فرقوں کی جنگ

٩٠ کی دہائی میں ایک امریکی طرف سے پیش کئے جانے والے ایک نظرئیے کو بڑی پذیرائی حاصل ہوئی اس نظریہ کے مطابق جنگ سرد کے بعد اقوام عالم فرقوں اور مذہب و چقافت کی بنیاد پر ایک دوسرے سے لڑیں گی اس وقت تو اس نظرئیے پر کافی تنقید کی گئی تھی اور اس کو رد کیا گیا تھا لیکن موجوہ دور میں سعودی،ایران کشیدگی کو دیکھتے ہوئے لگتا یہی ہے کہ یہ نظریہ درست ہے امریکہ نے اپنے مخصوص اہداف کو سامنے رکھ کر اس نظرئیے کو پروان چڑھایا تھا آج اس نظرئے کو سچ ثابت کرنے کے لئے مسلمانوں کی سرزمین کو استعمال کر رہا ہے لیکن اس ساری صورت حال میں مسلمان ایک دوسرے کو کافر قرار دے کر قتل کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔

شیعہ سنی اختلاف

کسی دور میں امریکہ کے معروف دانشور نے یہ نظریہ دیا تھا کہ سرد جنگ سے پہلے ایک طرف امریکہ تو دوسری طرف روس تھا جن کے درمیان سرد جنگ جاری تھی لیکن ساٹھ کی دہائی کے بعد اس جنگ کی نوعیت بالکل بدل گئی ہے اس نے کہا تھا کہ اب جنگیں فرقوں اور مذاہب کی بنیاد پر ہوں گی اس نظریہ کے اثبات کے لئے اس نے مضبوط دلائل پیش کئے تھے لیکن اس نظریہ کے بعد دنیا بھر میں گویا اک شور اٹھ کھڑا ہوا تھا اکثر ممالک کے دانشوروں نے اس نظرئیے کو باطل قرار یتے ہوئے کہا تھا کہ کیونکہ یہ نظریہ امریکی اینٹیلی جنس کے ایک اہم آفیسر نے دیا ہے اس لئے اس کے پیچھے امریکہ کی کوئی سازش کارفرما ہے بہرحال ۹۰ کی دہائی میں یہ نظریہ اقوام عالم میں کافی زیر بحث رہا آج جب دنیا کے حالات پر نگاہ ڈالیں تو پتہ چلتا ہے کہ اس امریکی دانشور کا نظریہ بالکل درست تھا اور امریکہ کی یہ پالیسی رہی ہے کہ وہ ایسے تجربے جن میں خون بہایا جائے عام طور پر مسلمان ملکوں میں ہی کرتا ہے سو آج اگر ایران اور سعودی عرب کے تنازعہ کو دیکھیں تو لگتا یہی ہے کہ دونوں ممالک مسلک کی بنا پر ہی ایک دوسرے کے خلاف آگ اگل رہے ہیں اور یہ بات بھی دور نہیں کہ ان دونوں کے درمیان جنگ چھڑ جائے لیکن اگر ایسا ہوتا ہے تو اس کا فائدہ یا نقصان کس کو ہو گا؟ اس کے بارے میں شاید فریقین کو سوچنے کی فرصت نہیں ہے اس لئے کہ دونوں اسلام کی رسی کو تھامنے کی بجائے اپنے اپنے فرقے کے دامن کو تھامے ہوئے ہیں اور سعودی عرب کے آفیشل علما اس بات کا کئی بار اعادہ کر چکے ہیں کہ جب تک روئے ارض پر ایک بھی شیعہ زندہ ہے تب تک ان کی جنگ جاری رہے گے اسی لئے داعش ۔القاعدہ،بوکوحرام اور طالبان شیعوں کو مارنا ناصرف ثواب عظیم سمجھتے ہیں بلکہ شیعوں کو مارنے سے جنت واجب ہو جاتی ہے اور یہ کہ شیعہ کو مارنا اور ایک کتے کو مارنا برابر ہے دوسری طرف ایران بھی دنیا بھر میں اپنے مذہب کے نظریات کو پھیلانے کے کوشاں ہے لیکن اس میں تشد د کا عنصر ابھی تک نہیں دیکھا گیا ایران کی طرف سے بنائی گئی حزب اور اس جیسی دوسروں تنظیموں نے کم از کم دوسروے مسالک کے لوگوں کو نشانہ نہیں بنایا اس تناظر میں جو بات واضح ہے وہ یہ ہے کہ امریکہ سعودی عرب اور ایران کے درمیان مسلکی اختلافات کو ہوا دے کر مذکورہ نظرئیے کا تجربہ کرنا چاہتا ہے اور اس تجربے کے تناظر میں ادیان ومذاہب کے درمیان عالمی جنگ کو چھیڑ کر خود دور سے تماشائی کا کردار ادا کرنا چاہتا ہے لیکن سب کچھ جانتے ہوئے بھی سعودی عرب اور ایران ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہو رہے ہیں ضرورت اس امر کی ہے کہ اب وہ وقت آ پہنچا ہے جب نا صرف مختلف مسالک بلکہ ادیان عالم باہمی طور پر وحدت و یکجہتی کو فروغ دیں اور ایک دوسرے کے مسلک دین کا احترام کریں کیونکہ اگر ایسا نہ ہو سکا تو پھر امریکہ اپنے منصوبے میں کامیاب ہو کر دور سے بیٹھ کر ایک دوسرے کے ہاتھوں لاشیں گرتا دیکھ کر تالیاں بجائے گا۔لیکن سعودی عرب و ایران ہیں کہ مسلکی دشمنی میں حد سے آگے ہی بڑھتے چلے جا رہے ہیں۔

محمد اشکان بھٹی
About the Author: محمد اشکان بھٹی Read More Articles by محمد اشکان بھٹی: 11 Articles with 8825 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.