ذراقرنِ اول کو آواز دینا!

خالقِ کائنات نے انسانیت کی فلاح وبہبودکے لیے انہیں اپنے ابدی کلام میں سب سے پہلے پڑھنے کا حکم دیااور اسی کی بنیاد پر ان کو تمام مخلوقات پر فوقیت عطاکی۔ معلم انسانیت ﷺ نے علم حاصل کرنا مسلمانوں پر فرض قرار دیا۔ عقلِ انسانی بھی اس مدنی اور معاشرتی زندگی میں ترقی کرنے کے لیے علم کو سب سے پہلی سیڑھی قرار دیتی ہے۔ علم کوئی بھی ہوبہرِ کیف فائدہ سے خالی نہیں ہے؛ اس لیے کہ علم دینی اور دینوی ہونے سے پہلے محض علم ہے، سورہ اقراء کی پہلی آیت میں دینی اور دنیوی علوم کی کوئی قید نہیں ہے، نیز اللہ کے رسول ﷺنے غزوۂ بدر میں حاصل ہونے والے غریب قیدیوں کا فدیہ دس مسلم بچوں کی تعلیم کو بنایاتھا اور ظاہر ہے کہ وہ جس علم کی تدریس پر معمور کیے گئے تھے وہ دینی علوم نہیں تھے ؛ اس لیے کہ اسلامی علوم کی تعلیم کے لیے صحابۂ کرام اور خودمعلم انسانیت ﷺبنفسِ نفیس وہاں موجود تھے ، چنانچہ صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے جہاں اپنے بچوں اور ماتحتوں کو علومِ نبوت سے خوب سیراب کیا ، وہیں اپنے بچوں کے تیئیں مروجہ اوردنیوی علوم کی ضرورت سے بھی چشم پوشی نہیں کی، صحابۂ کرام کے بعد ہمارے سلف وخلف کا بھی یہی دستور رہا ہے، یہ تو ہماری حرماں نصیبی ہے کہ ہم نے اپنے آباو اجداد کے طریقۂ تعلیم اور نہج کو بالکل فراموش کردیا اور ہم نے سمجھ لیا، کہ اسلامی علوم و معارف تو صرف قرآن و حدیث کا علم ہے اور بقیہ علوم غیروں کی ایجادہیں، اسی نا فہمی کی بنیاد پرد وسرے لوگ بھی ہمیں طعنہ دینے لگے، کہ ہم مسلمان تو دقیانوسی خیالات کے حامل ہیں ، جدید علوم و فنون سے ہمارا کیا واسطہ کیا رشتہ؟ لیکن حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے؛ اس لیے کہ جب ہم قرآن و حدیث اور تاریخ کا گہرائی سے مطالعہ کرتے ہیں،تویوں محسوس ہوتا ہے کہ یہ علوم ہماری ہی ایجاد اور قرآن و حدیث سے مستفاد ہیں۔ اللہ کے رسول محمد ﷺ کی پیاری حدیث ’’لکل داء دواء ‘‘(ہر مرض کے لیے دوا ہے) نے مسلم حکما اور اطبا کو ایسا نسخۂ کیمیا فراہم کیا ، جس نے انہیں دنیاوی مخلوقات میں غور خوض کرنے پر مجبور کردیا اور اس کے نتیجہ میں الحمداللہ بے شمار ایجادات سامنے آئیں۔یہ ایک مشہور مقولہ ہے کہ اگر اسپین سے مسلمانوں کی حکومت کا خاتمہ نہیں ہواہوتا ، تو وہ کئی سال پہلے ہی مریخ سر کر چکے ہوتے۔ مگر آج ہم اپنی تاریخ اور روایات کو فراموش کرکے انتہائی احساسِ کمتریں کے شکار ہوچکے ہیں اور یہ ہم ہی ہیں جنہوں نے علوم کو دینی اور اور دنیوی علوم میں منقسم کرکے اپنے لیے مستقبل کو تاریک بنادیا، افسوس ناک امر یہ ہے کہ اس تقسیم کے باوجود بھی آج ہمارا معاشرہ امام ابوحنیفہ اور امام شافعی سے خالی ہے۔ حالانکہ ہونا تو یہ چاہیئے کہ تقسیم کے بعد صرف اس جانب ہمارا تعمق پہلے سے کئی گنا زیادہ ہوتا، مگراس زمانہ میں ان کے مرتبۂ علم وفن کی ہمسری کی تو دور کی بات، ان کے شاگرد در شاگرد کا بھی مثل پانا مشکل ہے اورہنوز اس دور میں اس کی دریافتگی بھی محال نظر آتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہم نے ماضی سے اپنا رشتہ توڑ کر ، خود کی ظاہری ومعنوی ترقی کے لیے اپنے اپنے طور پر نصاب اور نظام منتخب کرلیاہے، جس سے طلبا کا وقت بھی ضائع ہوا اور اکثر طلبا کہیں کے بھی نہ رہے’نہ خدا ہی ملا نہ وصالِ صنم‘ ۔ حالانکہ جب ہم اپنے ماضی پر نگاہ ڈالتے ہیں، تو ہمارا ماضی اس قدر روشن اور تابناک نظرآتا ہے ، کہ اگر اس میں ہم اپنی انا کی خلیج حائل نہ کیے ہوتے، تواس کی تیز روشنی آج بھی ہمیں مستقبل کی طرف رہنمائی کرتی، افسوس یہ ہے کہ ہمارے کارنامے صرف کاغذ تک ہی محدود ہوکر رہ گئے ہیں، ہماری عملی زندگی اس سے بالکل خالی ہے۔ تاریخ نویسوں نے تو ہم تک ہماری داستان پہنچادی ہے، اب یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم کس قدر اس کو لے کر آگے بڑھتے ہیں؛ چنانچہ فلپ ہتی (Philip Hitti) اپنی کتاب (The Story of the Arabs, 1970) میں رقم طراز ہے :’’ درمیانی صدی میں انسانیت کی نشو و نمااور ان کی ترقی وبہتری میں جس قدر مسلمانوں نے اہم رول ادا کیا ہے، اتنا کسی قوم نے بھی نہیں کیا‘‘۔مشہور مغربی صحافی،عربی زبان وادب اور اسلامی علوم وفنون کی ادبی شخصیت پروفیسر مونٹگومری وٹ (Montgomery Watt) اپنی کتاب (''The Majesty that was Islam"--London 1984 P 227 '') میں لکھتا ہے: ’’ دنیا کا سب سے پہلامیڈیکل کالج بغداد میں خلافتِ عباسیہ کے دور میں تعمیر ہوا‘‘۔ اس زمانے کے مشہور اسپتالوں میں المنصور ہاسپیٹل کا نام سر فہرست آتاہے، جس کو۱۲۸۲ء میں خلیفہ منصور نے تعمیر کروایا تھا، یہاں قابل غور بات یہ ہے کہ اس ہاسپیٹل میں بیک وقت آٹھ ہزار مریضوں کے قیام وطعام کی سہولت فراہم تھی ، مزید یہ کہ مرد وعورت اور مختلف امراض کے لیے الگ الگ وارڈس مختص کیے گئے تھے۔ نیزہارون رشید نے زمانہ کے لحاظ سے ہر قسم کی جدید ٹیکنالوجی سے آراستہ پہلا منظم ہاسپیٹل آٹھویں صدی میں تعمیر کروائی۔ اس کے علاوہ مسلم ڈاکٹرس اور حکما نے تشریح الابدان اور دوا سازی ان دونوں شعبوں کو عروج عطاکیا، چنانچہ ڈاکٹر، شاعر، فلسفی اور سائنسداں’’ ابن سینا‘‘ جنہوں نے علم کے تقریبا تمام شعبوں میں قلمرانی کی ہے’’ علم جرثومیات‘‘ (bacteriology)کی بنیاد ڈالی،علم سرجری کے تمام آلات کی دریافت ابو القاسم الظہوری کی دین ہے؛ چناچہ روبرٹ اسٹیفین بریفولٹ (Robert Stephan Briffault) لکھتا ہے:’’ ہمارا سائنس عربوں کا صرف انقلابی افکار ہی میں مرہون منت نہیں ، بلکہ سائنس کی ترقی میں عربوں کی شراکت لوگوں کی عام معلومات سے کہیں زیادہ ہے، بلکہ آج کی یہ ترقی یافتہ دنیا عربوں کی روشنی کے بغیر وجود ہی میں نہیں آتی‘‘۔ فرینچ کا مشہور مورخ گسٹیو لیبون(Gustave Le-Bon-1841-1931) اپنی کتاب ’’حضارۃ العرب ‘‘میں لکھتا ہے: ’’ ہم یورپ پر عربوں کے اس عظیم احسان کا کیسے تصور کرسکتے ہیں جب وہ تاریکی غار میں تھے اورجب کچھ لوگوں کو اس کا احساس ہو ا ،تو انہوں نے عربوں ہی کا دروازہ کھٹکھٹایا، یہ صلیبی جنگوں کا ہی نتیجہ اور اس کا ثمرہ تھا کہ ان لوگوں کا تعلق عربوں سے ہوا اور ان لوگوں نے ان سے اپنی علمی تشنگی دور کی‘‘۔ غرضیکہ یہ جدید علوم وفنون اسلام کی مرہون منت اور اس کی ایجاد ہے۔ ا س کو ہم تسلیم کریں یا نہ کریں تاریخ نے اس کو اپنے دامن میں محفوظ کرلیا ہے ، جو خائن کی خیانت اور عصبیت سے بھی پاک ہے۔ لہذا اب یہ سمجھنا چھوڑ دیں کہ ان جدید علوم سے ہمارا کوئی واسطہ و رشتہ نہیں اس لیے ہم اس کو کیوں پڑھیں ، یا صرف انہی علوم پر اکتفا کریں، دینی علوم کے حصول کا کیا فائدہ؟، تو یہ بات ذہن نشیں رہے کہ ان علوم کا فائدہ دینی علوم کے حصول کے بغیر ممکن ہی نہیں؛ اس لیے کہ دینی علوم انسان کے اندر فکری اعتدال پیدا کرتا ہے اور جو اعتدال سے ہٹ جائے وہ گمراہ ہوجاتا ہے ، یا یوں کہیں کہ دینی علوم دنیوی علوم کے لیے شمع اور روشنی ہیں کہ رات کی تاریکی میں اگر آپ کے پاس چراغ نہیں ہے ،تو آنکھ ہونے کے باوجود آپ سیدھے راستہ سے بھٹک سکتے ہیں۔

الغرض ہمارے سلف نے تو علم حاصل کرکے اپنے مستقبل اور ماضی کو تابناک بنایا اور ہم ان کے طریقۂ کار اور نظامِ تعلیم کو چھوڑ کر ذلیل وخوار ہوئے، مدارس میں پڑھایا جانے والا درسِ نظامی کیا خدائی نظام اورنبوی فرمان ہے کہ اس میں ایک حرف بھی تبدیلی کفروالحاد کے مترادف ہے ،کہ ایک برقِ بے اماں گرکر ہمارے نخلِ تمنا کو خاکسترکردے ؟ دوسری بات یہ کہ جس وقت درسِ نظامی مرتب کیا گیا اس وقت امت کے سامنے کون سا مسئلہ درپیش تھا، کیا کبھی ہم نے اس پر غور کیا ہے؟ہندوستان میں جس وقت مدارس کا جال بنا جارہا تھا اور جس مقصد کے لیے دارالعلوم وغیرہ کا قیام عمل میں آیا ،اس کے درپردہ مقصد یہ تھا کہ مسلمانوں کو ظاہری اور معنوی طور پر انگریزوں کے فریب اور چنگل سے آزادکرایا جائے ، نیز اس متحدہ پلیٹ فارم سے ایک ایسی جماعت تیار ہو جو ہر اعتبار سے اس طاغوتی طاقت کا دندان شکن جواب دے سکے، چونکہ اس وقت حالات ہی ایسے تھے، مگر جب حالت اور ماحول میں تبدیلی آئی تو مدارس کی وہ خاص غرض باقی نہ رہی اور وہ ایک تعلیم گاہ کی شکل میں پراوانۂ نبوت کو علومِ نبوت سے سیراب کرنے میں منہمک ہوگئے، گویا تعلیم وتعلم ہی ان کا مقصد بن گیا ، چونکہ اس وقت ضرورت درسِ نظامی ہی جیسیے نصاب کی تھی ؛ اس لیے ہمارے سلف نے اس کو اختیار کیا ، پھر تمام مدارس والے اس کی اتباع میں صرف اسی ایک نصاب کی تعلیم دینے لگے ، تاریخ اور زمانے نے شہادت بھی پیش کی کہ اس نصابِ تعلیم سے کیسے کیسے رجالِ کار اور علوم ومعارف کے شہسوار پیدا ہوئے اور علم کے مختلف شعبوں میں کارہائے شیشہ وآہن انجام دیئے، مگر اب وقت بدل چکا ہے ، اس نظام اور نصاب پر جمود اور مردنی چھاچکی ہے ، انسانی عقلیں نقل کے بجائے عقل پر زیادہ اعتماد اور یقین کرنے لگی ہیں، روایات کو فرسودہ خیالات کی حامل اور دقیانوسیت پر مشتمل سمجھنے لگی ہیں، حد تو یہ ہے کہ بعض لوگ اسلامی ارکان اور دیگر شرعی احکام میں بھی عقل کو پیمانۂ حق کا معیار بنایا دیا ہے، کہ جو بات ان کی عقل پر اترتی ہے وہی ان کو صحیح اور سچ معلوم ہوتی ، صرف دومنٹ کے لیے کوئی بات ان کی محدود عقل میں نہیں آتی ، تو پیشانی پر طرح طرح کی شلوٹیں ظاہر ہونے لگتی ہیں ، نعوذباللہ کبھی کبھی تو کوئی عقل کا پرستار خدا اور خدائی قانون پر بھی اعتراض کرنے سے گریز نہیں کرتا، چونکہ ہمارے فضلا سائنسی اور جدید علوم ومعارف سے ناواقف ہیں؛ اس لیے وہ ان کے جوابات دینے سے گریز کرتے ہیں، جس کے نتیجہ میں جاہل مفتی اور مفتی جاہل بنتا جارہا ہے ، جو کوئی بھی کہیں سے کوئی تفسیر پڑھ لیا وہ خود کو مفسرِ قرآن ظاہر کرنے لگتا ہے، کوئی ایک چلہ لگا لیا وہ اپنے آپ کو قاضی سمجھ بیٹھتا ہے ، اس کی وجہ سے آج مسلمانوں کے تمام نظام میں مکمل خلل آگیا ہے، تعلیمی مراکز خواہ وہ مدرسہ ہو یا اسکول اور کالج؛ ہر ایک کے نظام تعلیم میں اس قدر بگاڑ او ران کے طالبِ علموں میں اس قدر دوری پیدا ہوگئی ہے، کہ شاید اس بگاڑ اور دوری کو پاٹنے میں صدیاں گذر جائے اور وہ بھی ناکافی ہو؛اگر ایک عالم کسی ڈاکٹر یا انجینیئر سے ملتا ہے ، تو انجیبیئر صاحب اپنے آپ کو وزیرِ اعظم سمجھ بیٹھتے ہیں اور اس جانب سے بھی کوئی اخلاقی رویہ پیش نہیں کیا جاتا ہے؛ بلکہ مفادِ عامہ سے ہٹ کر ایک دوسرے کوحقیر وفقیر سمجھنا آج ہمارا پیشہ بن گیا ہے۔ بجائے اس کے ہم سب مل کر اس خلیج کو پاٹنے کی کوشش کرتے،ہم ایک دوسرے پر لعن وطعن کرنے میں مصروف ہیں ۔ ان تمام برائیوں کی اصلہ جڑ اور بنیاد بھی ہماراموجودہ تعلیمی نظام ہے۔ مدارس میں طلبہ کو تعلیم تو دے دی جاتی ہے ، لیکن انہیں دنیاوی زندگی کے نشیب وفراز اوراس کے اصول وضوابط نہیں بتلائے جا تے، یہ نہیں بتلایا جاتا کہ وہ اپنی مابعد کی زندگی کیسے گذاریں، اگر اپنی محنت اور لگن سے اس کاشعور ہو بھی جاتا ہے، تو ماحول اور کوئی سند ان کے پاس نہیں ہوتی، کہ وہ ما بعد کی زندگی کو خوشگوار بناسکیں، صرف مسجد اور مدرسہ کی چہار دیواری ہی میں دنیا نہیں ہے؛ بلکہ اس کے آگے جہاں اوربھی ہے۔اور یہی حالت بلکہ اس سے بھی بدترین حالت ہمارے اسکولی طلبا کی ہے، کہ ان کو سند اور ماحول تو فراہم کرادیے جاتے ہیں ؛ لیکن وہ اسلام، شعائرِ اسلام اور مذہبی طورطریقہ؛ ان تمام شعبہ ہائے فطرت اور اخلاق سے وہ بالکل پیدل ہوتے ہیں، اگر کسی کے گھر کا ماحول درست ہوتا ہے ،تو ان میں کسی قدر تہذیب آبھی جاتی ہے، تاہم اکثریت بے روح افسردہ اور پڑھے لکھے جاہلوں کی ہوتی ہے۔

کیا اس خلیج کا پاٹنا اور اس دوری کو کم کرنا ، نیز اس نظام کی خرابی کی جو جڑ اور بنیاد ہے، اس کو دور کرنا علما، دانشوران اور قائدین اسلام اورمسلمان کی ذمہ دار ی نہیں ہے ، کیا ہمارا مقصد صرف جلسے اور جلوس ہی کرنا رہ گیا ہے ، چاہے اس کے لیے مسلمانوں کی عفت وعصمت ہی کیوں نہ داؤ پر لگانا پڑے۔ حقیقت یہ ہے کہ صرف مقالہ نگاری ہی ہماری بدقسمتی کو خوش قسمتی میں نہیں بدل سکتی ؛ بلکہ اس کے لیے ہمیں آپسی تمام چپقلس، دوریاں اور دشمنیوں کو چھوڑ کر کسی ایک پلیٹ فارم پر جمع ہونا پڑے گا ، تبھی ہم پھر سے اپنی تاریخ رقم کرپائیں گے۔اگر ہم نے اس طرف التفات نہیں کیا ، تو کوئی بھی ہمیں سہارا دینے کے لیے کھڑا نہیں ہوگا، اپنی پریشاینوں کے دفاع اور اپنی بیماریوں کے اعلاج کے لیے ہمیں خودہی پیش رفت کرنی ہوگی۔
Rameez Ahmad Taquee
About the Author: Rameez Ahmad Taquee Read More Articles by Rameez Ahmad Taquee: 89 Articles with 66001 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.