بھارت بھی دہشت گردوں سے تعاون ختم کرے

جب سے پٹھان کوٹ کا واقعہ ہوا بھارت کی طرف سے پاکستان پر الزام لگادیا گیا کہ یہ کاروائی پاکستان کے اندر سے ہوئی ہے تب سے حکومت پاکستان مشکوک افراد کے خلاف کاروائی عمل میں لا رہی ہے متعدد لوگوں کو گرفتار کرلیا گیا ہے اور تفتیش کا عمل جاری ہے مودی سرکار کے اچانک پاکستان دوروں سے پاکستان اور بھارت کے تعلقات میں کچھ بہتری کی علامت سمجھا جا رہا تھا لیکن ان پر بھی پاکستان میں موجود اہم لوگوں کو اعتراض تھا ان کا موقف تھا کہ پاکستان بھارت سے اتنے تعلقات استوار نہ کرے کیونکہ بھارت کا ماضی تسلی بخش نہیں ہے لیکن حکومت پاکستان نے اس موقف کو یکسر نظر انداز کرتے ہوئے بھارت سے تعلقات استوار رکھنے کا سلسلہ جاری رکھا یہ حقیقت ہے کہ پاکستان نے بھارت کو ہمیشہ مثبت جواب دیا مگر بھارت کی طرف سے کبھی بھی خیر کی خبر نہیں آئی اور بھی خیر کی توقع نظر نہیں آرہی کیونکہ ہندو ذہنیت اسی مقام پر کھڑی ہے جہاں قیام پاکستان کے وقت کھڑی تھی اگر اس میں تبدیلی آنا ہوتی تو قیام پاکستان کے بعد آجاتی مگربد قسمتی سے ایسا نہ ہوسکا یہ سلسلہ آج تک جاری ہے،اس کا حالیہ بین ثبوت نئی دہلی میں پی آئی اے کے دفتر پر ہندوانتہا پسند تنظیم بجرنگ دل کا حملہ ہے یہ کوئی دیہات میں واقعہ رونما نہیں ہوا بلکہ بھارت کے مرکز نئی دہلی میں ہو اکہ درجنوں انتہا پسند آئے اور انہوں نے دفتر میں گھس کر طوفان بد تمیزی پربا کردیا ،کمپیوٹر توڑ دئیے پاکستان کے خلاف نعرے بازی کی گئی عملے پر تشدد کیا گیا یہ سب کچھ دن دہاڑے ہوا اور مودی سرکار تماشا دیکھتی رہی صاف ظاہر ہے کہ اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ مودی سرکاردہشت گردوں کو ہلا شیری دیتی رہی کہ کرو کاروائی مودی ہم آپ کے ساتھ ہیں ۔ حالیہ نئی دہلی حملے کے بعد جوردعمل آیاہے اس پر بھی حکومت پاکستان کو غور کرنا چاہیے۔ پاکستان بھر سے دینی ،سیاسی سماجی،مذہبی جماعتوں کے قائدین کا کہنا ہے کہ بجرنگ دل دہشت گردتنظیم سمیت سب دہشت گرد تنظیموں کو لگام ڈالے ،پی آئی اے کے دفتر پر حملہ میں مودی سرکاری کی آشیرباد شامل ہے۔ بھارت نے دہشت گردوں کو کھلی چھٹی دے رکھی ہے پاکستان سے مطالبہ کرنے سے پہلے بھارت بھارتی دہشت گردوں کو لگام دے انتہاپسند ہندو نتظیم بجرنگ دل کا پی آئی اے کے دفتر پر حملہ اور مودی حکومت کا تماشا دیکھتے رہنا اس امر کا بین ثبوت ہے کہ اس واقعہ میں مودی سرکار براۂ راست ملوث ہے ۔پاکستان نے بھارتی شک پر پاکستان میں کاروائی کرکے مثبت اقدام کئے مگر ہندوستان نے اس کے جواب میں پی آئی اے کے دفتر پر حملہ کرکے دہشت گردانہ جواب دیا اس کاروائی کے بعد حکومت پاکستان کی آنکھیں کھل جانی چاہیں کہ بھارت کبھی بھی پاکستان کا مخلص دوست نہیں ہوسکتا ۔ہندو ذہنیت کو سمجھتے ہوئے حکومت پاکستان بھارت سے اس کی ذہنیت کے مطابق اس سے تعلقات قائم کرے ۔ ہندوستان خود دہشت گردوں کی سپورٹ کررہا ہے پاکستان کے اندر بھارتی خفیہ ایجنسیوں کی کاروائیاں کسی سے پوچھیدہ نہیں ہیں۔یہ بھی کہا جارہا ہے کہ پاکستان کو چاہیے کہ اپنے ایٹمی پاورہونے کا بھرم تو رکھے اور بھارت کے سامنے لیٹنے کی بجائے برابری کی بنیاد پر تعلقات استوار کرے ۔ایک دینی جماعت کے لیڈر کا کہنا ہے کہ پاکستان کو چاہیے کہ کفار سے تعلقات استوار کرنے کی بجائے امت مسلمہ کو یکجا (خلافت قائم کرکے)کیا جائے تمام وسائل امت ایک جگہ جمع کرکے امت کو اس کے فوائد پہنچائے جائیں ایسا کرنے سے نان سٹیٹ عناصر کو وجود ختم ہوجائے گا امت انتشار و خلفشار سے بچ جائے گی اور خلافت کے اہم ترین دینی فریضے کے ٹائٹل کو کوئی پھر استعمال کرکے امت کو نت نئے مسائل سے دوچار نہیں کرسکے گا ۔

بھارت کے رویے پر مبصرین کا کہنا ہے کہ حکومت پاکستان کو چاہیے کہ بھارت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرے اور واضح پیغام دے کہ پاکستان ہر قسم کی دہشت گردی کے خلاف ہے اور اسے روکنا چاہتا ہے مگر بھارت کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنا طرز بدلے بھارت میں موجود بجرنگ دل،شیوسینا،ویشواہندوپردیشد،راشٹریہ سیوک سنگھ پارٹی ودیگر درجنوں انتہا پسند،دہشت گرد عناصر اور تنظیموں کے خلاف کاروائی کرے اور دنیا کو اپنی کارکردگی دکھائے ،صرف پاکستان سے بھارت کا مطالبہ کسی صورت درست نہیں ہے اور پاکستان کا اس کے سامنے سرنڈر کردینا ملکی وقار لکاجنازہ نکالنے کے مترادف ہے ۔ہم یہ سمجھتے ہیں کہ بھارت نے اگر اپنا رویہ نہ بدلا تو پاک بھارت تعلقات کسی صورت بہتر نہیں ہو سکتے تعلقات میں بہتری لانے کیلئے غم وغصہ کی کیفیت ختم کرنا ہوگی اس کیلئے سب سے پہلے بھارت کا فرض ہے کہ وہ کشمیر سے اپنا غاصبانہ تسلط ختم کرکے کشمیریوں کو ان کی مرضی کے مطابق جینے کا حق دے اگر بھارت یہ سمجھتا ہے کہ کشمیر کی بغیر معاملات حل ہوجائیں گے ایسا کبھی نہیں ہوگا دونوں ملکوں میں تناؤ کا ختم ہونا ناممکن ہے۔
 
Ghulam Abbas Siddiqui
About the Author: Ghulam Abbas Siddiqui Read More Articles by Ghulam Abbas Siddiqui: 264 Articles with 245862 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.