حاضر جناب!

پاکستان کی تاریخ گواہ ہے کہ اپنے دوستوں کی خاطر اس ملک نے اپنے ہزاروں باشندوں کی قربانی سے بھی دریغ نہیں کیا پاکستان کے ایک دیرینہ دوست اور ہمدم نے کسی وقت ہم سے روس کے خلاف مدد مانگی تھی ہم نے حاضر جناب کہتے ہوئے طالبان کی فوج تیار کر کے امریکہ کے حوالے کر دی تھی بالکل اسی طرح آج امریکہ صفت ایک اور ہمارا گہرا دوست ہم سے بار بار مددکا تقاضہ کر رہا ہے اور ہم حسب سابق دوستی میں اخلاص کا مظاہرہ کرتے ہوئے وہی الفاظ دہرا رہے ہیں حاضر جناب حاضر جناب! ہم نے تاریخ سے کوئی سبق نہیں سکیھا تاریخ ہمیں پکار پکار کر دوستی میں کئے گئے سابقہ فیصلوں کو یاد کروا کر بہت کچھ ہم پر واضح کر رہی ہے۔لیکن ہم ہیں کہ بلی کی طرح کبوتر کو دیکھ کر آنکھیں بند کر کے حاضر جناب حاضر جناب کا راگ الاپ رہے ہیں۔
12 جنوری کے روزنامہ جنگ میں محترم انور شعور نے سعودی عرب کی طرف سے پاکستان کو 34 ممالک کے اسلامی اتحاد میں شمولیت کے لئے مجبور کرنے کو اشعار کے قالب میں کیا خوب بیان کیا ہے۔ملاحظہ فرمائیں۔
کبھی خود اپنی،کبھی اپنے مہربانوں کی
مصیبتیں جنہیں لیتی ہیں گھیر ،ہم ہیں وہ
کسی کی بات نہ مانیں یہ کیسے ممکن ہے
جو ایک فون پہ ہو جائیں ڈھیر ہم وہ ہیں

اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ اس دنیا میں اقوام خوشحالی و ترقی دیکھتی ہیں تو انہیں مصائب اور مشکلات
کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔تاریخ میں ایسی کسی بھی قوم کا سراغ نہیں ملتا جسے دونوں طرح کی صورت حال کا سامنا نہ رہا ہو لیکن اگر اقوام کی باگ دوڑ مضبوط ہاتھوں میں ہو تو حقیقی رہبر و رہنما مصیبتوں کے پہاڑوں کو رائی میں تبدیل کر دیتے ہیں اس حوالے سے تاریخ مثالوں سے بھری پڑی ہے گو کہ ہمارے اپنے ہی بہت سے لوگ مضبوط دلائل کی بنا پر پاکستانی لوگوں پر قوم کے لفظ کے اطلاق کو درست نہیں سمجھتے ان کے نزدیک ہم ابھی تک قوم نہیں بن سکے بلکہ ہم ایک ریوڑ کی حیثیت رکھتے ہیں لیکن پھر بھی ہمارے پاس ایسے بہت سے دلائل ہیں جن کی بنا پر ہم کہہ سکتے ہیں کہ ہم ایک قوم ہیں قیام پاکستان کے بعد اب تک اس ملک کی باگ دوڑ بہت سے لوگوں کے ہاتھ میں آئی کچھ بے اختیار رہے تو کچھ کو کسی نہ کسی حد تک اختیار حاصل تھا اور ایک خاموش مقتدر طاقت ہمیشہ سے ہی پاکستان پر حکومت کرتی رہی سیاستدانوں نے اس قوم اور ملک کے لئے کچھ کرنے کی بجائے کرپشن کو اپنا ہدف بنایا اور اس مظلوم قوم کے خون پسینے کی کمائی کو بے دردی سے لوٹا اور شاید اسی بنا پر مذکورہ مقتدر طاقت نے ان کو ہٹا کر حکومت کی باگ دوڑ سنبھالنے کا فیصلہ کیا جس کے نتیجہ میں ملک پر مصیبتوں کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ چل پڑا اسٹیبلشمنٹ اور نا اہل حکمرانوں نے جب طالبان کو بنایا تو مظلوم پاکستانی قوم کے مفاد کو مد نظر نہ رکھا گیا کون نہیں جانتا طالبان بنانے کا مقصد صرف اور صرف ہمارے دیرینہ مہربان امریکہ کی خوشنودی حاصل کرنا تھا حالانکہ ہمارے فوجی حلقے اور حکمران امریکہ کے اس سے پہلے کے تمام رویے سے واقف تھے لیکن اس کے باوجود امریکہ کی خوشنودی کے لئے طالبان کو ہیرو بنا کر دنیا کے سامنے لا کھڑا کیا اور جب پاکستان کے ان نا جائز بچوں نے افغانستان میں امریکہ کی خوشنودی کا سامان کر دیا تو امریکہ نے انہیں اون کرنے سے انکار کر دیا اس صورت حال پر طالبان نے ناصرف امریکہ بلکہ ہمیں بھی آنکھیں دکھانا شروع کر دیں امریکہ تو بہت دور بیٹھا تھا اس لئے اس کی نا جائز اولاد اس کا تو کچھ نہیں بگاڑ سکی لیکن انہوں نے ہماری اینٹ سے اینٹ بجا دی امریکہ نے اپنی دیرینہ پالیسی پر عمل کرتے ہوئے ہمیں اور طالبان کو روس کے خلاف استعمال کر کے استعمال شدہ ٹشو کی طرح دور پھینک دیا لیکن اس ظلم عظیم کے بعد ہمیں امداد کا سلسلہ جاری رکھا تا کہ ہم کسی مناسب وقت مزید اس کے کام آسکیں -

لیکن دوسری طرف ہمارے اپنے ہی بنائے ہوئے طالبان نے ہمیں امریکہ سمجھ کر بے دردی سے قتل کرنا شروع کر دیا طالبان کے لگائے گئے زخم ہم کبھی بھی فراموش نہیں کر سکتے شاید اسی لئے جب یہ ظالم ہمارے بچوں تک کو قتل کرنے لگے تو ان کے خلاف ایکشن کا پروگرام بنایا گیا جو آج بھی ضرب عضب کے نام سے جاری ہے فکری طور پر انہی طالبان کا ملجا و ماوا سعودی عرب تھا جن سے ناصرف ان کا فکری اور عقیدتی رشتہ تھا بلکہ کچھ مسلمان مسالک کے لوگوں کو قتل کرنے کے لئے سعودی عرب نے ان کو ہر طرح کی سہولت سے لیس کیا پھر ایک وہ وقت بھی آ پہنچا کہ جب ہمیں کو دھمکی دی گئی کہ اگر طالبان کے خلاف ہماری مدد نہیں کی تو ہم تمہیں تاریک دور میں پہنچا دیں گے ہم نے کہا حاضر جناب جو آپ کا حکم اور پھر ہم نے امریکہ کے ساتھ مل کر طالبان کو ختم کرنےکے منصوبے پر عمل شروع کر دیا طالبان ختم تو نہ ہو سکے البتہ ہمیں ہزاروں قیمتی افراد کی جانوں کو قربان کرنا پڑا کیونکہ تاریخ اپنے آپ کو دہراتی ہے آج ایک بار پھر پاکستان کو وہی صورت حال درپیش ہے آج ایک بار پھر امریکہ کی طرح ایک ایسا ملک ہمیں متنازعہ اتحاد میں شرکت کے لئے مجبور کر رہا ہے جس کا دامن لاکھوں لوگوں کے خون سے تر ہے اس لئے کہ یہ ملک ہمیں امداد دیتا رہا ہے اس لئے ہم یہ تو کہنے سے رہے کہ جناب فلاں فلاں دہشت گرد گروپوں کی سرپرستی بند کریں ہم میں ہمت اور سکت نہیں ہے کہ اپنے اس امریکہ صفت دوست سے یہ حقیقت کہہ سکیں ہاں ہم یہی راگ الاپ رہے ہیں کہ جناب آپ کو جب بھی خطرہ ہوا ہم آپ کے ساتھ ہوں گے اور حاضر جناب حاضر جناب کی رٹ لگائے ہوئے ہیں یہ جانتے ہوئے بھی کہ پاکستان میں جو بھی مسلکی بنیادو ں پر قتل و غارت ہوئی اس کے پیچھے سعودی عرب تھا ۔

میرے منہ میں خاک آج ایک بار ہم اپنے ایک دوست کو جو ہمارے مقدس مقامات کا پاسبان بھی ہے کو مدد کا یقین دلا کر اپنے ہی لاکھوں پاکستا نیوں کے موت کے پروانے پر دستخط کر رہے ہیں ۔!
محمد اشکان بھٹی
About the Author: محمد اشکان بھٹی Read More Articles by محمد اشکان بھٹی: 11 Articles with 8818 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.