سائنسی اورسماجی علوم۔۔۔۔۔۔ ایک موازنہ

نونہالان کی درست خطوط پرتعلیم وتربیت ہی اس بات کی ضامن ہوتی ہے کہ قوم مستقبل میں ترقی کی مزید منازل طے کرے۔ چنانچہ باشعور اقوام اس حوالے سے باقاعدہ منصوبہ سازی کرتی ہیں اور معاشرے کی ضرورت کے پیش نظر طلبا کوتعلیم وتربیت فراہم کی جاتی ہے۔ چنانچہ طلباکے لیے مناسب شعبہ جات کااہتمام کرنا اور ملکی مفاد کے تحت ان کو موزوںشعبہ جات میں داخلہ لینے پرآمادہ کرنایقینا ذمہ دار حکومتوں کی ترجیحات میں شامل ہوتاہے۔

ایک طالب علم میٹرک یاانٹرمیڈیٹ اور اس کے بعد کس شعبہ میں تعلیم حاصل کرے گا ،یہ اس کی ذاتی دلچسپی کے ساتھ ساتھ ملکی وقومی مفاد سے بھی وابستہ ہے۔ اسی لیے آج دنیا میں حکومتوں کی طرف سے باقاعدہ طلبا کی کیرئیرکونسلنگ کی جاتی ہے اور مناسب رہنمائی فراہم کی جاتی ہے۔ جبکہ ان سب سے قطع نظر ایک نگاہ ذرا ملک عزیز کے نظام پربھی ڈالیے تویقینا آپ کاگمان درست ثابت ہوگا کہ یہاں ایسی کسی بھی قسم کی منصوبہ بندی کی توقع بھی عبث ہے۔ چنانچہ ایک بھیڑ چال کا سماں ہے۔

مثال سے یوں سمجھ لیں کہ ہمارے ہاں طلبا میٹرک بالعموم سائنس کے ساتھ کرتے ہیں اور آرٹس میں میٹرک صرف وہی کرتے ہیں کہ جونالائق سمجھے جاتے ہیں اور اگر کوئی غلطی سے آرٹس میں میٹرک کرنے کاسوچ لے توایسے خطرناک انکشافات ہوتے ہیں کہ وہ طالب علم کانوںکوہاتھ لگا لیتا ہے۔ میٹرک کے بعد انٹرمیڈیٹ کی سطح پر بہت سے طلبا اپنے شعبہ کواختیار خود کرتے ہیں لیکن یہاں صورتحال کچھ یوں ہے کہ کوئی بھی والدین ایف ایس سی یاکامرس سے کم پر سمجھوتہ کرنے پرتیارنہ ہیں کہ آرٹس یاسماجی علوم میں انٹرمیڈیٹ صرف وہ کرتے ہیں کہ جو سائنس میں کرنہیں پاتے۔ چنانچہ اس احساس کمتری سے بچنے کے لیے زیادہ ترطلباسائنس ہی کاانتخاب کرتے ہیں۔ قطع نظر اس کے کہ ان میں سے کتنے سائنس میں اپنی تعلیم کوآگے بڑھاپاتے ہیں اور کتنے ہی بیچ منجدھار گھبرا کر چھوڑ جاتے ہیں۔

اولاً اس فرضیے کو جانچ لیتے ہیں کہ کیاواقعی سائنسی علوم برترہیں اورسماجی علوم محض نالائقوں کے لیے ہیں یا صورتحال برعکس بھی ہوسکتی ہے۔

اس کے لیے ہمیں سائنس پڑھنے والے طلبا پر نظر دوڑانی ہوگی۔ سائنس پڑھنے والے ہمارے ہاں سرفہرست انجینئرنگ اورمیڈیکل میں داخلہ کے اہل قرار پاتے ہیں ۔چنانچہ ''وہی لائق'' تصور ہوتے ہیں ۔یہ طلبا انجینئرنگ یامیڈیکل کی تعلیم حاصل کرتے ہیں اور بالترتیب کسی انڈسٹری یاکمپنی اور ہسپتال میں اپنی خدمات فراہم کرتے ہیں ۔یوں ہمارے معاشرے کے قابل اور ذہین ترین دماغ محض خدمات فراہم کرنے تک محدود رہتے ہیں۔

دوسری طرف ہم آرٹس یاسماجی علوم پڑھنے والے طلبا کی طرف نظردوڑاتے ہیں ۔ان کے کیرئیر کامنتہابالعموم شعبہ تعلیم یعنی درس و تدریس سے وابستہ ہونے پرہوتاہے۔ یعنی یہ بھی معاشرے کو اپنی خدمات فراہم کرتے ہیں۔ یوں کسی حدتک یہ سائنس والوں کے ہم پلہ قرار پاتے ہیں لیکن انہی سماجی علوم پڑھنے والوں میں سے ملک کے انتظامی امورچلانے کے لیے افراد منتخب ہوتے ہیں اوریہی بالعموم سیاست دان اورپھرملک کے حکمران بھی بنتے ہیں۔ ملک میں ہونے والے فیصلے،بننے والی پالیسیاں اور اس نوعیت کے دیگر تمام کام یہی سماجی علوم یعنی آرٹس پڑھنے والے ادا کرتے ہیں۔ یہ الگ بحث ہے کہ جس کو ہم تھوڑا مؤخر کرتے ہیں کہ سائنس سے آغازکرنے والے بہ سے طلبا بھی شعور آنے پرسماجیات کی طرف رجوع کرتے ہیں اور سائنس سے کنارہ کش ہوجاتے ہیں۔

چنانچہ اگرہم معاشرے کی معمول کی ڈگرپر تبصرہ کریں توہم یہ کہنے میں حق بجانب ہوں گے کہ ہم اپنے معاشرے کاذہین ترین دماغ محض خدمات فراہم کرنے کے لیے لگادیتے ہیں اور''نالائق ترین'' افراد ہمارے پالیسی ساز اور حکمران بنتے ہیں۔ کیونکہ ایسے کاموں کے لیے سماجی علوم پڑھنا ہوتے ہیں جووالدین اپنے لائق اور ذہین بچوں کو پڑھانے کے روادار نہیں ہوتے ہیں۔

لیکن حقیقی صورتحال بیان کردہ سے زیادہ بدتر ہے کہ ہمارے سماجی علوم پڑھنے والے طلبا کے ساتھ بالآخر پھر سائنس پڑھنے والے طلبا کا مقابلہ کرتے ہیں۔ وہ اپنا میدان چھوڑدیتے ہیں اورمقابلہ کے امتحانات میں شرکت کرتے ہیں۔ یوں والدین اورحکومت کی طرف سے ان کو سائنس کی تعلیم دلوانے کے لیے لگایاجانے والا سرمایہ ضائع ہوتاہے۔ اس کی مثال یوں ہے کہ 18مئی 2015ء کو سہالہ کالج کے تربیت یافتہ سب انسپکٹر ز کی پاسنگ آؤٹ پریڈ ہوئی۔ پنجاب پولیس کے اعدادوشمار کے مطابق بھرتی ہونے والے سب انسپکٹرز میں31افراد انجینئرنگ اور 22افراد ایم فل کی ڈگری رکھتے ہیں۔ اس کے علاوہ ایک پی ایچ ڈی سکالر بھی ان میں شامل ہے۔

اسی بیان کردہ بات کو ہم ایک اور زاویے سے پرکھ سکتے ہیں۔دنیامیں اس وقت ترقی یافتہ کہلائی جانے والی اقوام کامطالعہ کریں ۔وہاں طلباکی ترجیحات کاجائزہ لیں۔ یہ بخوبی علم ہوجاتاہے کہ ان ممالک میں طلبا ایسے علوم کو ترجیح دیتے ہیں کہ جن کی مددسے وہ معاشرے یافیصلہ سازی میں اپناکردارادا کرسکیں۔اس کی سب سے بڑی مثال میڈیاسٹڈیز یعنی ابلاغیات کی تعلیم ہے۔ اسی طرح پولیٹیکل سائنس وغیرہ ہیں۔

باقاعدہ سروے کے مطابق ان ممالک میں انجینئرنگ اور میڈیکل کی ڈگریاں چوتھے یاپانچویں نمبروں پر بالترتیب ٹھہرتی ہیں ۔طلبا اعلیٰ تعلیم کے لیے دیگر شعبوں کا رخ کرتے ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ سائنس بلاشبہ انسانیت کی خدمت کررہی ہے اوراس میں بھی ذہین افراد کی ضرورت ہے لیکن سماجیات میں بھی قابل افراد کا ہونا ضروری ہے ۔وگرنہ افراط وتفریط جیسے کہ ہمارے ہاں ہے ایسی صورت میں پھر یہ انتظامی اور دیگر انتظامی وحکومتی معاملات میں ناکامی کاشکوہ فضول ہے۔

اس معاملے میں ایک باقاعدہ مفروضہ یہ بھی موجود ہے اور اس کے دلائل بھی جاندار ہیں کہ ترقی یافتہ اقوام جان بوجھ کر ترقی پذیر اقوام کو سائنس اور خدمات فراہم کرنے والی تعلیم پرزور دینے میں ابھارتی ہیں۔اس سے دو فوائد حاصل ہوتے ہیں ۔

اولاً یہ کہ ترقی یافتہ ممالک کو سستی افرادی قوت میسر آتی ہے ۔یہی وجہ ہے کہ ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارے ہاں کے ڈاکٹرز،انجینئرز کس قدر ملک سے باہر جانے کے مشاق ہیں اور انہیں وہاں کس قدر سہولیات ملتی ہیں۔ چنانچہ یہ ممالک یوں ہنرمندافراد کوپذیر سے حاصل کرتے ہیں جبکہ ترقی پذیر ممالک اپنے بجٹ کا ایک کثیر حصہ خرچ کرکے ان ذہین ترین ڈاکٹرز اور انجینئرز کو محض اس لیے تیار کرتے ہیں،تاکہ وہ ترقی یافتہ ممالک کی خدمت کر سکیں۔

دوسرافائدہ یہ ہے کہ سماجی علوم پڑھنے سے ترقی پذیر اقوام میں شعور بلند ہوتاہے اور وہ بھی عالمی سیاست اور دیگرمعاملات کو سمجھنے کی اہلیت بنانے لگتی ہیں۔چنانچہ اس موقع پر وہی پرانی سوچ ابھر کر سامنے آتی ہے کہ جوہمارے دیہی علاقوں میںر ائج تھی اور آج بھی کسی حدتک رائج ہے کہ زمیندار اپنے مزدوروں کے بچوں کو پڑھنے نہیں دیتاکہ اگر وہ پڑھیں گے توغلامی نہیں کریں گے۔ البتہ انہیں اس حدتک پڑھنے کی گنجائش ہے کہ جس کی مدد سے یہ ہماری ہی خدمت بہترانداز میں کرسکیں۔

اگرچہ بات بظاہر تلخ اورمبالغے پر مبنینظرآتی ہے لیکن افسوس کے ساتھ کہناپڑتاہے کہ یہی حقیقت ہے ۔ ہمارے نوجوان وہی تعلیم حاصل کرتے ہیں کہ جس کی مدد سے وہ بہتر سے بہترانداز میں خدمت کرسکیں۔جبکہ قیادت و سیادت کے علوم سے ہمارے نوجوان بے بہرہ ہیں۔ یوں یہ افراطِ و تفریط ہمیں محض تنزلی وغلامی میں مزید آگے بڑھنے کے علاوہ کچھ نہیں دے رہی ہے۔

مذکورہ بالابحث سے ہرگز یہ مراد نہیں ہے کہ سائنس کے علوم کوپڑھنا چھوڑدیاجائے ،بلکہ اس موضوع کو زینت قرطاس بنانے کاہدف اس کے سوا کچھ نہ ہے کہ ہم سماجی علوم سے جوبے اعتنائی برت رہے ہیں اس سے سوتیلوںوالاسلوک نہ کریں۔ اس میں داخلہ لینے والے طلبا احساس کمتری میں مبتلانہ ہوں اور نہ دیگر افراد ان کی حوصلہ شکنی کریں بلکہ لائق اور قابل طلباکی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے کہ وہ ان علوم کو اختیار کریں اور ملک وقوم کے لیے سود مند ثابت ہوں۔

عمرانیات اس وقت ایساعلم ہے کہ جس کی ضرورت سائنس سے کسی طورکمترنہ ہے۔ چنانچہ یہ اگر ہم نے محض ان کے حوالے کررکھاہے جو سائنس نہیں پڑھ سکتے تویقینا اس میں نقصان ہمارے عوام کاہے۔ پھر ہماری انتظامی وسیاسی معلومات بھی انہی افراد کے ہاتھ میں آئیں گے۔ یوں افراط وتفریط اوروسائل کاضیاع یقینی ہوجاتاہے ۔ ضرورت اس امرکی ہے کہ اعلیٰ تعلیمی ادارے اور بالخصوص حکومت اس حوالے سے اقدامات کرے۔
ایک بڑی رکاوٹ جو طلبا کوسماجی علوم پڑھنے سے روکتی ہے'وہ یہ کہ سائنسی علوم پڑھنے کی صورت میں نوکری آسانی سے ملتی ہے جبکہ سماجی علوم پڑھنے والے محض ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہتے ہیں۔
اس معاملے میں پہلی بات یہ ذہن میں رکھیے کہ رزق کا معاملہ اللہ تعالیٰ نے اپنے ذمے لیاہے۔چنانچہ اس معاملے میں گھبرانے کی ضرورت نہیں اور جہاں تک احسن تدبیر کاتعلق ہے تواس معاملے میں بھی مت گھبرائیے کہ رزق حاصل کرنے کے لیے بھی آرٹس میں تعلیم یافتہ افراد ایک اچھی زندگی گزارتے ہیں ۔بشرطیکہ وہ قابل ہوں۔
دراصل ہمارے معاشرے میں آرٹس صرف کمزور افراد پڑھتے ہیں اور وہ معاشرے کاقابل ذکر حصہ نہیں بن پاتے۔چنانچہ یہ مفروضہ ہمارے لیے حقیقت کاروپ دھار چکاہے کہ آرٹس پڑھنے والے فارغ رہتے ہیں جبکہ درحقیقت قابل اور لائق افراد ہی سماجی علوم پردسترس حاصل کریں تو وہ اس میدان میں اپنانام پیدا کرتے ہیں۔
اس کی سب سے بڑی مثال ہمارے دور میں میڈیا ہے۔ میڈیا کی تاثیر اور اس کی قوت سے کون ناواقف ہے لیکن اس میں وہی افراد ہیں کہ جو سماجی علوم حاصل کرتے ہیں ۔عالمی میڈیا اس لیے اس قدر مضبوط ہے کہ وہاں قابل لوگ ان معاملات کا حصہ بنتے ہیں جبکہ ہمارے ہاں ہونے والی غلطیاں اور کمزوریاں محض اس لیے ہیں کہ ہمارے میڈیاکا حصہ بننے والے ماسوائے چند لوگوں کے صرف وہ ہیں کہ جو بننے کچھ اور نکلے تھے پھر مجبوراً آرٹس پڑھی اور دھکے سے میڈیامیں آگئے۔

چنانچہ صورتحال ہمارے سامنے ہے۔ لہٰذا ہائر ایجوکیشن کمیشن کو چاہیے کہ اس کے لیے ضروری اقدامات کر ے اور طلبا کوان علوم کی طرف راغب کرنے کے لیے باقاعدہ منصوبہ سازی کی جائے۔ تاکہ ہماری قوم کاشمار بھی ترقی یافتہ اقوام میں ہوسکے اور ہم بھی دنیا میں فیصلہ سازی میں اپنامؤثر کردار ادا کرسکیں۔
Hanzla Ammad
About the Author: Hanzla Ammad Read More Articles by Hanzla Ammad: 24 Articles with 19657 views Doing M-Phil from Punjab University
A Student of Islamic Studies
.. View More