف سے اپنے کان بند کر لئیے.

تبھی دروازے کی ڈور بیل بجی. دوسری طرف شھزاد تھا. ماہین بھوک لگی ہے جلدی سے کھانا لگاؤ کچھ دیر پہلے کے جھگڑے کا اسکے چہرے پر شائبہ تک نہیں تھا. جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو... ماہین نے اسے ٹٹولنے والی نظروں سے دیکھا.... وہ بظاہر نارمل نظر آنے کی کوشش کررہا تھا... تبھی شہزاد کی نظر ڈسٹ بن میں پڑے پھٹے کاغزوں اور ڈائری پر پڑی ..... اس نے غم زدہ حیرت سے ماہین کی طرف دیکھا... جیسے پوچھ رہا ہو یہ کیا کیا ماہین.....

تو ماہین نے نظرین چراتے ہوئے کہا ... کچھ نہیں یہ شوق تھا ...جسے نوچ کر پھینک دیا ...... اپنی خاطر... تمھاری خاطر اور بچوں کی خاطر...

وہ ایک لمحہ جس میں کئیے گئے فیصلے نے اسکی زندگی کے اندر زہر گھول دیا تھا. آج اس پرآگہی کے نئے دریچے کھول رہا تھا. شہزاد کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے اسے ایسے لگا کہ وہ پھر سے ایک عورت سے دیوی بن گئی.
Haya Ghazal
About the Author: Haya Ghazal Read More Articles by Haya Ghazal: 65 Articles with 88430 views I am freelancer poetess & witer on hamareweb. I work in Monthaliy International Magzin as a buti tips incharch.otherwise i write poetry on fb poerty p.. View More