دھماکہ

پاکستان میں دہشت گردی کے موضوع ہر لکھا گیا ہے
شاہ جی میرے پاس آئے توکافی پریشان دیکھائی دے رہے تھے ۔مجھے کہنے لگے ’’ میں ایک ٹیلی فلم بنانا چاہتا ہوں ،تم مجھے سکرپٹ لکھ دو ‘‘ میں نے کہا شاہ جی وہ تو ٹھیک ہے ،میں آپ کو سکرپٹ لکھ دوں گا لیکن اس کہانی کا کوئی تھیم ،کوئی آئیڈیا تو بتاؤ ’’ کہنے لگے کہانی ہمارے پاکستان کی ہے ،پاکستان میں بسنے والے ان لوگوں کی ہے ،کہانی ان لوگوں کی ہے جن کو بنا کسی جرم کے ،بنا کسی خطا کے بم دھماکوں کی نظر کر دیا جاتا ہے ،جو گھر سے کام پر آتے ہیں ،واپسی ان کی لاشوں کی صورت میں ہوتی ہے ،کہانی ان بچوں کی ہے جو سکول تو تعلیم حاصل کرنے آتے ہیں مگر ان کے جسموں کو لہو میں نہلا دیا جاتا ہے ،کہانی ان معصوم لوگوں کی ہے جو جاتے تو مسجد میں خدا کی عبادت کرنے ہیں مگر واپسی سفید کفن میں لپٹے شہدا کی صورت میں ہوتی ہے ،کہانی ان جوانوں کی ہے جنہیں جنت کے خواب دکھا کر ،ہمارے ملک کا دشمن اپنے مذموم مقاصد کیلئے استعمال کررہا ہے او رہمارا نوجوان بہکاوے میں آکر نہ صرف خود کی زندگی کا خاتمہ کر لیتا ہے بلکہ اپنے ساتھ دوسرے معصوم لوگوں کی زندگیوں کے چراغ بھی بجھا دیتا ہے۔اس کو کیا معلوم اس کے اس مکرو فعل سے کتنے گھروں کا چولہا بجھ جائے گا ،کتنے معصوم باپ کی شفقت سے محروم ہو جائیں گے ،کتنے بچے یتیم اور کتنے مائیں اپنے بیٹوں سے محروم ہو جائیں گی ،وہ کیا جانے کتنی عورتیں بیوہ ،کتنے باپ اپنے بڑھاپے کے سہارا کھو دیں گے ‘‘

شاہ جی بولتے جا رہے تھے اور ان کی آنکھوں سے آنسوؤں کی لڑی ان کے رخساروں پر مالا بنا رہی تھی ۔میرا دل بھی بھر آیا ۔میں بھی اپنے جذبات پر قابو نہ رکھ سکا ،میری آنکھیں بھی بھیگ گئیں ۔شاہ جی تو بوجھل دل کے ساتھ چلے گئے لیکن میرے لیئے ایک ایسا موضوع چھوڑ گئے جس پر اب تک میں نے قلم نہیں اٹھایا تھا۔میں نے اب تک جتنا بھی لکھا تھا اس کا زیادہ تر موضوع معاشی اور معاشرتی زندگی تھا ،جس میں ہمارے ملک کے لوگ پستے چلے جا رہے ہیں ۔وہ اپنی زندگی غربت کی لکیر سے بھی نیچے گزارنے پر مجبور ہیں ۔ان کیلئے دو وقت کی روٹی کا بندوبست کرنانہایت مشکل ترین امر ہے ۔یہاں دو وقت کی روٹی مہنگی اور خون سستا ہے ۔حکمران دعوے تو بہت کرتے ہیں لیکن غربت بجائے کم ہونے کے مسلسل بڑھتی ہی جا رہی ہے ۔شاہ جی مجھے جو سکرپٹ لکھنے کا کہہ گئے تھے وہ ان موضوعات سے بہت مختلف تھا ۔پاکستان ایک عرصے سے دہشت گردی کا شکار چلا آرہا ہے ،دہشت گردی کی اس جنگ میں مادی نقصان ایک طرف ،جو جانی نقصان ہوا ہے اس کا مداوا صدیوں بعد بھی نہ ہو پائے گا ۔ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں بے گناہ لوگ اس جنگ کا ایندھن بن چکے ہیں اور نہ جانے آنے والے وقتوں میں کتنے لوگ اپنی جان سے ہاتھ سے دھونے والے ہیں ۔میں نے ان محرکات کو جاننے کیلئے جن کی بنا پر آج پاکستان دہشت گردی کا شکار ہے اخبار ،رسائل اور مختلف جرائد کی عرق ریزی کرنے لگا۔تقریباً ایک ہفتہ میرا اسی کام میں گزر گیا ۔لیکن میری تشفی نہ ہوئی ،انٹر نیٹ پر مختلف ویب سائٹ سے بھی میں نے مدد لی مگر جو کہانی میں ڈھونڈنا چاہتا تھا مجھے نہ ملی ۔شاہ جی میرے پاس دہشت گردی کے موضوعات پر لکھی جانے والی متعدد کتابیں لے کر آئے وقتاً فوقتاً میں ان سے استفادہ کرنے کی کوشش کرتا ۔مگر کہانی تھی کہ بن نہ پا رہی تھی ۔

دہشت گردی کی ابتدا کہاں سے ہوئی ؟ پاکستان اس کا شکار کیسے ہوا ؟ پاکستان میں اس کے پیچھے کونسے محرکات ہیں ؟وہ کونسے عوامل ہیں جو دہشت گردی کو ہوا دے رہے ہیں ؟اس طرح کے کئی ایک سوال تھے جن میں الجھ کے رہ گیا تھا ،گتھی تھی کہ سلجھنے کا نام نہ لے رہی تھی۔سمجھ نہیں آرہا تھا کہ کہانی کہاں سے شروع کروں ؟دہشت گردی صرف پاکستان کا ہی نہیں بلکہ پوری دنیا کا مسئلہ بن چکا ہے ۔مگر میں نے اپنی کہانی کو صرف پاکستان کے تناضر میں لکھنا تھا اور پاکستان میں بھی اس کی کئی ایک وجوہات تھی ،ان وجوہات کو میں نے کوزے میں بند کرنا تھا ،پاکستان میں دہشت گردی کی بڑی وجوہات میں سے مذہبی انتہا پسندی ،غربت ،بے روزگاری،لسانیت ،فرقہ واریت ہیں مگر ان کے ساتھ ساتھ دہشت گردی کی ایک بڑی وجہ ہمسایہ ممالک کی دخل اندازی بھی ہے ۔پاکستان میں دہشت گردی کے پیچھے آج بھی وہی ذہین ،وہی سوچ کارفرماں ہے جس نے پاکستان کے وجود کو سرے سے قبول ہی نہیں کیا ،تب وہ کہتے تھے ،پاکستان کا وجود نہ ممکن ہے ،مگر جب پاکستان بن گیا تواس کا وجود ان کے ذہنوں میں کانٹے کی ماند چبھنے لگا اور انہوں نے پاکستان کو ہر محاذ پر چاہے وہ اندرونی ہو یا بیرونی ،حکومتی ہو یا سیاسی ،معاشی ہو یا معاشرتی ،نقصان پہنچانے کی کوشش کی ہے اور تا حال پہنچا رہا ہے ۔

شاہ جی میرے پاس آئے اور مجھ سے سکرپٹ مانگا ،میں نے نفی میں سر ہلا دیا کہ ابھی تک سکرپٹ تو کیا میں نے کہانی کا پلاٹ تک نہیں بنایا ،ان کے پوچھنے پر میں نے تمام تر صور ت حال سامنے رکھ دی ۔پھر وہ مجھ سے کہانی کے پلاٹ پر گفتگو کرنے لگے ۔ہم نے ان تمام تر عوامل پر بات کی جو میں پہلے بیان کر چکا ہوں ۔ہم کہانی کا تانا بانا بننے لگے ۔شاہ جی چائے کے بہت شوقین تھے لہذا میں نے بیگم کو ہدایت کر دی کہ وہ وقفے وقفے سے شاہ جی کیلئے تاذہ اور کڑک چائے بھجواتی رہے لہذا بیگم نے ذمہ داری کا ثبوت دیا اور شاہ جی کیلئے ہر گھنٹے بعد چائے کا ایک مگ بھجوا دیتی ۔شاہ جی جب سیٹ پر ہوتے ہیں تب بھی بہت چائے پیتے ہیں ان کا اسسٹنٹ ان کی چائے کا خاص خیال رکھتا ہے ۔گرمی ہو یا سردی شاہ جی کی چائے پینے کی مقدار برابر رہتی ہے ۔ ایک بار مجھے گرمیوں میں سیٹ پر جانے کا اتفاق ہوا۔شاہ جی سیٹ آؤٹ ڈور لگا رکھا تھا گرمی زوروں پر تھی سیٹ پر موجود دوسرے افراد کا گرمی سے برا حال تھا ۔سب پسینے میں شرابور تھے شربت اور ٹھنڈے مشروب کا استعمال کر رہے تھے مگر شاہ جی تب بھی چائے کا مگ ہاتھ میں تھامے کاسٹ کو لائینیں یاد کرانے میں مصروف تھے۔

شاہ جی کے آئیڈیا کے مطابق میں نے کہانی کا پلاٹ بنا لیا ۔ کہانی ایک نوجوان کے گرد گھومتی تھی۔جو بے روزگاری اور غربت کے ہاتھوں تنگ ہے ۔اس کے کندھوں پر گھر بھر کابوجھ ہے ۔مہنگائی اسے یہ بوجھ اٹھانے نہیں دیتی۔وہ ملک دشمنوں کے ہاتھوں بک جاتا ہے اور اپنی جان کی قیمت وصول کر لیتا ہے تاکہ اس کے مرنے کے بعد اس کے گھر والے سکھ کی زندگی گزار سکیں ۔میں نے کہانی کے کرداروں کو الفاظ کی زبان دینا تھی ۔ان لوگوں کو کرداروں کی صورت بے نقاب کرنا تھا جو پاکستان اپنے مذموم مقاصد کی تکملیل بم بلاسٹ کر کے حاصل کرنا چاہتے تھے۔

کردار اپنی اپنی زبان بولنے لگے اور میں ان کے بول صفحہ قرطا س پر اتارنے لگا۔سین خود بخود بنتے چلے گئے۔دوسری طرف شاہ جی فلم کی کاسٹ اور دوسرے لوازمات فائنل کرنے میں مصروف تھے

ایک ہفتہ بعد میں سکرپٹ تیار ہو گیا اور میں شاہ جی کے آفس جا پہنچا ۔شاہ جی نے سکرپٹ دیکھتے ہی اپنے اسسٹنٹ کو ریکارڈنگ کے تمام تر انتظام مکمل کرنے کا کہا اور میرے لیئے چائے کا آڈر دے دیا ۔

جتنی دیر تک ہم بیٹھے چائے پیتے رہے اتنی دیر تک شاہ جی پاکستان کے حالات اور ٹیلی فلم پر ہی بات کرتے رہے۔شاہ جی کی یہ خوبی تھی وہ جو بھی کام کرتے پوری دیانتداری اور دل جمعی سے کرتے تھے ۔کبھی کام کو اپنے اوپر حاوی نہ ہونے دیتے۔اسی لیئے اب تک انہوں نے جتنا بھی کام کیا تھا اس کو لوگوں کی بڑی تعداد نے پسند کیا تھا۔ان کی متعدد سیریز کامیابی سے ہمکنار ہو کر ایوارڈ لے چکی تھیں۔

کسی بھی سیریل کی کامیابی میں جاندار مکالمے ،اچھی اداکاری اور ماہرانہ ڈائرکشن کا بھی برابر کاہاتھ ہوتا ہے اور شاہ جی ایک ماہر ڈائرکٹر کے طور پر جانے جاتے شاہ جی درد دل رکھنے والے انسان تھے لوگوں کے درد کو فوراً سمجھ جاتے اور ان کے درد کو باٹنے کی کوشش کرے ۔اسی لیئے کہا جاتا ہے کہ ان کی سیریز میں انسانی درد جا بجا نظر آتا ہے ۔

شاعر، ادیب ، افسانہ نگاراور ڈرامہ نگار حضرات کے بارے میں یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ ان کی بیگمات ان سے اکثر خٖفا رہتی ہیں کیونکہ موصوف بیگمات کو وہ وقت نہیں دے پاتے جن کی وہ متقاضی ہو تی ہیں ۔لہذا بئگمات ہمیشہ شکایات کرتی ہی نظر آتی ہیں ،حکومت وقت نے یوں توعوام الناس کی شکایات سننے کیلئے مختلف سیل بنا رکھے ہیں مگر شاعر، ادیب ، افسانہ نگاراور ڈرامہ نگارکی بیگمات کی شکایات سننے کیلئے ابھی تک کوئی ایسا کوئی سیل قائم نہیں کیا جا سکا ۔خدانخواستہ اگر کوئی ایسا سیل قائم ہوتا تو میری بیگم سب سے پہلے شکایت لے کے جاتی ۔بیگم چائے لیئے اندر داخل ہوئی تو اس چہرے کی ہوائیاں اڑی ہوئی تھی ۔مجھے چائے پکڑاتے ہوئی بولی ’’ پشاور میں آرمی پبلک سکول پر دہشت گردوں نے حملہ کر دیا ہے ۔۔۔۔ کیا آپ کو پتا چلا ‘‘ میرے ہاتھوں سے چائے کی پیالی گر گئی میں دوڑ کر ٹی وی لاؤنج آیا جہاں بریکنگ نیوز فلیش ہو رہی تھی۔میری آنکھیں پھٹی ہی رہ گئیں ۔میں قریب صوفے پربیٹھ گیا بیگم میرے پیچھے آگئی ۔ہم دونوں سکتے میں تھے ،میں کبھی بیگم کی طرف دیکھتا اور کبھی ٹی وی پر بریک ہونے والی نیوز کو ۔آرمی پبلک سکول میں دہشت گردوں نے جو دہشت برپا کی تھی اس سے کئی معصوم بچوں کی جانوں کے ضیاع کا خدشہ تھا ۔ابتدائی اطلاعات کے مطابق ایک سو سے زائد معصوم بچوں کو شہید کردیا گیا تھااور اس سے کہیں زیادہ بچے زخمی تھے۔دہشت گردوں نے خون کی ہولی کھیلی تو ہر طرف چیخوں پکار ،سنائی دینے لگی ،وہ مائیں جنہوں نے اپنے بچوں کودعاؤں کے ساتھ سکول بھیجا تھا جب ان کو پتا چلا تو وہ روتی چیختی چلاتی سکول کی جانب دوڑیں ،سکول میں بچے بربریت اور سفاکی کی بھینٹ چڑھ چکے تھے۔شاہ جی ٹھیک کہتے تھے ’’ دہشت گرد مسلمان نہیں ہو سکتے‘‘ واقعی یہ دہشت گرد مسلمان نہیں تھے ورنہ ان بچوں کی ان کے ساتھ کیا دشمنی تھی ،ان معصوم بچوں نے ان کا کیا بگاڑا تھا۔جنہیں اتنی دردناکی سے قتل کر دیا گیا ۔’’ ان ماؤں کے دلوں پر کیا گزری ہو گی جن کے بچوں کو آج بنا کسی جرم کے قتل کر دیا گیا ،ان ماؤں کو علم بھی نہ تھا کہ ان کے لخت جگر جن کو وہ آج سکول بھیج رہی ہیں زندہ واپس گھر نہیں آئیں گے‘‘ میری بیگم نے سرد آہ بھرتے ہوئے کہا ۔زندہ بچ جانے والے انتے سہمے ہوئے تھے کہ ان سے ٹھیک طرح سے بات بھی نہ ہو پا رہی تھی ،مزید مجھ میں ہمت نہ تھی کہ میں ٹی وی کے سامنے بیٹھ سکتا ،میں نے ٹی وی کا سوئچ آف کر دیا اور منہ پے لحاف اوڑھے سو گیا ۔

سانحہ پشاور نے پوری پاکستانی قوم کو سوگوار کر دیا ،ہر فرد معصوم بچوں کے قتل پر نوحہ کناں تھا ۔شاہ جی نے ریکارڈنگ منسوخ کر دی اورمیڈیا کی ٹیم کے ساتھ پشاور چلے گئے ۔واپسی پر انہوں نے دل دہلا دینے والی آرمی پبلک سکول کی منظر کشی کی۔شاہ جی بتایا کہ ہر طرف خون ہی خون تھا ،بچوں کے جوتے خون میں لت پت تھے ،ہر سو کتابیں بکھری پڑی تھیں،کتابوں پر خون کے دھبے تھے۔شاہ جی نے بتایا ایک کلاس کے تمام کے تمام بچے درندوں نے شہید کر دیئے گئے ۔۔۔۔۔‘‘

میں سوچتا ہوں دہشت گردوں نے معصوم بچوں کو شہید کر کے ہم کو بحثیت قوم کیا پیغام دیا ؟

کہ وہ جو چاہیں کرتے پھریں ان کا کوئی بال بھی بیکا نہیں کر سکتا ،وہ سکولوں ،مسجدوں اور امام بارگاہوں پر حملہ کر کے چلتے بنتے ہیں اور ہم ان کا کچھ بھی نہیں بگارڈ سکتے۔کیا وہ ہم سے زیادہ طاقت ور ہیں ؟

ایک ماہ کے بعد شاہ جی نے دوبارہ کاسٹ کو اکٹھا کیا اور ریکارڈنگ کیلئے تمام تر انتظامات مکمل کر نے میں مصروف ہو گئے ۔مجھے بھی سیٹ پر پہنچنے کی تلقین کی۔میں صبح جلدی ناشتہ کیااور شاہ جی کے ساتھ طے شدہ وقت پر ’ سیٹ ‘ پر پہنچ گیا ۔سیٹ مکمل تیار تھا تمام کاسٹ سیٹ موجود تھی لیکن شاہ جی ابھی نہیں آئے تھے ۔میں نے رابطہ کیا تو کہنے لگے راستے میں ٹریفک جام ہے تھوڑ ی دیر تک سیٹ پر پہنچ جاؤں گا تب تک میں اسسٹنٹ کے ساتھ مل کر ساؤنڈ اور لائٹس کو چیک کر لوں ۔تھوڑی دیر کے بعد اسسٹنٹ میرے پاس آیا اور کہنے لگا کہ سب انتظامات مکمل ہیں ۔

ہم ٹیلی فلم کا آغاز ایک ایسے سین سے کرنے والے تھے جو اس کا مرکزی خیال تھا ۔ہمیں ایک دھماکہ کر کے فلم کی کہانی کو آگے لے کے چلنا تھا ۔وہ تمام لوگ سیٹ پرموجود تھے جو اس مصنوعی دھماکہ میں شہید یا زخمی ہونا تھے بس شاہ جی کا انتظار تھا ۔اسسٹنٹ میرے پاس آیا اور بولا ’’ اب تک تو شاہ جی آجانا چاہیے تھا ،اتنی دیر تو وہ کبھی بھی سیٹ پر آنے میں نہیں لگاتے ،میرا اضطراب بھی بڑھنے لگا ،میں نے شاہ جی کو کال لگائی تو شاہ جی کا موبائل آف تھا ،اب تو سیٹ پر بے چینی بڑھنے لگی ،اسسٹنٹ سمیت سیٹ پر موجود ہر فنکار بے چین ہو گیا۔ایک آدمی بھاگتا ہوا ہمارے پاس آیا اور ہانپتی ہوئی آواز میں بولا ’’ شہر میں دھماکہ ہو گیا ہے اور شاہ جی اس دھماکہ کے نتیجے میں جاں بحق ہو گئے ہیں ‘‘ اس ٹیلی فلم کا نام بھی شاہ جی خود تجویز کیا تھا اور خود بھی دھماکے کی نظر ہو گئے۔
Muhammad Nawaz
About the Author: Muhammad Nawaz Read More Articles by Muhammad Nawaz: 16 Articles with 14166 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.